Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 8 اگست، 2020

شگفتگو- کلینک میں ۔ شاہد اشرف ڈاکٹر

"تم دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہو " اُس نے میری بات سنی , تھوڑا شرمائی, پھر گویا ہوئی واقعی, سچ کہتے ہو ؟ میں نے کبھی غور نہیں کیا ہے " "تمھارے میاں نے بھی تمھیں نہیں بتایا ہے" میں نے پوچھا. " "اُسے لٹھے کے کاروبار سے فرصت ہی نہیں ہے" اُس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا. ہوں! میں نے تھوڑا وقفہ لیا. چند لمحوں بعد اس کے چہرے پر اداسی چھا گئی. " لیکن حسینۂ عالم تو شلپا سیٹھی ہے " " تم مقابلے میں شامل نہیں ہو, وہاں تو صرف سو پچاس خواتین پہنچتی ہیں, اصل حسینۂ عالم تو لٹھے کے تھان میں بندھی رہتی ہے " میں نے جواب دیا تو وہ بولی " میرا میاں مجھے مقابلہ حسن میں جانے کی اجازت نہیں دے گا "
وہ حسن و حماقت کا بہترین امتزاج تھی. اسے دیکھ کر آدمی پریشان ہو سکتا تھا. میں چوں کہ دائیں بازو کا ادیب بھی ہوں, اس لیے صرف حیران ہونے پر اکتفا کیا. اُس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ میں شاعری بھی کرتا ہوں. اُس کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں. " آپ مجھ پر غزل لکھیں گے ؟" " نہیں " میں نے جواب دیا. " تو پھر آپ میری تعریف کیوں کر رہے ہیں ؟ " میں چپ رہا. اُس نے مکّیاں میرے کندھے پر مارتے ہوئے کہا " دس سال پہلے تم کہاں تھے ؟" میں نے دل میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے جواب دیا. " اّس ذات با برکت نے خاص فضل و کرم سے مجھے شرف ملاقات سے محروم رکھا ورنہ میں عاصی و گنہگار اسی شہر میں سکونت پذیر تھا " کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہ بولی " وقت کتنی تیزی سے گزر گیا ہے, میرے دو بچے ہیں , آپ کے ؟ " میرے تین بیں " اسی لمحے اُس نے دھماکہ کر دیا " کل ملاقات ہو سکتی ہے ؟ " چند لمحوں بعد میرے حواس بحال ہوئے تو میں نے کہا " کہاں ؟" " یہ تو ابھی سوچا نہیں ہے " مجھے تسلی ہوئی اور میں نے کہا " یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے, لوگوں کو پتا چل گیا تو کیا کہیں گے " وہ آہستہ آہستہ گنگنانے لگی .
لوگوں کا کیا ہے, کہنے دو, اُن کی اپنی مجبوری
اُس سے میری دوسری ملاقات تھی, پہلی کہاں ہوئی, مجھے بالکل یاد نہیں . البتہ اس کی جانب سے مکمل واقفیت کے تمام عملی شواہد موجود تھے. میں نے یہ بھی سوچا کہ وہ کسی اور کے دھوکے میں مجھے رسپونس دے رہی ہے مگر جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ میں ہی ہوں جو دس سال پہلے حادثاتی طور پر اس سے ٹکرا گیا تھا اور اب اُس کا خیال تھا کہ یہ حادثہ اچانک اور اتفاقی ہرگز نہیں تھا. میں اس کا مکمل ذمہ دار ہوں. اس ذمہ داری کا احساس ہوتے ہی میرے ذہن میں ایک کمینگی پروان چڑھنے لگی. دیکھیے! میں ایسا ہرگز نہیں ہوں. اُس کی بے تکلفی نے مجھے احساس دلایا کہ یہ کمینگی حد درجہ مناسب اور معقول قرار دی جا سکتی ہے. "کتنی عجیب بات ہے کہ دل ادل بدل گئے ہیں تو کچھ اشیا بھی بدل لیتے ہیں."  میں نے اسے بال پوائنٹ دے کر ہیر کلپ لے لیا. اُس نے مجھے رومال دیا تو میں نے ٹشو پیپر دے دیا. اُس کی قیمتی عینک زنانہ و مردانہ خطِ امتیاز کی وجہ سے محفوظ رہی. وہ سونے کی انگوٹھی اتارنا چاہتی تھی مگر میرے سٹیل کے رنگ کو حجاب آ گیا. کی رنگ کی تبدیلی خوش اسلوبی سے انجام پا گئی. میں نے کہا کہ چلو اب پرچی بھی بدل لیتے ہیں اُس نے بلا توقف مجھ سے پرچی لے کر اپنی پرچی مجھے تھما دی. کم و بیش پانچ منٹ بعد ری سپشن سے پندرہ نمبر کی آواز آئی. میں اُٹھ کر ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہو گیا. بچے کو دکھانے اور واپس آنے میں دس منٹ لگ گئے. وہ اپنی جگہ پر مطمئن و مسرور بیٹھی تھی. میں نے اسے مسکرا کر دیکھا , ہاتھ ہلایا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا. مجھے یقین ہے کہ ستائیسواں نمبر ایک گھنٹے بعد آ جائے گا اور اس دوران میں وہ مطمئن و مسرور رہے گی.


کلینک میں 
 شاہد اشرف ڈاکٹر
٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔