یاسر پیرزادہ کی لکھی ہوئی لبرلز کی خوبیوں میں لبرلز میں ایک خوبی اور ہوتی ہے ، جو باعثِ شرم یہ نوجوان کالم نگار چھپا گیا ۔
وہ خوبی یہ کہ ادب و آداب سیکھنے کے لئے ، نوابینِ لکھنئو کے جانشینوں کی طرح سینئیر لبرلز اپنے جونئیر کو بالا خانے ضرور بھیجا کرتے تھے ۔
بالا خانہ کیا ہوتا ہے ، امیتابھ کی فلم " شرابی" میں اِس کا مکمل تعارف کروایا گیا ہے ۔ جہاں کی رونقیں موسیقی ، پان ، شراب و شباب کی مرہونِ منت ہوتی ہیں ۔
چنانچہ سیالکوٹ کا یہ اقبال بھی بادشاہی مسجد لاہور کے پہلو میں واقع ، بالاخاناؤں میں سے ایک بالا خانے ، میں ادب و آدابِ سیکھنے کے لئے جایا کرتا تھا ، وہاں اُس کی شاعری ، طبلہ و شراب میں ڈوب کر اک نئی دنیا کی سیر کراتی ۔ اور شباب کے نظارے کرواتی ۔ شباب کا مفصّل تعارف شعر ترنم و لے میں پڑھنے والی توبہ شکن، شباب کی ملکہ نے کروا دیا ، کہتے ہیں کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں اور شاعر کے پاس دام کہاں ۔
ایک حد تک عشق سر چڑھ کر بولتا ہے ، پھر پیسہ عشق کو پتلی گلی سے نہیں بلکہ بالاخانے کی پہلی منزل سے سامنے مین سڑک پر دھکیل دیتا ہے ۔
یہاں بھی یہی ٹریجڈی ، سیالکوٹ کے اقبال کے ساتھ ہوئی ، چنانچہ انجام آخر ، شراب کی مستی میں اقبال نے اپنا طپنچہ نکلا اور انجام کار باعثِ نزع شباب کو عالمِ شتاب پہنچا دیا ۔
لبرلز کو معلوم ہوا ، تو معاملہ رفع دفع کروانے کی کوشش کی مگر زبانِ زدِ ہر خاص و عام ہوگیا ،
لیکن کیوں کہ سیالکوٹ کا یہ اقبال، صاحب کا خاص مصاحب تھا ۔
وہ خوبی یہ کہ ادب و آداب سیکھنے کے لئے ، نوابینِ لکھنئو کے جانشینوں کی طرح سینئیر لبرلز اپنے جونئیر کو بالا خانے ضرور بھیجا کرتے تھے ۔
بالا خانہ کیا ہوتا ہے ، امیتابھ کی فلم " شرابی" میں اِس کا مکمل تعارف کروایا گیا ہے ۔ جہاں کی رونقیں موسیقی ، پان ، شراب و شباب کی مرہونِ منت ہوتی ہیں ۔
چنانچہ سیالکوٹ کا یہ اقبال بھی بادشاہی مسجد لاہور کے پہلو میں واقع ، بالاخاناؤں میں سے ایک بالا خانے ، میں ادب و آدابِ سیکھنے کے لئے جایا کرتا تھا ، وہاں اُس کی شاعری ، طبلہ و شراب میں ڈوب کر اک نئی دنیا کی سیر کراتی ۔ اور شباب کے نظارے کرواتی ۔ شباب کا مفصّل تعارف شعر ترنم و لے میں پڑھنے والی توبہ شکن، شباب کی ملکہ نے کروا دیا ، کہتے ہیں کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں اور شاعر کے پاس دام کہاں ۔
ایک حد تک عشق سر چڑھ کر بولتا ہے ، پھر پیسہ عشق کو پتلی گلی سے نہیں بلکہ بالاخانے کی پہلی منزل سے سامنے مین سڑک پر دھکیل دیتا ہے ۔
یہاں بھی یہی ٹریجڈی ، سیالکوٹ کے اقبال کے ساتھ ہوئی ، چنانچہ انجام آخر ، شراب کی مستی میں اقبال نے اپنا طپنچہ نکلا اور انجام کار باعثِ نزع شباب کو عالمِ شتاب پہنچا دیا ۔
لبرلز کو معلوم ہوا ، تو معاملہ رفع دفع کروانے کی کوشش کی مگر زبانِ زدِ ہر خاص و عام ہوگیا ،
لیکن کیوں کہ سیالکوٹ کا یہ اقبال، صاحب کا خاص مصاحب تھا ۔
لہذا ، کوتوال نے رپٹ ہی تبدیل کردی ، مگر دائیں بازو کے اخبارنویس اور قصہ خوان کہاں باز آتے ۔ اخبارات میں درج ہوگیا
سنا ہے کہ اب اقبال کا پوتا ، لبرلز کی چاکری میں ہے ،
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں