گھوڑا رے گھوڑا!
یہ دوجا ہفتورا اتنی جلدی پھر آ گیا۔ اب کیا انسان ساری زندگی مزاحیہ مضامین ہی لکھتا رہے گا۔ ہر ماہ کے دوسرے ہفتہ کے دن، سہ پہر میں ایک تازہ مزاحیہ مضمون نذر احباب کرنا، کم داد ملنے پر منہ بسورنا، دوسروں کے مضامین غلطیاں نکالنے کی غرض سے غور سے پڑھنا، مگر کوئی غلطی نہ ملنے پر مایوس ہو کر داد دینا، پھر مضمون فیس بک پر لگانا، ایک ہفتے تک محدّب عدسے سے اس پر کمنٹس تلاش کرنا۔ اپنا ہی مضمون بار بار پڑھ کر ہنسنا، پھر داد سے مایوس ہو کر دل گرفتہ ہونا۔ دوسرے ہفتے اگلے مضمون کے موضوع کے بارے میں سوچنا۔ مسئلہ یہ کہ جیسے جیسے مضامین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے بقیّتہ السّیف موضوعات کی قلّت ہوتی جارہی ہے۔جیسے تیسے موضوع کا فیصلہ کرنا ۔ تو اب سوال یہ کہ لکھا کیسے جائے۔ اور جب دو دن رہ جائیں تو سر پیٹنا۔
گھوڑا رے گھوڑا!
'
نہ ہوا ہمارا پرسنل مرزا ہمارے ساتھ، ورنہ ضرور ہم سے پوچھتا کہ یہ کیا گھوڑا گھوڑا کی رٹ لگا رکھی ہے، اور تب ہم اسے نہایت عالمانہ وقار سے بتاتے کہ میرے بھائی یہ ہمارے سندھ میں واویلا کرنے کا ایک مخصوص اندازہے۔ اور پس منظر اس کا یہ ہے کہ چونکہ اس خطّے کو طویل عرصے سے یا شایدہمیشہ سے کبھی باہر کے اور کبھی اندر کے گھڑسوار آکر کبھی فتح کرتے رہے اور کبھی تہہ و بالا کرتے رہے، اور کبھی سیدھے سادے طریقے سے لوٹتے رہے اس لیے جب کسی کو گھڑسوار آتے جاتے نظر آتے تو وہ سمجھ جاتا کہ برا وقت آ گیا ہے اور لوگوں کو سب سے پہلے خبر دینے کے لیے پوری طاقت سے چلّاتا تھا 'گھوڑا رے گھوڑا'۔ ہو سکتا ہے کہ شروع میں لوگ پورا جملہ کہتے ہوں کہ گھوڑے والے آ گئے رے بھائیو، گھوڑے والے۔ مگر اتنا لمبا جملہ ادا کرتے کرتے ہو سکتا ہے وہ گھوڑے والوں کے قابو آ جاتے ہوں، تو یہ جملہ گھوڑا رے گھوڑا رہ گیا۔
اس موقع پر آپ میری تمکنت دیکھتے تو دیکھتے ہی رہ جاتے۔
'
کبھی غشاغشِ غمِ دوراں سے فرصت ملے تو سوچیے گاکہ اگر گھوڑا نہ ہوتا تو اس کا متبادل کیا ہوتا۔ جنگوں میں، گاڑیوں میں، اور شطرنج میں۔ شطرنج میں تو چلیے بیل یا زیبرا ڈال دیا جاتا، گاڑی میں بھی بیل، اونٹ یا گدھا استعمال ہوتا ہی آیا ہے، مگر جنگوں میں گدھا، زیبرا، زرافہ یا بیل؟ اور پھر ہارس پاور کا کیا ہوتا۔
گھوڑے کی مادہ کو گھوڑی کہا جاتا ہے۔ آپ کہیں گے یہ کون سی نئی بات ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ تعمیرات میں استعمال کی جانے والی لکڑی کی بنی ایک چیز کو بھی گھوڑی کہا جاتا ہے تو بھی شاید آپ کے کان پر جوں نہ رینگے ۔لیکن اگر میں یہ کہوں کہ کبھی لڑکیوں کو بھی گھوڑی کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی بوڑھیوں کو بھی تو آپ یقیناً مستعد ہو کر بیٹھ جائیں گے کہ اب یقیناً کوئی کام کی بات آنے والی ہے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی، اس لیے ہم صرف دل آرام کی بات کریں گے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر کی، یا کسی بھی بادشاہ کی کنیز تھی۔ غیرت مند بادشاہ نے شطرنج کی بازی میں موقع پر موجود دل آرام کو ہی داؤ پر لگا دیا اور پھر لگا ہارنے۔ دل آرام کنیز ہونے کے باوجود کم از کم شطرنج میں بادشاہ سے زیادہ ہوشیار تھی۔ اب پتا نہیں دوسرا کھلاڑی بہرا تھا، یا فارسی سے نابلد، یا شاہی عتاب سے لرزاں، لیکن دل آرام نے آدابِ لعب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بادشاہ کو ایک راہ دکھائی، اور بادشاہ جیت گیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سارے معاملے کا گھوڑی سے کیا تعلّق تو عرض کرتا چلوں کہ دل آرام نے اس موقع پر گھوڑا مارنے کی بات اس شعر کے پیکر میں کہی تھی؛
شاہا دو رخ بدہ وہ دل آرام را مدہ
فیل وپیادہ پیش کن و اسپ کشت و مات
(اے بادشاہ دو رخ دے دے اور دل آرام کو نہ دے۔ فیل اور پیادہ بڑھا، گھوڑے کو مار اور مات کر۔)
'
گھوڑے کا ایک اور اہم استعمال اسے بحر ظلمات میں دوڑانا ہے۔ تاریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں فزکس کے اصولوں کو سموں تلے روندتے ہوئے، گھوڑے اپنے سواروں کو ان کے ہتھیاروں سمیت کمر پر بٹھائے، مزے سے تیرتے ہوئے ،دریا کے پار لے جاتے ہیں۔ لیکن جن غریب غرباء کے پاس گھوڑے نہیں ہوتے وہ اس مقصد کے لیے گھڑے استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال اس مقصد کے لیے گھڑا استعمال کرنے سے پہلے احتیاطاً یہ دیکھ لینا مناسب ہوتا ہے کہ گھڑا کچّا تو نہیں۔ بہرحال اگر گھڑا کچّا بھی ہو تو جان تو جاتی ہے مگر شعر و ادب کے میدان میں نئی راہیں بھی نکل ہی آتی ہیں۔
گھڑے عرف عام میں دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ کورا گھڑا اور چکنا گھڑا۔ کورا گھڑا تو صرف لو کے موسم میں ٹھنڈا پانی فراہم کرتا ہے، مگر چکنا گھڑا ہر موسم میں اور ہر میدان میں کارگزاری دکھا سکتا ہے۔ خاص کر سیاست میں چکنے گھڑے ہی عموماً بازی مار لیتے ہیں۔
گھڑے کی اپنی ایک تہذیب ہوتی تھی۔ ہر گھر میں گھڑے تپائیوں پر سلیقے سے رکھے جاتے تھے، جنہیں گھڑونچی کہا جاتا تھا۔( یہ نہ کہیے گا کہ اس میں سلیقہ کہاں سے آ گیا۔ چلیے بے سلیقہ ہی سہی)۔ تپائی پر اس لیے رکھے جاتے تھے کہ چارپائی پر رکھنا مشکل تھا۔ چارپائیاں تو ویسے بھی انسانوں کے لیے یا چکنے گھڑوں کے لیے ہوتی تھیں، اور عموماً ان کے لیے بھی کم ہی پڑتی تھیں۔ پھر ان کے ساتھ پانی پینے کے لیے کٹورے بھی ہوتے تھے۔ ان کٹوروں کو دیکھ کر گھر کی مالی حیثیت کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا تھا۔ اگر چاندی کا کٹورا ہوتا تھا تو پتا چلتا تھا کہ گھر والوں کی چاندی ہے، اور مٹّی کا ہوتا تھا تو گھر والوں کا صرف چاند ہوتا تھا۔
گھڑے کا پیندا ہمیشہ گول ہی بنایا جاتا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایسا برتن بنانا حسن کوزہ گر کے لیے سہل ہوتا تھا۔ صرف یہی تو فرض کرنا پڑے گا کہ حسن کوزہ گر اگر کوزے بناتا تھا تو گھڑے بھی بناتا رہا ہوگا، کیونکہ بغیر گھڑے کے کوزوں کو اپنا آپ ویسا ہی ادھورا ادھورا محسوس ہوتا ہے جیسے بغیر ماں کے چوزوں کو۔ مگر گول پیندے والے برتنوں میں جہاں یہ خوبی ہوتی ہے کہ بوقت ضرورت انہیں نیچا دکھانا آسان ہوتا ہے، وہیں یہ دشواری بھی ہوتی ہے کہ وہ بلا ضرورت بھی بہ آسانی لڑھک جاتے ہیں۔ چنانچہ کبھی انہیں اپنی جگہ پر قائم رکھنے کے لیے اینٹ اور پتھر استعمال کیے جاتے ہیں اور کبھی آئینی شقوں کا سہارا لینے کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے۔
گھڑے کا ہی ایک خوبصورت نام گاگر بھی ہے اور اگر گاگر چھوٹا ہو تو اسے گگریا کہا جاتے ہے۔ اب گاگر کا ذکر ہو تو پنگھٹ کو کون بھول سکتا ہے اور پنگھٹ بغیر گوریوں کے کس کام کا۔ اگر پنگھٹ پر گوریاں نہ جائیں تو نندلال کس کو چھیڑے گا اور گگریا کس کی پھوڑے گا۔ مگر یہ سب باتیں ہیں ایک رومانی دور کی۔ بیسویں صدی میں گوریوں نے گاگر چھوڑ کر گاگلز اپنا لیے، اور اکیسویں صدی میں گوگل کو مائی باپ بنا لیا۔ لو جی گل ہی مک گئی۔
'
گھڑے سے گھڑی کی طرف جانا اتنا ہی آسان ہے جتنا گھوڑی سے گھڑی کی طرف جانا دشوار۔ ہماری ایک نانی نے بتایا کہ جب وہ مشرقی پاکستان میں تھیں تو ایک بار دس بارہ افراد کو کسی شادی میں جانا تھا۔ جب سب گھر سے باہر آ گئے اور تالا لگایا جا نے لگا تو شور ہوا گھوڑی لاؤ، گھوڑی لاؤ۔ وہ حیران کہ اتنے لوگ اور ایک گھوڑی۔ پھر کوئی گھر میں گیا اور گھڑی نکال کر لایا، تب یہ عقدہ کھلا ۔
ہم نے غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ یہ جو وقت بتانے کا آلہ ہے اس کو گھڑی اس لیے کہتے ہیں کہ یہ بتاتا ہے کہ اسے کس گھڑی دیکھا جا رہا ہے۔ مگر ایک ہی گھڑی کسی کے لیے شبھ گھڑی ہو سکتی ہے اور کسی کے لیے بری گھڑی۔ بہرحال کئی گھڑی غور کرنے کے بعد بھی ہمیں یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وقت کے کسی پہر کو گھڑی کیوں کہا جاتا ہے۔ وقت تو ایک اٹل حقیقت ہے کوئی گھڑی گھڑائی بات نہیں۔ ممکن ہے جیسے ستارہ شناس لوگوں نے آسمان پر ستاروں کو دیکھ کر شکلیں گھڑ لیں، ویسے ہی وقت کو بھی گھڑی ہوئی شکل کی نسبت سے گھڑی کہہ دیا ہو۔
گھڑنا تو کسی چیز کو شکل دینے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ بہانے بھی گھڑتے ہیں اور داستانیں بھی۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی پریشانی نہ ہوتی مگر لوگ تو تاریخ بھی گھڑتے ہیں اور اس گھڑی ہوئی تاریخ کی بنیاد پر جھگڑے بھی ہوتے ہیں، ہنگامے بھی، اور فسادات بھی ۔ بابری مسجد کو کون بھول سکتا ہے۔
پہلے گھڑی ایک قیمتی چیز ہوتی تھی۔ لوگ ہاتھ میں گھڑی اپنی شان و شوکت کے حساب سے پہنتے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے گھڑی پہننے کے آداب بھی جدا ہوتے تھے۔ اب نہ آداب جدا رہے نہ پہننے والے۔ شادی کے موقع پر سسرال والے دلہا کو اس کی حیثیت کے مطابق گھڑی پہناتے تھے۔ ایک بار ہم نے دوستوں سے مذاق میں کہا ، یار وہماری شادی کر دی گھر والوں نے ایمرجنسی میں۔ سب ہمیں برا بھلا کہنے لگے مگر ایک بہت کائیاں تھا۔ اس نے ہماری گھڑی دیکھی اور شور مچا دیا کہ یہ جھوٹ کہہ رہا ہے، گھڑی اس کی وہی پرانی ہے۔
اوائلِ نوجوانی کی بات ہے، شادی نہیں ہوئی تھی، (آجکل تو پچاس سالہ شاعروں ادیبوں کو بھی نوجوان کہا جاتا ہے، اس لیے ایسے نوجوانوں کی سہولت کے لیے اوائل کا سابقہ لگانا ضروری ہے)، ہم سانج ڈھلے ملتان کے حسین آگاہی چوک پر کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس ظالم نے وقت تو چھ بجے کا دیا تھا مگر ساڑھے چھ بج چکے تھے اور اس کا کہیں دور دور پتا نہ تھا۔ ہلکی کی گرمی تھی اس لیے ہم نے آستنیں چڑھائی ہوئی تھیں اور ہماری کلائی پر بندھی گھڑی دور سے جھلک رہی تھی۔ اس وقت ملتان میں گھڑی شاید نادر تھی اس لیے ہر گزرنے والا ہم سے وقت ضرور پوچھتا تھا۔ ہم بھی چونکہ انتظار کی کوفت میں گھڑی گھڑی گھڑی دیکھتے تھے اس لیے وقت بتانا مشکل بھی نہ تھا۔ دل تو چاہتا تھا کہ ہر گزرنے والے کو بتائیں کہ دیکھو اتنا وقت ہو گیا ہے اور وہ ابھی تک نہیں آئی، مگر لوگ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔
پھر وہ ہوا جس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔ ایک راہگیر نے ہم سے وقت پوچھا۔ ہم نے گھڑی پر نظر ڈالی اور وقت دیکھا۔ پھر کہا بھائی چھ بج کر پینتیس منٹ ہو گئے ہیں اور ----، مگر وہ بیدرد اتنی دیر میں کہیں آگے نکل چکا تھا۔ اب ہمیں اندازہ ہوا کہ لوگ باگ عادتاً یا تفریحاً وقت پوچھ رہے ہیں۔
یا شاید وہ بری گھڑی تھی۔ بری گھڑی سے اللہ بچائے۔
اب آپ منتظر ہوں گے یہ جاننے کے لیے کہ پھر کیا ہوا۔ چلیے بتا ہی دیتے ہیں کہ پھر اللہ اللہ کر کے وہ آ گئی۔ ہماری گاڑی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ پنکچر ہو گیا تھا اس لیے دیر لگی۔
'
گھڑی اگر زیادہ بڑی ہوتی تھی تو اس کو گھڑیال بھی کہا جاتا تھا۔ یہ سوچے بغیر کہ گھڑیال تو دراصل ایک مہا مگر مچھ کو کہا جاتا ہے، جو شکار دبوچنے میں دہنِ طولیٰ رکھتا ہے۔ پہلے ہمارے دیس میں بھی دریاؤں میں گھڑیال ہوتے رہے ہوں گے، مگر اب ان سب نے انسانوں کا روپ دھار لیا ہے۔ ایک سے ایک نسلی گھڑیال آپ کو آس پاس ہی مل جائے گا۔ غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
گھڑی گھڑیال کی ایک خاص بات یہ ہوتی تھی کہ یہ گھنٹا بھی بجاتا تھا، اس سے شاعروں کو شعر کہنے میں سہولت ہوتی تھی۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی، وغیرہ
گھڑیال کی ہی ارتقائی شکل گھنٹا گھر ہے۔ جو خاندانی گھنٹا گھر ہوتے ہیں ان کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ بگ بین کی گونج تو ساری دنیا سنتی تھی۔ اگر چاند اور زمین کے درمیان خلا نہ ہوتا تو شاید چاند کی بڑھیا بھی سنتی۔ ویسے بڑھیاں کسی کی نہیں سنتیں۔
گھنٹا گھر بناتے وقت خاص اہتمام کیا جاتا تھا کہ ان کی آواز دور دور تک جائے۔ دن کی حد تک تو غنیمت تھا مگر رات۔ رات جیسے جیسے ڈوبتی تھی، گھنٹوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آدھی رات کو بارہ گھنٹے بجتے تھے۔ جس کو گنتی آتی تھی وہ تو گھنٹے گن لیتا تھا مگر جس کو بارہ تک گننا نہ آتا ہو اس کی شامت۔
اب گھنٹا گھر تو بھولے بسرے ہو گئے ہیں، مگر یہی اہتمام مسجدوں میں ہوتا ہے۔ لاہور ایک دوست کے ہاں رات گزاری تو فجر کی بارہ اذانیں سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ویسے ایک فائدہ ضرور ہے۔ گھنٹا گھر وں اور مسجدوں کے قریب کے گھر نسبتاً کم قیمت پر اور کم کرائے پر مل سکتے ہیں۔
یہ دوجا ہفتورا اتنی جلدی پھر آ گیا۔ اب کیا انسان ساری زندگی مزاحیہ مضامین ہی لکھتا رہے گا۔ ہر ماہ کے دوسرے ہفتہ کے دن، سہ پہر میں ایک تازہ مزاحیہ مضمون نذر احباب کرنا، کم داد ملنے پر منہ بسورنا، دوسروں کے مضامین غلطیاں نکالنے کی غرض سے غور سے پڑھنا، مگر کوئی غلطی نہ ملنے پر مایوس ہو کر داد دینا، پھر مضمون فیس بک پر لگانا، ایک ہفتے تک محدّب عدسے سے اس پر کمنٹس تلاش کرنا۔ اپنا ہی مضمون بار بار پڑھ کر ہنسنا، پھر داد سے مایوس ہو کر دل گرفتہ ہونا۔ دوسرے ہفتے اگلے مضمون کے موضوع کے بارے میں سوچنا۔ مسئلہ یہ کہ جیسے جیسے مضامین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے بقیّتہ السّیف موضوعات کی قلّت ہوتی جارہی ہے۔جیسے تیسے موضوع کا فیصلہ کرنا ۔ تو اب سوال یہ کہ لکھا کیسے جائے۔ اور جب دو دن رہ جائیں تو سر پیٹنا۔
گھوڑا رے گھوڑا!
'
نہ ہوا ہمارا پرسنل مرزا ہمارے ساتھ، ورنہ ضرور ہم سے پوچھتا کہ یہ کیا گھوڑا گھوڑا کی رٹ لگا رکھی ہے، اور تب ہم اسے نہایت عالمانہ وقار سے بتاتے کہ میرے بھائی یہ ہمارے سندھ میں واویلا کرنے کا ایک مخصوص اندازہے۔ اور پس منظر اس کا یہ ہے کہ چونکہ اس خطّے کو طویل عرصے سے یا شایدہمیشہ سے کبھی باہر کے اور کبھی اندر کے گھڑسوار آکر کبھی فتح کرتے رہے اور کبھی تہہ و بالا کرتے رہے، اور کبھی سیدھے سادے طریقے سے لوٹتے رہے اس لیے جب کسی کو گھڑسوار آتے جاتے نظر آتے تو وہ سمجھ جاتا کہ برا وقت آ گیا ہے اور لوگوں کو سب سے پہلے خبر دینے کے لیے پوری طاقت سے چلّاتا تھا 'گھوڑا رے گھوڑا'۔ ہو سکتا ہے کہ شروع میں لوگ پورا جملہ کہتے ہوں کہ گھوڑے والے آ گئے رے بھائیو، گھوڑے والے۔ مگر اتنا لمبا جملہ ادا کرتے کرتے ہو سکتا ہے وہ گھوڑے والوں کے قابو آ جاتے ہوں، تو یہ جملہ گھوڑا رے گھوڑا رہ گیا۔
اس موقع پر آپ میری تمکنت دیکھتے تو دیکھتے ہی رہ جاتے۔
'
کبھی غشاغشِ غمِ دوراں سے فرصت ملے تو سوچیے گاکہ اگر گھوڑا نہ ہوتا تو اس کا متبادل کیا ہوتا۔ جنگوں میں، گاڑیوں میں، اور شطرنج میں۔ شطرنج میں تو چلیے بیل یا زیبرا ڈال دیا جاتا، گاڑی میں بھی بیل، اونٹ یا گدھا استعمال ہوتا ہی آیا ہے، مگر جنگوں میں گدھا، زیبرا، زرافہ یا بیل؟ اور پھر ہارس پاور کا کیا ہوتا۔
گھوڑے کی مادہ کو گھوڑی کہا جاتا ہے۔ آپ کہیں گے یہ کون سی نئی بات ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ تعمیرات میں استعمال کی جانے والی لکڑی کی بنی ایک چیز کو بھی گھوڑی کہا جاتا ہے تو بھی شاید آپ کے کان پر جوں نہ رینگے ۔لیکن اگر میں یہ کہوں کہ کبھی لڑکیوں کو بھی گھوڑی کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی بوڑھیوں کو بھی تو آپ یقیناً مستعد ہو کر بیٹھ جائیں گے کہ اب یقیناً کوئی کام کی بات آنے والی ہے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی، اس لیے ہم صرف دل آرام کی بات کریں گے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر کی، یا کسی بھی بادشاہ کی کنیز تھی۔ غیرت مند بادشاہ نے شطرنج کی بازی میں موقع پر موجود دل آرام کو ہی داؤ پر لگا دیا اور پھر لگا ہارنے۔ دل آرام کنیز ہونے کے باوجود کم از کم شطرنج میں بادشاہ سے زیادہ ہوشیار تھی۔ اب پتا نہیں دوسرا کھلاڑی بہرا تھا، یا فارسی سے نابلد، یا شاہی عتاب سے لرزاں، لیکن دل آرام نے آدابِ لعب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بادشاہ کو ایک راہ دکھائی، اور بادشاہ جیت گیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سارے معاملے کا گھوڑی سے کیا تعلّق تو عرض کرتا چلوں کہ دل آرام نے اس موقع پر گھوڑا مارنے کی بات اس شعر کے پیکر میں کہی تھی؛
شاہا دو رخ بدہ وہ دل آرام را مدہ
فیل وپیادہ پیش کن و اسپ کشت و مات
(اے بادشاہ دو رخ دے دے اور دل آرام کو نہ دے۔ فیل اور پیادہ بڑھا، گھوڑے کو مار اور مات کر۔)
'
گھوڑے کا ایک اور اہم استعمال اسے بحر ظلمات میں دوڑانا ہے۔ تاریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں فزکس کے اصولوں کو سموں تلے روندتے ہوئے، گھوڑے اپنے سواروں کو ان کے ہتھیاروں سمیت کمر پر بٹھائے، مزے سے تیرتے ہوئے ،دریا کے پار لے جاتے ہیں۔ لیکن جن غریب غرباء کے پاس گھوڑے نہیں ہوتے وہ اس مقصد کے لیے گھڑے استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال اس مقصد کے لیے گھڑا استعمال کرنے سے پہلے احتیاطاً یہ دیکھ لینا مناسب ہوتا ہے کہ گھڑا کچّا تو نہیں۔ بہرحال اگر گھڑا کچّا بھی ہو تو جان تو جاتی ہے مگر شعر و ادب کے میدان میں نئی راہیں بھی نکل ہی آتی ہیں۔
گھڑے عرف عام میں دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ کورا گھڑا اور چکنا گھڑا۔ کورا گھڑا تو صرف لو کے موسم میں ٹھنڈا پانی فراہم کرتا ہے، مگر چکنا گھڑا ہر موسم میں اور ہر میدان میں کارگزاری دکھا سکتا ہے۔ خاص کر سیاست میں چکنے گھڑے ہی عموماً بازی مار لیتے ہیں۔
گھڑے کی اپنی ایک تہذیب ہوتی تھی۔ ہر گھر میں گھڑے تپائیوں پر سلیقے سے رکھے جاتے تھے، جنہیں گھڑونچی کہا جاتا تھا۔( یہ نہ کہیے گا کہ اس میں سلیقہ کہاں سے آ گیا۔ چلیے بے سلیقہ ہی سہی)۔ تپائی پر اس لیے رکھے جاتے تھے کہ چارپائی پر رکھنا مشکل تھا۔ چارپائیاں تو ویسے بھی انسانوں کے لیے یا چکنے گھڑوں کے لیے ہوتی تھیں، اور عموماً ان کے لیے بھی کم ہی پڑتی تھیں۔ پھر ان کے ساتھ پانی پینے کے لیے کٹورے بھی ہوتے تھے۔ ان کٹوروں کو دیکھ کر گھر کی مالی حیثیت کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا تھا۔ اگر چاندی کا کٹورا ہوتا تھا تو پتا چلتا تھا کہ گھر والوں کی چاندی ہے، اور مٹّی کا ہوتا تھا تو گھر والوں کا صرف چاند ہوتا تھا۔
گھڑے کا پیندا ہمیشہ گول ہی بنایا جاتا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایسا برتن بنانا حسن کوزہ گر کے لیے سہل ہوتا تھا۔ صرف یہی تو فرض کرنا پڑے گا کہ حسن کوزہ گر اگر کوزے بناتا تھا تو گھڑے بھی بناتا رہا ہوگا، کیونکہ بغیر گھڑے کے کوزوں کو اپنا آپ ویسا ہی ادھورا ادھورا محسوس ہوتا ہے جیسے بغیر ماں کے چوزوں کو۔ مگر گول پیندے والے برتنوں میں جہاں یہ خوبی ہوتی ہے کہ بوقت ضرورت انہیں نیچا دکھانا آسان ہوتا ہے، وہیں یہ دشواری بھی ہوتی ہے کہ وہ بلا ضرورت بھی بہ آسانی لڑھک جاتے ہیں۔ چنانچہ کبھی انہیں اپنی جگہ پر قائم رکھنے کے لیے اینٹ اور پتھر استعمال کیے جاتے ہیں اور کبھی آئینی شقوں کا سہارا لینے کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے۔
گھڑے کا ہی ایک خوبصورت نام گاگر بھی ہے اور اگر گاگر چھوٹا ہو تو اسے گگریا کہا جاتے ہے۔ اب گاگر کا ذکر ہو تو پنگھٹ کو کون بھول سکتا ہے اور پنگھٹ بغیر گوریوں کے کس کام کا۔ اگر پنگھٹ پر گوریاں نہ جائیں تو نندلال کس کو چھیڑے گا اور گگریا کس کی پھوڑے گا۔ مگر یہ سب باتیں ہیں ایک رومانی دور کی۔ بیسویں صدی میں گوریوں نے گاگر چھوڑ کر گاگلز اپنا لیے، اور اکیسویں صدی میں گوگل کو مائی باپ بنا لیا۔ لو جی گل ہی مک گئی۔
'
گھڑے سے گھڑی کی طرف جانا اتنا ہی آسان ہے جتنا گھوڑی سے گھڑی کی طرف جانا دشوار۔ ہماری ایک نانی نے بتایا کہ جب وہ مشرقی پاکستان میں تھیں تو ایک بار دس بارہ افراد کو کسی شادی میں جانا تھا۔ جب سب گھر سے باہر آ گئے اور تالا لگایا جا نے لگا تو شور ہوا گھوڑی لاؤ، گھوڑی لاؤ۔ وہ حیران کہ اتنے لوگ اور ایک گھوڑی۔ پھر کوئی گھر میں گیا اور گھڑی نکال کر لایا، تب یہ عقدہ کھلا ۔
ہم نے غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ یہ جو وقت بتانے کا آلہ ہے اس کو گھڑی اس لیے کہتے ہیں کہ یہ بتاتا ہے کہ اسے کس گھڑی دیکھا جا رہا ہے۔ مگر ایک ہی گھڑی کسی کے لیے شبھ گھڑی ہو سکتی ہے اور کسی کے لیے بری گھڑی۔ بہرحال کئی گھڑی غور کرنے کے بعد بھی ہمیں یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وقت کے کسی پہر کو گھڑی کیوں کہا جاتا ہے۔ وقت تو ایک اٹل حقیقت ہے کوئی گھڑی گھڑائی بات نہیں۔ ممکن ہے جیسے ستارہ شناس لوگوں نے آسمان پر ستاروں کو دیکھ کر شکلیں گھڑ لیں، ویسے ہی وقت کو بھی گھڑی ہوئی شکل کی نسبت سے گھڑی کہہ دیا ہو۔
گھڑنا تو کسی چیز کو شکل دینے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ بہانے بھی گھڑتے ہیں اور داستانیں بھی۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی پریشانی نہ ہوتی مگر لوگ تو تاریخ بھی گھڑتے ہیں اور اس گھڑی ہوئی تاریخ کی بنیاد پر جھگڑے بھی ہوتے ہیں، ہنگامے بھی، اور فسادات بھی ۔ بابری مسجد کو کون بھول سکتا ہے۔
پہلے گھڑی ایک قیمتی چیز ہوتی تھی۔ لوگ ہاتھ میں گھڑی اپنی شان و شوکت کے حساب سے پہنتے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے گھڑی پہننے کے آداب بھی جدا ہوتے تھے۔ اب نہ آداب جدا رہے نہ پہننے والے۔ شادی کے موقع پر سسرال والے دلہا کو اس کی حیثیت کے مطابق گھڑی پہناتے تھے۔ ایک بار ہم نے دوستوں سے مذاق میں کہا ، یار وہماری شادی کر دی گھر والوں نے ایمرجنسی میں۔ سب ہمیں برا بھلا کہنے لگے مگر ایک بہت کائیاں تھا۔ اس نے ہماری گھڑی دیکھی اور شور مچا دیا کہ یہ جھوٹ کہہ رہا ہے، گھڑی اس کی وہی پرانی ہے۔
اوائلِ نوجوانی کی بات ہے، شادی نہیں ہوئی تھی، (آجکل تو پچاس سالہ شاعروں ادیبوں کو بھی نوجوان کہا جاتا ہے، اس لیے ایسے نوجوانوں کی سہولت کے لیے اوائل کا سابقہ لگانا ضروری ہے)، ہم سانج ڈھلے ملتان کے حسین آگاہی چوک پر کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس ظالم نے وقت تو چھ بجے کا دیا تھا مگر ساڑھے چھ بج چکے تھے اور اس کا کہیں دور دور پتا نہ تھا۔ ہلکی کی گرمی تھی اس لیے ہم نے آستنیں چڑھائی ہوئی تھیں اور ہماری کلائی پر بندھی گھڑی دور سے جھلک رہی تھی۔ اس وقت ملتان میں گھڑی شاید نادر تھی اس لیے ہر گزرنے والا ہم سے وقت ضرور پوچھتا تھا۔ ہم بھی چونکہ انتظار کی کوفت میں گھڑی گھڑی گھڑی دیکھتے تھے اس لیے وقت بتانا مشکل بھی نہ تھا۔ دل تو چاہتا تھا کہ ہر گزرنے والے کو بتائیں کہ دیکھو اتنا وقت ہو گیا ہے اور وہ ابھی تک نہیں آئی، مگر لوگ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔
پھر وہ ہوا جس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔ ایک راہگیر نے ہم سے وقت پوچھا۔ ہم نے گھڑی پر نظر ڈالی اور وقت دیکھا۔ پھر کہا بھائی چھ بج کر پینتیس منٹ ہو گئے ہیں اور ----، مگر وہ بیدرد اتنی دیر میں کہیں آگے نکل چکا تھا۔ اب ہمیں اندازہ ہوا کہ لوگ باگ عادتاً یا تفریحاً وقت پوچھ رہے ہیں۔
یا شاید وہ بری گھڑی تھی۔ بری گھڑی سے اللہ بچائے۔
اب آپ منتظر ہوں گے یہ جاننے کے لیے کہ پھر کیا ہوا۔ چلیے بتا ہی دیتے ہیں کہ پھر اللہ اللہ کر کے وہ آ گئی۔ ہماری گاڑی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ پنکچر ہو گیا تھا اس لیے دیر لگی۔
'
گھڑی اگر زیادہ بڑی ہوتی تھی تو اس کو گھڑیال بھی کہا جاتا تھا۔ یہ سوچے بغیر کہ گھڑیال تو دراصل ایک مہا مگر مچھ کو کہا جاتا ہے، جو شکار دبوچنے میں دہنِ طولیٰ رکھتا ہے۔ پہلے ہمارے دیس میں بھی دریاؤں میں گھڑیال ہوتے رہے ہوں گے، مگر اب ان سب نے انسانوں کا روپ دھار لیا ہے۔ ایک سے ایک نسلی گھڑیال آپ کو آس پاس ہی مل جائے گا۔ غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
گھڑی گھڑیال کی ایک خاص بات یہ ہوتی تھی کہ یہ گھنٹا بھی بجاتا تھا، اس سے شاعروں کو شعر کہنے میں سہولت ہوتی تھی۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی، وغیرہ
گھڑیال کی ہی ارتقائی شکل گھنٹا گھر ہے۔ جو خاندانی گھنٹا گھر ہوتے ہیں ان کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ بگ بین کی گونج تو ساری دنیا سنتی تھی۔ اگر چاند اور زمین کے درمیان خلا نہ ہوتا تو شاید چاند کی بڑھیا بھی سنتی۔ ویسے بڑھیاں کسی کی نہیں سنتیں۔
گھنٹا گھر بناتے وقت خاص اہتمام کیا جاتا تھا کہ ان کی آواز دور دور تک جائے۔ دن کی حد تک تو غنیمت تھا مگر رات۔ رات جیسے جیسے ڈوبتی تھی، گھنٹوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آدھی رات کو بارہ گھنٹے بجتے تھے۔ جس کو گنتی آتی تھی وہ تو گھنٹے گن لیتا تھا مگر جس کو بارہ تک گننا نہ آتا ہو اس کی شامت۔
اب گھنٹا گھر تو بھولے بسرے ہو گئے ہیں، مگر یہی اہتمام مسجدوں میں ہوتا ہے۔ لاہور ایک دوست کے ہاں رات گزاری تو فجر کی بارہ اذانیں سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ویسے ایک فائدہ ضرور ہے۔ گھنٹا گھر وں اور مسجدوں کے قریب کے گھر نسبتاً کم قیمت پر اور کم کرائے پر مل سکتے ہیں۔
----------------
تحریر: آصف اکبر
----------------
تحریر: آصف اکبر
----------------
٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں