پاکستان میں آم کا سیزن شروع ہوا تو بوڑھے نے آم کھانا شروع کر دیئے کہ مشرقِ بعید کے سفر سے پہلے لطف اندوز ہوجائے کہیں حسرت نہ رہ جائے ۔
ایسٹ تِمور میں جو آم کھائے وہ بس یوں سمجھو کہ اللہ کی نعمت اُسے بُرا کیا لکھنا ۔ بس اُس کا چار ہی بنایا جاسکتا تھا یا آپ گڑآمبا (آموں کا میٹھا سالن ) ۔
انور رٹول کھاتے کھاتے بوڑھے کو یک دم خیال آیا اور حکم صادر کر دیا
" آم کی گٹھلیاں نہ پھینکی جائیں "
خیر 12 کے قریب صحت مند گٹھلیوں کا انتخاب ہوا ، اُنھیں مکمل بے پردہ کیا ، اِسی طرح کوئی 22 کے قریب جامن کی گٹھلیوں کو سنبھالا اور دونوں کو ایک پلاسٹک کے ڈبے میں اِس طرح ڈالا کہ وہ تَر رہیں اور ایسٹ تِمور پہنچنے کے بعد وہ انگڑائیاں لے کر بیدار ہوں۔
جیسا کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ بوڑھے کو بیجوں سے پودے اور چوزے نکالنے کا خبط ہے ۔
جو مستفید نہیں ہوئے وہ پڑھیں :
٭۔ بیجوں سے پودے اُگائیں اور انڈوں سے چوزے نکالیں ۔
تو بوڑھے کے جوان دوستو ! دوسرے دن یعنی پہلی جولائی کو اُنہیں ڈبے سے نکالا ، اور صفائی کی تاکہ فنگس نہ لگ جائے، نئے ٹِشو پیر کا گدیلا بنا کر اُس پر سب کو سلایا اور پھر جناب اوپر سے ایک اور ٹشو پیپر کا لحاف اُوڑھا دیا پھر ڈسپرین کو پانی میں گھول کر اُنہیں ، غذائیت فراہم کی اور واپس ،ڈبہ بند کر کے کچن میں الماری کے اوپر رکھا دیا ۔
یہ ساری کاروائی بڑھیا دیکھ رہی تھی ۔ جو سوال و جواب ہوئے ، وہ تمام ہم سے چھوٹے جوان جانتے ہیں لہذا دھرانے کو کوئی فائدہ نہیں ، شام کو بڑھیا نے بیٹی کو بتایا ۔
دوسری صبح بڑھیا نے بیٹی کے کمنٹس سنائے ، جسے صدقہءِ جاریہ سمجھ کر بوڑھا چُپ رھا ۔
کہ یورپی یونیئن یا یونیئن کے ساتھ کام کرنے والے ، بیجوں سے پودے نکالنے کی سائینس کیا جانیں ۔
کہ جس نے ایک بیج اگایا اُس نے انسانیت کے لئے صدقہءِ جاریہ کا سبب بنایا ۔
تو کیر ایسٹ تِمور پہنچنے کے چھٹے دن یعنی 4چ جولائی کو، جب بوڑھے نے ، پاکستان سے آئے ہوئے بیجوں کی خیریت دریافت کرنے کے لئے اُن کی خوابگاہ کا دروازہ کھولا تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا ۔ وجہ آپ بھی جانتے ہیں خود دیکھ لیں ۔
خیر بوڑھے نے مالکِ مکان سے ، بیجون کو گملوں میں لگانے کے لئے گملے مانگے جو وہ اُس نے ، بمع اپنے گھر میں اُگنے والے تُخمی آم کے پیڑ کی چار کیریاں بھجوا دیں ۔
بوڑھے نے یہ کیریاں دیکھیں ، بڑھیا کو دکھائیں ، اُس نے کہا یہ اچار ڈالنے والی ہیں ۔ میں نے کیریاں لانے والی ملازمہ کو بتایا ، کہ ہمارے ہاں اِس کا اچار بنایا جاتا ہے ، اُسے سمجھانے کے لئے ، اچار کی بوتل سے ڈھونڈھ کر کیری کی پھانک نکال کر دکھائی ۔
اُسے پھر بھی سمجھا نہ آیا ۔ اُسے چمچ سے نکال کر چکھایا ۔
تِموری زُبان میں اُس کے منہ سے نکلا " واؤ"
بڑھیا چونکہ اُسے اپنے بنائے ہوئے گلاب جامنوں میں سے ایک کھلا کر اُس کی یونیورسٹی میں پڑھنے والی کزن اور اُس سکھا چکی تھی ۔ لہذا بوڑھے نے بڑھیا کو بتایا کہ اگر یہ چاھے تو اِسے اچار بنانے کی ترکیب بھی سمجھا دینا /
اُو آپ نے سیکھنی ہے کیریوں سے اچار بنانے کی ترکیب؟
اُو آپ نے سیکھنی ہے کیریوں سے اچار بنانے کی ترکیب؟
تو پھر آپ کو پڑھنا پڑھے گا ۔
ہاں تو نوجوان دوستو بات ہو رہی تھی ، پڑوسیوں کے گھر میں لگے آم کے درخت کے تُخمی آم کی ۔ جنہیں بوڑھے نے ایک پلاسٹک کے برتن میں ڈال کر ، اُنہیں پال لگادی ۔
آج جب بوڑھے نے اُنہیں دیکھا ، تو وہ ہرے کے ہرے تھے ۔ معائینہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈنٹھل کی جگہ سے خراب ہونا شروع ہوچکے ہیں ۔
بوڑھے نے چھری لے کر متاثرہ جگہ تراشی تو حیران رہ گیا ۔ بس پھر بوڑھے نے سب کو نفاست سے تراشااور دو پلیٹوں میں سجا دیا ۔
چم چم نے آم چکھا اور کہا ، " یخ "
چم چم کی ماما نے آم چکھا اور کہا ، " یخ "
بڑھیا نے آم چکھنے سے اکار کر دیا اور کہا ،" آپ ہی کھائیں "
ایک پلیٹ بوڑھے نے دوپہر کو کھائی ۔ اور دوسری پلیٹ
وہ بھی بوڑھا شام کو ہی کھائے گا!
کیوں کہ ۔ پھل اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے کیا ہوا ؟
اگر میٹھا نہیں ہے ۔ فائدہ ضرور پہنچاتا ہے !
اگر میٹھا نہیں ہے ۔ فائدہ ضرور پہنچاتا ہے !
بقول اپنے لکھاری دوست ، ثنا اللہ احسن خان صاحب ،
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آم کا اچار گھر میں بنائیں مزے سے کھائیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں