Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 29 جون، 2018

کے پی کی نرسری کی پہلی پود !


ہمارانظامِ تعلیم اتنا شاندار ہو گیا ہے۔
 ، کہ پرائیویٹ سکولوں سے   ہزاروں طالبعلم گورنمنٹ سکولوں میں مائیگریٹ کر رہے ہیں ۔ عمران خان

پیر، 25 جون، 2018

آم پر مفصل و دلچسپ تحریر

آم دنیا کے چند پسندیدہ پھلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا آبائی وطن جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا ہے۔ لیکن یہ دنیا کے تمام استوائی علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس کا گودا کھایا جاتا ہے۔برصغیر میں اس پھل کی خوب پیداوار ہے، اسی لیے اسے بھارت اور پاکستان کا قومی پھل مانا جاتا ہے۔
پاکستان میں مئی جون کا مہینہ موسم گرما کے گرم ترین مہینے ہوتے ہیں ۔ اگر اس شدید گرم تپتے موسم میں اگر کوئ احساس تازگی و خوشگواری پیدا کرتا ہے تو وہ پھلوں کے بادشاہ آم کی آمد ہے جس کے زرد رنگ اور ذائقے کے سامنے دیگر تمام پھلوں کے رنگ پیلے پڑ جاتے ہیں۔ بازار میں طرح طرح کے رنگ برنگے آم اپنی بہار دکھلانے لگتے ہیں۔ 

  آم ایک ایسا پھل ہے جونہ صرف کھانے میں بےحد لذیذ اور خوش ذائقہ ہے ۔۔۔ہرعمر کا بندہ اسے شوق سے کھاتا ہے۔۔۔بلکہ یہ واحد پھل ہے جس سے بننے والی ڈشز بھی بے شماربھی ہیں اور ہر ذائقہ کی بھی ہیں میٹھی‘ نمکین اور ترش تینوں ذائقوں کی ڈشز اس سے تیار کی جا سکتی ہیں۔۔۔اس پھل کو یہ منفرداعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا اچار بنایا جاتا ہے۔۔۔گویا یہ پھل پکنے سے پہلے ہی مرغوب ہے۔
آم کی بھرپور رُت سے پہلے ہی کچے چھوٹے آم یا کیری اکٹھی کر لی جاتی تھی۔ گھر کی خواتین اہتمام سے چٹنی اور اچار کی تیاری کرتی تھیں۔ سفید مٹی کے مرتبان یا چکنی ہنڈیوں میں اچار ڈالا جاتا تھا۔
 مصالحہ جات کی صفائی ستھرائی میں سارا گھر مشغول رہتا تھا۔ سرسوں کے خالص تیل کا اہتمام کیا جاتا اور اس بات کا بطور خاص دھیان رکھا جاتا تھا کہ آم کے اچار میں پانی کی چھینٹ نہ پڑے۔ساون کے موسم میں تازہ آموں کا ڈالا جانے والا اچار آنے والے سرد و گرم ایام میں اپنا چٹخارے دار ذائقہ بہتر سے بہتر کرتا جاتا تھا۔ آم کی چٹنی ، آم پاپڑ اور امچور موسم کی بہترین سوغات ہوتے تھے۔

بھارت اور پاکستان میں کچے آم کا اچار بڑے ذوق و شوق سے ڈالا جاتا ہے۔ یہ اچار بڑے بڑے مرتبانوں میں ڈالا جاتا ہے جسے پورا سال استعمال کیا جاتا ہے۔ آج بھی گائوں دیہات کے لوگ کوئ سالن ترکاری میسر نہ ہونے پر اچار کی پھانک روٹی پر رکھ کر مزے سے کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ شدید گرمیوں میں ذرا گندم کی گرم روٹی پر تازہ مکھن یا دیسی گھی چپڑ کر اس کے ساتھ آم کے اچار کی پھانک اور پیاز کی ڈلی کے ساتھ چھاچھ کے گھونٹ لیجئے۔ مرغ اور متنجن اس کے سامنے ہیچ ہیں۔

امبوا کی ڈالی میں جھولا۔
ڈھائی ہزار برس سے ساون، انبوا کا پیڑ، پیڑ پہ جھولا اور جھولے میں پینگیں بھرتی ناریاں پیڑھی در پیڑھی ہمارے ساتھ ساتھ ہیں۔ ایک دور تھا جب ساون کا جھولوں، جامن اور آم کے پھل سے گہرا تعلق تھا۔جمعرات کی جھڑی لگتی تو آذانیں دے کر اس سے جان چھڑائی جاتی تھی۔ بچے بوڑھے مرد اور عورتیں طرح طرح کے پکوان تیار کرتے اور تانگوں میں سامان لاد کر دریا یا تاریخی مقامات پر تفریح کا اہتمام کرتے تھے۔ سخت گرمی کے موسم میں جب مشرق سے کالی اُودی گھٹائیں آسمان پر چھا جاتیں تو آم کے پیڑ پر چھپی کوئل مست ہو کر کُوکنے لگتی اور لڑکیاں بالیاں دیوانہ وار بارش میں نہانے اور جھولےجھولنے نکل پڑتیں۔ آم کے درخت میں جھولے ڈال کر لمبی لمبی پینگیں بھری جاتیں۔ لونڈے لپاڑے بھی جی بھر کے مستیاں کرتے۔ برسات میں نہاتی لڑکیاں بالیاں اور کچی پکی امبیوں پر جب رِم جھم پانی برستا تو وہ دُھل دُھلا کر مزید نِکھر کر دعوت نظارہ دینے لگتیں۔ ایسے میں لونڈے اور لونڈیاں اپنی اپنی پسند کی امبیوں کو دیکھ کر للچاتے اور ان کے ذائقے کے تصور سے آنکھیں میچ کر چٹخارے بھرتے۔ جیسا کہ آجکل نیشنل آم کے اچار کے اشتہار میں چٹخارے بھرتے دکھایا جاتا ہے۔

آم کی تاریخ:
لفظ آم دراصل سنسکرت کے لفظ اَمر سے ماخوذ ہے۔ سنسکرت ادب میں یہ آمر کے نام سے مذکور ہے اور 4000 سال سے موجود ہے۔ انگریزی میں مینگو بھارتی تامل کے لفظ منگائی سے آیا۔ اصل میں پرتگالیوں نے تامل سے لے کر اس کو منگا کہنا شروع کیا، جہاں سے انگریزوں میں پہنچ کر یہ لفظ مینگو بن گیا۔
‎چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں برِصغیر سے آم نے بودھ بھکشوؤں کے ہمراہ جنوب مشرقی ایشیا ہجرت کی اور برما، تھائی لینڈ، چین سے ہوتا انڈونیشیا اور فلپائن تک پہنچ گیا۔
فلپائن کا آم کاراباؤ اس قدر شیریں ہے کہ گنیز بک میں جگہ پا چکا ہے ۔ پندھرویں اور سولہویں صدی کے بیچ فلپائن سے ہسپانوی جہازی آم کی گٹھلی میکسیکو لے گئے۔
‎یوں بحرالکاہل کے آر پار منیلا سے فلوریڈا اور ویسٹ انڈیز تک ہر ہسپانوی نوآبادی میں آم عام ہو گیا اور پھر بحراقیانوس عبور کرتا اسپین (غرناطہ و جزائرکینری) اور پرتگال تک جا پہنچا۔ مالابار کے ساحل سے پرتگیزی اور عرب جہازوں میں آم کا پودا مشرقی افریقہ تک جا پہنچا۔ ابنِ بطوطہ نے مانگا (آم کا پرتگیزی نام) صومالیہ کے شہر موگا دیشو میں مزے لے لے کے کھایا اور تذکرہ بھی کیا۔
ہندو مذہب میں آم اپنے ہر دور میں پتے سے لے کے چھاؤں تک کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ آم اور اس کے درخت سے منسلک بہت ساری کہانیاں ہیں۔ بھارتی رزمیوں رامائن اور مہابھارت میں بھی آم کا ذکر ہے۔
آم کے درخت کا کئی جگہ كلپ وركش یعنی ہر خواہش پوری کرنے والے پیڑ کے طور پر ذکر ملتا ہے۔
اس درخت کے سائے کے علاوہ اس سے بہت سے مذہبی عقیدے بھی منسلک ہیں جیسے رادھا کرشن کے رقص، شیو اور پاروتی کی شادی وغیرہ۔
بھارت کے پہلے نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کو بھی آم بہت پسند تھے اور انھوں نے آم پر ایک نظم لکھی ہے۔
غالب اور آم
عظیم اردو شاعر غالب کی آم کی رغبت سے کون واقف نہیں۔ آم کے بارے میں مرزا غالب اور ان کے ایک دوست کا واقعہ بہت مشہور ہے۔
غالب کے دوست نے دیکھا کہ ایک گدھا آم کے ڈھیر تک گیا اور سونگھ کر واپس آ گیا۔
دوست نے کہا، ’دیکھا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔‘
غالب کا جواب تھا، ’بالکل، صرف گدھے ہی آم نہیں کھاتے۔‘
(غالب کے ایک خط سے اقتباس)​
آم مجھ کو بہت مرغوب ہیں۔ انگور سے کم عزیز نہیں۔ مالدے کا آم یہاں پیوندی اور ولایتی کرکے مشہور ہے، اچھا ہوتا ہے۔ یہاں دیسی آم انواع و اقسام کے بہت پاکیزہ، لذیذ،خوشبو افراط سے ہیں۔ پیوندی آم بھی بہت ہیں۔ رام پور سے نواب صاحب اپنے باغ کے آموں سے اکثر بسبیلِ ارمغان بھیجتے رہتے ہیں۔
شیخ محسن الدین مرحوم سے بطریقِ تمنا کہا گیا تھا کہ جی یوں چاہتا ہے کہ برسات میں مارہرہ جاؤں اور دل کھول کر اور اور پیٹ بھر کر آم کھاؤں۔ اب وہ دل کہاں سے لاؤں، طاقت کہاں سے پاؤں، آموں کی طرف نہ رغبت، نہ معدے میں اتنی گنجائش، نہار منہ میں آم نہ کھاتا تھا۔ کھانے کے بعد بھی آم نہ کھاتا تھا۔ رات کو کچھ کھاتا ہی نہیں جو کہوں: بین العشائین۔۔۔۔۔ ہاں آخرِ روز بعد ہضمِ معدی آم کھانے بیٹھ جاتا ہوں۔ بے تکلف عرض کرتا ہوں۔ اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دَم پیٹ میں نہ سماتا تھا، اب بھی اسی وقت کھاتا ہوں مگر دس بارہ۔ اگر پیوندی آم بڑے ہوئے تو پانچ سات۔

صوفی شاعر امیر خسرو نے فارسی شاعری میں آم کی خوب تعریف کی تھی اور اسے فخر گلشن کہا تھا۔
سنہ 632 سے 645 عیسوی کے دوران ہندوستان آنے والا سیاح ہوانسانگ پہلا آدمی تھا جس نے ہندوستان کے باہر کے لوگوں سے آم کا تعارف کرایا تھا۔
آم اور مغل

آم کی صحیح قدردانی مغلوں نے کی۔آم تمام مغل بادشاہوں کا پسندیدہ پھل تھا۔ اس فصل کو فروغ دینے ان کی کوششیں شامل تھیں اور بھارت کی زیادہ تر تیار قلمی قسموں کا سہرا انھی کے سر جاتا ہے۔
.پھلوں کا بادشاہ آم بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ کوئی پانچ ہزار سال سے یہ انسان کا من پسند پھل ہے‘ لیکن یہ پیڑ تخمی ہوا کرتے تھے۔ 
مغلوں نے پیوند کاری سے اس میں قلم لگانے کو رواج دیا اور مغلیہ باغات قلمی آم کے پیڑوں سے سج گئے۔ کہا جاتا ہے کہ تخمی پیڑ میں قلم سب سے پہلے تیمور لنگ نے لگائی تھی اور اس کی نگہداشت تیمور کی بڑی بہو ’’اولجائی‘‘ نے کی تھی۔ چنانچہ قلمی آم میں آج بھی ’’تیمور لنگ‘‘ باقی ہے اور اس کی ایک اور شکل ’’لنگڑا‘‘ پسندیدہ آموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 

 
 اکبر اعظم (1556-1605 ء) نے بہار کے دربھنگہ میں ایک لاکھ آم کے درختوں کا باغ لگوایا تھا۔
آئین اکبری (1509) میں بھی آم کی قسموں اور ان کی خصوصیات کی تفاصیل موجود ہیں۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں بھی لال قلعے میں آم کا باغ تھا، جس کا نام تھا حیات بخش تھا اور اس میں بعض مخصوص آم کے درخت تھے۔
آم اور ہندو مذہب
سنسکرت ادب میں آم کا ذکر الوکک یعنی غیر مرئی محبت کی علامت کے طور پر ہے۔
گنیش اور بھگوان شیو سے منسلک ایک اور دلچسپ واقعہ ہے۔ شیو اور پاروتی کو برہما کے بیٹے نارد نے ایک سنہرا پھل دیا تھا اور کہا تھا کہ اسے صرف ایک شخص ہی کھائے۔
اب دونوں بیٹوں میں کسے یہ پھل دیا جائے، اس پر شیو اور پاروتی یہ شرط رکھتے ہیں کہ جو سب سے پہلے کائنات کے تین چکر لگا کر آئے گا اسے یہ پھل دیا جائے گا۔
گنیش نے اپنے ماں باپ کے تین چکر لگائے اور یہ کہتے ہوئے اپنے بھائی کارتک سے پہلے پہنچ گئے کہ: میرے لیے میرے ماں باپ ہی کائنات ہیں۔
آج کے زمانے میں ریاست بہار کے بھاگلپور ضلع کے دھرہرا گاؤں میں 200 سالوں سے ایک روایت چلی آ رہی ہے، جس کے مطابق، لڑکی پیدا ہونے پر اہل خانہ کو دس آم کے درخت لگانے ہوتے ہیں۔
شادیوں میں آم کے پتے لٹکائے جاتے ہیں۔ اس رسم سے سمجھا جاتا ہے کہ نئے جوڑے کے زیادہ بچے ہوں گے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب جب آم کی ڈالی میں نئے پتے آتے ہیں، تب لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کو ولادت کی اطلاع دینے کے لیے دروازوں کو آم کے پتوں سے سجایا جاتا ہے۔
بھارت میں کپڑوں، تعمیرات اور زیوارت کے ڈیزائنوں میں کیری اور امبيا کے نمونے عام ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں آموں کی 1500 سے زیادہ قسمیں ہیں جن میں 1000 قسمیں ہندوستان میں تیار ہوئی ہیں۔
آم اور نواب
آم اور امرائیوں کا شوق حیدرآباد دکن میں نواب اور امراء کو خوب رہا۔ حیدرآباد بھی اس سلسلے میں لکھنؤ‘ فیض آباد اور ملیح آباد سے پیچھے نہیں تھا۔ نوابین پائیگاہ میں وقار الامراء جن کے نام سے وقار آباد موسوم ہے اور شمس الامراء جن کے نام سے شمس آباد موسوم ہے‘ ان دونوں امراء نے اپنی اپنی امرائیوں میں طرح طرح کے قلم لگائے تھے اور نئے قلم کو خزانہ ہی کی طرح حفاظت میں رکھا جاتا کہ اگر کسی اور نواب کے باغ میں یہ قلم لگ گیا تو گویا ناک ہی کٹ گئی۔حیدرآباد کے خوش ذوق نوابوں نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے قلمی پودے منگوائے اور پھر ان کو اور اقسام سے میل دے کر ہمہ رنگی اور ہمہ ذائقہ آم پیدا کئے۔ ان کی اقسام اور نام تو بہت ہیں‘وقت کی گرد نے میرے حافظہ پر بھی چادر سی ڈال دی ہے۔ جو آم‘ نام اور ذائقے یاد رہ گئے وہ تیمور لنگ‘ حسن آراء‘ آب حیات‘ دسہری‘ چوسا‘ لکھنوی‘ اکھلوی‘ لنگڑا‘ نیلم‘ رومانی‘ سراولی‘ بیگن پلی‘ فضلی‘ زرد آلو‘ آٹری‘ مال خورد‘ کیسر‘ راجہ پوری‘ جمعدار‘ بے نشان‘ ملغوبہ‘ جومال گوا کی صورتگری ہے‘ راس پوری‘ بادامی‘ عالم پوری بے نشان‘ حمایت‘ جہانگیر‘ بتوہ‘ سکی‘ من پسند‘ اعظم پسند‘ سفیدہ‘ رس پونیا‘ متوا‘ تیموریہ‘ شربتی‘ گلاس‘ نورس‘ رس گولہ‘ شکر گٹھلی‘ طوطا پری‘ راتول‘ منجیرہ‘ امر پالی‘ لاکھا باغ‘ لیلی مجنوں‘ فجری کلاں‘ گلاب خاص ہیں۔۔ان آموں کے علاوہ سمستان ونپرتی‘ رانی صاحبہ نے ایک اور شاخ لگائی اور اس کا نام ’’سورن ریکھا‘‘ رکھا۔ ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد اب تو صرف ’’چنا رسال‘‘ اور ’’پدا رسال‘‘ کا بولا بالا ہے۔ جن کو گلدان اور اگالدان کا فرق معلوم نہیں وہ آم کے رنگ‘ خوشبو اور مٹھاس میں کیا فرق کرپاتے اور انھیں زعفران کی کیا قدر معلوم ہوتی۔


چند مشہور آموں کی وجہ تسمیہ
الفانسو:
بھارت کا سب سے مشہور اور مہنگا آم الفانسو دراصل ایک پرتگالی جنرل فونسو ڈی البےکرکیو Afonso de Albuquerque کے نام پر رکھا گیا تھا۔

 
 پرتگالی وہ پہلے یورپین تھے جنہوں نے انڈیا میں اپنی کالونیاں قائم کیں۔پرتگالیوں نے مقامی تخمی آموں کی گرافٹنگ کر ے مزید بہتر قلمی آموں کی ورائٹی متعارف کروائ جن میں الفانسو سر فہرست ہے۔ جلد ی اس کی شہرت انڈیا سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئ۔
لنگڑا آم کا نام
  انڈیا اور پاکستان کا لنگڑا آم بھی اپنی خوشبو اور ذائقے کے لئے بڑا مشہور ہے۔ لنگڑا آم کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے انڈیا کے ماہر نباتات حاجی کلیم اللہ خان پدما شری بتاتے ہیں کہ آج سے ڈھائ تین سو سال پہلے بھارت کے شہر بنارس موجودہ واراناسی میں ایک لنگڑا کسان آموں کا بڑا شوقین تھا۔ وہ مختلف آم کھا کر ان کی گٹھلیں اپنے گھر کے باہر میدان میں بودیا کرتا۔ ان درختو ں کہ بہترین افزائش کرتا اور یوں اس کے باغ سے طرح طرح کے آموں کی پیداوار ہوتی۔ انہی درختوں میں سے ایک درخت کے آم خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے بڑا مقبول ہوا۔ یہ کسان اپنے یار دوستوں میں لنگڑا کے نام سے مشہور تھا۔ جب اس کے آم کی شہرت آس پاس کے علاقوں میں پھیلی تو لوگ اس آم کو بھی لنگڑا کہنے لگے اور یوں کچھ ہی عرصے میں لنگڑا آم پورے بھارت میں مشہور ہوگیا۔
کسانوں نے اس کو بہت ذوق و شوق سے لگانا شروع کیا اور سارے انڈیا بشمول موجودہ پاکستان میں اس کی کاشت کی جانے لگی۔
لنگڑا آم سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ منسوب ہے۔ الہ باد سے اکبر الہ آبادی نے ڈاکٹر اقبال کو لنگڑے آموں کا ایک پارسل بھیجا۔ اقبال نے آموں کے بخیریت پہنچنے پر رسید بھیجی اور شکریہ بھی ۔ اکبر کو الہ باد سے لاہور تک بحفاظت آم پہنچنے پرکافی تعجب ہوا ، کم از کم اس زمانے میں ایسے پارسلوں کا اتنا بڑا سفر اور وہ بھی بخیریت معجزہ ہی تھا ۔۔ اکبر نے ڈاکٹر اقبال کے خط کا جواب لکھا اور اپنے تعجب کا اظہار اس شعر سے کیا۔
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا

اسی طرح ایک بار جب علامہ بیمار ہوئے تو اطباء نے آپ کو میٹھا چھوڑ دینے کو کہا یہاں تک کہ آموں کا بھی پرہیز لکھ دیا۔ جب آم بھی کھانے سے منع کردیا گیا تو آپ بہت مضطرب ہوئے اور بولے کہ ’’آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مر جانا بہتر ہے‘‘۔ جب آپ کا اصرار زیادہ بڑھ گیا تو حکیم نابینا نے آپ کو روزانہ ایک آم کھانے کی اجازت دے دی۔ آپ علی بخش کو تاکید فرماتے تھے کہ بازار میں جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہی خرید کر لانا۔ مولانا عبدالمجید سالک اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ
’’میں ایک دن عیادت کے لئے علامہ صاحب کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے سامنے ایک سیر کا ’’بمبئی آم‘‘ رکھا ہے اور آپ اسے کاٹنے کے لئے چھڑی اٹھا رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ آپ نے پھر بد پرہیزی شروع کر دی، فرمانے لگے، حکیم نابینا نے دن میں ایک آم کھانے کی اجازت دے دی ہے اور یہ آم بہرحال ایک ہی تو ہے۔‘‘

 
انوررٹول
انور رٹول آم کی قسم کی جائے پیدائش کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان میں ہمیشہ بحث رہی ہے ـ اسی بحث پر ہندوستانی میڈیا میں مختلف مضامین بھی شائع ہوئے ہیں.
رتاول یا رتول ( RATAUL) دراصل بھارتی صوبے اتر پردیش کا ایک قصبہ ہے۔ اترپردیش کے ضلع بھاگپت، تحصیل کھیکڑا کے،  گاؤں رتاول کا رہائشی انورالحق 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ملتان ہجرت کرکے آئے جو اپنے ساتھ رٹول کے بیج بھی لائے جہاں پھر ملتان میں اسکی کاشت کی جو بعد ازاں انور رٹول کے نام سے مشہور ہوا ـ بھارت میں یہ آم رٹول کہلاتا ہے۔ 
 
 انو رٹول کے حوالے سے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اکثر پاکستانی سربراہ مملکت ہندوستانی سربراہوں کو انور رٹول تحفے کے دور پر دیتے رہے ہیں جبکہ سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال تب ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے 1981 میں ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کو تحفے کے طور پر انور رٹول آم بھیجے جس کے بعد اندرا گاندھی نے باقاعدہ اس آم کے حوالے سے بریفنگ لی کہ یہ آم ہندوستانی آم ہے یا پاکستانی ہے جبکہ اترپردیش کے رٹول گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ جو آم جنرل ضیاء الحق نے آپ کو تحفے میں دیے ہیں وہ اصلی رٹول نہیں ہیں ـ اصلی رٹول تو ہندوستان میں ہیں ـ اور باقاعدہ اس گروپ نے اندرا گاندھی کو تفصیلی بریف کیا کہ یہ آم اترپردیش کے رٹول گاؤں کا کیسے ہے ـ
مشہور زمانہ خبر جس کے مطابق کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف نے وزیر اعظم مودی کو آم کی پیٹیاں بھیجیں تب بھی ان پیٹیوں میں انور رٹول آم تھے ـ
یہ بات واضح ہے کہ انور رٹول کو رٹول اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اسکا بیج اترپردیش کے گاؤں رٹول سے آیا جبکہ پاکستان یہ آم انور کی مدد سے آیا اور پہلی کاشت انور الحق نے ملتان میں کی اس لیے پاکستان میں اسکا نام انور رٹول پڑ گیا ـ
 
بھارت میں یہ آم انور رتاول کہلاتا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد سے اس کی کاشت صرف پاکستانی علاقوں میں ہی رہ گئ اور یہاں یہ انوررٹول کے نام سے خوب پھل پھول رہا ہے۔

لال بادشاہ: شان خدا: عظیموں دا امب (The Sensation Mango (variety Florida
ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں فوریڈا سے لائ گئ ورائٹی سنسیشن بھی متعارف کروائ گئی ہے۔ اس آم کی خاصیت اس کو گہرا جامنی مائل سرخ رنگ ہے۔ مقامی طور پر اس کو شان خدا اور لال بادشاہ کا نام دیا گیا ہے اور اسی نام سے یہ نرسریوں میں دستیاب ہے۔ اس آم کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس وقت پک کر تیار ہوتا ہے جب دوسرے مقامی آموں کا سیزن اختتام پر ہوتا ہے۔ اس طرح اب آپ مقامی آم ختم ہونے کے بعد اگلے دو ماہ لال بادشاہ کی سنسیشن سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہ گھروں میں بھی باآسانی اگایا جاسکتا ہے اور اکثر لوگوں نے اس کو گھر میں ہی لگایا ہوا ہے۔
اُچ شریف کا شاہکار:
اسے مقامی طور پر "عظیموں دا امب" کہا جاتا ہے​
اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دسمبر جنوری میں پکتا ہے، اور مزید خاص بات یہ ہے کہ یہ درخت سے اترنے کے بعد چاہے ایک سال بھی رکھ دیں خراب نہیں ہوگا​-
 
پاکستانی آم اور سندھڑی
پاکستانی آموں کی مشہور اقسام میں سندھڑی، نیلم، چونسا، انور رٹول، دوسہری، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ، زعفران، لنگڑا، سرولی، اور دیسی آم شامل ہیں۔ جن میں سندھڑی آم اپنی مٹھاس‘ خوشبو‘ وزن اور ذائقے کے اعتبار سے آموں کا شہنشاہ کہلاتا ہے۔ سندھڑی آم کی تاریخ ایک سو سال پرانی ہے۔ جس کی ابتدا 1909ءمیں ہوئی۔ جب انڈیا کے شہر مدراس سے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سندھڑی آم کے چار عدد پودے منگوا کر دو پودے سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد اور سابقہ ضلع ناظمہ ڈاکٹر صغریٰ جونیجو کے دادا جناب دین محمد جونیجو کو دیے، دو پودے زمیندار صمد کاجھیلو کو دیے۔ جس کے بعد اس آم کا نام سندھڑی رکھا گیا۔ کاچھیلو فارم کے آم آج بھی انتہائی مقبول ہیں۔

پورا سال آم دینے والا درخت:
تحقیقی اداروں و کاشتکاروں کی دلچسپی کا اندازہ اس بات س بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور مقامی مینگو فارم کے مالکان جن میں محمد عمر بھیگو، حاجی خیر محمد بھرگڑی و عبدالغفور لاشاری نے آموں کے کچھ ایسے درخت کاشت کیے ہیں جو سال میں دو سے تین بار فصل دیں گی، جس کے بعد آئندہ چند برسوں میں اِنشاء اللہ پورے سال آم دستیاب ہو گا ان آموں کی اقسام کو صدا بہار، بارہ ماہی، مہران، بھرگڑی اور سرخ طوطا پری کے نام دیے گئے ہیں۔

قلمی اور تخمی
آم کی دو اقسام ہوتی ہیں جنہیں قلمی اور دوسرے کو دیسی کہا جاتا ہے-قلمی آم مختلف اقسام کے آموں کی پیوندکاری اور قلموں کی مدد سے اگایا جاتا ہے جبکہ تخمی یا دیسی آم گٹھلی کی مدد سے۔ تخمی آم عام طور پر چوس کر کھایا جاتا ہے - جبکہ قلمی آم قاشیں کاٹ کر کھایا جاتا ہے۔
 تخمی آم چوسنے کا لطف اس وقت آتا ہے جب گھر خاندان کے تمام افراد یا یار دوست یخ بستہ پانی کے ٹب یا بالٹی میں تخمی آم ڈبو کر اس ے اروں طرف بیٹھ کر آم پر آم چوستے ہیں۔ تخمی آم عام طور پر درخت پر ہی پک جاتا ہے لیکن قلمی آم جب تیار ہوجاتا ہے تو اس کو قدرے کچی حالت میں اتار کر پرانے اخباری کاغذوں میں لپیٹ کر چوبی پیٹیوں میں کچھ دنوں کے لئے ہوا بند جگہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔اس عمل کو پال لگانا کہا جاتا ہے۔ کچھ دنوں میں یہ آم پک کر بہترین خوشبو اور ذائقے کے حامل ہوجاتے ہیں ۔
 آجکل لالچی باغبان و کسان کچے آم کو وقت سے پہلے ہی توڑ کر اس کی پال لگا دیتے ہیں ۔ اس کچے آم کو جلدی پکانے کے لئے کیلشئم کاربائیڈ نامی کیمیکل کے پیکٹ پیٹیوں میں رکھ دئے جاتے ہیں۔ جس سے آم کی شکل و صورت تو پکے ہوئے آم جیسی ہوجاتی ہے لیکن بے ذائقہ ہوتا ہے۔
یہ کیمیکل انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ بھارت میں اس کے استعمال پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اگر فوڈ ڈپارٹمنٹ کو ایسے آم مل جائیں تو وہ ان تمام آموں کو تلف کردیتا ہے۔ لیکن پاکستان میں آم کے تاجر دھڑلے سے یہ استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
 

آم کی مختلف اقسام
قلمی آموں میں بھورا، سندھڑی، کالا سندھڑی، بنیگن پھلی، دوسہری، الفانسو، ثمر، بہشت، طوطا ہری، سبز، انور رٹول، چونسہ، دل آرام، سرولی، ثریا، پونی، حبشی سرولی، لنگڑا، دوسی ولین، کلکٹر، سورانیکا، بادام، نیلم، بھرگڑی، سفید الماس، زہرہ، شا سندر، سیاہ مائل، زعفران، جبل پوری، جاگیردار شہنشاہ، انمول اور دیگر شامل ہیں۔ جب کہ دیسی آم میں پتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور سندوری وغیرہ شامل ہیں۔
دُسہری” لمبوتر، چِھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چِمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقےدار اور شیریں ہوتا ہے۔

جب کہ “سِندھڑی” کا سائز بڑا، چِھلکا زرد، چکنا باریک گودے کیساتھ ہوتا ہے، گودا شیریں، رس دار اور گُٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔
دوسری جانب “چونسے” کا ذائقہ تو اپنی مثال آپ ہے یہ آم کی لاجواب قسم ہے جو دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے چونسا کا چھلکا درمیانی موٹائی والا مُلائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبو دار اور شیریں ہوتا ہے۔ اِس کی گُٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔

سب سے مقبول “انور رٹول” کا سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چِھلکا چِکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے، گودا بے ریشہ، ٹھوس، سُرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رَس درمیانہ ہوتا ہے۔


۔ لنگڑا مختلف سائز کا ہوتا ہے، اس کا چِھلکا چِکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چِمٹا ہوتا ہے، گودا سُرخی مائل زرد، مُلائم، شیریں، رَس دار ہوتا ہے۔،
“الماس” جس کی شکل گول ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چِھلکا زردی مائل سُرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا مُلائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے، گولا شکل و صورت میں بھی گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ، چِھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔

مالدا سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے، مگر گُٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ سہارنی سائز میں درمیانہ اور ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔
آم وہ واحد پھل ہے جس سے کچی اور پکی حالت میں بے شمار ڈشز تیار کی جاتی ہیں جن میں گڑمبا، لونجی، آم قلیہ، آم آئسکریم، اور دیگر بے شمار سوئیٹ ڈشز شامل ہیں۔

کچے آم سے تیار کردہ شربت جس کو پنا کہا جاتا ہے لو اور گرمی کا بہترین علاج ہے۔ کچے آم کو چھیل کر اس کی باریک باریک پھانکیں سکھا لی جاتی ہیں جسے امچور کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آم کے رس سے بڑی لذیز مٹھائ امرس بھی تیار کی جاتی ہے۔ آم کے اسکواش اور ملک شیک بھی انتہائ مقبول ہیں۔
آم اور سیاست
ادب سے باہر نکلیں تو سیاست کے میدان میں بھی آموں کا بڑا ذکر ملتا ہے۔ ہمارے یہاں تو آموں کا سیاست سے اتنا تعلق ہے کہ پاکستان ہی دنیا بھر میں ’’مینگو ڈپلومیسی‘‘ کا بانی و موجد ہے۔ مقامی سیاست میں جن آموں کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ مرحوم صدر جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں رکھے جانے والے آم تھے، جن کے ساتھ بم فٹ کیا گیا تھا۔ مرحوم صدر کو یہی آم کھانے کا تحفہ لے ڈوبا۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں آم بطور تحفہ دینے کی ریت مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کی شروع کی ہوئی ہے۔ آپ اپنے جاننے والے صحافیوں کو ہر سال گرمیوں میں آم کی پیٹی بطور تحفہ بھجوایا کرتے تھے۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر زرداری نے بھی آم تحفہ دینے میں بہت نام کما رکھا ہے۔ گیلانی صاحب گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی آموں کے ذریعے سفارت کاری میں مشغول ہوجاتے اور اسلام آباد میں موجود تمام سفارت کاروں کو آموں کے دو دو کاٹن بھجواتے۔ اپنے دور صدارت میں سابق صدر زرداری نے اپنی سیاسی مخالفین میاں برادران اور عمران خان سمیت بہت سے صحافیوں، اینکرز، سیاستدانوں اور اہم شخصیات کو آموں کا تحفہ بھجوایا تھا حتیٰ کہ جب جاپان نے پاکستانی آمد کی درآمد پر پابندی عائد کی تو صدر زرداری نے جاپانی وزیر اور جاپان کے شہنشاہ کو بھی آموں کا تحفہ بھیجا جس کے بعد جاپان نے عارضی طور پر پاکستانی آم پر سے پابندی ہٹا لی تھی۔
جولائی 2010ء میں امریکی سیکرٹری اسٹیٹ ’ہیلری کلنٹن‘ نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو یہاں پر انہیں آم بھی پیش کیے گئے جس کے بعد سے وہ بھی پاکستان کے خوش ذائقہ آم کی معترف ہوگئیں۔ اپنے ایجنڈے سے ہٹ کر انہوں نے پاکستانی آموں کی امریکا کی منڈیوں تک رسائی کے لئے ذاتی کاوشیں پیش کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی اور اس حوالے سے عملی کام بھی کیا۔ جس کے بعد پاکستانی پھلوں کی امریکا و یورپ برآمدگی میں بہت آسانی ہوئی۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنی مینگو ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو رام کرنا چاہا مگر وہ شاید لا علم تھے کہ آم کی کل پیداوار کا تقریباً 5.86 فیصد آم پاکستان میں پیدا ہوتا ہے اور آم کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ بھارت دنیا میں آم کی کاشت کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اور وہاں تقریباً سالانہ 2 کروڑ ٹن آم پیدا کیا جاتا ہے۔
بابائے جمہوریت نوازادہ نصراللہ خان جب تک حیات رہے باقاعدگی سے سیاستدانوں اور صحافی حضرات کے علاوہ معروف بیوروکریٹس کو آموں کی پیٹیاں بطور تحفہ بھیجتے تھے۔ آج بھی سندھ اور جنوبی پنجاب کے سیاستدان اپنے چہیتے صحافیوں اور بیوروکریٹس کو انواع و اقسام کے آموں کی پیٹیاں بھیجتے ہیں۔
صدر زرداری بھی بڑی پابندی سے پسندیدہ صحافیوں کو آم بھجواتے ہیں جن یں مشہور کالم نگار عبدالقادر حسن سرفہرست ہیں۔زرداری صاحب کی طرف سے انھیں آموں کی اتنی پیٹیاں موصول ہوئی ہیں کہ خود ان کے لفظوں میں ’’زرداری صاحب نے تو میرے گھر میں آموں کا ڈھیر لگا دیا۔‘‘ایک زمانہ ایسا آیا کہ پنجاب کی گورنری پر ملتان کی ایک شخصیت مامور ہوئی۔ پھر ایسا ہوا کہ آموں کی فصل آنے پر ان کے باغ کے آم اخباروں کے دفتروں میں بھی پہنچے۔

آم کے فوائد
آم قلمی ہو یا تخمی بہر صورت پکا ہوا لینا چاہیے۔ یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور جلد جزو بدن ہوتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا میٹھا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح آم کی گرمی اور خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) استعمال نہیں کرتے ان کے منہ میں عام طور پر چھالے ہو جانے یا جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ آم کے بعد کچی لسی استعمال کرنے سے وزن بھی بڑھتا ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدے ، مثانے اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگر کے لئے مفید ہے۔ آم میں نشاستے دار اجزا ہوتے ہیں جن سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت با فراغت ہوتی ہے۔ اپنی مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا ہے۔ ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین “الف “اور حیاتین “ج ” تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ کچا آم بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لو کے اثرات سے بچاتا ہے البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو ان کو یہ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ آم تمام عمر کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہے۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں ان کے لئے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ اسے حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے ، یوں بچے خوب صورت ہوں گے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ، اگر آم استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشاستائی اجزا کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل، دماغ اور جگر کیساتھ ساتھ سینے اور پھیپھڑوں کے لئے بھی مفید ہے البتہ آم کا استعمال خالی پیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ انہیں آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہئیں ، جامن آم کا مصلح ہے۔ آم کے رس میں شہد ملا کر پینا جنسی قوت بڑھاتا ہے۔
آم کینسر سے بچاتا ہے۔ کولیسٹرول گھٹاتا ہے۔ جلد کو چمکدار اور گورا بناتا ہے۔ آنکھوں کی بیماری سے بچاتا ہے۔ پورے جسم کی تیزابیت ختم کرتا ہے۔آم کے پتے ذیابیطس میں مفید ہیں۔ آم کی گٹھلی کی مینگ دست اور پیچش کو مفید ہے۔ آام ہاضمہ بہتر کرتا ہے۔ قبض کشا ہے۔ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ جنسی طاقت بڑجاتا ہے۔ اس کا مستقل استعمال جسم کی پرورش کرتا ہے اور چہرہ خوبصورت و پررونق بناتا ہے۔ گردوں، جگر اور تلی کو مفید ہے۔
خواتین کے لیکوریا اور بے قاعدہ ماہواری میں مفید ہے۔
آم کے پتے' چھال'گوند'پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو' آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیںجب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیںپیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں'سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں' آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی' دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ' ارنڈ کے درخت کی چھال سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے اس لیے سیلان الرحم(لیکوریا) آنتوں اور رحم کی تکالیف 'پیچش و خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر دیا جاتا ہے۔ آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے اس لئے کثرت حیض' پرانی پیچش' اسہال' بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔

ایک عجیب کرشمہ
جب آم کے درخت میں پھول آئیں اور وہ خوشبو دینے لگیں تو انہیں توڑ کر دونوں ہتھیلیوں میں اچھی طرح مَلیں، جب مَلتے مَلتے پھول ختم ہوجائیں تو مزید پھول لے کر مَلیں، تقریباً ایک گھنٹے تک آم کے پھولوں کو ہتھیلیوں پر مَلیں، اس کے تین چار گھنٹے بعد تک پانی سے ہاتھ نہ دھوئیں، ایسا کرنے سے ہاتھ میں ایک حیرت انگیز تاثیر پیدا ہوگی جو کرشمہ سے کم نہیں ہے۔ جس جگہ بچھو، بھڑ وغیرہ کاٹے محض اس جگہ ہاتھ رکھنے سے فوراً درد اور جلن موقوف ہوجاتی ہے اور ہاتھوں میں یہ تاثیر ایک سال تک رہتی ہے۔

عبارت مختصر : 
اگر آم کو افضل الاثمار ( پھلوں میں سب سے افضل واکرم ) کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ مرزاغالب نے اپنی مشہور نظم ’’آم کی تعریف ‘‘ میں اس پھل کو ’’باغ جنت کے سربہ مہر گلاس ‘‘سے تعبیر کیا تھا یہ محض شاعری نہیں حقیقت کا شاعرانہ اظہار ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ آم ایک ایسا عطیہ اکرم ہے جس پر ہم پاکستانی بیّن طور پر فخر و ناز کرسکتے ہیں ۔ لذیذ اورخوش ذائقہ ہونے کے علاوہ آم اس لحاظ سے بھی دوسرے پھلوں میں ممتازو فائق ہے کہ یہ ہر اعلی او ادنی کو بافراط میسر آتا ہے اور بکثرت کھایا جاتاہے ۔آم کی ترقی اورافزائش کیلئے سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو باغ لگانے کی ترغیب دی جائے حصول اراضی میں سرکاری طور پر آسانیاں پیداکی جائیں ہر ضلع میں سرکاری نرسریاں قائم کی جائیں جو عمدہ اقسام کے پودے مناسب داموں پر امیر غریب کے ہاتھوں فروخت ہوں حتی الامکان خراب قسم کے آم کی فروخت سے اجتناب کیا جائے ۔پاکستان کے اس افضل الاثمار کی نگہداشت و ترقی بہر ضرورت لازمی ہے ۔
اب دیکھئے کہ ہمارے فیس بک احباب میں کتنے باذوق حضرات ایسے ہیں جو آم پر اس تفصیلی و تحقیقی پوسٹ کے بعد ہم کو بھی آم کی پیٹیوں کے انعام کا حقدار ٹھہراتے ہیں؟

حوالہ جات:
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، ویب سائٹس اور بلاگز سے مدد لی گئ ہے۔ جس میں بی بی سی اردو کی سائٹ بیگم سلمی حسین ماہر طباخ کا مضمون اور علامہ اعجاز فرخ ۔ حیدرآباد دکن
‎بشکریہ جہانِ اردو بطور خاص قابل ذکر ہے۔
Sanaullah Khan Ahsan
٭٭٭٭
 

مہلک ٹی بی : انسان بچائیں



 Bovine tuberculosis (TB) is a chronic disease of animals caused by a bacteria called Mycobacterium bovis, (M.bovis) which is closely related to the bacteria that cause human and avian tuberculosis. This disease can affect practically all mammals, causing a general state of illness, coughing and eventual death.
بشکریہ : کرنل (ڈاکٹر) آصف شہاب 

اُردگان جیت گیا !


اردگان سے یورپی ممالک ویسے ہی ڈرے ہوئے ہیں ؟







پچیس جولائی کو رات بارہ بجے کا آنکھوں دیکھا حال !

 پچیس جولائی کو رات بارہ بجے پورے پاکستان کو پتہ چل گیا کہ عمران خان وزیراعظم  کا انتخاب جیت چکا ہے !
نہ زرداری کی ضرورت پڑی نہ کسی آزاد امیدواران کی ۔ 

بنی گالہ سے کراچی تک ایک جشن کا سا سماں تھا پورے پاکستان سے صرف سیٹوں کے انبار تھے جس پر لال ہرا رنگوں سے آراستہ مفلر پہنے لوگ بیٹھے تھے ۔ تحریک انصاف کے کارکنان بالکل بھی نہیں رک رہے تھے ۔

 چھ سال پہلے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے لیے بنایا گیا ترانہ جو محفوظ رکھا گیا تھا آن ائیر کردیا گیا ۔ 
پاکستان کے تمام چینلز کی محنت رنگ لائی انہوں نے بھی اپنے لوگو لال ہرے کردیے ، بنی گالہ کے باہر کروڑوں عوام جمع تھے صرف چینلز کی گاڑیاں تھیں کیمرے تھے ، اخباری رپورٹرز تھے ، مٹھائیوں کی دوکانیں خالی ہوچکی تھیں ، وہ مٹھائی بھی بک گئی جس کو ہم عام زندگی میں دیکھتے بھی نہیں تھے ۔
 پہلی دفعہ جی ایچ کیو اور کنٹونمنٹ ایریاز میں جشن کا سماں تھا چراغاں تھا ۔ نوجوان اور آفیسرز خوشی سے پاگل ہو رہے تھے ۔
ورلڈ کپ نائنٹی ٹو کے بعد پہلی دفعہ پٹاخے اور پھلجڑیاں چھوڑی گئیں ۔ جس نےبرج خلیفہ کے چکا چوند کو پیچھے  چھوڑ دیا تھا ۔
 عمران خان شیروانی میں بہت حسین لگ رہے تھے ، مشرف کے ریفرنڈم کے زمانے میں سلوائی رکھی تھی ۔
 کافی دنوں کے بعد صدر ممنون حسین کو اسکرین پر دیکھا وہ ایسی  حلف برداریوں  یا  تئیس مارچ کو نظر آتے ہیں  اور باقی وقت ریمورٹ سے چینل بدلتے نظر آتے تھے ۔ انہوں نے عمران خان سے حلف لیا اور ساتھ میں مختصر سی کابینہ تھی ، جس میں ایک بھی ایلیکٹیبل نہیں تھا ۔
 پہلی دفعہ وہ لوگ نظر آئے جن کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا ایک انقلاب آچکا تھا ، پاکستان کے اوپر فلک نے یہ منظر پہلی بار دیکھا کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا ، صدراتی محل کالج بن گیا ، وزراء سے مراعات واپس لے لی گئیں  اُنہیں سائیکلوں پر آفس جانے کا حکم ہوا ، جن کو سائیکل چلانا نہیں آتی تھی وہ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کے تحت سائیکل ساتھ لے کر چلتے ، گلی محلے کےشریر لونڈے اُن کے پیچھے ہوتے  اور خوشی سے  ہمارا وزیر ہمارا وزیر کہتے تالیاں بجاتے چلتے   ۔
وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ میرا دفتر اب عوامی ہوگا ۔چنانچہ  اسمبلی کی سامنے پرانے پریڈ گراونڈ  پر اُسی سلامی کے چبوترے پر  جہاں  پرویز مشرف نے جرنیلی  سلیوٹ مار کر  عمران خان کے ساتھ یکّی کی اور خالص پاکستانی کوک پر ٹال دیا ، وہاں  ایک شامیانے کے نیچے عمران خان کا دفتر سجا دیا گیا ، سارے عوامی لوگ  سڑک کے دونوں طرف بنی ہوئی سیڑھیوں پر اپنی اپنی چھتری اور پانی کی بوتل لے کر بیٹھ گئے ، یہ وہی جگہ تھی جہاں عمران خان نے پہلی مرتبہ عوامی اژدھام  کو اسمبلی پر قبضہ کرتے  بڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔
عمران خان نے عوامی دفتر سے ، اعلان کردیا گیا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف یہاں سے بوریا بستر سمیٹیں اور کبھی شکل نہ دکھائیں ، 
حلف اٹھاتے ہی وزیراعظم نے انجینئرز اور ماہرین کو بلایا اور ڈیم بنانے کا حکم دیا ، سب نے کہا رقم کہاں سے آئے گی ؟
 اسی وقت خان نے اعلان کیا اور بیرون ملک میں بیٹھے پاکستانیوں نے ایک گھنٹے میں پچاس ارب ڈالر کی رقم بھجوادی ۔
 بجلی کے منصوبے شروع ہوگئے ، نیب حرکت میں آگئی ، پرانے سیاستدانوں ، افسران ، بزنس ٹائیکونز کی شامت آگئی ایک ہفتے میں بیرون ملک سے لوٹی گئی رقم واپس آگئی ، تمام کرپشن کی جائیدادیں ضبط ہوگئیں ۔
 پاکستان میں دولت کے ذخائر ، امریکہ ، چین اور جاپان سے کئی گنا ہو گئے ۔ عالمی ماہرین اُنگشتِ بدنداں تھے۔
نئی یونیورسٹیز ، کالجز ، اسکولز ، ہسپتال کی ہنگامی تعمیر شروع ہوگئی ۔
برین ڈرین کی وجہ سے  بیرون ملک میں  رہائش اپنائے دماغ ، ماہرین جوق در جوق واپس آنے لگے ، شہروں کے شہر اور  سڑکوں کی  سڑکیں تعمیر ہونے لگیں ، ٹرانسپورٹ کے نئے آئیڈیاز جنم لینے لگے ۔ 
ملک سے پرچیوں ، سفارش کا کلچر ختم ہوگیا تھا ۔
نواز شریف ،شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور ان کا پورا خاندان براستہ ایران فرار  ہوتے ہوئے  سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا جاچکا تھا ۔ ان کے گھروں فیکٹریوں پر حکومت کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
 مولانا فضل الرحمٰن کے تمام مدارس محکمہ اوقاف کے پاس چلے گئے ، کشمیر کمیٹی مفتی قوی کے پاس تھی وازرتِ مذہبی امور کا قلمدان عام لیاقت ہاتھ میں تھامے ، تیار بیٹھا تھا ۔
سراج الحق ، لیاقت بلوچ ، حافظ نعیم الرحمن ، دیگر قائدین کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی تھی ان کے دفاتر ، اسکولز ، ہسپتال ، یتیم خانوں ، قرآن مرکز پر حکومت کا انتظام تھا ۔
 زرداری اور اس کے حواریوں کو گرفتار کیا جاچکا تھا ، زرداری کی تمام دولت  جو اُن نے بے نظیر کی حکومت سے زیادہ اپنی حکومت میں بنائی تھیی اُس کی پائی پائی  وصول کر لی گئی ،  اب وہ  بمبینوسینما کے باہر ٹکٹیں بیچ رہا تھا ۔
بلاول اور بھٹو جو زندہ تھے ، پچھلی گلی سے لندن فرار ہوچکے تھے ۔ 
عمران خان کا سب سے سخت مقابلہ  اب ، اُن لوگوں  سے ہونا تھا  جو پہلے نون لیگ میں تھے ، پھر ق لیگ میں آئے ، پھر پی پی پی میں گئے ، پھر نون لیگ میں آئے اور  پھر پی ٹی آئی میں  آکر عمران خان کی سپریم کورٹ سے بخشی گئی  صداقت  اور امانت  کے سرٹیفکیٹ  پر بٹا لگا دیا تھا ۔ جس کا ملک مخلاف قوتوں نے انتخاب میں خوب فائدہ اُٹھایا ، لیکن وہ تو بھلا ہو خلائی مخلوق کا                                               اُس نے عین موقع پر ایمپائر کو بلا لیا ۔  جس نے جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ  ملک دشمن عناصروں کی طرف سے دیئے گئے کسی بھی بوگس سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی ضرورت نہیں ۔
اب عمران خان نے  اِن ابن الوقت ، گندم نما جو فروش   کے خلاف مہا ئدھ کا آغاز کرتے ہوئے طبل جنگ بجایا :
اپنی تلاشی دو !
 یہ خبر تو جیسے ان پر بجلی بن کر گری،  فردوس عاشق اعوان نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، نذر گوندل ، افضل ساہی جیسے نیزے لے کر باہر آگئے اور اسی دن تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی  ۔
وہ عمران خان جو 20 سال اکیلا استعماریت کا مقابلہ  کرتا رہا ، عوام کی قوت کے سر چشمے سے  وزیر اعظم کے تخت پر اِس طرح براجمان ہوا کہ اُس کے دائیں جانب  برقعے میں ملبوس پنکی ، پنکی کے ساتھ اُس کے بچے  ، عمران خان کے دائیں جانب عمران خان کے دو سگے بیٹے اور ایک محبت کی نشانی  ، عمران خان کے قدموں میں وہ ناہنجار بیورکریٹ بیٹھا تھا  ، جس نے بڑی مشکل سے چار سال کی جد و جہد کے بعد ،  پنکی اُس کے حوالے کی تھی ۔
و ہ بہادر عمران خان ،    اِس عظیم الشان فتح کے بعد ایک بند کمرے میں جو پر اُس نے کئی بار لعنت بھیجی    ۔ آج  شرمسار تھا کیوں کہ  الیکٹیبلز  کی تحریک کامیاب ہوگئی ۔

 ان کمبخت الیکٹیبلز کی وجہ سے وہ  چند دن بھی یہ ملکِ پاکستان انقلاب کا سونامی   نہ دیکھ سکا ۔

 (صہیب جمال کے شہرہ آفاق ناول ۔باؤلے کے خواب۔ سے ماخوذ)  

بخاری پرستوں کے لئے تبرّک !

ہفتہ، 23 جون، 2018

پی 500 پیرا سیٹامول -اور ماچوپو وائریس

Machupo virus itself is known is a type of virus that spread can occur through air, food, or direct contact. Machupo virus can be sourced from the saliva, urine, or feces of infected rodents and become a carrier ( reservoir ) of the virus.

Machupo (also known as “Bolivian hemorrhagic virus” or “black typhus”) is endemic in north and east Bolivia, and is generally spread through air or food. According to the warnings, new “very white and shiny” P/500 paracetamol has become contaminated with the pathogen, posing a severe risk of infection. These warnings typically appear alone, with no news reports or public health agency releases corroborating their claims.

جس کی دُم اُٹھاؤ، وہی بُلبُل !


جمعرات، 21 جون، 2018

تاریخِ پاکستان !


دو ( 2) اسلام ۔ غلام جیلانی برق

"......ﯾﮧ 1918 ﺀ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ‘ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗھ  ﺍﻣﺮﺗﺴﺮ ﮔﯿﺎ ‘ ﻣﯿﮟ جہلم کے ایک ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﮔﺎﻭٔﮞ ﮐﺎ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ، ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮧ ﺑﻠﻨﺪ ﻋﻤﺎﺭﺍﺕ، ﻧﮧ ﻣﺼﻔّﺎ ﺳﮍﮐﯿﮟ، ﻧﮧ ﮐﺎﺭﯾﮟ، ﻧﮧ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮯ ﻗﻤﻘﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺱ ﻭﺿﻊ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ‘ ﺩﯾﮑھ ﮐﺮ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ‘ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﺠﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ...

‎ﮐﮩﯿﮟ ﺭﺍﻡ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺳﻨﺖ ﺭﺍﻡ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ‘
‎ﮐﮩﯿﮟ ﺩْﻧﯽ ﭼﻨﺪ ﺍﮔﺮﻭﺍﻝ ‘
‎ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﻨﺖ ﺳﻨﮕﮫ ﺳﺒﻞ
‎ﺍﻭﺭ
‎ﮐﮩﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﻻﻝ ﻓﻘﯿﺮ ﭼﻨﺪ۔
‎ ﮨﺎﻝ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺳﺮﮮ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺋﯽ ‘
‎ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺿﺮﻭﺭ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺋﮯ ‘
‎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻮﺟھ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
‎ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺪﮬﮯ ﻻﺩ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘
‎ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﭨﺎﻝ ﭘﮧ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﭼﯿﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
‎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘
‎..... ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﭩﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﮌﮬﺎﺋﯽ ﻣﻦ ﺑﻮﺟھ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﺑﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
‎ ﮨﻨﺪﻭﻭٔﮞ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﻖ ‘ ﺑﺸﺎﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﭼﻤﮏ ﺗﮭﯽ
‎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻓﺎﻗﮧ ‘ ﻣﺸﻘﺖ ‘ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﻭ ﻣﺴﺦ ۔ 
‎ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ,
.....ﮐﯿﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟
‎ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ : ﮨﺎﮞ !
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻨﺪﻭ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﻭ ﮨﺎﺗھ، ﺩﻭ ﭘﺎﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺳﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻣﺰﮮ ﻟﻮﭦ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﺣﯿﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
‎ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ : ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﺠﺲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﮐﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﮨﻨﺪﻭﻭٔﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺖ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮨﮯ ‘ ﮐﮩﻮ ﮐﻮﻥ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎ ؟ ﮨﻢ ﯾﺎ ﻭﮦ؟
ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ’’ ﺍﮔﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍٓﭖ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻣﺮﺗﺴﺮ ﺗﮏ ﮐﯿﻮﮞ ﺍٓﺋﮯ ؟ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﺳﺎﺯ ﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮐﻤﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎ ، ﻋﺠﯿﺐ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﻨﻄﻖ ﮨﮯ ‘‘
‎ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ : ﺑﯿﭩﺎ ! ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﻣﻨﺪﯼ ﻧﮩﯿﮟ ‘ ﺟﻮ ﮐﭽھ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮨﮯ۔
ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺤﺚ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯼ ‘ 

 ﺳﻔﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍٓ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﺎﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻣْﻼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺒﮩﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔
‎ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ‘ 
‎ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻌﻤﮯ ﮐﻮ ﺣﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﮍﭖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﻠﺐ ﻭ ﻧﻈﺮ ﭘﮧ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﮯ ﭘﮩﺮﮮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﻋﻠﻢ ﮐﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﮩﻢ ﻣﺤﺪﻭﺩ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﻟﺠﮭﺘﺎ ﮔﯿﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﭼﻮﺩﮦ ﺑﺮﺱ ﺗﮏ ﺣﺼﻮﻝ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺭﮨﺎ ‘ ﺩﺭﺱ ﻧﻈﺎﻣﯽ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﯽ ‘ ﺳﯿﮑﮍﻭﮞ ﻭﺍﻋﻈﯿﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻋﻆ ﺳﻨﮯ ‘ ﺑﯿﺴﯿﻮﮞ ﺩﯾﻨﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﭘﮍﮬﯿﮟ
‎ ﺍﻭﺭ......
‎ ﺑﺎﻻٓﺧﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﺭﺍﺋﺞ ﮐﺎ ﻣﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ۔
‎ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺻﻠﻮٰۃ ‘
‎ ﺯﮐﻮٰۃ ‘
‎ ﺻﻮﻡ
‎ﺍﻭﺭ ﺣﺞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎ ﺍٓﻭﺭﯼ ‘
‎ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﭘﮍﮬﻨﺎ ‘
‎ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ ‘
‎ﭼﮩﻠﻢ ‘
‎ﮔﯿﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﭘﮍﮬﻨﺎ ‘
‎ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻋﻤﻞ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ‘
‎ﻗﺮﺍٓﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﮐﮯ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺍﻧﺎ ‘ ﺣﻖ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻭﺭﺩ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﯽ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ﻣﺮﺍﺩﯾﮟ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ‘
‎ﻣﺰﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺳﺠﺪﮮ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ﺳﮍﮐﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ازار بند کو ﮈﮬﯿﻼ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﺨﺸﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﻮﺍﻟﯽ ﺳﻨﻨﺎ ‘
‎ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﻮ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﻭ ﻧﺠﺲ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ‘
‎ ﻃﺒﯿﻌﯿﺎﺕ ،
‎ ﺭﯾﺎﺿﯿﺎﺕ،
‎ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯾﺎﺕ ،
‎ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﮐﻔﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ‘
‎ ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ﻭ ﺍﺳﺘﻨﺒﺎﻁ ﮐﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎ
‎ﺻﺮﻑ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﮩﺸﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﻧﺎ
‎ﺍﻭﺭ
‎ ﮨﺮ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺩﻋﺎﻭٔﮞ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﺎ ۔
‎ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﻓﯿﺾ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﺣﺎﻭﯼ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺋﯽ۔۔۔۔
‎ ﺧﺪﺍ ﮨﻤﺎﺭﺍ ‘
‎ﺭﺳﻮﻝ ﮨﻤﺎﺭﺍ ‘
‎ﻓﺮﺷﺘﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ‘
‎ﺟﻨﺖ ﮨﻤﺎﺭﯼ ‘
‎ﺣﻮﺭﯾﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ‘
‎ﺯﻣﯿﻦ ﮨﻤﺎﺭﯼ ‘
‎ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮨﻤﺎﺭﺍ ۔۔۔
‎ﺍﻟﻐﺮﺽ ﺳﺐ ﮐﭽھ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﻗﻮﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺍٓﺋﯽ ﮨﯿﮟ۔
‎ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ‘ ، ﻋﯿﺶ ﺍﻭﺭ ﺗﻨﻌﻢ ﻣﺤﺾ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﮦ ﮨﮯ۔
‎ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﮯ ﭘﺴﺖ ﺗﺮﯾﻦ ﻃﺒﻘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻧﺪﮬﮯ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
‎ ﺍﻭﺭ
‎ ﮨﻢ ﮐﻤﺨﻮﺍﺏ ﻭ ﺯﺭﺑﻔﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﭦ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺳﺮﻣﺪﯼ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺰﮮ ﻟﻮﭨﯿﮟ ﮔﮯ۔
‎’’ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ ‘ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﻠﻮﻡ ﺟﺪﯾﺪﮦ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ ‘ ﻗﻠﺐ ﻭ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻌﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ‘ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻭ ﻣﻠﻞ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ۔۔۔۔
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ 128 ﺳﻠﻄﻨﺘﯿﮟ ﻣﭧ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ ‘
‎ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻼﻓﺖ ﻋﺒﺎﺳﯿﮧ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﮨﻼﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻨﺎﯾﺎ؟
‎ ﮨﺴﭙﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﺨﺖ ﭘﮧ ﻓﺮﻭﻧﯿﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ؟
‎ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﮐﺎ ﺗﺎﺝ ﺍﻟﺰﺑﺘﮫ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﮐھ ﺩﯾﺎ؟
‎ﺑﻠﻐﺎﺭﯾﮧ ‘ ﮨﻨﮕﺮﯼ ‘ ﺭﻭﻣﺎﻧﯿﮧ ‘ ﺳﺮﻭﯾﺎ ‘ ﭘﻮﻟﯿﻨﮉ ‘ ﮐﺮﯾﻤﯿﺎ ‘ ﯾﻮﮐﺮﺍﺋﯿﻦ ‘ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻐﺮﺍﺩ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍٓﺛﺎﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﭩﺎ ﺩﯾﮯ؟
‎ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﺳﮯ ﺑﯿﮏ ﺑﯿﻨﯽ ﺩﻭ ﮔﻮﺵ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮑﺎﻻ؟
‎ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻮﻧﺲ، ﻣﺮﺍﮐﻮ ‘ ﺍﻟﺠﺰﺍﺋﺮ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺒﯿﺎ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﯿﺎ؟ 
‎ﻣﯿﮟ ﺭﻓﻊ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔
‎ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﺕ ﺑﺮﺱ ﺗﮏ ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﭘﺮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺎ ‘ ﻣﯿﮞ
‎ﺎﯾﮏ ﺩﻥ ﺳﺤﺮ ﮐﻮ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺍ ‘ ﻃﺎﻕ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ، ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﯽ ﺍٓﯾﺖ ﺟﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍٓﺋﯽ ﻭﮦ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ :

 أَلَمْ يَرَوْاْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ [6:6]
 ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺷﺎﻥ ﻭ ﺷﻮﮐﺖ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﺼﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﮭﻤﺎ ﭼﮭﻢ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﺑﺮﺳﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﻔﺎﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﺑﮩﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ‘‘ ۔
‎ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯿﮟ ‘ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﮔﮭﭩﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ ﺗﮭﯿﮟ ﯾﮏ ﺑﯿﮏ ﭼﮭﭩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﺟﺎﺭﯾﮧ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﻮﺷﮯ ﺑﮯ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔
‎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﺠﺎ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ۔۔۔۔۔
‎’’ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﺍﺭ ﺍﻟﻌﻤﻞ ﮨﮯ ‘ ﯾﮩﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﺑﯿﮍﮮ ﭘﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﮨﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺟﺰﺍ ﻭ ﺳﺰﺍ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻋﺎ ﭨﺎﻝ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺩﻭﺍ ‘‘ ۔
‎’’ ﻟﯿﺲ ﻟﻼﻧﺴﺎﻥ ﺍﻻ ﻣﺎﺳﻌﯽ ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﮦ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ‏( ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ ‏) ۔
‎ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﭘﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺾ۔۔۔۔
ﺩﻋﺎ ﯾﺎ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻠﮧ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ‘
ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪ ﮐﺎ ﺍﺟﺮ ﺯﻣﺮﺩﯾﮟ ﻣﺤﻼﺕ ‘ ﺣﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﺠﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ‘
‎ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﺟﮭﻨﮑﺎﺭ ﺳﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺟﻮ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﻻﺯﻭﺍﻝ ﺩﻭﻟﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﮭﮍﮐﺘﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺩ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
‎ﻭﮦ ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺟﻮ ﻋﺰﻡ ﻭ ﮨﻤﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﺎﺗھ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﺎﺍﻧﺪﺍﺯ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺟﻤﺎﻝِ ﺟﺎﮞ ﺍﻓﺮﻭﺯ ﭘﮧ ﺭﮦ ﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
‎ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺤﺾ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺫﻟﯿﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ، ﻣﺤﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﺒﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔
‎ﻭﮦ ﺍﻭﺭﺍﺩ ﻭ ﺍﻭﻋﯿﮧ ﮐﮯ ﻧﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﭼﻨﺪ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ۔ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﺩﻭ ﮨﯿﮟ ‘

📚 ﺍﯾﮏ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺎ ﺍﺳﻼﻡ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻼ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
‎ﺍﻭﺭ
👈 ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻭﮦ ﺍﺳﻼﻡ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺳّﯽ ﻻﮐﮫ ﻣْﻼ ﻗﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﯿﭙﮭﮍﻭﮞ کا ﺳﺎﺭا ﺯﻭﺭ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ‘‘ ۔
‎ ۔۔۔۔۔۔۔ غلام جیلانی ﺑﺮﻕ
‎ﮐﯿﻤﺒﻞ ﭘﻮﺭ۔ 25 ﺳﺘﻤﺒﺮ 1949 ﺀ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاکٹر غلام ﺟﯿﻼﻧﯽ ﺑﺮﻕ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺩﻣﺎﻍ ﺗﮭﮯ ‘ ﯾﮧ 1901 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ‘ ﻭﺍﻟﺪ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﮭﮯ ‘ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ‘ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻓﺎﺿﻞ ﮨﻮﺋﮯ ‘ ﻣﻨﺸﯽ ﻓﺎﺿﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﯾﺐ ﻓﺎﺿﻞ ﮨﻮﺋﮯ ‘ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﮟ۔

‎ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﯿﮉﻝ ﻟﯿﺎ ‘ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ 1940 ﻣﯿﮟ ﭘﯽ ﺍﯾﭻ ﮈﯼ ﮐﯽ ‘ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﺴﺲ ﻟﮑﮭﺎ ‘ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺳﮯ ﻋﻤﻠﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ‘ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ‘ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺗﮭﯿﺴﺲ ﮐﻮ ﺍٓﮐﺴﻔﻮﺭﮈ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺭﻭﺭﮈ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻧﮯ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﺨﺸﯽ ۔
ﺍﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ‘ 1949 ﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺸﮑﯿﻞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ،   ’’ ﺩﻭ ﺍﺳﻼﻡ ‘‘ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻌﺮﮐۃ ﺍﻵﺭﺍﺀ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ‘ ﮐﺘﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﺗﮭﺎ۔
‎ ’’ ﺩﻭ ﺍﺳﻼﻡ ‘‘ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ’’ ﻗﺮﺁﻥ ‘‘ ﺍﻭﺭ ’’ ﻣﻦ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ‘‘ ﻟﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﯿﺎﺳﮯ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ
‎’’ ﺩﻭ ﺍﺳﻼﻡ ‘‘ ﺍﻭﺭ ’’ ﺩﻭ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﮐﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﻋﺪﻡ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ‘ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺗﺸﺪﺩ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﺎﻟﻤﮯ ﮐﺎ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺩﺍﻧﺶ ‘ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ‘ ﻋﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﺎﻟﻤﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﮐﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﺁﮔﮯ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺮ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
‎ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻏﻼﻡ ﺟﯿﻼﻧﯽ ﺑﺮﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﺎﻟﻎ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ’’ ﺩﻭ ﺍﺳﻼﻡ ‘‘ ﮐﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯿﮧ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮐﯿﺠﯿﮯ ‘ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯿﮧ ﮐﻮ ﭼﻨﺪ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮉﭦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﺝ ﮐﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺑﺮﻕ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﮯ ‘ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﺳﮑﺎﻟﺮﺯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺁﺝ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ‘
‎ﮐﯿﻮﮞ؟
‎ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﺝ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽھ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔

بشکریہ : عرفان جاوید بتوست ثنا اللہ احسن 

٭٭٭٭٭٭واپس   جائیں ٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔