ایک چالیس سال پرانا دوست ، دو سالہ اکیڈمی فیلو ، اُس نے وٹس ایپ پر آئن سٹائن کے خدا کے نام سے انگلش میں ایک مضمون ڈالا جو سپائینوزا (Spinoza) کا خود ساختہ خدا ہے ۔ میرا دوست بھی جزاء و سزا اور آخرت کے بارے میں یقین نہیں رکھتا ، اُس کا بھی کہنا ہے کہ سپائینوزا (Spinoza) کے خدا کی خاصیت ، ہوبہو میرے خدا سے ملتی ہے ۔
پہلے مضمون ، بعد میں میر ی رائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کہا جاتا ہے کہ جب بھی ، آئن سٹائن نے مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیا تو طلباء اُس سے ایک سوال ضرور پوچھتے ۔
کیا آپ خدا پر یقین رکھتے ہو ؟
تو وہ ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ،
تو وہ ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ،
" میں سپائینوزا (Spinoza) کے خدا پر یقین رکھتا ہوں "۔
بہت سوں کو نہیں معلوم کہ، سپائینوزا (Spinoza) کے خدا کون تھا ؟
Baruch De Spinoza ، ایک پرتگیز یہودی النسل سے تعلق رکھنے والا ڈَ چ فلاسفر تھا ۔
جو اپنے وقت کا ایک حقیقت پرست فلاسفر اور نقّاد کے طور پر مشہور تھا ۔تالمود تورا کا ماہر تھا ، لیکن 21 سال کی عمر میں اُسے 27 جولائی 1656 میں اُسے یہودیت سے خارج کردیا گیا ۔ اُس نے فرینچ فلاسفر ، Rene Descartes ۔ ( 1596-1650) ، سائینسدان، حساب دان اور فلاسفر تھا ، کی فلاسفی پر ریسرچ کی اور اپنایا ، سپائینوزا ایمسٹرڈیم میں 24 نومبر 1932 میں پیدا ہوا اور 44 سال کی عمر میں 21 فروری 1677 میں ہیگ میں فوت ہو ا ، والد ایک بزنس مین تھا ۔
اب ہم آتے ہیں ، فلاسفر سپائینوزا (Spinoza) کے اپنے خدا کے اقوال پر، جو تالمو تورا سے منحرف ہونے کے بعد اُس نے اپنے لئے خود تخلیق کیئے :
٭- دعائیہ کلمات اور اپنے سینے پر دوہتڑ مارنا بند کرو ! میں چاہتا ہوں کہ تم دنیا میں باہر جاؤ اور مزے کرو !
٭- میں چاہتا ہوں تم گاؤ ، مزاح کرو ،اور ہر اُس چیز کا مزہ اُڑاؤ جو میں نے تمھیں دی ہیں ۔
٭- اُن اداس ، تاریک اور ٹھنڈے مکانوں میں مت جاؤ جنہیں تم نے بنایا اور میرا گھر قرار دے دیا ۔
٭- میرا گھر تو پہاڑوں میں ہے ، جنگلوں میں ہے ، دریاؤں میں ہے ، جھیلوں میں ہے اور سمندر کے ساحل پر ہے ، جہاں میں رہتا ہوں اور اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں ۔
٭- اپنی مصیبت زدہ زندگی پر مجھے الزام مت دو ، میں نے کب کہا کہ تم گناہ گار ہو ؟
خوفزدہ ہونا بند کرو ، میں نہ تمھیں جج کرتا ہوں نہ تمھیں ٹوکتا ہوں اور نہ ہی غصہ ہوتا ہوں ، مجھے کسی کی پرواہ نہیں اور نہ ہی میں نے تمھارے لئے سزائیں بنائیں ہیں ، میں صرف محبت ہوں ۔
٭- مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مت مانگو ! کوئی ایسی وجہ نہیں کہ تمھیں معاف کیا جائے ، اگر میں نے تمھیں تخلیق کیا ہے ، تو میں نے ہی تم میں بردباری ، کمزوریاں ، خوشیاں ، ضروریات اور خامیوں کی خواہشات بھری ہیں ،
- میں کیسے اُس بات پر تمھیں الزام یا سزا دوں جو میں نے تم میں ڈالیں ہیں ؟
- میں کیسے اُس بات پر تمھیں الزام یا سزا دوں جو میں نے تم میں ڈالیں ہیں ؟
- جب میں نے تمھیں ایسا ہی بنایا ہے جیسے تم ہو تو میں تمھیں کیوں سزا دوں ؟
ـ کیا تم یہ سوچ سکتے ہو ۔ کہ میں اپنے تمام بچوں کو جلانے کے لئے ایسی جگہ بناؤں گا ۔جس میں نافرمانی کی وجہ سے تمام زندگی کے لئے ڈال دوں ؟
- کِس قسم کا خدا ایسا کر سکتا ہے؟
- کِس قسم کا خدا ایسا کر سکتا ہے؟
٭- اُن تما م احکامات اور قوانین کو بھول جاؤ ، جو تمھیں استعمال کرنے ، قابو کرنے اور صرف تمھارے اندر شرمندگی پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں ۔
٭ ۔ اپنے خیالات کی ہم آہنگی کی عزت کرو ، اور دوسروں کے لئے وہ مت چاہو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو ۔
٭- میں تم سے صرف یہ چھتا ہوں کہ اپنی زندگی پر توجہ دو ، جو تمھاری آگاہی اور تمھاری ھادی ہے ۔
٭- یہاں اور وہاں صرف زندگی ایسی چیز ہے جس کی تمھیں ضرورت ہے۔
٭- میں نے تمھیں مکمل آزاد بنایا ہے ۔ کوئی انعام یا سزا نہیں ، کوئی گناہ یا خوش نصیبی نہیں ، کوئی بھی (گناہوں کے ) نشانات نہیں اٹھائے گا اور کوئی بھی اپنے (اعمال کا) حساب ساتھ نہیں لے جائے گا ۔
٭- تم اپنی زندگی میں جنت یا جہنم بنانے کے لئے بالکل آزاد پیدا کئے گئے ہو !
٭- میں تمھیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اِس زندگی کے ختم ہونے کے بعد بھی کوئی زندگی ، لیکن میں تمھیں ایک اشارہ ضرور دے سکتا ہوں ، ایسے زندگی گذارو کہ بس یہی زندگی ہے ۔
٭- تمھارے لئے انجوائے اور محبت کرنے کے لئے بس صرف یہی زندگی ہے ۔
٭- اگر ایسا کچھ نہیں تو جو موقع میں نے تمھیں دیا ، کیا تم اُس سے لطف اندوز ہوئے ؟
٭- اگر ایسا کچھ نہیں تو جو موقع میں نے تمھیں دیا ، کیا تم اُس سے لطف اندوز ہوئے ؟
٭- اور اگر ایسا ہوا بھی تو میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ تم نے اچھا کیا یا بُرا ؟
٭- میں تم سے یہ سوال ضرور کروں گا :
- کیا تم نے اِس (دنیادی ) زندگی کو پسند کیا ؟
- کیا تم نے مزے اُڑائے ؟
ـ تمھیں سب سے زیادہ کیا پسند آیا ؟
- کیا تم نے مزے اُڑائے ؟
ـ تمھیں سب سے زیادہ کیا پسند آیا ؟
ـ تم نے کیا سیکھا ؟
٭ ۔ بس اب مجھ پر آنکھیں بند کرکے ،ایمان لانا بند کرو ! یہ صرف اندازے ، گمان اور قیاس ہیں ، میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ پر ایمان لاؤ،۔
٭- میں چاہتا ہوں کہ تم اُس وقت مجھے محسوس کرو جب:
- تم اپنی محبوبہ کو بوسہ دیتے ہو ۔
- تم اپنی محبوبہ کو بوسہ دیتے ہو ۔
- جب تم اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ کھیلتے ہو ۔
- جب تم اپنے کتّے کو پیار کرتے ہو ۔
- جب تم اپنے کتّے کو پیار کرتے ہو ۔
- جب تم سمندر میں نہاتے ہو ۔
٭- میری تعریفیں کرنا بند کرو !
٭- میری تعریفیں کرنا بند کرو !
٭- تم مجھے کس قسم کا انا پرست خدا سمجھتے ہو ؟
٭ - میں تمھاری تعریفوں سے بور ہو چکا ہوں اور تمھارے خیالات سے تنگ آچکا ہوں ۔
٭- اگر تم میرے شکر گزار بننا چاھتے ہو ، تو اپنا ، اپنی صحت ، رشتہ داریاں اور اپنے ارد گرد کی دنیا کا خیال رکھو۔
٭- جب تم خوشی سے بے قابو ہوجاؤ ، تو اِس اظہار کرو ۔بس یہی میری تعریف کا طریقہ ہے ۔
٭- یہ بات یقینی ہے کہ تم موجود ہو ، تم زندہ ہو اور یہ دنیا عجائبات سے بھری ہوئی ہے ۔
٭ ۔تمھیں مزید معجزات کِس لئے چاھئیں ؟
٭- اتنی وضاحتیں کِس لئے ؟
٭- تم مجھے باہر مت دیکھو ، تلاش نہیں کر سکو گے ، میں تو تمھارے اندر دھڑک رہا ہوں ،
Baruch De Spinoza
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں