11 اگست کی ڈائری-
ابر آلود صبح ، بوڑھا گالف کھیل کر نکلا ، تو آواز آئی ۔ " سلام علیکم سر "
مڑ کر دیکھا ،
تو ایک ، نامانوس شناسا چہرہ سفید بالوں کی اوٹ میں نظر آیا -
" وعلیکم السلام سر " -
جب نام بتایا تو ، بوڑھے کی یاداشت لوٹ آئی ۔ گرم جوشی سے گلے ملے ۔
ایک بہت ہی نوجوان , نوجوان آیا ، تعارف کروایا تو راجہ صاحب کا ہونہار بیٹا ۔
باپ بیٹا بھی گالف کھیل کر آرہے تھے ۔
" سر آپ کی گاڑی کا قصہ کیا ہوا ؟
خود بخود فرار کیوں ہوئی ؟"
ماجرہ
بتایا ، تو خوب انجوائے کیا اور ایسا اپنا بھی ایک واقعہ بتایا ، کہ ایک
رات اُن کے بھائی کی گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی جس نے چوکس کر دیا ۔
ریوالور کے فائر کے باوجود بھی گاڑی سٹارٹ ہونے کی کوشش کرتی رہی تو باہر نکل کر دیکھا ،
کہ وہ گاڑی بھی اپنے آپ تار شارٹ ہوجانے کی وجہ سے سٹارٹ ہو رہی تھی ۔
اور گذشتہ روز " رام پیاری " کے خود بخود سٹارٹ ہو کر " خٹک ھاؤس " میں گھسنے کی کوشش بھی اِسی سلسلے کی کڑی تھی ۔ مگر
بوڑھے
کے عین ھول سے 3 سینٹی میٹر دور گالف گرین پر بال جیسے دم توڑ دیتی ہے ۔
بالکل اسی طرح " رام پیاری " نے بھی دم توڑ کر بوڑھے کی عزت رکھ لی -
٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں