حیات کو آپ کسی معنوں ، مفہوم یا تصور میں لیں ، "موت" اس کا مخالف عمل ہے ۔
انسان
کو جب حیات ملتی ہے ، تو اُس کی موت بھی ہوتی ہے ۔
انسان
کو اپنے اچھے عمل کی وجہ سے جو حیات ملتی ہے اور برے اعمال سے اُسی حیات کی موت
ہوتی ہے۔
قوموں
کو آفاقی سچائیوں پر عمل اور افعال کرنے سے جو حیات ملتی ہے ۔ انہیں آفاقی سچائیوں
پر عمل اور افعال نہ کرنے سے اُن کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
ایک
بیج کو جب زمین میں ڈالا جاتا ہے ، تو وہ حیات کے عمل سے گذرتا ہوا ایک پودے کی
شکل اختیار کرتا ہے اور جب وہ اپنی اجل مسمیٰ پوری کرتا ہے تو وہ پودا یا درخت موت
کی طرف سفر کرتا ہے ، اور وادیء موت میں چلا جاتا ہے ، لیکن اُس کے بیج حالت نوم
میں ہوتے ہیں ، جن بیجوں کو اللہ نے واپس بھیجنے کا ارادہ کیا ہوتا ہے وہ واپس ،
نوم سے حیات میں آتے ہیں ۔
اور
جن بیجوں کو دوبارہ حیات نہیں ملنی ، وہ انسان اور جانوروں ، حشرات الارض ، پرندوں
، جل کر حیات و ممات کے چکر سے نکل جاتا ہے
بشر
کی حیات اور ممات ، بشری زندگی سے منسلک ہے ، اور بشر کے خالق کے مطابق ، اُس ممات
کے بعد بھی اُس کے دوبارہ حیات کا
پروگرام ملیامیٹ نہیں ہوتا ، خواہ وہ آگ میں جل
جائے یا فضا میں پھٹ کر بکھر جائے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں