رات کےآٹھ بجے یوں تھا جیسے آدھی رات کا عالم ہو ۔ آج " اشیاء اشد ضروریہ " کی دکانیں بھی پانچ بجے بند کردی گئ ہیں ۔ صرف ہسپتال کھلے ہیں ۔
ہاں آٹھ بجے ایک انہونی ہوئ ! دروازے کی گھنٹی بجی ۔ آج کل صرف کوڑا اٹھانے والا صبح سویرے آتا ہے اور پھر گھر بھر میں جہاں مرضی تصور جاناں کیے بیٹھے رہو ، تاروں کو دیکھتے رہو چھت پر پڑے ہوئے ، دھوپ تاپو ، پودوں سے یک طرفہ گفتگو کرو ، چڑیوں توتوں اور فاختاوں کے نغمے سنو ۔ کچھ لکھو پڑھو ، بیچ بیچ میں خبرنامہ سن کر گلوبل ولیج کی سن گن لو اور پھر آن لائن ہوجاو ۔ ایک آدھ فون کال اور بس ۔
آٹھ بجے اطلائ گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئ دل دہل گیا ۔ محلے کے زیادہ تر لوگ اپنے آبائ علاقوں کو جاچکے ہیں ان گھروں میں صرف گارڈ اورچوکیدار ہیں
۔ سامنے گھر والی سارہ تھیں ۔ ان کی آٹھ دس سالہ بچی کا ہاتھ بری طرح شیشہ لگ کر کٹ گیا تھا ۔ ماں نے اپنا دوپٹہ بچی کے ہاتھ پر لپیٹ رکھا تھا اور سرخ سرخ خون اس سے ٹپک رہا تھا ۔ گھر کا واحد مرد کسی دور دراز محاذ پر ملک وقوم کی حفاظت کے مشن پر تھا ۔ چھوٹا بیٹا اور بائ پولر مریضہ ساس گھر میں تھیں ۔ یہ موصوفہ اپنے بیٹے کے علاوہ سب کو چور مشکوک اور بدنظر سمجھتی ہیں ۔ اللہ انہیں صحت عطا کرے اور سارہ کو انہیں سہنے کی ہمت ۔ سارہ کو گھر پر ٹھہرنے کا کہہ کر فورا" بچی کو لیکر ہسپتال کارخ کیا ۔ سارہ کی ساسو ماں کی کراری آواز پوری گلی نے سنی اور مجھے مجبورا" ان سنا کرنا پڑی
" اس چترو کے ساتھ بچی کو کہاں بھیج دیا بیچ نہ دے کہیں "
قریبی ہسپتال پہنچ کر میاں صاحب کار پارکنگ کے لیے لے گئے ۔ گاڑی سے اتر کر خیال آیا ماسک تو لگایا ہی نہیں چادر کا دہرا نقاب کرلیا ۔
میں بچپن میں سوچتی تھی کان کی جگہ صرف چھوٹے چھوٹے سوراخ سے بھی تو کام چل سکتا تھا پھر لگتا جھمکے بندے پہننے کے لیے کان کے اوپر والا سٹرکچر بنایا اللہ میاں نے ۔ لیکن کوئ چیز بے مقصد نہیں جہاں میں ، اب یہ کان ہی تو ہیں جہاں ماسک کے الاسٹک آرام سے پہن کر پھررہے ہیں ۔ میں نے چادر کانوں پر اٹکا کر کس کے دوہرا نقاب لپیٹ لیا ۔ ہسپتال کے باہر وہی ہمیشہ والی افراتفری تھی ۔ سب سے پہلے ایک فوجی جوان نے سنگین کے سائے تلے روکا ۔
" بی بی آپ کو کدھر جانا ہے "
اور پھر بچی کا خون آلود ہاتھ دیکھ کر فورا" پیچھے ہٹ کر راستہ دیا ۔
ہسپتال کے مین گیٹ پر چھولداری تانے کرونا ٹیسٹ کیمپ لگائے خلائ ہواباز کا لباس پہنے دو حضرات سے بمشکل بچ کر آگے بڑھی اور گارڈ صاحب نے کڑکدار آواز میں پوچھا
" آنٹی کدھر ؟
بتاو کیا کہتی
" مٹر گشت پہ نکلی ہوں ، گرمیوں کی نئ کلیکشن خریدنے آئ ہوں یا پارک میں بچی کو جھولے دلانے ہیں یا شادی میں جارہی ہوں ۔"
اسے دھتکارا اور خونم خون بچی کو لیے دروازے سے اندر داخل ہوئ ۔ وہاں ایک اور حضرت نازل ہوگئے سفید وردی والے ۔
" خالہ جان کسے چیک کرانا ہے ؟
دل چاہا کہوں
" میاں تمہاری نظر چیک کرادوں پہلے ، بچی کا ہاتھ دکھائ نہیں دے رہا کیا ۔ "
کاونٹر پر طباق سے چہرے والا کھڑکنا ایک کان سے ماسک لٹکائے ننگے منہ بہو بیٹیوں بیٹوں بزرگوں کو تاڑ رہا تھا۔ کوئ کاونٹر کی طرف آتا تو جلدی سے ماسک کا دوسرا سرا " اوئ اللہ جی " کہہ کر دانتوں تلے دبالیتا ۔ ایک کان سے دوسرے کان تک پہنچنے میں ماسک قاصر نظر آرہا تھا ۔
خیر کسی طرح ننھی بچی کو ڈاکٹر صاحب تک پہنچایا ۔ زخم پر ٹانکے لگے ۔میاں صاحب فارمیسی ، ایمرجنسی، آپریشن تھیٹر کے درمیان ضرورتا" کم اور عادتا" زیادہ دوڑیں لگاتے رہے میں اس سارے وقت کونے میں دبکی تماشاء اہل کرم دیکھتی رہی ۔ ایک مچھڑ صاحب کو اپنی مونچھیں کرونا سے بچانا تھیں اس لیے ماسک صرف وہیں محدود تھا ۔ کئ حضرات ڈاڑھیوں کو پردہ کرائے تھے ۔ کلین شیو اپنی تھوڑیاں چھپائے تھے ۔ ہاں خواتیں نے چادروں کے اوپر ماسک لگا کر ڈبل بچت کررکھی تھی اچھا اس پردہ داری میں کچھ بیوٹی پارلرز کے لاک ڈاون کا غیبی ہاتھ بھی لگا ۔
سڑکیں خالی ہیں بازار اندھیرے میں ڈوبے ہیں ۔ عمارتوں پر سناٹا چھایا ہے ۔ سب کچھ وہیں ہے بس کرونا نے ہر طرف مٹر گشتیاں کرتے انسان لاک ڈاون کردیے ۔
ہاں آٹھ بجے ایک انہونی ہوئ ! دروازے کی گھنٹی بجی ۔ آج کل صرف کوڑا اٹھانے والا صبح سویرے آتا ہے اور پھر گھر بھر میں جہاں مرضی تصور جاناں کیے بیٹھے رہو ، تاروں کو دیکھتے رہو چھت پر پڑے ہوئے ، دھوپ تاپو ، پودوں سے یک طرفہ گفتگو کرو ، چڑیوں توتوں اور فاختاوں کے نغمے سنو ۔ کچھ لکھو پڑھو ، بیچ بیچ میں خبرنامہ سن کر گلوبل ولیج کی سن گن لو اور پھر آن لائن ہوجاو ۔ ایک آدھ فون کال اور بس ۔
آٹھ بجے اطلائ گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئ دل دہل گیا ۔ محلے کے زیادہ تر لوگ اپنے آبائ علاقوں کو جاچکے ہیں ان گھروں میں صرف گارڈ اورچوکیدار ہیں
۔ سامنے گھر والی سارہ تھیں ۔ ان کی آٹھ دس سالہ بچی کا ہاتھ بری طرح شیشہ لگ کر کٹ گیا تھا ۔ ماں نے اپنا دوپٹہ بچی کے ہاتھ پر لپیٹ رکھا تھا اور سرخ سرخ خون اس سے ٹپک رہا تھا ۔ گھر کا واحد مرد کسی دور دراز محاذ پر ملک وقوم کی حفاظت کے مشن پر تھا ۔ چھوٹا بیٹا اور بائ پولر مریضہ ساس گھر میں تھیں ۔ یہ موصوفہ اپنے بیٹے کے علاوہ سب کو چور مشکوک اور بدنظر سمجھتی ہیں ۔ اللہ انہیں صحت عطا کرے اور سارہ کو انہیں سہنے کی ہمت ۔ سارہ کو گھر پر ٹھہرنے کا کہہ کر فورا" بچی کو لیکر ہسپتال کارخ کیا ۔ سارہ کی ساسو ماں کی کراری آواز پوری گلی نے سنی اور مجھے مجبورا" ان سنا کرنا پڑی
" اس چترو کے ساتھ بچی کو کہاں بھیج دیا بیچ نہ دے کہیں "
قریبی ہسپتال پہنچ کر میاں صاحب کار پارکنگ کے لیے لے گئے ۔ گاڑی سے اتر کر خیال آیا ماسک تو لگایا ہی نہیں چادر کا دہرا نقاب کرلیا ۔
میں بچپن میں سوچتی تھی کان کی جگہ صرف چھوٹے چھوٹے سوراخ سے بھی تو کام چل سکتا تھا پھر لگتا جھمکے بندے پہننے کے لیے کان کے اوپر والا سٹرکچر بنایا اللہ میاں نے ۔ لیکن کوئ چیز بے مقصد نہیں جہاں میں ، اب یہ کان ہی تو ہیں جہاں ماسک کے الاسٹک آرام سے پہن کر پھررہے ہیں ۔ میں نے چادر کانوں پر اٹکا کر کس کے دوہرا نقاب لپیٹ لیا ۔ ہسپتال کے باہر وہی ہمیشہ والی افراتفری تھی ۔ سب سے پہلے ایک فوجی جوان نے سنگین کے سائے تلے روکا ۔
" بی بی آپ کو کدھر جانا ہے "
اور پھر بچی کا خون آلود ہاتھ دیکھ کر فورا" پیچھے ہٹ کر راستہ دیا ۔
ہسپتال کے مین گیٹ پر چھولداری تانے کرونا ٹیسٹ کیمپ لگائے خلائ ہواباز کا لباس پہنے دو حضرات سے بمشکل بچ کر آگے بڑھی اور گارڈ صاحب نے کڑکدار آواز میں پوچھا
" آنٹی کدھر ؟
بتاو کیا کہتی
" مٹر گشت پہ نکلی ہوں ، گرمیوں کی نئ کلیکشن خریدنے آئ ہوں یا پارک میں بچی کو جھولے دلانے ہیں یا شادی میں جارہی ہوں ۔"
اسے دھتکارا اور خونم خون بچی کو لیے دروازے سے اندر داخل ہوئ ۔ وہاں ایک اور حضرت نازل ہوگئے سفید وردی والے ۔
" خالہ جان کسے چیک کرانا ہے ؟
دل چاہا کہوں
" میاں تمہاری نظر چیک کرادوں پہلے ، بچی کا ہاتھ دکھائ نہیں دے رہا کیا ۔ "
کاونٹر پر طباق سے چہرے والا کھڑکنا ایک کان سے ماسک لٹکائے ننگے منہ بہو بیٹیوں بیٹوں بزرگوں کو تاڑ رہا تھا۔ کوئ کاونٹر کی طرف آتا تو جلدی سے ماسک کا دوسرا سرا " اوئ اللہ جی " کہہ کر دانتوں تلے دبالیتا ۔ ایک کان سے دوسرے کان تک پہنچنے میں ماسک قاصر نظر آرہا تھا ۔
خیر کسی طرح ننھی بچی کو ڈاکٹر صاحب تک پہنچایا ۔ زخم پر ٹانکے لگے ۔میاں صاحب فارمیسی ، ایمرجنسی، آپریشن تھیٹر کے درمیان ضرورتا" کم اور عادتا" زیادہ دوڑیں لگاتے رہے میں اس سارے وقت کونے میں دبکی تماشاء اہل کرم دیکھتی رہی ۔ ایک مچھڑ صاحب کو اپنی مونچھیں کرونا سے بچانا تھیں اس لیے ماسک صرف وہیں محدود تھا ۔ کئ حضرات ڈاڑھیوں کو پردہ کرائے تھے ۔ کلین شیو اپنی تھوڑیاں چھپائے تھے ۔ ہاں خواتیں نے چادروں کے اوپر ماسک لگا کر ڈبل بچت کررکھی تھی اچھا اس پردہ داری میں کچھ بیوٹی پارلرز کے لاک ڈاون کا غیبی ہاتھ بھی لگا ۔
سڑکیں خالی ہیں بازار اندھیرے میں ڈوبے ہیں ۔ عمارتوں پر سناٹا چھایا ہے ۔ سب کچھ وہیں ہے بس کرونا نے ہر طرف مٹر گشتیاں کرتے انسان لاک ڈاون کردیے ۔
تحریر: شاذیہ مفتی
کرونا میں مٹر گشت
٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں