Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 18 دسمبر، 2014

معصوم دھشت گرد

ٰ   روسو افغان جنگ  کی دوسری نسل آج سے 34 سال کے عرصے یعنی 1980میں جوانی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے، کلاشنکوف سے راکٹ لانچر کا وزن اٹھانے اور ان کے مہلک خیز اسلحے کو نشانے پر مارنے کے قابل ہو چکی تھی۔اور خاص طور پر جب اُن کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ کافر، غاصبوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے مسجدوں اور ہجروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہو  پھر انہوں نے اپنی ماؤں کو  افغان جنگ میں باپ کے مارے جانے کے بعد کسمپرسی کے عالم میں زمانے کے حالات سے نبر و آزما دیکھا ہو۔ یہ دوسری نسل پہلی نسل سے زیادہ جذبہ ء جنگ والی تھی، پہلی نسل نے اپنے مقصد کو پانے کے لئے لوگوں کو خریدنا شروع کیا۔ ہر امریکی نقصان پر امریکی ڈالروں کی تقسیم اور بے تحاشا تقسیم، جس نے قلعہ الموت کے بے شمار حسن بن سباؤں کو جنم لیا۔
اِن حسن بن سباؤں کے پیروکاروں نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، ملک میں موجود مدرسوں کا رخ کرنا شروع کیا اور ڈالر کے بدلے فدایوں کی خرید شروع ہوگئی، جیب سے ڈالر جاتے سب کو برے لگتے ہیں، جب اُن بے وقوف لوگوں کی جیبوں میں جائیں جنہیں استعمال کرنے کا سلیقہ نہ آتا ہو۔ چنانچہ، ملک میں گھروں سے بھاگ کر پھرنے والے بے تحاشہ تعداد میں دستیاب مال سے فائدہ اُٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا، پیار، محبت۔ دھونس و دھمکی اور لالچ سے دوسری نسل کے ساتھی تلاش کئے گئے۔ جب یہ لوگ تربیت گاہوں میں پہنچے تو انہیں، تربیت نے دوآتشہ کر دیا اور انہیں ظالم معاشرے سے انتقام لینے کی تربیت دی گئی، یہ انتقام اور جذبہ شہادت سے لبریز لڑکپن سے جوانی کی طرف جانے والے، اپنے جسموں پر بارود باندھے، انسانی ہجوم میں چیتھڑوں کی صورت میں بکھر گئے اور اُن کی روحوں کو اُن کے ”استادوں“ کے مطابق حوریں اٹھا کر سیدھا جنت میں لے گئیں۔ تربیت گاہ سے اُن کے ساتھ نکلنے والے مگر آدھے راستے سے لوٹ آنے والے، پہلی یا دوسری رات سو کر اُٹھنے کے بعد، خوابوں میں ُ ان زمین پر بکھرنے والوں کو آسمان میں حوروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتے، بالکل ایسے ہی جیسے 1965کی جنگ میں لوگوں نے، ہرے لباس میں گھوڑوں پر سوار، سرزمین ِ حجاز سے چل کر لاہور پہنچنے والوں کو، لاہوریوں سے واہگہ یا سیالکوٹ کی سمت پوچھتے دیکھا، شاید لاہور پہنچ کر اُن کی سمت بتانے کی قوت جواب دے جاتی یا اُن کا مقناطیسی کمپاس جواب دے جاتا۔

    امریکی شایدیہ بھول گئے کہ غلطیاں بانجھ نہیں ہوتی وہ بچے جنتی چلے جاتی ہیں۔ روس کے خلاف، امریکیوں کا پاکستانیوں اور خاص طور پر مغربی پہاڑوں میں رہنے والے باسیوں کو جہاد کا سبق دینا اِن کی ایسی غلطی تھی کہ جس کے بچے چنتے چنتے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ بھی تھک چکا ہے۔ امریکیوں نے اپنے عظیم پلان کو کامیاب کرنے کے لئے 9/11سے بہت پہلے  ایک اور پلان شروع کیا تھا۔
1990 کا ذکر ہے۔شہید صلاح الدین مدیر تکبیر نے ایک مضمون شائع کیا جس میں
مستقبل کی اسماعیلی ریاست  کے مکمل پلان کے متعلق تفصیلاً اعداد و شمار کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔۔ 1993 میں سیاچین جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ مدیر تکبیر کا اندازا کچھ غلط نہ تھا۔گلگت اور بلتستان صوبے میں اسماعیلیوں نے  ہر آبادی  میں ہسپتال اور سکول تعمیر کر دیئے۔ اُن علاقوں میں رہنے والے مذہب کے اتنے نزدیک تھے جتنا سورج اُن سے گرمیوں میں چند دن کے لئے نزدیک ہوتا ہے۔ اسماعیلیوں نے سب سے پہلے وہاں فری ہسپتال کھولے، انگریز مشنریوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ پھر سکول کھول کر وہاں ایسی تعلیم کا آغاز کیا جو پاکستان میں اعلیٰ درجے کے مقابلے میں تھی، جس کے لئے بے تحاشا انگریز بوڑھے اُن علاقوں میں آنے لگے۔ اس کے علاوہ، اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زمین خریدنے پر پابندی لگانے والوں نے شاہرہ ریشم کے ساتھ ساتھ آباد علاقوں میں زمین خرید کر گھر بنانے شروع کر دئے۔ اُس کے بعد اِن لوگوں نے اپنے پاؤں اسلام آباد میں پھیلانے شروع کر دئیے  تھے ، مستقبل میں آنے والے سیلاب کا پانی  ٹخنوں  سے گذر کر کمر تک پہنچ گیا  ہے، جب یہ گردن تک پہنچے گا تو پھر،ہمارے پلاننگ کرنے والوں کو ہوش آئے گا، لیکن اُس وقت اِن کی تیسری نسل دشت گردی کے تیسرے سفر کے لئے تیار ہورہی ہے ۔ کیوں کےافغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں آنے والے  بے خانماں برباد لوگوں کی دوسری نسل پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر، پاکستانیوں کے ہجوم میں کھو چکی ہے ۔ 
لیکن جب اِس قوم کو کوئی خطرہ ہو تو یہ ایک دم کھمبیوں کی طرح اچھل کر اُگتے ہیں اور مخالفوں کے خلاف صف آرا ء ہوجاتے ہیں۔
اور افغانستان سے آنے والے دھشت گردوں کی پوری مدد کرتے ہیں -
جنگی تاریخ میں سب سے مشکل اور ناقابلِ فیصلہ جنگ ، شہری علاقوں  کی جنگ ہوتی ہے جس میں دشمن کی پہچان ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہوتی ہے ۔  اس تصویر میں دکھائے ہوئے  معصوم بچے  اگر کوڑے کے تھیلے میں بارود چھپا کر نکلیں تو  کون انہیں دشت گرد وں کا سامان  لے جانے والا کہے گا  ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔