اظہار و ابلاغ کے بنیادی مقاصد کی خاطر تصویر کشی رائج ہوئی پھر انسان نے کائنات کے مظاہر کے آگے سر جھکا دیا اور بت تراشی تک بات جا پہنچی۔یہ تو خیر سے تہذیب کا آغاز ہے اور ساتھ ہی ہماری تحریر کی شروعات بھی ایسے ہی ہوتی ہے۔ موضوع ذرا مشکل ہے اور مقابلہ سخت ہے ۔شعر و ادب میں حسن یار کے بیان کے لیے چاند چہرہ اور ستارہ آنکھوں کا بیان چل جاتا ہے۔ مشکل وہاں آن پڑتی تھی جب یادگار لمحات اور اہم مواقع کو محفوظ کرنا پیش نظر ہوتا تھا۔
چینی ویسے تو کچھ نہیں جانتے تھے ۔۔مگر جب جان گئے تو پھر سب ہی مان گئے کہ چینی کہاوت یہی کہتی ہے ایک تصویر کا اثر ایک ہزار الفاظ سے زیا دہ دیرپا ہوتا ہے۔ گویا تصویر کی اپنی وجودی اہمیت اپنی جگہ کہیں بڑھ کر ہے ۔۔۔ پروپیگنڈے سے پبلسٹی تک، ساکت عکاسی سے متحرک عکاسی تک۔ اشتہارات میں بیوقوف بنانے سے لے کر دینی تبلیغ تک میں تصویر بہرحال کئی مضامین پر بھاری رہتی یے ۔
عجب کھیل ہے دل کا ۔۔۔ چاہے جانے اور چاہنے کی خواہش کبھی کبھی جان کو آجاتی ہے۔۔۔
آپ کی نظر سے بھی وہ خبر گزری ہوگی جانے اب کی ہے یا
اب سے برس پرانی مگر ہے کورونا سے ذرا پرانی کہ ایک لڑکی اپنے فیس بکی دوست سے ملنے خانیوال پہنچی۔ وہ صاحب سرکاری ملازم تھے ۔۔ امپریشن اچھا ڈالنے کو دفتر میں ہی بلا لیا تھا۔ لڑکی آئی اور جب دیکھا تو اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ موصوف مردوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو جوانی میں ہی بال و پر سے محروم ہو جاتے ہیں۔۔ لڑکی نے دیکھتے ہی چیخیں مارنا شروع کر دیں۔۔ امپریشن تو کیا اچھا پڑتا الٹا محبوبہ ہاتھ سے گئی۔۔۔۔ اب جانے یہ کیس سائبر کرائمز کے تحت درج ہوا یا قتل عمد۔۔۔ مگر یہ ضرور ہے کہ محبوب کو کم از کم دفتر نہیں بلانا چاہیے تھا۔ ان کا خیال تھا سرکاری ملازمت کا چارم ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دے گا مگر یہ آج کی لڑکیاں توبہ توبہ۔۔۔
ڈاکٹر فخر عباس نے تو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ
انٹرنیٹ پر دیکھ کر عاشق مت ہونا
فوٹو جینک بھی تو ہو سکتا ہوں میں
کار میں بیٹھے دیکھی ہے تصویر مری
کار مکینک بھی تو ہو سکتا ہوں میں
مگر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس لڑکی کو شعر و شاعری سے ذرا بھی شغف ہوتا تو وہ اس چکر میں نہ آتی۔
تصویر کشی ایک مشکل فن تھا۔زیادہ پرانی بات نہیں ۔۔ بس ہمارے والدین کے اسکول کالج کے دنوں کی بات ہے۔ کہ پاسپورٹ کوئی بنوائے نہ بنوائے، پاسپورٹ سائز تصویر ہر کس و ناکس کو بنوانی ہی پڑتی تھی۔ اور وہ بھی عکاس کے ہنر کدے میں جا کر۔ آہ کیا منظر ہوتا تھا۔ پس منظر میں باغ بھی ہو سکتا تھا اور تاج محل بھی اور پیش منظر میں دلیپ کمار بھی ہو سکتا تھا اور مدھو بالا بھی۔ سلمان خان بھی ہو سکتا تھا اور مادھوری بھی ۔۔محب وطن افراد کی خاطر طبع کے لیے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد بھی ساتھ یی زیبا بھی شامل زیبایش کی جا سکتی تھی۔۔
اس وقت کیمرے کے کیا کیا نخرے ہوتے تھے۔ رول، فلیش لائٹ، دھوپ چھاؤں، رول کا دھونا، پھر پرنٹ بنوانا اور پھر افسردہ ہو کر بیٹھنا کہ تصویریں کیسی آئی ہیں ---
کوئی کتنا بھی بن سنور لے، چلتی فوٹو گرافر کی ہی تھی۔ اب جدید تکنیکی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود، ہمیں تو آج حسرت ہی رہی کہ کبھی فوٹوگرافر ہمیں کیمرے کے سامنے بٹھا کر تصویر لے تو ہماری ہی تصویر آئے۔ یونس بٹ نے بیان کیا ہے کہ "جے سالک کہتے ہیں کام کرنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک صحیح طریقہ، دوسرا غلط طریقہ اور تیسرا تیرا میرا طریقہ"۔
چنانچہ کام کے تیسرے طریقے پر چل کر اب بجا طور پر نہ سہی بے جا فخر محسوس ضرور کیا جا سکتا یے ۔۔ کہ" ابھی ہم بہت خوب صورت ہیں"۔۔ یہ محض اپنی پیاری ماں کے الفاظ ہی نہیں بلکہ اپنے سیل فون کے معجزے بھی ساتھ ہیں۔
ناسٹلجیا میں گھرے ہوئے دادا جی نے اپنے 9 سالہ پوتے کو بتا رہے تھے" نکے۔۔ ایک وقت تھا جب سیر کا زمانہ تھا میں اسٹور سے، دس روپے میں 2 سیر آٹا، سیر گھی اور پھل بھی لے آتا تھا۔۔۔ "
پوتے نے غور سے سنا اور جواب دیا "دادا جی اب ایسے نہیں ہوتا ہر جگہ کیمرے لگ گئے ہیں۔۔"
ان لگے ہوئے کیمروں کی عجیب کہانیاں ہیں، تقریبا تمام دفاتر محلوں اور گلیوں میں لگ چکے ہیں ساتھ ہی وارننگ بھی دی جا رہی ہے کہ "خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے"۔
مگر مجال ہے کہ کوئی ڈر جائے یا خوفزدہ ہو کر چوری چکاری سے تائب ہوجائے۔ اس کے برعکس صورتحال یے کہ چونکہ چور بھی جانتے ہیں کہ یہ نگری بالکل اندھیری ہے اور راج یہاں کا چوپٹ۔ سو جس کا جہاں داو چلتا ہے۔۔ کامیاب قرار پاتا ہے۔۔۔
تصویر اور کیمرہ؛ حصہ دوئم
حبیبہ طلعت
چینی ویسے تو کچھ نہیں جانتے تھے ۔۔مگر جب جان گئے تو پھر سب ہی مان گئے کہ چینی کہاوت یہی کہتی ہے ایک تصویر کا اثر ایک ہزار الفاظ سے زیا دہ دیرپا ہوتا ہے۔ گویا تصویر کی اپنی وجودی اہمیت اپنی جگہ کہیں بڑھ کر ہے ۔۔۔ پروپیگنڈے سے پبلسٹی تک، ساکت عکاسی سے متحرک عکاسی تک۔ اشتہارات میں بیوقوف بنانے سے لے کر دینی تبلیغ تک میں تصویر بہرحال کئی مضامین پر بھاری رہتی یے ۔
عجب کھیل ہے دل کا ۔۔۔ چاہے جانے اور چاہنے کی خواہش کبھی کبھی جان کو آجاتی ہے۔۔۔
آپ کی نظر سے بھی وہ خبر گزری ہوگی جانے اب کی ہے یا
اب سے برس پرانی مگر ہے کورونا سے ذرا پرانی کہ ایک لڑکی اپنے فیس بکی دوست سے ملنے خانیوال پہنچی۔ وہ صاحب سرکاری ملازم تھے ۔۔ امپریشن اچھا ڈالنے کو دفتر میں ہی بلا لیا تھا۔ لڑکی آئی اور جب دیکھا تو اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ موصوف مردوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو جوانی میں ہی بال و پر سے محروم ہو جاتے ہیں۔۔ لڑکی نے دیکھتے ہی چیخیں مارنا شروع کر دیں۔۔ امپریشن تو کیا اچھا پڑتا الٹا محبوبہ ہاتھ سے گئی۔۔۔۔ اب جانے یہ کیس سائبر کرائمز کے تحت درج ہوا یا قتل عمد۔۔۔ مگر یہ ضرور ہے کہ محبوب کو کم از کم دفتر نہیں بلانا چاہیے تھا۔ ان کا خیال تھا سرکاری ملازمت کا چارم ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دے گا مگر یہ آج کی لڑکیاں توبہ توبہ۔۔۔
ڈاکٹر فخر عباس نے تو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ
انٹرنیٹ پر دیکھ کر عاشق مت ہونا
فوٹو جینک بھی تو ہو سکتا ہوں میں
کار میں بیٹھے دیکھی ہے تصویر مری
کار مکینک بھی تو ہو سکتا ہوں میں
مگر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس لڑکی کو شعر و شاعری سے ذرا بھی شغف ہوتا تو وہ اس چکر میں نہ آتی۔
تصویر کشی ایک مشکل فن تھا۔زیادہ پرانی بات نہیں ۔۔ بس ہمارے والدین کے اسکول کالج کے دنوں کی بات ہے۔ کہ پاسپورٹ کوئی بنوائے نہ بنوائے، پاسپورٹ سائز تصویر ہر کس و ناکس کو بنوانی ہی پڑتی تھی۔ اور وہ بھی عکاس کے ہنر کدے میں جا کر۔ آہ کیا منظر ہوتا تھا۔ پس منظر میں باغ بھی ہو سکتا تھا اور تاج محل بھی اور پیش منظر میں دلیپ کمار بھی ہو سکتا تھا اور مدھو بالا بھی۔ سلمان خان بھی ہو سکتا تھا اور مادھوری بھی ۔۔محب وطن افراد کی خاطر طبع کے لیے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد بھی ساتھ یی زیبا بھی شامل زیبایش کی جا سکتی تھی۔۔
اس وقت کیمرے کے کیا کیا نخرے ہوتے تھے۔ رول، فلیش لائٹ، دھوپ چھاؤں، رول کا دھونا، پھر پرنٹ بنوانا اور پھر افسردہ ہو کر بیٹھنا کہ تصویریں کیسی آئی ہیں ---
کوئی کتنا بھی بن سنور لے، چلتی فوٹو گرافر کی ہی تھی۔ اب جدید تکنیکی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود، ہمیں تو آج حسرت ہی رہی کہ کبھی فوٹوگرافر ہمیں کیمرے کے سامنے بٹھا کر تصویر لے تو ہماری ہی تصویر آئے۔ یونس بٹ نے بیان کیا ہے کہ "جے سالک کہتے ہیں کام کرنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک صحیح طریقہ، دوسرا غلط طریقہ اور تیسرا تیرا میرا طریقہ"۔
چنانچہ کام کے تیسرے طریقے پر چل کر اب بجا طور پر نہ سہی بے جا فخر محسوس ضرور کیا جا سکتا یے ۔۔ کہ" ابھی ہم بہت خوب صورت ہیں"۔۔ یہ محض اپنی پیاری ماں کے الفاظ ہی نہیں بلکہ اپنے سیل فون کے معجزے بھی ساتھ ہیں۔
ناسٹلجیا میں گھرے ہوئے دادا جی نے اپنے 9 سالہ پوتے کو بتا رہے تھے" نکے۔۔ ایک وقت تھا جب سیر کا زمانہ تھا میں اسٹور سے، دس روپے میں 2 سیر آٹا، سیر گھی اور پھل بھی لے آتا تھا۔۔۔ "
پوتے نے غور سے سنا اور جواب دیا "دادا جی اب ایسے نہیں ہوتا ہر جگہ کیمرے لگ گئے ہیں۔۔"
ان لگے ہوئے کیمروں کی عجیب کہانیاں ہیں، تقریبا تمام دفاتر محلوں اور گلیوں میں لگ چکے ہیں ساتھ ہی وارننگ بھی دی جا رہی ہے کہ "خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے"۔
مگر مجال ہے کہ کوئی ڈر جائے یا خوفزدہ ہو کر چوری چکاری سے تائب ہوجائے۔ اس کے برعکس صورتحال یے کہ چونکہ چور بھی جانتے ہیں کہ یہ نگری بالکل اندھیری ہے اور راج یہاں کا چوپٹ۔ سو جس کا جہاں داو چلتا ہے۔۔ کامیاب قرار پاتا ہے۔۔۔
تصویر اور کیمرہ؛ حصہ دوئم
حبیبہ طلعت
٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں