Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 18 دسمبر، 2014

پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی

  مارچ 1948 میں ڈھاکا ہوٹل کے ایک اجلاس میں جب بنگالی لیڈر نے انگلش میں سپاس نامہ پیش کیا تو کہا جاتا ہے کہ (مجیب الرحمان) سٹوڈنٹ لیڈر  نے نگالی بنگالی کا شور مچایا تو ۔ قائد اعظم نے کھڑے ہو کر کہا " پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی  " اِس جملے کو پاکستان مخالف قوتوں نے اچھالا ۔
یوں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بو دیا ۔
 بنگال جہاں ،ہندو لیگ (کانگریس ) کے مقابلے میں مسلم لیگ نے30دسمبر  1906 میں  ڈھاکہ میں  نوابوں کی گود میں نواب خواجہ سر سلیم اللہ خان کے محل میں  جنم لیا ،کیوں کہ اُنہوں نے ، 1905 میں بنگال کی تقسیم کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی ،  نواب وقار المک   ، آغا خان سوئم  ،اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین     سید امیر علی ،سید نبی اللہ  مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬   اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر انگلش بولنے والے  سر آغا خان كو چنا گیا۔مرکزی دفتر کے لئے ، مشرقی  بنگال  کے شہر ڈھاکہ کے بجائے   علی گڑھ کو چنا گیا  اور دوسرا دفتر لندن میں بنایا گیا۔
کیوں کہ اُس وقت مشرقی بنگال تعلیمی طور پر اتنا ترقی یافتہ نہ تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ  جمہوریت  کا پودا ، انسانی ووٹوں  کی آبیاری سے پروان چڑھتا ہے ، جس ملک کے عوام اپنے ووٹوں کا استعمال نہ کریں  تو اُن کے ووٹ رات کی تاریکی میں نکلنے والی چڑیلیں لے اُڑتی ہیں  ۔  اور پاکستان قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت  کے بعد  پاکستان پر اقتدار کی چڑیلیں منڈلاتی رہیں  اور زمین پر  لمبے دانتوں والے مگر مچھ  -
٭-   وزیر اعظم   لیاقت علی خان    ( 14 اگست 1947  تا 16  اکتوبر 1951 ) کی شہادت  کے بعد  ،سر خواجہ ناظم الدین   (17 اکتوبر  1951 تا    17 اپریل  1953) پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔
٭-   1954 میں جب   بنگالی وزیر اعظم صاحبزادہ محمد علی بوگرا   ( 17 اپریل 1953 تا 12 اگست 1955 ) نے گورنر جنرل ملک  غلام محمدکی دعوت پر نئی وزارت تشکیل دی تو اس میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بھی شامل کیا گیا۔ یوں جنرل ایوب خان پاکستان کے وزیر دفاع بن گئے۔
٭- وزیر اعظم   چوہدری محمد علی  (12 اگست  1955 تا 12 ستمبر  1956 )  کے بعد حسین شہید سُہروردی ( 12 ستمبر  1956  تا 17 اکتوبر 1957 ) وزیر اعظم رہے ۔ پھر ابراھیم اسماعیل چندریگر ( 17 اکتوبر 1957  تا   16 دسمبر 1957 ) وزیر اعظم رہے ۔ پھر سر فیروز خان نون (  16 دسمبر 1957 تا 7 اکتوبر 1958 )  پاکستان کے وزیر اعظم رہے ۔
اُس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان سے وزراءِ  اعظم کی بساط لپیٹ دی جو ایک دلچسپ کہانی ہے ، اور مزے کی بات یہ وزیر اعظم سنا ہے   کہ سلیکٹ تو بذریعہ ووٹ ، ممبر اسمبلی ہوئے تھے ، لیکن  بطور وزیر اعظم نامزد ( گورنرجنرل   یعنی صدر ) نے کئے ۔
حسین شہید سُہروردی ( 12 ستمبر  1956  تا 17 اکتوبر 1957 )  کو ہٹانے کے بعد ۔ مشرقی بنگال میں ، سٹوڈنٹ لیڈرز نے اِس زیادتی پر خوب احتجاج کیا ۔ اور بالآخر اگرتلہ سازش کیس میں سٹوڈنٹ لیڈرز گرفتار کر لئے گئے شیخ مجیب الرحمان علیحدگی پسندوں کا لیڈر بنا اور وہ جملہ ۔   "پاکستان کا قومی زبان اردو ہوگی  "، نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں زبان کا مسئلے بنایا اور  مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بویا ۔ وہ  اگرتلہ سازش کیس   تناور درخت بننا شروع ہو چکا تھا ۔ حامد میر نے اُس وقت جنم نہیں لیا تھا لیکن اُس کے والدوارث میر  نے ایوبی و پاکستان مخالف قوتوں کا ساتھ دیا ۔ جس پر حسینہ واجد نے  2013 میں اُسے بعد از مرگ  بنگلہ دیشی ایوارڈ دیا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭-کیا پاکستان انگریز نے بنایا تھا ؟ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔