Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 8 فروری، 2014

مراقبہ-دماغ اور ذہن -6

قدرت نے ہر انسان کو ایک جیسا دماغ  (ھارڈ دئر) دیا ہے۔ وزن میں شائد چند گرام کا فرق ہو۔ دماغ میں اگر آپ ڈاس کا سافٹ وئر ڈال کر سوچیں کہ یہ  تمام ونڈوز ایپلیکیشنز کو چلائے، ممکن نہیں۔ جیسی ایپلیکیشن سافٹ وئر آپ ڈالیں گے ویسا ہی کام ہو گا۔ 
ہم فی الحال، سکول کی تعلیم کو ایک طرف ڈالتے ہیں، یوں سمجھیں کہ ہم پتھر کے دور میں ہیں، نہ تختی ہے اور نہ قلم، لیکن انسانی معاشرہ موجود ہے۔ دماغ میں بننے والا ذہن بھی موجود ہے  اور ہر بچے کے لئے حالات  جوں کے توں ہیں، یعنی بچہ صبح اٹھا، ماں کی گود سے بھاگا اور باقی بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا، اُس کے حواسِ خمسہ میں سے سمع (سننا) اور بصر (دیکھنا)  ذہن کو بڑھا رہے ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ جانور کو مارا جانے والا پتھر اُسے نہیں لگتا، یا وہ بھاگتے ہوئے چھلانگ مار کر گڑھا عبور کرتا ہے یا تیز رفتاری سے دوڑ کر دور نکل جاتا ہے، وہ بھی یہی عمل کر کے تعلیم اُمّ حاصل کرتا ہوا،اُمّی بنتا ہے۔ کوئی بچہ جاہل نہیں ہوتا۔ جاہل وہ ہوتا ہے کہ جو حاصل کردہ تعلیم کا صحیح استعمال نہیں کرتا۔ یہی تعلیم اِس علاقے کے سب بچے حاصل کر رہے ہیں۔
 ایک ماں دیکھتی ہے کہ اُس کا بچہ پوری قوت سے جانور کی طرف پتھر نہیں پھینک رہا۔ کیوں ؟ جب وہ بچے کے نزدیک جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کابچے کا پھینکا ہوا پتھر، بچے کی طاقت سے وزنی ہے۔ وہ مناسب سا پتھر اُٹھا کر بچے کو دیتی ہے۔ کہ اِسے پھینکو، بچہ وہ پتھر پھینکتا ہے تو وہ دور جاتا ہے۔ اب بچے کو ایک علم ملا۔ جسے عموماً گھریلو علم کہا جاتا ہے۔ لیکن جو دراصل ، اُم  (ماں)کی طرف سے دیا گیا اُمّی (مادری) علم ہے۔  اب بچے کا ذہن تعمیر ہوگا  وہ مختلف جسامت  کے پتھر اُٹھا کر پھینکے گا اور فاصلے کا اندازہ کرے گا۔
بعض دفعہ انسانی جسم  ایسے کارنامے انجام دیتا ہے جو اُسے  باقی انسانی جسموں سے ممتاز کرتا ہے۔ لیکن یہ کارنامے ذہن کی بدولت ہوتے ہیں جس سے وہ انہونی کو ہونی بنا دیتا ہے، جبکہ وہ دوسروں کے لئے انجام دینا، انہونی رہتی ہے۔
 یاد رہے کہ شعور اور تحت الشعور، خالق کائنات کا انعام، اِسے بادی النظر میں ہم آئس برگ (سمندر میں تیرتے ہوئے برفانی تودے) سے سمجھاتے ہیں۔  آئس برگ  کا جتنا بھی سائز ہو نسبتاً اُس کا تھوڑا سا حصہ باہر ہوتا ہے۔ اگر ہم پورے   آئس برگ  کو دماغ سمجھیں  تو ہمیں اِس سے شعور اور تحت الشعور سمجھانے میں آسانی ہوگی۔ آئس برگ کا جو حصہ سطح سمندر سے اوپر نظر آتا ہے وہ شعور ہے اور جو زیرِ آب ہے وہ  تحت الشعور ہے۔ 

یہاں لا شعور کے متعلق ایک غلط فہمی دور کرنا چاہوں گا۔جسے اَن کانشیئس نیس کہا جاتا ہے۔ اِس انسانی حالت میں اُس کا مکمل جسم بے حس و حرکت ہوتا ہے۔ یہ نیند کی حالت نہیں ہوتی لیکن اُس کے تقدیری افعال کام کر رہے ہوتے ہیں، وہ، سمع، شامعہ، لامسہ حسیات کے پیغامات دماغ میں محفوظ کر رہا ہوتا ہے۔ بصراور ذائقہ حسیات بالکل لا تعلق ہوتی ہے لیکن لا شعور سے شعور میں آنے کے بعد وہ لاشعوری حالت میں اُس کے جسم پر ہونے والے افعال اور اعمال کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔ کیوں یہ سب اُس کے تحت الشعور میں جمع ہوتے ہیں۔ اور اِن معلومات کو حاصل کرنے کے لئے شعور کا تحت الشعور سے رابطہ نہیں ہوتا۔ اِس رابطے کو عام فہم میں یاداشت کہا جاتا ہے۔
یاداشت، تحت الشعور سے شعور میں معلومات  لانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ کمپیوٹر میں اسے پروسیسنگ سپیڈ کہتے ہیں۔ کمپیوٹر میں تو پروسیسر کی سپیڈ بڑھا کر ھارڈ ڈسک سے آؤٹ پٹ ڈیوائسز میں  معلومات لائی جاتی ہیں، جبکہ انسان کو اتنی ہی تیزی دکھانے کے لئے یاداشت کی رفتار بڑھانی پڑتی ہے، کیسے؟ 
پڑھا ہوا سبق دھرا کر، مشقوں کی تعداد بڑھانے سے۔ جیسے دماغ (تقدیر) اور ذہن(تدبیر) کا آپس میں گہرا تعلق ہے اسی طرح یاداشت اور ذھانت (عمل) لازم و ملزوم ہیں۔


یاداشت (شعور اور تحت الشعور کا رابطہ) گم  تو ذھانت ختم، ذھانت ختم  تو شعور غائب، شعور غائب تو تدبر کاجہالت میں بدل-

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا مضمون :
 7 - دماغ، ذہن اورجسم

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پہلا مضمون :
 5 - مراقبہ: انسانی ذہن کا ارتقائی عمل

 دیگر


زندگی کا فن- سائنسی حقیقت -1

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

2 تبصرے:

  1. ایک سوال : Usman Ali Yadasht kis trh zahant ka asl ho skti hy? yadasht say muraad hafiza e ho ga

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یاداشت ، تحت الشعور اور شعور کے درمیان ایک رابطہ ہوتی ہے ۔ جو وقت کے ساتھ کمزور ہوتا جاتا ہے ۔ لیکن اگر اِس رابطے کو اگر صحیح استعمال کیا جائے تو کہتے ہیں ، کہ حافظہ بہت تیز ہے ۔
      جیسے ایک حافظ ، قرآن کی تلاوت کرتا ہے ۔
      لیکن جب اؐسی حافظ کو ہم ، مختلف الفاظ دے کر قرءت کا کہتے ہیں تو وہ آسانی سے نہیں کر سکتا ۔ لیکن
      عثمان علی صاحب جواب یہاں اِس لئے دے رہا ہوں تاکہ سب پڑھ سکیں ۔ شکریہ ۔

      اگر ہم جب حفاظ کا مقابلہء حفاظ کرواتے ہیں ۔ تو وہ متماثل آیات ہونے کے باوجود ، تین یا چار لفظ سن کر، اپنی ذھانت کی بدولت ، فوراً صحیح تلاوت کرنا شروع کر دیتا ہے - گویا یاداشت کا حتمی تعلق دماغ کی انالیٹیکل اپروچ سے ہے ۔
      بہترین یاداشت والے بچے ، ہی ذھانت کے مقابلے ، اِس لئے جیتتے ہیں کہ وہ دماغ میں موجود تمام معلومات کو ، تحت الشعور سے ، شعور میں لے آتے ہیں۔
      ذھانت اور یاداشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔

      حذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔