Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 14 نومبر، 2016

پاکستانیت کو فروغ !

 میں ایک ریٹائرڈ فوجی آفیسر ہوں ، میرا جو ماہانہ خرچ تین سال پہلے تھا اب بھی وہی ہے ، لیکن مہنگائی کی وجہ سے میں نے اپنی کافی فالتو خریداری کم کر دی ہے ۔ جہاں تک ہو سکتا ہے میں نے اور میری بیوی نے کنجوسی کہیں یا کفایت شعاری پر زور دینا شروع کر دیا ہے ۔ اور ہم کیا ہماری طرح کے سارے بوڑھے جو پنشن پر گذارا کرتے ہیں ، وہ بھی یہی کرتے ہیں ۔
بچوں کو کفایت شعاری کا کہتے ہیں تو وہ ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اگر خرچ نہ کریں تو کمانے کا فائدہ ، اور بچت کر کے کیا کرنا ۔ بیٹے دونوں دور مختلف شہروں میں ہیں بیٹیاں نزدیک ریتی ہیں آجاتی ہیں ۔ ہوٹلنگ ہم کرتے نہیں ، نواسی اور بیٹیوں کو جنک فوڈ پسند ہے انہیں معلوم بھی ہے کہ جنک فوڈ ہے اور صحت کے لئے اچھا نہیں مگر پھر بھی کھاتی ہیں ۔
میں اور بڑھیا باہر کھانے سے پرھیز کرتے ہیں ، ایک تو بیماری کاخوف اور دوسرا مہنگائی کا رونا جو کھانا باہر کھائیں اُس کی چوتھائی قیمت میں گھر پر بنا کر بہترین اور مزیدار کھانا کھایا جاسکتا ہے ۔
مجھے گالف کھیلنے کا شوق ہے ایک تو پیدل چلنا، ٹرالی خود کھینچنا پھر شاٹیں لگانے میں پورے جسم کا زور ، کھیل کا کھیل اور ایکسرسائز کی ایکسرسائز،
فواد میرا پی ایم اے کا ساتھی ہم دونوں گالف کھیل کر آئے اُس نے مجھے گھر اتارا میں نے ناشتے کی دعوت دی، آج بڑھیا نے مولی کے پراٹھے بنائے ،ہم دونوں کی موجیں ہوگئیں ۔ کہنے لگا ،
" خالد یار بہت خوش قسمت ہو بھابی ، بہت مزیدار کھانے بناتی ہیں ، میری بیوی کو بنانا نہیں آتے "
دونوں امریکی شہری ہیں ، جہاں گھر میں کھانا صرف اتوار کو بنتا ہے ، وہ بھی اگر بیوی کا موڈ ہو ورنہ ہوٹل میں کھانا کھانا زیادہ  آسان پڑتا ہے ۔
ھاں یاد آیا گرمی میں گالف کھیلتے وقت پیاس بجھانے کے لئے میں اپنے گالف بیگ میں لیموں پانی رکھتا تھا ، تازہ لیموں کے شربت کا الگ ہی مزہ ہوتا ہے ۔ 
مجھے اپنا بچپن یاد ہے ، کہ جب امی ، بازار میں فروخت ہونے والی تمام کھانے کی چیزیں گھر میں بناتی تھیں، یہاں تک کہ شام کی بچی ہوئی روٹیوں کے وہ شاہی ٹکڑے بناتیں، ہم سکول جاتے تو ٹفن میں کھانے کے علاوہ کبھی بالو شاہی ، برفی یا پیسن کی مٹھائی ہوتی ،
یہی ہم نے بچوں کے ساتھ کیا ، انہیں کینٹین سے کبھی کوئی چیز نہیں لے کر دی، یہاں تک کہ کوک ، فانٹا اور سیون اپ ، بھی یونٹ یا ڈویژن کی شاپ سے ڈیڑھ روپے فی بوتل کے حساب سے منگوالیتے ، جب کہ کینٹین پر وہ پانچ روپے میں ملتی تھی ، بریک میں ملازم گھر سے وہ لے کر سکول جاتا اور بچوں کو کھانا کھلا کر آجاتا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ امی گھر پر گیس والا سوڈا بنایا کرتیں بالکل ویسا جیسا بنٹے والی بوتلوں میں ہوتا تھا ۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گہ کہ بوڑھا کیا اپنی کتھا کہانی لے کر بیٹھ گیا ،
وجہ صرف یہ ہے کہ آج وٹس ایپ پر یہ پوسٹ آئی ، پڑھنے میں اچھی لگی مگر عمل میں صفر ثابت ہوگی ۔

پیلے آپ پوسٹ پڑھیں پھر باتیں ہوں گی :
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر پاکستان  کے 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 30٪ لوگ یعنی 6 کروڑ 30 لاکھ افراد،  روزانہ ایک ٹِن پیپسی کا پیئیں جو تھوک میں 35 روپے اور پرچون میں 50 روپے کا آتا ہے جس میں سے سے 25 روپے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور باقی 25 روپے ملک ہی میں رہتے ہیں تو ہم روزانہ کے حساب سے 1575 ملین روپے ملک سے باہر بھیجتے ہیں ۔ اور  1575 ملین روپے   روازنہ ملک میں ہی گردش کرتے ہیں ،  لیکن اگر ہم اپنے ملک کے لیموں سے شربت بنائیں یا گنے کا رس پیئں ،  جو 30 روپے کا ملتا ہے تو ہم روزانہ ملک میں ، 1898 ملین روپے گردش میں لائیں گے ۔
اِ س سے ہماری زراعت کو فائدہ ہوگا ، پیداوار بڑھے گی ۔

اِس طرح ملکی دولت کا بیشتر حصہ ، کاسمیٹکس اور دیگر غیرملکی اشیاء کی صورت میں باہر چلا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی 63 سالہ زندگی میں کسی کالی لڑکی کو گورا ہوتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی چھوٹے قد کے لڑکے کو بڑا قد ہوتے نہیں دیکھا ۔ لیکن یہ دونوں تبدیلیاں 5 سے 15 فیصد تک ، اچھی خوراک اور ذہنی سکون سے بہتر ہوتے دیکھی ہیں ۔
یاد رکھیں ، روزانہ ہزاروں کے حساب سے آنے والی ای میلز، ایس ایم ایس ، آپ کو بے وقوف بنا کر صرف اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے ہوتے ہیں ۔

یاد رکھیں ، کہ جب ہم باہر سے کوئی بھی سامانِ تعیش منگوائیں گے ، اُن کے لئے ہمیں صرف ڈالرز دینا پڑتے ہیں ، اور روپے کے بدلے میں ڈالر لینے سے ، آپ کو زیادہ رقم دینا پڑتی ہے ، یعنی آپ ڈالر خریدتے ہیں تاکہ بیرونِ ملک دکاندار کو دے سکیں تو ہر ڈالر پر آپ کو اضافی رقم دینا پڑتی ہے ۔
آپ کوئی بھی چیز جرمنی سے منگوائیں ، جاپان سے منگوائیں یا سعودی عرب سے منگوائیں تو
سب سے پہلے آپ ڈالر خریدی



اگر آپ ...
کوکا کولا یا پیپسی پیتے ہیں
تو یہ "1800 کروڑ" روپے
ملک سے باہر چلے جايےگے ....

کوکا کولا، پیپسی جیسی کمپنیاں روزانہ
"3600 کروڑ" سے زیادہ مال غنیمت لیتی ہیں ...

آپ سے درخواست ہے کہ آپ ...
گنے کا جوس / ناریل پانی / عام / پھل کے رس وغیرہ کو اپنايے اور
ملک کا "3600 کروڑ" روپے بچا کر ہمارے کسانوں کو دیں ....

"کسان خود کشی نہیں کریں گے .."

پھلوں کے رس کے کاروبار  سے
"1 کروڑ" لوگو کو روزگار ملے گا اور 10 روپے کے رس کا گلاس 5 روپے میں ہی ملے گا ....

مقامی اپناو،
قوم کو طاقتور بنائیں ...

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔