Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 19 جولائی، 2019

کالی مرچ ایک دلچسب کہانی !

  کالی مرچ جس کی تلاش میں انڈیا یورپ والوں کے ہاتھ آ گیا تھا  .




کیا آپ کو یہ معلوم ہے ۔۔ کہ کالی مرچ کہاں سے آتی ہے ۔۔ اور کس طرح پیدا ہوتی اور تیار کی جاتی ہے ۔۔ اس مسالے کی کشش یورپی قوموں کو انڈیا کھنیچ کر لائی تھی ۔۔ اور بالاخر وہ ہمارے حاکم بن بیھٹے تھے ۔۔کسی زمانے میں یہ اتنی قیمتی تھی ۔۔ کہ اسے کالا سونا کہا جاتا تھا ۔۔ اور مہمانوں کیلیے تیار کردہ کھانوں میں کالی مرچ کا استعمال میزبان کی دولت اور طاقت کا بلا انکار ثبوت تسلیم کیا جاتا تھا ۔۔ یورپ میں اس قیمتی اور نایاب مسالے کی ہر کسی کو تلاش تھی ۔۔ لیکن انکو یہ معلوم نہیں تھا ۔۔ کہ یہ کہاں پیدا ہوتا ہے ۔۔ اور اسے کیسے تیار کیاجاتا ہے ۔۔

اس کے متعلق وہاں کئ کہاوتیں مشہور تھیں ۔۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ اڑنے والےانتہائی زہریلے سانپ کالی مرچ کے جنگلوں کی رکھوالی کرتے ہیں ۔۔ اور مقامی لوگ جنگلات کو آگ لگا کر ان سانپوں کو عارضی طور پر بھگانے کے بعد اس مسالے کوحاصل کرتے ہیں ۔۔ جسکی وجہ سے اسکا رنگ کالا ہوتا ہے ۔۔ اور اسمیں آگ کا زائقہ پایا جاتا ہے ۔۔ کالی مرچ کا مقام پیدائش انڈیا میں کیرلا کے علاقے میں ہے ۔۔ جہاں یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے ۔۔ یہاں کے لوگ ہزاروں سالوں سے ان بیریوں کو چن کر ان سے مسالہ تیار کرتے چلے آ رہے ہیں ۔۔

کئی صدیوں تک یورپ میں بیچنے اور اس سے بے شمار دولت کمانے والے صرف عرب تاجر تھے ۔۔ کیونکہ اس علاقے کا راستہ صرف وہی جانتے تھے ۔۔ اور وہ اپنے گاہکوں تک اس راز کو پہنچنے نہیں دے رہے تھے ۔۔ اور اوپر سے اس راز کو محفوظ رکھنے میں یورپی لوگوں کی بے بنیاد کہاوتیں بھی ان تاجروں کیلیے مدد گار ثابت ہو رہی تھیں ۔۔ اسطرح انہیں اس مسالے کی تجارت پر مکمل تسلط حاصل تھا ۔۔ لیکن اسکے ختم ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں تھا ۔۔ یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے ۔۔ تین دن کیلئے سبز بیریوں کودھوپ میں سُوکھا کر کالی مرچ تیار جاتی ہے ۔۔ اس مسالے کا یورپ میں استعمال رومن دور میں شروع ہوا تھا ۔۔ البتہ پندرویں صدی عیسوی کے دوران یورپی امیر گھروں کے کھانوں کے علاوہ کالی مرچ کا استعمال '' کالی موت '' یا طاعون کے علاج کیلئے بھی شروع ہوگیا ۔۔ جسکے پھیلنے سے وہاں لوگ بڑی تعداد میں مر رہے تھے ۔۔ اس قیمتی مال کی سخت ضرورت اور شدید مانگ کی وجہ سے 8 جولائی 1497 میں پرتگال نے اپنے سب سے اعلٰی سمندری جہازراں واسکو ڈ ی گاما کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا ۔۔ واسکو ڈ ی گاما کا فلوٹیلا مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے سمندری ہواوں کی مدد سے افریقی ساحلوں کے کٹھن بحری راستے سے مئی 1498 میں انڈیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔۔

اسطرح اسے یورپ میں سب سے پہلے انڈیا تک سمندری راستہ تلاش کرنے کا مقام بھی حاصل ہوا ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا ۔۔ کہ ڈاگاما کےاس کارنامے سے پرتگال کا جیک پاٹ نکل آیا تھا ۔۔ 1497 میں پرتگال نے اپنے سب سے اعلٰی سمندری جہازراں واسکو ڈ ی گاما کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا ۔۔ واسکو ڈ ی گاما انڈیا پہنچنے سے پہلے یہاں بے دین جنگلی وحشی دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا تھا ۔۔ جو بيکار یورپی اشیا کے بدلے اپنا کالا سونا با خوشی اسکے حوالے کر دیں گے ۔۔ جب ڈیگاما کیرلا کے شہر کوچی پہنچا ۔۔ تو اس کے بالکل برعکس لوگوں کو بہت دولتمند پایا ۔۔ دور دور سے عرب، چینی اور کئی دوسرے تاجر صدیوں سے اس ہر دیسی مرکز پر تجارت کیلئے آ رہے تھے ۔۔

پندرہیویں صدی میں کیرلا کیلیےکالی مرچ وہی مالی مقام رکھتی تھی ۔۔ جو آجکل گلف کی ریاستوں کیلئےتیل رکھتا ہے ۔۔ واسکو ڈ ی گاما کے کیرلا میں آنے کے آٹھ سال کے اندر ہی پرتگال نے اس علاقے میں اپنے قدم اچھی طرح سے جما لئے تھے ۔۔ انہوں یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کر لیا تھا ۔۔ جہاں انہوں نے انڈیا میں اپنے پہلے وائسرائے کو مقیم کیا دیا ۔۔

سولہویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی پرتگالی مسالوں کی تجارت میں سب سے آگے نکل چکےتھے ۔۔ اور جو مال وہ تجارت سے حاصل نہیں کر سکتے تھے ۔۔ اپنی طاقت سے چھین لیتے تھے ۔۔ کالی مرچ کی خاطر پرتگال نے انڈیا کے مسالے والےساحلی علاقوں کو اپنے محاصرہ میں لےلیا تھا ۔۔ ایک مرتبہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا ۔۔ کہ انڈیا میں کالی مرچ کی تجارت اب انکے مکمل قابو میں ہے ۔۔ تو انہوں نے اپنی توجہ دوسرے مسالوں کو ڈھونڈنے کی طرف کر دی ۔۔

ان کی تلاش کیلیے اگلا مسالہ دار چینی تھا ۔۔ جو سولویں صدی کے یورپی امیر لوگوں میں بے حد مقبول تھا ۔۔ یہ کالی مرچ سے بھی زیادہ نایاب تھا ۔۔ اور اسکا منبع بھی انکے لئے نامعلوم تھا ۔۔ کیرلا کے آس پاس کے سمندر میں عرب تجارتی جہازوں پرمسلسل چھاپوں میں انہیں بار بار ان پر لدے مال میں دار چینی مل رہی تھی ۔۔ اسلئے انہیں شک تھا ۔۔ کہ یہ مسالہ کہیں آس پاس ہی پایا جاتا ہے ۔۔ لیکن کیرلا کے سمندر سے آگے کے علاقے سے وہ بلکل ناواقف تھے ۔۔

1506 میں پرتگالی ایک عربی جہاز کا پیچھا کرتے ہوئے طوفان میں راستہ بھٹک گئے ۔۔ اور انہوں ایک انجان ساحل پر پناہ لی ۔۔ یہ سری لنکا کا ساحل تھا ۔۔ اور دار چینی یہاں ہی پائی جاتی تھی ۔۔ اور یوں انہیں دار چینی کا منبع بھی مل گیا ۔۔ کالی مرچ اور دار چینی جیسے مسالے دینا بھر میں کھانے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیوں کے باعث بنے ہیں ۔۔ اور آج بھی مقبول ہیں ۔۔ لیکن انکی تلاش نہ صرف ہماری تاریخ کا رخ بدلنے کا باعث بنی ۔۔ بلکہ اس نے جدید دینا کی شکل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔۔ ان مسالوں کی مدد سے شہنشاہی سلطنتیں بنیں اور ٹوٹیں ۔۔ انکی خاطر قوموں کی آزادی چھن گئی ۔۔ اور قتل و غارت میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا ۔۔

کالی مرچ اور دار چینی دو معمولی سے مسالے اور ایک غیر معمولی ماضی کے مالک جن کی تلاش سے یورپی لوگوں کے دولت سے خزانے بھر گئے لیکن جن لوگوں نے انہیں اپنی محنت سے بنایا ۔۔ انکو اور انکی قوم کو اسکے بدلے میں کیا حاصل ہوا ؟؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔