Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 22 دسمبر، 2014

دسبمر 16 کا تاریک دن

مسلمانوں کی طرف سے پشاور میں  ایک سکول پر   16  دسمبر  کے  تاریک  دن  کئے جانے والے حملے  نے پوری انسانی دنیا  کو ششدر کرکے رنج و الم کی ایسی وادی میں دھکیل دیا ، جہاں  صرف تاریکیوں کا راج ہے اور ظلم و ستم  کی  آماجگاہ ہے  ۔
  141 بچے  ، اس دنیا سے اُس دنیا چلے گئے ، ماؤں کی گود میں سونے والے  قبر کی ٹھنڈی زمین پر اُس وقت تک ابدی نیند سونے کے لئے چلے گئے ۔ جب خالقِ کائینات سورج کو ڈھانپ کر اس زمین کو سرد ترین بنا دے گا ۔
غیر اسلامی دنیا  ،  اِس تاریک دن کی سیاہی ماضی کی کالک میں ملا کر  ، مسلمانوں کے منہ پر مل رہی ہے ۔
اسلامی دنیا ، اِس سیاہی کو پختہ ہونے سے بچانے کے لئے ،  قرآن کی وہ آیات لا رہے ہیں جس میں امن پسندی اور بھائی چارے کے فروغ  کا درس ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ
جس نے ایک انسان کو بچایا اُس ے پوری انسایت کو بچایا
متشدد اسلامی دنیا انسانی قتل پر اپنی کامیابی   کا جشن منا رہی ہے  اور مرنے والوں کے لواحقین کو حوروں کی سبھا میں راجہ اندر بننے کی نوید سنا رہی ہے  ۔  
سوشل میڈیا پر ، سب اپنے  اپنے پائینچے  اوپر چڑھائے ،اِس تالاب کی تہہ سے مختلف  وڈیو ، پوسٹ ، بیانات اور فضولیات   نکال کر بھیج رہے  ہیں ۔ قتل ہونے والے بھی شہید اور پھانسی لگنے والے بھی شہید ۔  یقیناً شہیدوں کی اِن وافر درآمد و برآمد پر کاتبانِ کتاب بھی پریشان ہیں  اور محتسب کا وہی حال ہے  کہ
کس نے پی ،کس نے نہ پی ،کس کس کے ہاتھ میں جام تھا -
جس طرح امریکہ نے   9 ستمبر کو  کہا تھا ، " کون ہمارے ساتھ ہے ؟" تو سب نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے ۔
اِسی طرح پاکستانی سپہ سالار کی للکار پر" کون ہمارے ساتھ ہے ؟"  پر منافقین کی گھگھیاہٹ صاف سنائی دینے لگی ،
" طالبان ہمارا اثاثہ ہیں "
" طالبان ہماری جان ہیں "
" طالبان ہمارے بچے ہیں "
" طالبان ہمارا دل ہیں ، جگر ہیں ، پھیپھڑا ہیں  "
کہنے والے ، بھی کالے کپڑے اتار کر ، سبز پیرہن پہنے پھر رہے ہیں، جن پر پشاور کے معصوموں کے خون کے سرخ چھینٹے چمک رہے ہیں  ۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔