جام ساقی آج کل تاریخ کا مطالعہ زور و شور سے کر رہے ہیں اور ہر ملنے والے شخص پر اپنی علمیت کی جھاڑ ضرور مارتے ہیں کئی نام ان کو یاد ہیں خاص طور پر ٹونی بی کا نام بہت لیتے ہیں۔ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے کہنے لگے یہ سالے انگریز تاریخ کے ادوار بنا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ہم نے سمجھایا بھائی آپ بھی تو انگریزوں کو ہی پڑھ رہے ہیں انہوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔ جام ساقی نے کہا کیا دور پتھر، لوہے اور تانبے کے ہوسکتے ہیں اور نہیں ہم نے انہیں سمجھایا کہ انہوں نے یہ تقسیم انسان کے آلات کے استعمال کے مطابق بنائی ہے۔ انہوں نے کہا یہ بالکل غلط تقسیم ہے انہوں نے آلات کو اہمیت دی ہے اور انسان کو بھول گئے ہیں۔ ہم نے چڑ کر جواب دیا کہ آپ اپنی تقسیم خود بنا لیں آپ کو انگریز نے روکا تو نہیں ہے۔ جھٹ جواب دیا لو بھائی ہم تو پہلے ہی اس پر کام کررہے ہیں ہم نے پوچھا کہاں کام کررہے ہیں تو جواب دیا بھائی ہم نے ذہن میں تقسیم بنا رکھی ہے جو کہ یوں ہے
عملی دور
پہلا دور عملی کہلاتا ہے اس دور میں بیوی کا تصور موجود نہ تھا مرد اور عورت کا جب بھی دل مائل ہوتا تھا وہ حاجت پوری کر لیتے تھے عشق، محبت وغیرہ کے تصورات موجود نہ تھے۔ انسان اپنی بقا کی جنگ لڑتا تھا اور قبائل کی صورت میں زندگی گزارتا تھا۔ اس دور میں کوئی بھی کام چور نہ تھا سارے انسان ہر وقت عمل میں رہتے تھے خوراک کی تلاش میں اور اپنی حفاظت کے لیے ان کی آنکھیں اور کان کھلے رہتے تھے اور معاشرے میں سب ایک سے تھے۔
تحریری دور
اس دور کی بینادی خصوصیت یہ تھی کہ بیوی کا وجود اس دور میں معرض وجود میں آیا اور مرد آج تک اس کے ظلم و ستم برداشت کررہا ہے۔ اسی دور میں مذہب بنے عورت کو پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا اسی دور میں محبت عشق کا تصور پیدا ہوا اور زبان کا چلن عام ہوا مختلف ہدایات دی جانے لگی۔ اسی دور میں کام چور لوگ بھی پیدا ہوئے جو کام کرنے والوں کے مالک کہلائے جن کو آج کی زبان میں ہم حکمران کہتے ہیں۔ اس دور میں ہمارے علاقے میں کام کرنے والے کو کمی کہنا شروع کیا گیا۔ اخلاقیات بنائی گئی دیکھیں کیسی اخلاقیات بنی کہ کام چور اعلی کہلائے کام کرنے والے نیچ اگر عملی دور ہوتا تو کام چور کب کا بھوک سے یا کسی جانور کے ہاتھوں مارا گیا ہوتا۔ اسی دور میں ادب تخلیق ہوا اور لوگوں کی تفریح کا باعث بنا۔
تصویری دور
تصویری دور کی بینادی خوبی یہ ہے بیوی کی جگہ آہستہ آہستہ گرلز فرینڈ نے لے لی ہے تحریر کی اہمیت کم ہورہی ہے اور تصویر کی زیادہ۔ اب ہر کام تصویر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس دور میں مہا کام چور پیدا ہوئے ہیں جو سارا دن سوشل میڈیا پر وقت گزار کر کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ اب تین قسم کے لوگ ہیں 1) مہا کام چور 2) حکمران 3) کمی
اس دور میں ادب کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ عورت پردے سے باہر سوشل میڈیا پر مل جاتی ہے۔ اب ہجر و وصل کا سرور اور کیف ختم ہو چکا ہے اس لیے محبت ہوتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے لیکن یہ کہنا کہاں تک درست ہوگا کہ وہ محبت تھی لیکن تحریری دور کی بقایات موجود ہیں اس لیے عشق محبت جیسے الفاظ استعمال ہورہے ہیں۔
نوٹ۔ یہ ادوار جام ساقی کے ذہنی اختراع ہیں ان کو تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے۔
عملی دور
پہلا دور عملی کہلاتا ہے اس دور میں بیوی کا تصور موجود نہ تھا مرد اور عورت کا جب بھی دل مائل ہوتا تھا وہ حاجت پوری کر لیتے تھے عشق، محبت وغیرہ کے تصورات موجود نہ تھے۔ انسان اپنی بقا کی جنگ لڑتا تھا اور قبائل کی صورت میں زندگی گزارتا تھا۔ اس دور میں کوئی بھی کام چور نہ تھا سارے انسان ہر وقت عمل میں رہتے تھے خوراک کی تلاش میں اور اپنی حفاظت کے لیے ان کی آنکھیں اور کان کھلے رہتے تھے اور معاشرے میں سب ایک سے تھے۔
تحریری دور
اس دور کی بینادی خصوصیت یہ تھی کہ بیوی کا وجود اس دور میں معرض وجود میں آیا اور مرد آج تک اس کے ظلم و ستم برداشت کررہا ہے۔ اسی دور میں مذہب بنے عورت کو پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا اسی دور میں محبت عشق کا تصور پیدا ہوا اور زبان کا چلن عام ہوا مختلف ہدایات دی جانے لگی۔ اسی دور میں کام چور لوگ بھی پیدا ہوئے جو کام کرنے والوں کے مالک کہلائے جن کو آج کی زبان میں ہم حکمران کہتے ہیں۔ اس دور میں ہمارے علاقے میں کام کرنے والے کو کمی کہنا شروع کیا گیا۔ اخلاقیات بنائی گئی دیکھیں کیسی اخلاقیات بنی کہ کام چور اعلی کہلائے کام کرنے والے نیچ اگر عملی دور ہوتا تو کام چور کب کا بھوک سے یا کسی جانور کے ہاتھوں مارا گیا ہوتا۔ اسی دور میں ادب تخلیق ہوا اور لوگوں کی تفریح کا باعث بنا۔
تصویری دور
تصویری دور کی بینادی خوبی یہ ہے بیوی کی جگہ آہستہ آہستہ گرلز فرینڈ نے لے لی ہے تحریر کی اہمیت کم ہورہی ہے اور تصویر کی زیادہ۔ اب ہر کام تصویر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس دور میں مہا کام چور پیدا ہوئے ہیں جو سارا دن سوشل میڈیا پر وقت گزار کر کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ اب تین قسم کے لوگ ہیں 1) مہا کام چور 2) حکمران 3) کمی
اس دور میں ادب کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ عورت پردے سے باہر سوشل میڈیا پر مل جاتی ہے۔ اب ہجر و وصل کا سرور اور کیف ختم ہو چکا ہے اس لیے محبت ہوتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے لیکن یہ کہنا کہاں تک درست ہوگا کہ وہ محبت تھی لیکن تحریری دور کی بقایات موجود ہیں اس لیے عشق محبت جیسے الفاظ استعمال ہورہے ہیں۔
نوٹ۔ یہ ادوار جام ساقی کے ذہنی اختراع ہیں ان کو تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد کلیم
٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں