Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 10 جولائی، 2019

اللہ کا نظامِ معیشت۔ انسانی گناہ اور ثواب


بالا پوسٹ ، زلیخہ سندس   نے اپنی وال پر لگائی اور ساتھ یہ کمنٹ دیا :
کیسی کیسی باتیں انبیاء کرام کی طرف منسوب کر لی گئیں!
کیا انبیاء کا کام گناہوں کی ترغیب دلانا ہے؟

٭٭٭پہلے اللہ کی ایک بئین آیت ٭٭٭
وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ(3:161)  
ایک نبی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ(اعتماد کو) دھوکہ دے۔ اور اگر کوئی شخص دھوکہ دیتا ہے، تو وہ یوم القیامۃ جس کا اس نے دھوکا دیا۔اس  (شئے) کے ساتھ آئے گا۔ پھر ہر نفس بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا  اور اس پر ظلم نہیں ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 بوڑھے نے کمنٹ دیا:
  کبھی آپ نے اِس روایت کو جو رسول اللہ سے منسوب ہے ۔ کی روح کو پہچانا ہے ؟ 
نیک دل خاتون:
 کسی بھی ایسے انسان نے جو دردِ انسانیت رکھتا ہے، بالا تحریر میں کیا  خوب لکھا ہے ۔
  اللہ کی آیات کی روشنی میں ایمان والوں کو ایک پیغام دیا ہے ۔
 وہ پیغام کیا ہے ؟   اِس کا جواب ،  بعد میں،
  لیکن کیا اللہ نے  اپنا یہ لفظ " توبہ"  الکتاب میں بلاوجہ استعمال کیا  ہے ؟
 
 قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﴿2:38 
جی وہ قیمت تھی جنت سے آدم کا  ھبط ہونا ! 

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿2:39
  دوستو: کیا آپ کو معلوم ہے کہ  :
٭-بذریعہ  توبہ  ۔ اللہ ہمارے  گناہ  صغیرہ   ، کی قیمت مانگتا ہے ۔

٭- بذریعہ  کفارہ  ۔اللہ ہماری کوتاہیوں  کی تادیب یا  قیمت مانگتا ہے ۔
٭-بذریعہ قصاص  ۔اللہ ہمارے  گناہ کبیرہ  ،کو باقی انسانوں کے لئے عبرت بنانا چاہتا ہے ۔

٭-بذریعہ انفاق ۔ اللہ ہمارے  ثواب قیمت پر خریدتا ہے ۔
 گناہ بخشوانے کے لئے ، اللہ کو ہماری ملائی  ایجاد کردہ ، نمازوں  کی بالکل ضرورت نہیں ۔

 روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کا حکم بتایا :

هَاأَنتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ [47:38]

 
نیک دل خاتون:

 کسی بھی ایسے انسان نے جو دردِ انسانیت رکھتا ہے، بالا تحریر میں کیا  خوب لکھا ہے ۔جو یوں ہونا چاھئیے :
گناہ  صغیرہ کرو ، سو فیصد نیک بننے کے چکر میں مت پڑو !
 ورنہ اللہ کا نظامِ معیشت بگڑ جائے گا ۔ 
لیکن گناہ صغیرہ کے بعد  اللہ کو صدقہ دو  اور پھر توبہ کرو تو اللہ توبہ قبول کرے گا ورنہ نہیں ۔ 
اللہ کو تمھاری نیکیوں سے کوئی غرض نہیں۔
 اللہ کو  تو تمام انسانوں کی بھلائی درکار ہے ۔ 
تم گناہ سے کیسے بچ سکتے ہو؟  
جبکہ اللہ نے تمھارے لئے  تمھارے ہی نفس  میں فجور (شیطان ) الھام کیا ہوا ہے   ۔
اور اللہ  تمھاری نمازوں کو تمھارے منہ پر مارے گا ۔
وہ تمھیں قوم غیر بدل دے گا ، جو گناہ کرے گی اور  (اعترافِ گناہ  کے بعد ) دل کھول کر صدقہ(کفارۃ)  دے گی " 
 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (50:16)  اور حقیقت میں ہم نے انسان کو خلق کیا اور ہم علم رکھتے ہیں جواس کے ساتھ اس کے نفس میں وسوسہ کرتا ہے۔ اور ہم حبل الورید میں سے اس کی طرف اقرب ہیں ۔

 ٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔