دعا دینا شاید ساری دنیا میں ہمیشہ سے رائج رہا ہو، مگر ہمارے معاشرے میں
دعا یا بد دعا دینا رواج سے بڑھ کر مشغلہ اور بعض حالات میں پیشہ بھی ہے۔
اسی طرح کسی سے اپنے حق میں دعا کروانا بھی ایک باقاعدہ فن بن چکا ہے۔
مگر پہلے عنوان۔ عنوان سن کر یا پڑھ کر یہ نہ سمجھیے گا کہ یہ کسی دادی کا خاکہ ہے کیونکہ اب تو یہ چلن ہو گیا ہے کہ کسی کی فاتحہ نہ پڑھ سکے تو اس کا خاکہ لکھ دیا اور جس کی فاتحہ پڑھ لی اس کا بھی خاکہ لکھ دیا۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
بات صرف اتنی ہے کہ جب مصنف مضمون لکھنے کا مرید ہوا ، تو اس وقت ڈاکٹر ژواگو ذہن پر سوار تھا تو تحریک ہوئی کہ یہی عنوان رکھ دیا جائے۔ مگر پھر ڈر لگا کہ کسی راسخ العقیدہ معزز مہمان نے اعتراض کر دیا کہ مضمون میں ڈاکٹر ژواگو کہاں ہے تو ہماری بولتی بند ہو جائے گی، اس لیے اس کا ہم قافیہ عنوان دادی دعاگو بھی شامل کرلیا کہ اہلِ جفا ہماری زندگی میں بھی بارے آرام سے ہی رہیں۔ اگر کسی نے اعتراض کیا بھی تو ہم فی الفور ایک عدد دادی کی انٹری تو ڈال ہی سکتے ہیں۔
مگر بات تو کرنی ہے ڈاکٹر ژواگو کی بھی۔ اور اس سے پہلے کہ میزبان کسی کام سے اٹھ کر چل دے، ہم کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر ژواگو کا اس سے تعارف تو کروا ہی دیں۔ ویسے تو ڈاکٹر ژواگو دیکھنے کی چیز ہے، یعنی ایک مشہور روسی ناول ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی دس کماؤ موویز میں شامل ایک بہت مشہور، معروف اور مقبول مووی بھی ہے، جس میں عمر شریف نے ڈاکٹر ژواگو کا کردار ادا کیا ہے۔
کون عمر شریف؟
نہیں نہیں ہمارے پاکستانی بھائی نہیں، یہ ہیں ہمارے مصری بزرگ عمر شریف جو کسی زمانے میں ہالی ووڈ کی جان اور برج کے کھیل کے پردھان تھے۔ پیدا تو عیسائی ہوئے تھے مگر بین الاقوامی شہرت پانے سے پہلے ہی ایک اداکارہ سے شادی کرنے کے لیے مسلمان ہو گئے۔ دیکھا علم غیب نہ جاننے کا فائدہ۔
خیر ڈاکٹر ژواگو مووی نے ہمیں بحیثیت مسلمان تو یہ فخر بخشا ہے کہ دیکھا، اتنے ڈھیر سارے کافروں کے ہوتے ایک مسلمان نے یہ زندہ جاوید کردار ادا کیا، اور اردو لکھنے پڑھنے والوں کو یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ آپ اردو قاعدوں میں ژ سے ژواگو لکھ سکتے ہیں۔بلکہ کوک اسٹوڈیو والے، جو پہلے بھی اردو زبان کو نئے الفاظ دے چکے ہیں، جیسے انبوا تلے ڈولا رکھ دے کہاروا، میں کہاروا کی جگہ نہروا کا لفظ، اگر چاہیں تو ژواگو کو بھی کوئی معنی دے کر جس کی تصویر بچوں کے قاعدے میں آسانی سے بنائی جا سکے، جیسے بلیڈ ، اردو پر یہ احسان عظیم کر سکتے ہیں کہ اسے اس خفت سے بچا لیں کہ ہماری زبان میں ژ سے شروع ہونے والا کوئی لفظ نہیں۔ یا ژواگو سے مراد مولا جٹ ٹائپ کا ہیرو بھی لے سکتے ہیں۔
ششششش ۔ خاموش! ایک سوال پیدا ہو رہا ہے۔ سوال کا کیا ہے کہیں بھی پیدا ہو سکتا ہے، تو ابھی ابھی یہ سوال پیدا ہوا کہ ژ کی آواز اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود اتنی مظلوم کیوں ہے۔ اردو میں تو چلیے فارسی کے چند الفاظ کی وجہ سے اسے حروف تہجی میں جگہ مل گئی، مگر ہندی جن میں دنیا بھر کے ڈٹڑ (یعنی ڈ، ٹ، اور ڑ رکھنے والے) الفاظ ہیں اس نے اس خوبصورت آواز کو کیوں جگہ نہیں دی۔ ہے نا لمحہ فکریہ؟ اور پھر انگریزی میں یہ لفظ یوژولی استعمال ہوتا ہے مگر اس غریب کو کوئی حرف تہجی الاٹ نہیں ہوا۔ ویسے انگریزی نے چ اور ش کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ہے۔ اب ہم ٹھہرے مفکر۔ ہم ان معاملات پر غور نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ تو غور کرنے پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ جو کہتے ہیں کہ انگریز ہزار سال آگے کی سوچتا ہے، یہ بات سچ ہے۔ یقیناً آج سے ایک ہزار سال پہلے جب انگریزی زبان کے حروف تہجی قرار پا رہے ہوں گے تو ان کو علم ہوگا کہ ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹر جب ایجاد ہوں گے تو ان کے کی بورڈ پر صرف 26 حروف کی گنجائش ہو گی۔ اس لیے انہوں نے اتنی اہم آوازوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔
ہمیں اندازہ ہے کہ پڑھنے والے دعا کر رہے ہوں گے کہ اب دادی دعاگو کا ذکر چھڑے۔ تو ہم آپ کو شاید پہلے نہیں بتا سکے کہ ہمارے پاس دادی دعاگو نام کا کوئی کردار ہی نہیں۔ ہاں دعاگو ہر ہر قدم پر مل جاتے ہیں، اور خواتین جب کسی کام کی نہیں رہ جاتیں تو دادی دعاگو اور نانی دعاگو بن ہی جاتی ہیں۔ ہماری شادی کے بعد جب چوراہے پر سگنل کھلنے کا انتظار کرنے کے دوران ایک فقیرنی نے کار کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ہماری بیگم صاحب کو پہلی بار دعا دی کہ بیگم صاحب اللہ جوڑی سلامت رکھے، تو بیگم صاحبہ کو ایسی مسرت ہوئی کہ انہوں نے اس کو ایک بڑی رقم تھما دی۔ اتنی کہ اس میں ہم دونوں ڈنر کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ ہرچند فقیرنی نے فرمائش کی کہ ہم اسے اور اس کے منگیتر کو کسی اچھے ریستوران تک پہنچا دیں، ہم وہیں سے گھر لوٹ آئے ۔
'
ہمارا معاشرہ یقیناً دعا کا معاشرہ ہے۔ آپ اگر غور کریں تو، اور غور تو آپ کو ہی کرنا ہوگا کیونکہ میں تو بہت غور کر چکا، تو ہمارے اردگرد آپ کو قدم قدم پر
دعا دینا، عادتاً دعا دینا، مجبوراً دعا دینا، فرمائش پر دعا دینا، دعائیہ گانے گانا،
دعا مانگنا، دعا مانگتے چلے جانا، خاص طور پر دعا مانگنا، جا بجا دعا مانگنا، ہر موقع کی الگ دعا یاد رکھنا اور حسب ضرورت بہ آواز بلند مانگنا، رو رو کر دعائیں مانگنا،
دعا کا طلبگار ہونا، دعا کے لیے کہنا، خصوصی دعاؤں کا طالب ہونا، دعا کروانا، اپنے آپ کو دعاؤں میں یاد رکھوانا، دعائیں لینا، وغیرہ مستقل وقوع پذیر ہوتے نظر آئیں گے۔
لیکن قابل ذکر ہے پیشہ ورانہ دعا مانگنا۔ موقع ہو یا نہ ہو، اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا، مساجد یا محافل کی روشنیاں بجھا کر دعائیں مانگنا۔
یہ تمام وہ عنوانات ہیں جن میں سے ہر ایک پر کوئی بدعنوان مصنف ایک اچھا خاصا مضمون لکھ سکتا ہے۔
پھر دعا کی مونث شکل یعنی بد دعا بھی ہوتی ہے جسے دینا بھی ایک ہنر ہے اور جو تیرا ککھ نہ رہے سے لے کر فرنگی کی توپوں میں کیڑے پڑیں تک پر محیط ہے۔ اسی میں دوسری شادی کی دعا بھی شامل ہے جو بیک وقت دعا بھی ہو سکتی ہے اور بد دعا بھی۔ ویسے تو پہلی شادی کی دعا بھی ایسی ہی دو دھاری تلوار ہے۔ جب چاند جیسی ٹنڈ والے کو چاند جیسی بیوی ملنے کی دعا دی جائے تو یہ اس غریب چاند جیسی لڑکی کے لیے تو بددعا ہی ہوئی جو محلوں کے راجہ کی دعائیں دن رات مانگتی نہیں تھکتی۔ مگر بڑی بوڑھیاں یہ سب کہاں سوچتی ہیں۔ ان کی تو ادھر کسی نے چاپلوسی کی ادھر انہوں نے دعاؤں کے انبار لگانے شروع کیے۔ پھر اگر کوئی نوبیاہتا لڑکی ان کے ہتّھے چڑھ جائے تو دودھوں نہاؤ اور پوتوں پھلو کی دعاؤں سے اس کو نڈھال کیے بغیر نہیں چھوڑتیں۔
اس پر یاد آیا کہ ہم نے ایک زمانے میں محمد افراہیم کے اس مشہور دعائیہ ترانے کی پیروڈی کی تھی۔
زمیں کی گود رنگ سے ترنگ سے بھری رہے
اور وہ کچھ یوں تھی
بہو کی گود ننگ سے دھڑنگ سے بھری رہے
خدا کرے
خدا کرے یہ سلسلہ یونہی رہے
'
چلیے دو چار مختصر باتیں۔ پھر دعائے خیر یعنی
اگر زاہد دعائے خیر می گوئی دعا ایں گو
کہ این آوارہِ کوئےمزاح آوارہ تر بادا
دس سال پہلے کی بات ہوگی ہمارے ایک عزیز اسلام آباد کے ایک اسپتال میں داخل تھے، عارضہ قلب میں۔ حالت تشویشناک تھی، مگر مریض خود باحوصلہ تھے اور زندہ رہنے کے خواہاں۔ تیسرے دن ان کی بہن کراچی سے آ گئیں۔ خود ان عزیز نے مجھے بتایا، اسپتال سے واپسی کے بعد، کہ آپا نے مجھے دیکھ کر دعا کی کہ اللہ صحت دے، اور پھر رونا شروع ہو گئیں کہ ہائے اللہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کیا بنے گا۔ بولے ان کی یہ دعا سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں نہیں بچوں گا۔ بہرحال اس کے بعد بھی وہ ایک مدت جیے۔ پھر جب چھوٹے چھوٹے بچے کچھ بڑے ہو گئے تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اکثر لوگ زبانی اور تحریری طور پر کہتے ہیں دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ آج بھی کسی نے کہا تھا۔ اب تک ہزاروں افراد یہ فرمائش کر چکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ہزاروں کو کیسے یاد رکھا جائے؟ اور اگر واقعی سب کو یاد رکھا جائے تو جلد ہی ہمارے لیے دعا ہو رہی ہو گی اور لوگ کہیں گے کیسا معصوم تھا۔
ویسے تو لوگ قدم قدم پر دعائیں مانگتے ہی رہتے ہیں، جو فرشتوں کی کارکردگی کی بنا پر کم ہی قبول ہوتی ہیں، جو دعاؤں کے محضر پر ایک سرنامہ لگا دیتے ہیں کہ سب وہی پرانی دعائیں ہیں، عرش تک پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر جو پیشہ ور دعاگو منبر پر بیٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں ان کا تو واقعی جواب نہیں۔ جمعے کی نماز کے بعد ہماری مسجد کے امام کی اردو کی پہلی دعا یہ ہوتی ہے کہ یا اللہ ہم سب نے مل کر جو نماز جمعہ ادا کی ہے اسے قبول فرما۔ گویا اگر امام صاحب یہ دعا نما سفارش نہیں کریں گے تو اللہ میاں کوتو سب کی نماز رد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
پھر کچھ دعائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں سادہ دل سے سادہ دل انسان بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ ان کا قبول ہونا ممکن ہے۔ جیسے تمام بیماروں کو شفائے کامل عطا کرنے کی دعا۔
مزا تو جب آتا ہے جب 72 سال تک متواتر ہر منبر سے کشمیر کی آزادی کی دعا مانگی جائے جو یہ ثابت کرے کہ پورے ملک میں ایک بھی مستجاب الدعوات مولوی اور نمازی نہیں۔
سب سے زیادہ لطف تو اس دعا میں آیا جب ایک امریکی صدر اسلام آباد کے دورے پر آئے۔ اب اس دورے کو ناکام بنانے کی ذمہ داری ہمارے مولوی صاحب پر آ پڑی۔ انہوں نے اللہ میاں کے لیے ایسا تفصیلی پروگرام چاک آؤٹ کیا، کہ کیسے امریکی جہازوں کو آپس میں ٹکرانا ہے، اور پھر کیسے امریکہ کو مکمل تباہ کرنا ہے وغیرہ ۔ بس صرف اللہ میاں سے آگے آپ خود سمجھدار ہو کہنے کی کسر رہ گئی۔فرشتے بھی حیران رہ گئے ۔ یہی کہہ پائے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب۔
دعا کی ہی ایک قسم آہ بھی ہے۔ آغا حشر کا یہ شعر کس نے نہیں سنا ہوگا
آہ جاتی ہے فلک پررحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
پتہ چلا کہ بادل آہ کے فلک تک جانے میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ ایسا ہی پھر دعا کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ شاید دعاؤں اور آہوں کا ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے ہی بادل ایسے امنڈ امنڈ کر آتے ہیں۔ جن لوگوں کو سنجیدگی سے دعا مانگنی ہے وہ آسمان صاف دیکھ کر ہی دعا مانگیں۔
آخر میں ان ماسٹر صاحب کا قصہ جو بیمار پڑے تو پرنسپل صاحب کچھ اور ساتھیوں کے ساتھ عیادت کرنے گئے۔ دعا مانگنے کے بعد انہوں نے ماسٹر صاحب کو کہا اللہ نے چاہا تو آپ جلد اچھے ہو جائیں گے۔ ہم نے آج اسکول کے بچوں سے بھی آپ کے لیے دعا کروائی ہے۔ ماسٹر صاحب مسکرا کر بولے اسکول کے بچوں کی دعائیں قبول ہوتیں تو ایک استاد بھی زندہ نہ رہتا۔
مگر پہلے عنوان۔ عنوان سن کر یا پڑھ کر یہ نہ سمجھیے گا کہ یہ کسی دادی کا خاکہ ہے کیونکہ اب تو یہ چلن ہو گیا ہے کہ کسی کی فاتحہ نہ پڑھ سکے تو اس کا خاکہ لکھ دیا اور جس کی فاتحہ پڑھ لی اس کا بھی خاکہ لکھ دیا۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
بات صرف اتنی ہے کہ جب مصنف مضمون لکھنے کا مرید ہوا ، تو اس وقت ڈاکٹر ژواگو ذہن پر سوار تھا تو تحریک ہوئی کہ یہی عنوان رکھ دیا جائے۔ مگر پھر ڈر لگا کہ کسی راسخ العقیدہ معزز مہمان نے اعتراض کر دیا کہ مضمون میں ڈاکٹر ژواگو کہاں ہے تو ہماری بولتی بند ہو جائے گی، اس لیے اس کا ہم قافیہ عنوان دادی دعاگو بھی شامل کرلیا کہ اہلِ جفا ہماری زندگی میں بھی بارے آرام سے ہی رہیں۔ اگر کسی نے اعتراض کیا بھی تو ہم فی الفور ایک عدد دادی کی انٹری تو ڈال ہی سکتے ہیں۔
مگر بات تو کرنی ہے ڈاکٹر ژواگو کی بھی۔ اور اس سے پہلے کہ میزبان کسی کام سے اٹھ کر چل دے، ہم کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر ژواگو کا اس سے تعارف تو کروا ہی دیں۔ ویسے تو ڈاکٹر ژواگو دیکھنے کی چیز ہے، یعنی ایک مشہور روسی ناول ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی دس کماؤ موویز میں شامل ایک بہت مشہور، معروف اور مقبول مووی بھی ہے، جس میں عمر شریف نے ڈاکٹر ژواگو کا کردار ادا کیا ہے۔
کون عمر شریف؟
نہیں نہیں ہمارے پاکستانی بھائی نہیں، یہ ہیں ہمارے مصری بزرگ عمر شریف جو کسی زمانے میں ہالی ووڈ کی جان اور برج کے کھیل کے پردھان تھے۔ پیدا تو عیسائی ہوئے تھے مگر بین الاقوامی شہرت پانے سے پہلے ہی ایک اداکارہ سے شادی کرنے کے لیے مسلمان ہو گئے۔ دیکھا علم غیب نہ جاننے کا فائدہ۔
خیر ڈاکٹر ژواگو مووی نے ہمیں بحیثیت مسلمان تو یہ فخر بخشا ہے کہ دیکھا، اتنے ڈھیر سارے کافروں کے ہوتے ایک مسلمان نے یہ زندہ جاوید کردار ادا کیا، اور اردو لکھنے پڑھنے والوں کو یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ آپ اردو قاعدوں میں ژ سے ژواگو لکھ سکتے ہیں۔بلکہ کوک اسٹوڈیو والے، جو پہلے بھی اردو زبان کو نئے الفاظ دے چکے ہیں، جیسے انبوا تلے ڈولا رکھ دے کہاروا، میں کہاروا کی جگہ نہروا کا لفظ، اگر چاہیں تو ژواگو کو بھی کوئی معنی دے کر جس کی تصویر بچوں کے قاعدے میں آسانی سے بنائی جا سکے، جیسے بلیڈ ، اردو پر یہ احسان عظیم کر سکتے ہیں کہ اسے اس خفت سے بچا لیں کہ ہماری زبان میں ژ سے شروع ہونے والا کوئی لفظ نہیں۔ یا ژواگو سے مراد مولا جٹ ٹائپ کا ہیرو بھی لے سکتے ہیں۔
ششششش ۔ خاموش! ایک سوال پیدا ہو رہا ہے۔ سوال کا کیا ہے کہیں بھی پیدا ہو سکتا ہے، تو ابھی ابھی یہ سوال پیدا ہوا کہ ژ کی آواز اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود اتنی مظلوم کیوں ہے۔ اردو میں تو چلیے فارسی کے چند الفاظ کی وجہ سے اسے حروف تہجی میں جگہ مل گئی، مگر ہندی جن میں دنیا بھر کے ڈٹڑ (یعنی ڈ، ٹ، اور ڑ رکھنے والے) الفاظ ہیں اس نے اس خوبصورت آواز کو کیوں جگہ نہیں دی۔ ہے نا لمحہ فکریہ؟ اور پھر انگریزی میں یہ لفظ یوژولی استعمال ہوتا ہے مگر اس غریب کو کوئی حرف تہجی الاٹ نہیں ہوا۔ ویسے انگریزی نے چ اور ش کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ہے۔ اب ہم ٹھہرے مفکر۔ ہم ان معاملات پر غور نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ تو غور کرنے پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ جو کہتے ہیں کہ انگریز ہزار سال آگے کی سوچتا ہے، یہ بات سچ ہے۔ یقیناً آج سے ایک ہزار سال پہلے جب انگریزی زبان کے حروف تہجی قرار پا رہے ہوں گے تو ان کو علم ہوگا کہ ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹر جب ایجاد ہوں گے تو ان کے کی بورڈ پر صرف 26 حروف کی گنجائش ہو گی۔ اس لیے انہوں نے اتنی اہم آوازوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔
ہمیں اندازہ ہے کہ پڑھنے والے دعا کر رہے ہوں گے کہ اب دادی دعاگو کا ذکر چھڑے۔ تو ہم آپ کو شاید پہلے نہیں بتا سکے کہ ہمارے پاس دادی دعاگو نام کا کوئی کردار ہی نہیں۔ ہاں دعاگو ہر ہر قدم پر مل جاتے ہیں، اور خواتین جب کسی کام کی نہیں رہ جاتیں تو دادی دعاگو اور نانی دعاگو بن ہی جاتی ہیں۔ ہماری شادی کے بعد جب چوراہے پر سگنل کھلنے کا انتظار کرنے کے دوران ایک فقیرنی نے کار کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ہماری بیگم صاحب کو پہلی بار دعا دی کہ بیگم صاحب اللہ جوڑی سلامت رکھے، تو بیگم صاحبہ کو ایسی مسرت ہوئی کہ انہوں نے اس کو ایک بڑی رقم تھما دی۔ اتنی کہ اس میں ہم دونوں ڈنر کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ ہرچند فقیرنی نے فرمائش کی کہ ہم اسے اور اس کے منگیتر کو کسی اچھے ریستوران تک پہنچا دیں، ہم وہیں سے گھر لوٹ آئے ۔
'
ہمارا معاشرہ یقیناً دعا کا معاشرہ ہے۔ آپ اگر غور کریں تو، اور غور تو آپ کو ہی کرنا ہوگا کیونکہ میں تو بہت غور کر چکا، تو ہمارے اردگرد آپ کو قدم قدم پر
دعا دینا، عادتاً دعا دینا، مجبوراً دعا دینا، فرمائش پر دعا دینا، دعائیہ گانے گانا،
دعا مانگنا، دعا مانگتے چلے جانا، خاص طور پر دعا مانگنا، جا بجا دعا مانگنا، ہر موقع کی الگ دعا یاد رکھنا اور حسب ضرورت بہ آواز بلند مانگنا، رو رو کر دعائیں مانگنا،
دعا کا طلبگار ہونا، دعا کے لیے کہنا، خصوصی دعاؤں کا طالب ہونا، دعا کروانا، اپنے آپ کو دعاؤں میں یاد رکھوانا، دعائیں لینا، وغیرہ مستقل وقوع پذیر ہوتے نظر آئیں گے۔
لیکن قابل ذکر ہے پیشہ ورانہ دعا مانگنا۔ موقع ہو یا نہ ہو، اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا، مساجد یا محافل کی روشنیاں بجھا کر دعائیں مانگنا۔
یہ تمام وہ عنوانات ہیں جن میں سے ہر ایک پر کوئی بدعنوان مصنف ایک اچھا خاصا مضمون لکھ سکتا ہے۔
پھر دعا کی مونث شکل یعنی بد دعا بھی ہوتی ہے جسے دینا بھی ایک ہنر ہے اور جو تیرا ککھ نہ رہے سے لے کر فرنگی کی توپوں میں کیڑے پڑیں تک پر محیط ہے۔ اسی میں دوسری شادی کی دعا بھی شامل ہے جو بیک وقت دعا بھی ہو سکتی ہے اور بد دعا بھی۔ ویسے تو پہلی شادی کی دعا بھی ایسی ہی دو دھاری تلوار ہے۔ جب چاند جیسی ٹنڈ والے کو چاند جیسی بیوی ملنے کی دعا دی جائے تو یہ اس غریب چاند جیسی لڑکی کے لیے تو بددعا ہی ہوئی جو محلوں کے راجہ کی دعائیں دن رات مانگتی نہیں تھکتی۔ مگر بڑی بوڑھیاں یہ سب کہاں سوچتی ہیں۔ ان کی تو ادھر کسی نے چاپلوسی کی ادھر انہوں نے دعاؤں کے انبار لگانے شروع کیے۔ پھر اگر کوئی نوبیاہتا لڑکی ان کے ہتّھے چڑھ جائے تو دودھوں نہاؤ اور پوتوں پھلو کی دعاؤں سے اس کو نڈھال کیے بغیر نہیں چھوڑتیں۔
اس پر یاد آیا کہ ہم نے ایک زمانے میں محمد افراہیم کے اس مشہور دعائیہ ترانے کی پیروڈی کی تھی۔
زمیں کی گود رنگ سے ترنگ سے بھری رہے
اور وہ کچھ یوں تھی
بہو کی گود ننگ سے دھڑنگ سے بھری رہے
خدا کرے
خدا کرے یہ سلسلہ یونہی رہے
'
چلیے دو چار مختصر باتیں۔ پھر دعائے خیر یعنی
اگر زاہد دعائے خیر می گوئی دعا ایں گو
کہ این آوارہِ کوئےمزاح آوارہ تر بادا
دس سال پہلے کی بات ہوگی ہمارے ایک عزیز اسلام آباد کے ایک اسپتال میں داخل تھے، عارضہ قلب میں۔ حالت تشویشناک تھی، مگر مریض خود باحوصلہ تھے اور زندہ رہنے کے خواہاں۔ تیسرے دن ان کی بہن کراچی سے آ گئیں۔ خود ان عزیز نے مجھے بتایا، اسپتال سے واپسی کے بعد، کہ آپا نے مجھے دیکھ کر دعا کی کہ اللہ صحت دے، اور پھر رونا شروع ہو گئیں کہ ہائے اللہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کیا بنے گا۔ بولے ان کی یہ دعا سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں نہیں بچوں گا۔ بہرحال اس کے بعد بھی وہ ایک مدت جیے۔ پھر جب چھوٹے چھوٹے بچے کچھ بڑے ہو گئے تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اکثر لوگ زبانی اور تحریری طور پر کہتے ہیں دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ آج بھی کسی نے کہا تھا۔ اب تک ہزاروں افراد یہ فرمائش کر چکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ہزاروں کو کیسے یاد رکھا جائے؟ اور اگر واقعی سب کو یاد رکھا جائے تو جلد ہی ہمارے لیے دعا ہو رہی ہو گی اور لوگ کہیں گے کیسا معصوم تھا۔
ویسے تو لوگ قدم قدم پر دعائیں مانگتے ہی رہتے ہیں، جو فرشتوں کی کارکردگی کی بنا پر کم ہی قبول ہوتی ہیں، جو دعاؤں کے محضر پر ایک سرنامہ لگا دیتے ہیں کہ سب وہی پرانی دعائیں ہیں، عرش تک پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر جو پیشہ ور دعاگو منبر پر بیٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں ان کا تو واقعی جواب نہیں۔ جمعے کی نماز کے بعد ہماری مسجد کے امام کی اردو کی پہلی دعا یہ ہوتی ہے کہ یا اللہ ہم سب نے مل کر جو نماز جمعہ ادا کی ہے اسے قبول فرما۔ گویا اگر امام صاحب یہ دعا نما سفارش نہیں کریں گے تو اللہ میاں کوتو سب کی نماز رد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
پھر کچھ دعائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں سادہ دل سے سادہ دل انسان بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ ان کا قبول ہونا ممکن ہے۔ جیسے تمام بیماروں کو شفائے کامل عطا کرنے کی دعا۔
مزا تو جب آتا ہے جب 72 سال تک متواتر ہر منبر سے کشمیر کی آزادی کی دعا مانگی جائے جو یہ ثابت کرے کہ پورے ملک میں ایک بھی مستجاب الدعوات مولوی اور نمازی نہیں۔
سب سے زیادہ لطف تو اس دعا میں آیا جب ایک امریکی صدر اسلام آباد کے دورے پر آئے۔ اب اس دورے کو ناکام بنانے کی ذمہ داری ہمارے مولوی صاحب پر آ پڑی۔ انہوں نے اللہ میاں کے لیے ایسا تفصیلی پروگرام چاک آؤٹ کیا، کہ کیسے امریکی جہازوں کو آپس میں ٹکرانا ہے، اور پھر کیسے امریکہ کو مکمل تباہ کرنا ہے وغیرہ ۔ بس صرف اللہ میاں سے آگے آپ خود سمجھدار ہو کہنے کی کسر رہ گئی۔فرشتے بھی حیران رہ گئے ۔ یہی کہہ پائے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب۔
دعا کی ہی ایک قسم آہ بھی ہے۔ آغا حشر کا یہ شعر کس نے نہیں سنا ہوگا
آہ جاتی ہے فلک پررحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
پتہ چلا کہ بادل آہ کے فلک تک جانے میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ ایسا ہی پھر دعا کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ شاید دعاؤں اور آہوں کا ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے ہی بادل ایسے امنڈ امنڈ کر آتے ہیں۔ جن لوگوں کو سنجیدگی سے دعا مانگنی ہے وہ آسمان صاف دیکھ کر ہی دعا مانگیں۔
آخر میں ان ماسٹر صاحب کا قصہ جو بیمار پڑے تو پرنسپل صاحب کچھ اور ساتھیوں کے ساتھ عیادت کرنے گئے۔ دعا مانگنے کے بعد انہوں نے ماسٹر صاحب کو کہا اللہ نے چاہا تو آپ جلد اچھے ہو جائیں گے۔ ہم نے آج اسکول کے بچوں سے بھی آپ کے لیے دعا کروائی ہے۔ ماسٹر صاحب مسکرا کر بولے اسکول کے بچوں کی دعائیں قبول ہوتیں تو ایک استاد بھی زندہ نہ رہتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آصف اکبر-- رنگِ مزاح
(یہ فکاہیہ تحریر 13 جولائی 2019 کو بزم مناثرہ کی 11ویں محفل میں پڑھی گئی۔)
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭(یہ فکاہیہ تحریر 13 جولائی 2019 کو بزم مناثرہ کی 11ویں محفل میں پڑھی گئی۔)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں