کل شام کو میرے چھوٹے بیٹے
کے ساس اور سسر کرنل مشتاق ملنے آئے ۔ میں
فوجی جیکٹ میں استر لگا کر " فلی لوڈڈ " حالت میں بیٹھا تھا ۔ صوفے پر
بیگم رضائی اوڑھے لاونج میں ٹی وی دیکھ رہی تھیں ۔ گیس کا ہیٹر میرے پیروں کے پاس
پڑا ، دھڑک رہا تھا ۔وہ بیٹھتے ہی کہنے لگے ،
"گیس اتنی کم آرہی ہے
؟ ، ہارے ہاں تو پریشر ٹھیک ہے "
" سردیوں میں سب ہیٹر جلاتے ہیں ، اس
وجہ سے کم ہے " ہم نے جواب دیا ۔
" ایک تو ہم پائپ لائن
کے آخر میں ہیں دوسرے لوگوں نے ، گیس
جنریٹر بھی لگوائے ہوئے ہیں ۔ "
" مین پائپ لائن ، تو ہمارے پاس سے گذر رہی ہے " کرنل صاحب نے جواب
دیا ۔
" لاہور میں ایک آلہ ملتا ہے جو گیس لائن پر لگانے سے گیس کا پریشر تیز ہو جاتا ہے " انہوں نے
معلومات دی ۔
" لیکن یار ، یہ تو غیر
قانونی ہے !" ہم نے جواب دیا ۔
" سر جی ! غیر قانونی
تو گیس جنریٹر بھی ہیں ۔ لیکن وہ بھی لگے ہوئے ہیں اور گیس کے محکمے کے علم میں ہے " انہوں نے جواب دیا ۔
میں نے ہنس کر کہا ، " کرنل صاحب ،
سردی لگ رہی ہو تو گرم کپڑے پہن لو اور گرمی لگ رہی ہے تو کپڑے اتار دو
، موسم ٹھیک ہوجاتا ہے ۔"
" کشمیریوں کا یاد ہے ، کہ ایک چھوٹے سے
ڈبے میں لکڑیاں جلا کر اپنے ، کوٹ کے اندر رکھ کر گرمی کا مزہ لیتے ہیں ۔
اُسی طرح یہ دھڑکتا ہوا ہیٹر پیروں پر
لگنے والی گرمی پو پورے جسم میں پھیلا رہا ہے "
پھر موضوع تبدیل ہوگیا ۔ پشاور کا سانحہ اور حکومتی رِٹ گھریلو اور بین الاقومی معاملات پر سیر حاصل
بحث رہی ۔ دونوں سمدھنوں کا دلچسپ موضوع
، اولاد کی اولاد تھا یا کھانا پکانے کی ترکیبیں ۔
آج " بزرگوارانِ اردو
بلاگر ز" میں سے ایک ، یعنی محترم نجیب عالم کی پوسٹ
، " ماں پلوانوں کی بدمعاشیاں " پڑھا ، انہوں نے بھی اُسی آلے کا تعارف کروایا جو پائپ میں سے گیس کھینچ کر گھر والوں کو
خوش رکھتا ہے ۔ یہ پڑھتے ہی دماغ نے ماضی میں چھلانگ لگا دی ۔
اور میری آج کی ایک پوسٹ
کا رابطہ آپس میں جُڑ گیا ۔
فیس بک کی ونڈو میسج پر گذشتہ
رات ، کوئی سترپیغامات پر تھے ۔ جن میں سے پندرہ پیغامات ، جواب دینے کے قابل تھے اور باقی 45
لاہور کے شاہی قلعے ، کراچی کی
نپئیر روڈ ، کوئٹہ کا سوج گنج بازار
، راولپنڈی کی لالکرتی ، بھاولپور کا
حمائیتیاں ، اور پشاور کا ڈب گری سے منسلک
محلوں میں رہنے والوں کی اولاد اور اُن کی اولاد جو ضیاء الحق کی مہربانیوں سے شرفاء کی گیوں میں پھیل
چکی ہے اور اب وہ سیاسی اور مذھبی جماعتوں
میں شامل ہونے والوں کے تھے ۔ جو میری کل کی طالبان کے اور عمران خان کے خلاف کے
جواب میں تھے ۔میں نے پڑھنے کے بعد ڈیلیٹ کر دیئے ۔
ایک پیغام ، نوجوان منصور
احمد کا تھا ، جس نے پوچھا ،
" قرآن سُود کے متعلق کیا فرماتا ہے ۔ کیوں کہ میں ایک کمپنی میں کیشیئر ہوں
"
میں نے جواب دیا ، "
پریشان نہ ہوں اور اپنا کام جاری رکھیں ۔" اور یہ پوسٹ فیس بک پر ڈال دی ۔
اوپر سے مضمون ، " ماں پلوانوں کی بدمعاشیاں " کا یہ پیرا ۔
دوکانداروں سے جب یہ سوال
کیا گیا کہ ایسا آلہ لگانا ممنوع اور جرم نہیں ہے کیا ؟ اور کیا آپ لوگوں نے اس کے
فروخت کی سوئی ناردن گیس والوں سے اجازت لی ہوئی ہے تو ایک حاجی صاحب شیطانی سی
ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگے۔۔۔او باؤ جی کیہڑیاں گلاں کردے او ۔۔سارے نال ہی ہوندے
نے ( باؤ جی کونسی باتیں کرتے ہو ۔۔سارے ساتھ ہی ہوتے ہیں ) ۔
اِس آلے کی ایجاد بالکل ویسی ہے ہے ۔ جیسی پانی
کی" روح کھِچ " موٹروں کی تھی ۔
غریب محلے والے گھر گھر میں موٹریں لگ جانے سے ، کمیٹی کے میٹھے پانی سے محروم
ہوگئے تھے ۔ 1978 کی بات ہے چھٹی سے واپس گھر آئے ، سامان وغیرہ رکھ کر غسل کیا ، پانی نہ میں گیا
تو کھارا سا لگا حیران ہوئے کہ ، کمیٹی
والوں نے سمندر کا پانی سپلائی کرنا شروع کر دیا ہے ۔ نہا کر نکلے والدہ محترمہ سے پوچھا ،
" امی کیا اب واٹر سپلائی
والوں نے کھارا پانی سپلائی کرنا شروع کر دیا ہے
؟"
" نہیں نمّو ، واٹر سپلائی کا پانی بہت کم آتا ہے یا نہیں آتا
، تمھارے والد نے زمین میں بور کروا
کر پانی کا بندو بست کیا ہے " والدہ (اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اونچا مقام
دے ) نے بتایا ۔
" تو پینے کا پانی کہاں سے آتا ہے ؟
" ہم نے پوچھا ۔
" بھائی ، وہ آپ کا دوست ہے نا ، فقیرا
اُس کا بھائی گدھاگاڑی پر ٹینکی کا
پانی دے جاتا ہے " سب سے چھوٹی بہن
نے معلومات دیں -
یہ سول علاقے میں "
منرل واٹر" سپلائی کرنے کی کئی کمپنیوں میں سے ایک تھی ، ماشکی بھی اِنہی
" خدمات " کے موجد تھے ۔
خیر ہم نے حیران ہو کر پوچھا
، " امی آپ تو کونسلر ہیں اور آپ کے ہاں پینے کے پانی کی قلّت ؟"
" ارے بیٹے ، جب لوگوں نے پانی کی پائپوں میں موٹریں لگا لی ہوں ، تو کونسلر کیا
کرسکتا ہے ؟ " انہوں نے جواب دیا
" بھائی ، امین بھائی
نے ابّا کو بھی موٹر لگوانے کا کہا تھا
مگر ابّا نے دانٹ کر منع کر دیا " چھوٹی بہن نے گلہ کیا
" کیوں ؟ " ہم نے
سوال کیا ۔
" چپ کر " امی نے چھوٹی کو ڈانٹا ،
" تمھیں پینے کو میٹھا پانی مل رہا ہے نا
، تو شکایت کیسی ؟ "
" امی پانی صرف پینے کو چاھئیے کیا ؟ ، کپڑے دھوتی ہوں تو صابن کے جھاگ نہیں بنتے، نہاؤ تو صابن نہیں اترتا
" چھوٹی نے دل کا غبار انڈیلا ۔
" سو بار کہا ہے کہ پانی
ابال لیا کر ، مگر سستی کاکیا علاج ؟
" والدہ نے اپنی تجویز ایک سو ایک
بار دھرائی ۔
" لیکن امی ، موٹر
لگانے میں کیا حرج ہے ؟ " ہم نے پوچھا ۔
" توبہ توبہ ، اب کیا ہم حرام کھائیں گے
؟ " امی نے جواب دیا
" امی حرام کیسا ؟ کیا دوسروں نے موٹریں نہیں لگوئی ہوئی ہیں ، وہ سب حرام
کھا رہے ہیں ؟ " چھوٹی نے غصے میں کہا ۔
" تو دوسروں کی قبر میں جائے گی کیا ؟ " امی نے
چلاتے ہوئے کہا ، " روز کپڑے مت دھو ، ماسی آتی ہے وہ دھو دیا کرے گی
اور برقعے میں کون کپڑے دیکھتا ہے ؟"
چھوٹی کالج میں پڑھتی
تھی اور نیشنل کیڈٹ کور بھی جائن کر رکھی
تھی ، اُس کا غصہ بجا تھا ۔ ہم نے امی کی
گود میں سر رکھ کر لیٹتے ہوئے پوچھا،
" امی یہ حرام کھانے کا کیا معاملہ
ہے ؟ "
" نمّوں ، وہ معلوم ہے
نا ، کہ سب بیٹھ کر کھا رہے ہوں ، تمھارے سامنے والی بوٹی اچھی نہ ہو اور دوسرے کے
سامنے والی بوٹی اچھی ہو اور وہ تم کھینچ کر کھا لو تو اِس
بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ حرام ہوجاتا ہے " والدہ نے
نرم اور میٹھی آواز میں یاد دلایا ۔
" لیکن امی ، وہ تو کھانے کے بارے میں ہے ، پانی کے بارے میں نہیں " ہم
نے جواب دیا ۔
" بیٹے ، نبی پاک ﷺ کا
یہ حکم ہر ایسی چیز پر لگے گا جس پر
تمھارا حق نہیں اور تم اُس سے پوچھے بغیر لے لو اور استعمال کرو ۔ دیکھ یہ میٹھا
پانی سب کے لئے آتا ہے ، تالاب میں پانی زیادہ ہوگا ، تو وہ زیادہ سپلائی کریں گے
اور اگر کم ہو گا تو کم سپلائی کریں گے ، اگر وہ ہمارے لئے ایک بالٹی پانی سپلائی کریں اور ہم موٹر لگا کر ایک اور
بالٹی نکال لیں ، تو ہم نے دوسرے انسانوں کا حق مارا ، اُس دوسری بالٹی
نے نہ صرف پہلی بالٹی کو بلکہ ہماری ساری چیزیں جن میں وہ
پانی لگے گا حرا م کرتا جائے گا "
شکریہ نجیب عالم بھائی شکریہ
'