Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 4 جنوری، 2014

ہونہار بِروا - 4


          منگلا سے ہم مری روانہ ہوئے، جہاں ہم ہفتہ  کلڈنہ  ٹہرے نعیم کے  یونٹ آفیسر وہاں
 انسٹرکٹر تھے۔ کمروں  کی ایک لمبی سی لائن کے آخر میں ایک کمرہ ہمیں ملا ہو تھا جس کے بعد چیڑ کے درخت تھے جن پر بندر اپنی فیملی کے ساتھ آجاتے اور انسانوں کو دیکھتے  رہتے کہ کوئی کھانے کی چیز کب پھینکتے ہیں۔ان میں ایک بندریا اپنے پندرہ دن یا مہینے کے لاغر بچے کو کمر پر بٹھائے یا سینے سے چمٹائے کھانے کی چیزیں لینے آتی۔ تیسری صبح بھی بندر اپنی فیملی کے ساتھ آئے۔ بچے ناشتہ کرنے کمرے میں آگئے۔ عروضہ باہر کرسی پر بیٹھ گئی اور بندروں  کی درختوں پر اچھل کود دیکھنے کے لئے رک گئی میں نے اس کا ناشتہ باہر دے دیا وہ  وقفے وقفے کے بعد پاپ کارن پھینک دیتی جو بندر اچک کر لے جاتے۔ ہم کمرے میں ناشتہ کر رہے تھے۔

عروضہ کمرے میں آئی اور اپنا پراٹھا لے کر باہر چلی گئی۔پھر آئی اور پراٹھا مانگا میں حیران تھی کہ اس نے بغیر منت سماجت کئے ناشتہ کیسے کر لیا۔ میں نے پراٹھا دے دیا۔ نعیم نے سائرہ کو کہا دیکھو کہیں یہ بندروں کو ناشتہ تو نہیں کرا رہی۔ سائرہ باہر گئی اور بتایا کہ ایک بندریا اپنے بچے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی ہے اور عروضہ برامدے میں بیٹھ کر بندریا کو پراٹھے کے ٹکڑے پھینک رہی ہے۔ اور وہ اچک اچک کر خود بھی کھا ر ہی ہے اور منہ سے چبا کر بچے کو بھی دے رہی ہے۔باقی بندر درختوں پر بیٹھے خو خو کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے باہر نکلنے سے بندریا اپنے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ گئی۔باقی بندر دور ہٹ گئے۔ اب روزانہ صبح، عروضہ کا یہی مشغلہ ہو گیا۔ وہ اپنا اور بندریا اور اُس کے بچے کا پراٹھا لے کر باہر جا بیٹھتی اور بندریا کو ناشتہ کراتی، بندریا اُس سے ہل گئی اور درخت سے اتر کر اس کے قریب آکر بیٹھ جاتی لیکن چوکس انداز میں اگر عروضہ کوئی چیز لانے کے لئے اُٹھتی تو وہ چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ جاتی۔
            اس سارے  عرصے میں سانپ اور کچھوا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ بلکہ مری  سے چارگھونگھے Snailبھی پکڑ لئے تھے ۔عروضہ کی بڑی خواہش تھی کہ بندریا بچے کو چھوڑے تو وہ بچہ پکڑ لے اور پھر اپنے ساتھ اٹک لے جائے۔ تب نعیم نے اسے ڈرایا، کہ دیکھو وہ جو بچے کا باپ ہے تمھیں غور سے دیکھ رہا ہے اور بندریا کو  کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی کتنی اچھی ہے۔ ہمیں پراٹھا دے رہی ہے  او رتمھیں پراٹھا بنانا نہیں آتا۔ کیوں نہ ہم اس لڑکی کو لے جائیں یہ ہمیں پراٹھے بنا کر دے گی۔ہم اس کا درخت پر خوبصورت سا پنجرہ بنا دیں گے۔ عروضہ یہ سن کر خوف زدہ ہوگئی کہ میں اپنے ماما اور پپا کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ تب نعیم نے سمجھایا کہ وہ دیکھو چھوٹے بچے کا بھائی ہے وہ بہن ہے وہ خالہ چچا اور دوسرے  رشتہ دار ہیں سب ایک ساتھ رہتے ہیں اگر ان سے بچہ چھین لیا جائے تو یہ پاگل ہوجائیں گے اور انسانوں کو دشمن سمجھ کر کاٹیں گے۔ عروضہ کے بات سمجھ آگئی

لیکن ایک اور پریشانی پید ہو گئی۔ اس نے نعیم سے پوچھا کہ کیا سارے، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ماں، باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں؟ نعیم نے بتایا کہ ہاں سب کے ہوتے ہیں۔ تو پھر جو سانپ اور کچھوا ہم لے کر جارہے ہیں، پھر ان کے بھی ماں، باپ اور بہن بھائی ہوں گے نعیم نے کہا ہاں، Snail
 کی تو پوری فیملی ہمارے ساتھ تھی لہذا اس کی عروضہ کو فکر نہ ہوئی لیکن سانپ اور کچھوے کے لئے عروضہ پیچھے پڑ گئی۔کہ ان دونوں کو واپس اسی جگہ چھوڑکر آئیں۔کچھوے کے بارے میں وہ مان گئی، کیوں کہ کوئٹہ میں ہمارے پاس جو کچھوا تھا وہ اکیلا تھا لیکن اُس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میس میں جو ویٹر چاچا تھا اُس نے بتایا تھا کہ سانپ کی مادہ ہوتی ہے وہ  اکیلی رہ گئی ہو گی اور اب آپ لوگ جہاں بھی جائیں آپ کے پیچھے آجائے گی۔  نعیم نے کہا کوئی بات نہیں، مادہ گجرانوالہ سے چل پڑی ہوگی۔سانپ ایک دن میں تین میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر آباد بھی نہیں پہنچی ہوگی اٹک پہنچنے میں مہینہ لگے گا۔ ہم اس کو بھی اپنے پاس رکھ لیں گے۔ تاکہ بے چاروں کو کھانے کی پریشانی نہ رہے۔

مری خوبصورت اور قدرتی نظاروں سے بھر پور ہے۔ فوج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جہاں ہوتی ہے بنجر زمین کو نخلستان بنا دیتی ہے۔ صفائی کے لحاظ سے کنٹونمنٹ ایریا کی مثال دی جا سکتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شادی کے بعد، میں نعیم کے ساتھ پہلی بچی کی پیدائش سے پہلے خوب گھومی۔ لاہور سے پارا چنار کے اس وقت کے کینٹ اور آج، ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے زمین
آسمان کا فرق ہے۔ کینٹ کی آبادی بڑھنے کے باوجود کینٹ کی صفائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

      مری میں سب سے خوبصورت بھوربن کا کھلا علاقہ ہے۔ نعیم اور دوسرے آفیسر نے اتوار کو گالف کھیلنے کا پروگرام اور ہم تمام فیملیز نے پکنک کا پروگرام بنایا، یہ تو آٹھ بجے اپنے اپنے بیگ کے ساتھ نکل گئے، ارمغان اور سائرہ بھی ساتھ گئے۔ میں عروضہ اور ارسلان، خواتین
اورپکنک کے سامان ساتھ دس بجے بھوربن پہنچے۔عروضہ نے سانپ کا بکس بھی ساتھ لے لیا تھا۔

گالف کلب کے ایک حصے میں، بیٹھنے کا انتظام کیا۔ بچے اپنے اپنے کھیل کھیلنے لگے، ہم خواتین کا
 ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ صرف شاپنگ اور شاپنگ ہی ہے کہ کون سی اچھی اور سستی مارکیٹ ہے جہاں دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سائرہ اور ارمغان، ایک راونڈ گالف کھیل کر واپس آئے۔ سائرہ نے سانپ کا بکس کھولا اور چینخی۔ ماما اس میں سانپ نہیں ہے۔ تمام خواتین اور بچے بشمول میں چینختے ہوئے دور بھاگے۔ ہمیں بھاگتا دیکھ کر سائرہ نے قہقہ لگایا۔ ہم سمجھ گئیں کہ اس نے مذاق کیا ہے۔ خواتین اور بچے نزدیک آئے تو سائرہ نے سانپ کو اٹھا کر نکال لیا تمام خواتین اور بچے، اسے نصیحتیں کریں کہ اسے واپس ڈال دو ورنہ یہ کاٹ لے گا۔

بہرحال بعد میں تمام بہادر خواتین اور بچوں نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور تصویریں بنائیں۔ ساڑھے گیارہ بجے چاروں مرد حضرات گالف کھیل کر واپس آئے، بچوں نے اپنے اپنے ابو کو سانپ کا بتا یا وہ بھی حیران ہوئے کہ اُن کے بچوں نے سانپ پکڑنے کی بہادری کیسے  دکھائی۔ سانپ سے کھیلنا پکنک کا سب سے اچھا ایونٹ رہا،  میں سب کو بطور کنسلٹنٹ  ہدایات دیتی،کہ سانپ کو کس طرح پکڑنا ہے کہ وہ ہاتھ کے دباؤ سے خوفزدہ نہ ہوجائے۔ تمام بھابیاں بھی مجھ سے مرعوب تھیں۔ کہ سائرہ نے بھانڈا پھوڑا، ہو ایوں کہ میں آرام سے بیٹھی گپ لگا رہی تھی کہ اُس نے سانپ کی دم میری آنکھوں کے سامنے میرے پیچھے کھڑے ہو کر لہرائی۔
میری چینخ بلا مبالغہ مری مال روڈ تک سنائی دی ہو گی۔ تب راز کھلا کہ سب سے زیادہ سانپ سے میں ڈرتی ہوں، ایک بھابی نے پوچھا۔ اس کے تو دانت نکال دیئے ہیں۔اب تو تین مہینے کے بعد آئیں گئے۔ پھر آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔میں نے کہا واہ بھابی آپ تین مہینے کا انتظار کر رہی ہیں اور اگر سانپ کے دانت ابھی اُگ آئے تو کیا ہوگا؟ 


٭٭٭٭٭٭٭٭
 پچھلا مضمون ۔ ۔ہونہار برِوا -3 ٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔  ہونہار برِوا -5
 
٭٭٭٭٭٭٭٭


2 تبصرے:

  1. خوب لکھتی ہیں، بلاگستان میں نئی ہیں البتہ اردو بلاگر گروپ پر سانپ کی دم والی سرخی کمال کی لگائی۔ اسی کو دیکھ کر میں نے بےاختیار لنک پر کلک کردیا۔ امید ہے مزید دلچسپ تحریریں پڑھنے کو ملیں گی۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ ، نعیم اکرم بھائی ،

    میں بہت عرصہ سے لکھ رہی ہوں ، میرے داماد نے البتہ بلاگ پر لکھنے کو مشورہ پچھلے سال دیا تھا، چنانچہ پرانی ساری تحریریں ، تھوڑی قطع برید کے ساتھ اپنے شوہر کی مدد سے ۔ بلاگ پر ڈال رہی ہوں -

    ہاں مجھے اردو ٹائیپنگ میں اتنی مہارت نہیں ، میاں جی کو اپنے بلاگ پر تحریریں لکھنے اور پرانی تحریریں ڈالنے کے بعد ٹائم ملتا ہے ، تو میری تحریر ٹائیپ کر ڈال دیتے ہیں -

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔