Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 25 ستمبر، 2015

چیونٹی اور پتّے کا سفر


ریٹائرمنٹ کے بعد اُس کا روازنہ ایک ہی مشغلہ تھا ، اپنے کمرے کے باہر بالکونی پر آرام کرسی ڈال کر بیٹھ جانا، خوشگوار موسم سے لطف اُٹھانا، چائے پینا ،  سڑک پر گذرتی گاڑیوں کو دیکھنا ، اخبار پڑھنا اور وہی پندرہ بیس منٹ کے لئے سو جانا ۔


بوڑھا اپنے اِسی معمول کے مطابق نیند کا ایک جھونکا لے کراُٹھا تو اُس نے دیکھا کہ ریلنگ پر دائیں طرف ایک سبز رنگ کا پتّا حرکت کر رہا ہے ، اُس نے دائیں طرف پڑی تپائی سے عینک اُٹھائی اور آگے جھک کر غور سے دیکھا تو ایک چیونٹی اُس پتّے کو پیچھے سے دھکیل کر ریلنگ کی رنگ اتری لکڑی پر چڑھ رہی ہے ۔ جب وہ پتّے کو مکمل اوپر لانے میں کامیاب ہو گئی تو اُس نے اُسے اپنے اوپر اُٹھا لیا ۔وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ایک ننھی سی چیونٹی نےاپنے سے کئی گنا بڑا پتّا اُٹھا لیا ، بوڑھا آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور چیونٹی اور پتّے کو دیکھنے لگا۔
چیونٹی اور پتّے کے اِس سفر میں ، اچانک معمولی سے ہوا نے چیونٹی کے پاؤں اکھاڑے کیوں کہ چیونٹی اُس وقت ریلنگ کی چمکدار سطح پر پہنچ چکی تھی ، لیکن اُس کے ننھے منے جبڑوں کی قوت نے پتے کو اُس کی گرفت سے نہیں نکلنے دیا وہ پھسلتی ہوئی ، وہاں تک پہنچی جہاں سے اُس کے بعد اُس نے ہوا میں لہراتے ہوئے نیچے چارفٹ فرش پر گر جانا تھا ۔ مگر اُس کے پچھلے پاؤں جونہی لکڑی کی کھردری سطح پر پہنچے تو وہ جم گئی ، پچھلے دو پاؤں پر لٹکتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہوئی اور دوبارہ ریلنگ کے اوپر آگئی ۔ اور پھ اپنی منزل کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ۔
چیونٹی کے ریلنگ پر دائیں سے بائیں گھنٹہ بھر کے اِس سفر نے بوڑھے نی چیونٹی کی ہمت کے وہ مظاہر دیکھے جو ابھی تک اُس کے مشاہدے سے اوجھل تھے ۔ جو وہ پتے کو اپنے منزل کی طرف لے جانے میں بوڑھے کو دکھا رہی تھی لیکن سب سے حیرت انگیز وہ لمحہ تھا جب ریلنگ کی لکڑی کے سکڑنے سے پیدا ہونے والی آدھا انچ یااِس سے کچھ کم دراڑ تھی ۔ جب چیونٹی اُس دراڑ کے قریب پہنچی ، تو وہ تھوڑا دائیں چلی اور پھر بائیں بوڑھے اندازہ ہو گیا کہ چیونٹی یہ کھائی عبور نہ کر سکے گی اور اُس کی تمام محنت ضائع جائے گی ۔ چیونٹی نے کھائی کی طرف پشت کی اور اپنے پچھلے پیر دوسرے کنارےپر ٹکانے  کی کوشش کی ، مگر وہ اُس کی پہنچ سے چند ملّی میٹر دور تھا ۔
بوڑھے کا دل چاہا کہ وہ تھوڑا سا پتے کو کھسکائے تا کہ چیونٹی اپنا مشن مکمل کر لے ۔ لیکن اتنے میں چیونٹی قلا بازی کھاکر واپس ریلنگ پر آچکی تھی ۔ اب اُس نے پتّے کو گھمانا شروع کیا اور اُسے دراڑ کے اوپر رکھ کر دوبارہ دھکیلنے لگی ۔
جب چیونٹی نے پتّے کو اتنا دھکیل دیا کہ پتّے اور پچھلے کنارے کے درمیان کافی فاصلہ ہو گیا تو نے چیونٹی پتّے پر لٹک کر اپے پچھلے پاؤں فضا میں لہراتے ہوئے دوسرے کنارے کی طرف بڑھائے اور اُس کے پاؤں نے دوسرے کنارے کو اپنے گرفت میں لے لیا اور چیونٹی نے یہ کھائی آرام سے عبور کر لی ۔
بوڑھا سوچ رھا تھا ، کہ اللہ کی اِس ننھی منّی مخلوق کے چھوٹے کے سر کے اندر بھی دماغ ہے ، جس میں جد و جہد ، قوتِ ارادی اور اعتمادجیسے طاقتور مادّے رکھے ہوئے ہیں ۔ تو پھر اِنسان میں خالقِ کائینات نے ۔ ۔ ۔ ۔ !
" آوا ! آوا " کمرے سے چم چم کی آواز آئی غالباً وہ کارٹون مووی سے بور ہو چکی تھی ۔ بوڑھے کے پاس آئی ۔
اُس ریلنگ پر چلتے ہوئے سبز پتے کو دیکھا ۔
"آوا ، یہ کیا ہے ؟" بوڑھے سے پوچھا ۔
اِس سے پہلے بوڑھا کچھ کہتا ، چم چم نے وہ پتّا اُٹھا لیا ۔
" چیونٹی " یہ کہتے ہوئے پتّا چھوڑ دیا کلبلاتی ہوئی چیونٹی کو لئے وہ پتّا لہراتے ہوئے فرش پر گر گیا ، چیونٹی بغیر اپنے گھٹنے سہلائے ہوئے اِدھر اُدھر دوڑی ، پچھلی ٹانگوں پر اونچا ہو کر اپنے دونوں مونچھوں نما ، ایرئیل کو ایڈجسٹ کیا ۔ سگنل ملنے پر ایک دم ساکت ہوگئی ، ایس ایم ایس وصول کئے ، شاید اُس کی بیٹری کمزور تھی ، اُس نے سرکو زمین کی طرف کر کے جھٹکا دیا ۔ پتے کو اُٹھایا اور دیوار کی طرف گھسیٹنے لگی ، بوڑھے نے دیوار اور فرش کے جوڑ کی طرف دیکھا ، جہاں اُسے رائی کے دانوں سے چھوٹی بھربھری مٹّی نظر آئی اچھا یہ ہے اِس کی کالونی کا راستہ ،بوڑھے نے سوچا -

  یہاں سے یہ کھڑکی کی جالی میں ٹیلیفون کی تار کے لئے سوراخ سے کمے میں داخل ہو کر اُس کے میز پر مٹرگشت کرتی ہیں اور بوڑھے سے گرے ہوئے چینی  بسکٹ ، نمک پارے اور خستہ چنّوں کی صفائی کرتی ہیں
" آوا، اُٹھیں اور دکان سے مجھے آئیس کریم دلائیں " ۔ بوڑھے نے اخبار سمیٹا ۔ اور کسی سے اُٹھا ۔ اور ایک دفعہ پھر اُس نے پتے اور بِل کی طرف دیکھا ۔ ایس ایم ایس ملنے کے بعد چار فوجیوں کے ساتھ مزدوروں کی فوج بِل سے باہر نکلنا شروع ہو چکی تھی ،
بوڑھا چم چم کو لے کر ، پہلی منزل سے نیچے اترا اور اُسے لے کر گھر سے سو گز دور مارکیٹ کی طرف چل پڑا وہاں سے چم چم نے اپنی پسند کی آئیس کریم خریدی اور چم چم دکانداروں کی باتوں کا انگلش میں جواب دیتی بوڑھے کے ساتھ واپس گھر پہنچی اور جاکر دوبارہ کارٹون دیکھنے لگی ۔ بڑھیا نے بتایا کہ ، بوڑھے کا موبائل شور مچا رھا تھا ، بوڑھا ٹیرس کی طرف گیا، اپنی عینک اور موبائل اُٹھایا ۔
چیونٹی کے بِل کی طرف دیکھا ، پتّہ آدھے سے بھی کم ہو گیا تھا ۔ مزدور چیونٹیاں کتر کتر کر بِل میں لے جا رہی تھیں ۔ فوجی بھاگ بھاگ کر اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ، اور خطرہ نہ پا کر رُکتے اور دوسرے ڈیوٹی پر مامور فوجیوں کو وائرلیس پیغام دیتے ، اور پھر چوکیداری کرنے لگتے ۔ بوڑھے نے ، مشقتی چیونٹی کی مشقت کے فاصلے کا اندازہ کرنے کے لئے ریلنگ پر دیکھا تو تین پتّے حرکت کر رہے تھے ۔ غالباً جاسوس چیونٹی نے ، خوراک کے ذخیرے کے بارے میں مکمل معلومات دے دی تھی اور اب منڈی سے گھر تک کی سپلائی لائن بحال ہو چکی تھی ۔ بوڑھے نے تینوں پتوں کو ریلنگ سے باری باری اُٹھاکربل سے فُٹ فُٹ کے فاصلے پر رکھ دیئے ۔ تینوں چیونٹیوں نے وہی ایکشن کیا جو گرنے والی چیونٹی نے کیا تھا ۔ بِل سے چیونٹیوں کی فوج مزدوروں کے ساتھ برآمد ہوئی اور ترتیب سے تینوں پتّوں کی طرف پہنچ گئی ۔ فوجیوں نے پوزیشن سنبھال لی ۔ مزدوروں نے چارج سنبھال لیااور کارکن چیونٹی دوبارہ واپس اپنے مِشن کے لئے روانہ ہو گئیں ۔

کوئی آرام نہیں ،
کوئی گلہ نہیں ،
کوئی دعویٰ نہیں ،
اللہ کی یہ آیات اپنے ربّ کے لئے ہر وقت سر بہ سجود رہتی ہیں ۔ سب سے زیادہ کام اور انتھک محنت کرنے والی کارکن  نے کبھی بینر نہیں اٹھایا کہ کالونی میں رہنے والے فوجی ، ہر وقت ملکہ اور بادشاہ کی حفاظت کرتے ہوئے کھا کھا کر موٹا ہو رہے ہیں ۔ جبکہ آس پاس کوئی دشمن ہی نہیں ، ہم کیوں اِن مقدس گائیوں کو پال رہے ہیں ۔ جبکہ خطرے کی صورت میں مزدوراندر سے بل کا منہ بند کر دیتے ہیں اور ہم رات ویرانے میں بھوکے رہ کر وقت گذارتی ہیں - 
ہماری اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔ آؤ ہڑتال کریں ۔
یوں ہڑتال کرنے والی چیونٹیاں مر جاتی ہیں اور ہوا انہیں اُڑا کر کالونی سے دور پھینک دیتی ہے ۔
کیوں کہ قانونِ قدرت اٹل ہے ۔ یہ کہ
' اتحاد میں برکت ہے اور انتشار میں موت "




1 تبصرہ:

  1. سر جی کمال لکھتے ہیں ۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔ آپ کی اس تحریر سے ذہن میں بہت سے روشن دریچے کھل گئے ہیں ۔۔۔محنت کے ، ہمت کے ، ارادے میں پکا ہونے کے اور سب سے بڑی بات اللہ پر توکل کے ۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔