آصف اکبر -- رنگِ مزاح
-------------------------(یہ مضمون 14 ستمبر 2019 کو حسن ابدال میں محترم ظہیر قندیل کے گھر پر منعقد ہونے والی مزاحیہ نثر کی تیرھویں محفل میں پیش کیا گیا۔)
اکیسویں صدی کے تمثیلی تناظر میں سماجی حیثیت سے
محروم مویشیوں کا جدلیاتی سطح پر ما بعد التشبیہاتی مطالعہ
-----------------------------------------------------------
کسی زمانے کا ذکر ہے یعنی کچھ دن پہلے کا کہ میں مویشیوں کے بارے میں ایک ابنِ انشائیہ لکھنا چاہتا تھا، یعنی انشائیہ کا خورد۔ مگر قدرتِ حق سے اس دوران ایک دوست کا محبت کے بارے میں ایک مابعد الفلسفیاتی مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون تو خیر کیا سمجھ میں آتا، مگر جیسے سیلاب کے دنوں میں صاف شفّاف 'دھیرے بہو والی ندیا' گدلا جاتی ہے، ویسے ہی اس مضمون کے اثر سے میری تحریر کے تشکیلی تفاعل نے بھی ایک نئی عدم ارتکازی تعاملیت کا اشتعالی التباس اختیار کیا اور سادہ مفاہیم کو کثیف اصطلاحات سے آلودہ کر کےاس قابل بنا دیا کہ فلسفیوں اور عظیم تر دانشوروں کی کسی بھی محفل میں اس کو بلا تصمیم پیش کیا جا سکے۔
ظاہر ہے میں آپ کو اُس تحریر کے مصنف کے نام سے آگاہی نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ میرے بالائے قریبی دوست ہیں، اور دوست جب تحت الشعوری بنیاد پر بگڑ جائے تو اس سے برا دشمن کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن میں آپ پر اُس مضمون کے ایک دو جملے ضرور آشکار کر سکتا ہوں۔ بس آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ سمجھ جائیں کہ وہ تحریر کس کی ہے تو اس مصنف کو ہرگز نہ بنائیے گا کہ میں اس سے کس حد تک متاثّر ہوں۔ بہرحال یہ بتاتا چلوں کہ وہ تحریر احمد سہیل کی نہیں ہے، حالانکہ وہ ایسی تحریر اتنی ہی سہولت سے لکھ سکتے ہیں جتنی سہولت سے کوئی مرغی روزانہ ایک انڈا دے سکتی ہے۔
اب اس مضمون کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے۔ کہتے ہیں:
"محبت کو جب فاصلہ یا وقت حنوط کرتا ہے تو یہ کناروں سے باہر آ جاتی ہے اور پھیل کر اپنے مضافات کو اپنے خوبصورت حصار میں لے لیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان پاکستان کے ہاں تصورِ محبت ایک مخصوس برتن تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس میں زیادہ حصہ ہماری لوک داستانوں نے ڈالا جن کے ذریعے جنسِ مخالف کو ایک ایسی شناختی اکائی کے طور پر پیش کیا گیا جس کو اختیار کرنا اپنی ذات کی نفی اور اپنے فطری جوہرِ محبت کو مضافات کی شناختی اور ثقافتی اکائیوں سے الگ کر کے ایک جنسِ مخالف کی اکائی تک مرتکز کرنا اعزازِ بے مثل بنا دیا گیا۔"
ہم تو اس انداز تحریر سے ایسے گھائل ہوئے کہ ہمارا چولا ہی بدل گیا۔ لیجیے ایک جملہ اور:
"عمومی طور پر محبت کی شادیاں اس وجہ سے ناکام ہوتی ہیں کہ دو محبت کرنے والوں کے سامنے جو ماڈل ہوتا ہے وہ بالی وڈ کا ہوتا ہے یا بصری میڈیا کی دوسری شکلوں یعنی ٹی وی ڈراموں وغیرہ کے ہاتھوں متشکل ہوا ہوتا ہے لہٰذا یہ ایک غیر عملی اور سماج سے الگ معلق منظر نامے کا حصہ ہوتا ہے جب کہ شادی ایک متحرک اور جدلیاتی سماجی ربط ہے جو سماجی تحرک کے ساتھ اپنی نو بہ نو سمتوں کا تعین کرتی ہے۔ چونکہ محبت کا تصور یک شخصی اور یک روی ہوتا ہے لہٰذا جدلیاتی ترفع کے ساتھ اس کی ہم آہنگی نہیں ہوتی اس لیے شادیوں کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔"
اب ہم آتے ہیں اپنے مضمون کی طرف جن کا عنوان یقیناً ایک بار پھر بتانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک معلّق حقیقتِ ناشکستہ ہے کہ اعلیٰ اور ارفع دماغ کسی چیز کے موضوع کو زیادہ دیر تک حصارِ تحفظ میں منجمد نہیں رکھ سکتے۔ تو ہمارے مضمون کا عنوان ہے:
"اکیسویں صدی کے تمثیلی تناظر میں سماجی حیثیت سے محروم مویشیوں کا جدلیاتی سطح پر ما بعد التشبیہاتی مطالعہ"
--------------------------------------------------------------
ہم اس تحتِ تحقیقی مضمون میں انسانی معاشرے میں مویشیوں کی سماجی حیثیت کا ایک گمراہ کن مطالعہ کریں گے، جس میں خصوصی اختصاص کا ارتکاز بھینس پر کیا جائے گا کیونکہ بھینس کی دیگر مویشیوں پر برتری کے بارے میں بے شمار من گھڑت اور بے بنیاد کہاوتیں اور اقوال ہمارے پاس ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک فضیلت مآب بھینس کو سو گایوں پر وہی تفوّق حاصل ہے جو ایک انار کو سو بیماروں پر ہوتا ہے۔ آن دِس بھینسِس ہم اس بات کا استثبات کریں گے کہ دورِ حاضر کی تنقیدی پیچیدگیوں کی گوناگوں تشکیلات کے باوجود ابھی تک مویشیوں پر وہ تحقیق نہیں کی گئی ہے جس کا اطلاق معاشرے کی عدم یکجہتی کے مظاہر پر کیا جا سکے۔
ہاں نجی دماغی تحقیق سے ایک احتجاجی نکتہ بھی سامنے آیا ہے، مناسب ہے کہ پہلے اس پر روشنی کی دھار ڈالی جائے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ہندی میں ویشیا کا لفظ خواتین کے ایک خاص گروہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب غور و فکر کی پرتیں تہہ و بالا کرنے سے یہ بات بداہتاً سامنے آتی ہے کہ یہ لفظ اصل میں مویشیا رہا ہوگا جس کو اردو دشمنی میں بگاڑ کر ویشیا کر دیا گیا۔ اب آپ سوچیں کہ ایک مجہول طبقے کے لیے مویشیا کا استعمال کیا مویشیوں کی عزت نفس پر کھلا حملہ نہیں ہے اور کیا ایک مہذب معاشرے میں اس قسم کی زبان درازی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سے ویش نام کی پوری ایک قوم بنا دی گئی ہے جو ناانصافی کی حد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مخالفین یہ کہیں کہ ویشیا تو سنسکرت کا لفظ ہے تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ کیا سنسکرت والے اردو دشمنی سے معرّیٰ اور ماوراء ہیں۔
ہم جب اپنے معاشرے کے شب و روز پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندوہناک حقیقت آسمانِ شعور پر طلوع ہوتی نظر آتی ہے کہ کسی بھی سماج کے خوراکیاتی اجتماعیوں میں مویشیوں کا یک نسلی ارتکاز خوف ناک ہوتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مویشیوں کی پرداخت ایک تجارتی اشتغال ہے یعنی مویشیوں کا تصور ِ تصرّف نہ صرف ان کے استحقاقِ حیات کی کامل نفیِ ہے بلکہ ان کی استقراری آزادی کی بھی عملاً تکفیر ہے۔ لہٰذا ہمیں اس تصورِ مقاطعت کو غیر فعّال بنانے کے لیے مویشیوں اور ان کے معصوم اور کم عقل بچوں کے لیے کوئی ایسا طریقہِ کار ابھی سے تلاش کرنا شروع کر دینا چاہیے جو عالم انسانیت کے عظیم محسنوں کے اس عظیم تر گروہ کو اگر انسانی برادری میں برابری کا مقام نہ بھی دلا سکے تو کم از کم ان کی رضا کے بغیر ان کی موت و حیات کے یکطرفہ فیصلوں پر قدغن لگا سکے جو ہمارے نزدیک یک شخصی اختیار کا بدترین استعمال ہے اور ظاہرہے مویشیانہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وحشیانہ حیات کے تصدّق پر ایقان رکھنے والے افراد اس نوع کی سرگرمیوں کا کسی بھی قیمت پر استدلالی دفاع نہیں کر سکتے۔
دنیا کی تمام بڑی مویشیت کی ارتکازگاہیں حسرت یعنی پابندیوں پر قائم ہیں تاہم ان کی ردِ تبدیلیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مویشیوں کا انتظامی محاصرہ کرنے والے اور انکا کاروباری حافلہ کرنے والے لوگوں کے دل دراصل ایک جابر سماج سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ گویا جہاں تجارت کا لاشعوری ارتکاز بے رحمی ہو وہاں یہ بات عمومی طور پر طے کر لی جاتی ہے کہ دوائرِ لحمی و حلیبی کا حامل یہ بے گناہ طبقہ سماجی سطح پر کسی استحقاقِ قاسمہ، پرداختِ قائمہ، تکلم عامّہ، تبسم تامّہ، تواضعِ عامّہ، تعزّزِ دائمہ اور جنسِ مخالف کی طرف آزادانہ میلانات کا کوئی حقِّ تلازمہ نہیں رکھتا۔
ہم کو ایک محقق کی حیثیت سے یہ کہنے میں کوئی امتناع نہیں کہ انسانی معاشرے اور مویشیوں کے معاشرے میں اس وقت جو عمیق بعد ہے وہ کئی جہات پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جہاں انسانی معاشرے نے اپنے ناکارہ ترین افراد کی جبلّی خوہشات کی لاشعوری اور تحت الشعوری خواہشات کی تسکین و تشفی کے لیے استمراری بنیادوں پر نت نئے آسائشی آلات و تعاملات کو منصّہ شھود پر لا کھڑا کیا ہے وہاں مویشیوں کو ان کی مابہٖ الافتخار آزادیوں سے بھی امتناعی رسومات کی نگہداشت کی بنیاد پر محرومِ استقلالیہ کر دیا ہے، در آن حال یہ کہ دس ہزار سال میں مویشیوں کے خدّ و خال میں اظہاری تبدیلیوں کا باب تو مفتّح رکھا گیا مگر ان کی نشست و برخواست، قیام و طعام اور مجلسی استخدام کا مطلق خیال نہیں رکھا گیا، چنانچہ اس پورے عرصہء ارتقائے تہذیبِ انسانی بلحاظ استواریِ تعلقات بالافراد حیوانی علی الخصوص اجناسِ گاؤ و میش و بز و شتر وغیرھم، میں نہ تو مویشیوں کے لیے کھانے کے برتنوں کا کوئی مناسب اہتمام کیا گیا نہ لباس کا انصرام کیا گیا نہ بستروں کی فراہمی کا افہام کیا گیا اور نہ ان کے لیے اخبارات و کتب و رسائل اور ریڈیو، ٹی وی اور موبائل فون جیسی سہولتوں کا کوئی سلسلہ سر انجام دیا گیا، یہاں تک کہ بھینسوں کے لیے بین سنانے کا بھی کوئی جدلیاتی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
اب ہم آتے ہیں بھینسوں کی فلسفیانہ زندگی کے بالائے فہم انسانی قیافوں کی مدد سے تجزیاتی تجزیے کی جانب۔
ہرچند کہ بھیڑ ایک بہت بے ضرر اور بے فہم جانور ہے، اور یہی کیفیت بکری، دنبہ وغیرہ قسم کے مویشیوں کی بھی ہے مگر گائے خصوصاً بیل اپنی طاقت کے غرور میں انسانی برادری کو ذرا خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی ناپسندیدگی اور سرکشی کا اظہار مسلسل گردن ہلا ہلا کر کرتے رہتے ہیں، جبکہ بھینس اس کے مقابلے میں صراحتاً ایک فلسفیانہ زندگی گزارنے کی قائل نظر آتی ہے اور ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو کائنات کے پوشیدہ رازوں پر غور و فکر کر کے ان ازلی گتھیوں کو خاموشی سے سلجھانے کی کوشش کرے جن پر اس کی فہم کے دائرے عدم بسیط و غیر محیط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت میں گائے سے کہیں زیادہ ہونے کے علی الرغم، وہ بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتی ہے، اور اسی وجہ سے کولہو اور رہٹ جیسی لغویات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ نہ بیلوں کی طرح دوڑوں میں حصّہ لیتی نظر آتی ہے۔۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر بھینس کی فلسفیانہ زندگی کے مطالعے کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تو مستقبل بعید میں امکانی طور پر مویشیوں کی زندگی کے روحانی اور بالائے ہیجانی عوامل کو سمجھنے کی یقیناً کوئی نہ کوئی راہ نکلے گی جس سے اس پورے مدوّرانہ استبداد میں شامل حیات و ممات کی گرہیں امکانی طور پر کشادہ ہو سکتی ہیں۔ امید ہے کہ عقلمندوں کے لیے اشاریہ کافی ہوگا
کسی زمانے کا ذکر ہے یعنی کچھ دن پہلے کا کہ میں مویشیوں کے بارے میں ایک ابنِ انشائیہ لکھنا چاہتا تھا، یعنی انشائیہ کا خورد۔ مگر قدرتِ حق سے اس دوران ایک دوست کا محبت کے بارے میں ایک مابعد الفلسفیاتی مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون تو خیر کیا سمجھ میں آتا، مگر جیسے سیلاب کے دنوں میں صاف شفّاف 'دھیرے بہو والی ندیا' گدلا جاتی ہے، ویسے ہی اس مضمون کے اثر سے میری تحریر کے تشکیلی تفاعل نے بھی ایک نئی عدم ارتکازی تعاملیت کا اشتعالی التباس اختیار کیا اور سادہ مفاہیم کو کثیف اصطلاحات سے آلودہ کر کےاس قابل بنا دیا کہ فلسفیوں اور عظیم تر دانشوروں کی کسی بھی محفل میں اس کو بلا تصمیم پیش کیا جا سکے۔
ظاہر ہے میں آپ کو اُس تحریر کے مصنف کے نام سے آگاہی نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ میرے بالائے قریبی دوست ہیں، اور دوست جب تحت الشعوری بنیاد پر بگڑ جائے تو اس سے برا دشمن کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن میں آپ پر اُس مضمون کے ایک دو جملے ضرور آشکار کر سکتا ہوں۔ بس آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ سمجھ جائیں کہ وہ تحریر کس کی ہے تو اس مصنف کو ہرگز نہ بنائیے گا کہ میں اس سے کس حد تک متاثّر ہوں۔ بہرحال یہ بتاتا چلوں کہ وہ تحریر احمد سہیل کی نہیں ہے، حالانکہ وہ ایسی تحریر اتنی ہی سہولت سے لکھ سکتے ہیں جتنی سہولت سے کوئی مرغی روزانہ ایک انڈا دے سکتی ہے۔
اب اس مضمون کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے۔ کہتے ہیں:
"محبت کو جب فاصلہ یا وقت حنوط کرتا ہے تو یہ کناروں سے باہر آ جاتی ہے اور پھیل کر اپنے مضافات کو اپنے خوبصورت حصار میں لے لیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان پاکستان کے ہاں تصورِ محبت ایک مخصوس برتن تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس میں زیادہ حصہ ہماری لوک داستانوں نے ڈالا جن کے ذریعے جنسِ مخالف کو ایک ایسی شناختی اکائی کے طور پر پیش کیا گیا جس کو اختیار کرنا اپنی ذات کی نفی اور اپنے فطری جوہرِ محبت کو مضافات کی شناختی اور ثقافتی اکائیوں سے الگ کر کے ایک جنسِ مخالف کی اکائی تک مرتکز کرنا اعزازِ بے مثل بنا دیا گیا۔"
ہم تو اس انداز تحریر سے ایسے گھائل ہوئے کہ ہمارا چولا ہی بدل گیا۔ لیجیے ایک جملہ اور:
"عمومی طور پر محبت کی شادیاں اس وجہ سے ناکام ہوتی ہیں کہ دو محبت کرنے والوں کے سامنے جو ماڈل ہوتا ہے وہ بالی وڈ کا ہوتا ہے یا بصری میڈیا کی دوسری شکلوں یعنی ٹی وی ڈراموں وغیرہ کے ہاتھوں متشکل ہوا ہوتا ہے لہٰذا یہ ایک غیر عملی اور سماج سے الگ معلق منظر نامے کا حصہ ہوتا ہے جب کہ شادی ایک متحرک اور جدلیاتی سماجی ربط ہے جو سماجی تحرک کے ساتھ اپنی نو بہ نو سمتوں کا تعین کرتی ہے۔ چونکہ محبت کا تصور یک شخصی اور یک روی ہوتا ہے لہٰذا جدلیاتی ترفع کے ساتھ اس کی ہم آہنگی نہیں ہوتی اس لیے شادیوں کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔"
اب ہم آتے ہیں اپنے مضمون کی طرف جن کا عنوان یقیناً ایک بار پھر بتانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک معلّق حقیقتِ ناشکستہ ہے کہ اعلیٰ اور ارفع دماغ کسی چیز کے موضوع کو زیادہ دیر تک حصارِ تحفظ میں منجمد نہیں رکھ سکتے۔ تو ہمارے مضمون کا عنوان ہے:
"اکیسویں صدی کے تمثیلی تناظر میں سماجی حیثیت سے محروم مویشیوں کا جدلیاتی سطح پر ما بعد التشبیہاتی مطالعہ"
--------------------------------------------------------------
ہم اس تحتِ تحقیقی مضمون میں انسانی معاشرے میں مویشیوں کی سماجی حیثیت کا ایک گمراہ کن مطالعہ کریں گے، جس میں خصوصی اختصاص کا ارتکاز بھینس پر کیا جائے گا کیونکہ بھینس کی دیگر مویشیوں پر برتری کے بارے میں بے شمار من گھڑت اور بے بنیاد کہاوتیں اور اقوال ہمارے پاس ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک فضیلت مآب بھینس کو سو گایوں پر وہی تفوّق حاصل ہے جو ایک انار کو سو بیماروں پر ہوتا ہے۔ آن دِس بھینسِس ہم اس بات کا استثبات کریں گے کہ دورِ حاضر کی تنقیدی پیچیدگیوں کی گوناگوں تشکیلات کے باوجود ابھی تک مویشیوں پر وہ تحقیق نہیں کی گئی ہے جس کا اطلاق معاشرے کی عدم یکجہتی کے مظاہر پر کیا جا سکے۔
ہاں نجی دماغی تحقیق سے ایک احتجاجی نکتہ بھی سامنے آیا ہے، مناسب ہے کہ پہلے اس پر روشنی کی دھار ڈالی جائے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ہندی میں ویشیا کا لفظ خواتین کے ایک خاص گروہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب غور و فکر کی پرتیں تہہ و بالا کرنے سے یہ بات بداہتاً سامنے آتی ہے کہ یہ لفظ اصل میں مویشیا رہا ہوگا جس کو اردو دشمنی میں بگاڑ کر ویشیا کر دیا گیا۔ اب آپ سوچیں کہ ایک مجہول طبقے کے لیے مویشیا کا استعمال کیا مویشیوں کی عزت نفس پر کھلا حملہ نہیں ہے اور کیا ایک مہذب معاشرے میں اس قسم کی زبان درازی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سے ویش نام کی پوری ایک قوم بنا دی گئی ہے جو ناانصافی کی حد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مخالفین یہ کہیں کہ ویشیا تو سنسکرت کا لفظ ہے تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ کیا سنسکرت والے اردو دشمنی سے معرّیٰ اور ماوراء ہیں۔
ہم جب اپنے معاشرے کے شب و روز پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندوہناک حقیقت آسمانِ شعور پر طلوع ہوتی نظر آتی ہے کہ کسی بھی سماج کے خوراکیاتی اجتماعیوں میں مویشیوں کا یک نسلی ارتکاز خوف ناک ہوتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مویشیوں کی پرداخت ایک تجارتی اشتغال ہے یعنی مویشیوں کا تصور ِ تصرّف نہ صرف ان کے استحقاقِ حیات کی کامل نفیِ ہے بلکہ ان کی استقراری آزادی کی بھی عملاً تکفیر ہے۔ لہٰذا ہمیں اس تصورِ مقاطعت کو غیر فعّال بنانے کے لیے مویشیوں اور ان کے معصوم اور کم عقل بچوں کے لیے کوئی ایسا طریقہِ کار ابھی سے تلاش کرنا شروع کر دینا چاہیے جو عالم انسانیت کے عظیم محسنوں کے اس عظیم تر گروہ کو اگر انسانی برادری میں برابری کا مقام نہ بھی دلا سکے تو کم از کم ان کی رضا کے بغیر ان کی موت و حیات کے یکطرفہ فیصلوں پر قدغن لگا سکے جو ہمارے نزدیک یک شخصی اختیار کا بدترین استعمال ہے اور ظاہرہے مویشیانہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وحشیانہ حیات کے تصدّق پر ایقان رکھنے والے افراد اس نوع کی سرگرمیوں کا کسی بھی قیمت پر استدلالی دفاع نہیں کر سکتے۔
دنیا کی تمام بڑی مویشیت کی ارتکازگاہیں حسرت یعنی پابندیوں پر قائم ہیں تاہم ان کی ردِ تبدیلیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مویشیوں کا انتظامی محاصرہ کرنے والے اور انکا کاروباری حافلہ کرنے والے لوگوں کے دل دراصل ایک جابر سماج سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ گویا جہاں تجارت کا لاشعوری ارتکاز بے رحمی ہو وہاں یہ بات عمومی طور پر طے کر لی جاتی ہے کہ دوائرِ لحمی و حلیبی کا حامل یہ بے گناہ طبقہ سماجی سطح پر کسی استحقاقِ قاسمہ، پرداختِ قائمہ، تکلم عامّہ، تبسم تامّہ، تواضعِ عامّہ، تعزّزِ دائمہ اور جنسِ مخالف کی طرف آزادانہ میلانات کا کوئی حقِّ تلازمہ نہیں رکھتا۔
ہم کو ایک محقق کی حیثیت سے یہ کہنے میں کوئی امتناع نہیں کہ انسانی معاشرے اور مویشیوں کے معاشرے میں اس وقت جو عمیق بعد ہے وہ کئی جہات پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جہاں انسانی معاشرے نے اپنے ناکارہ ترین افراد کی جبلّی خوہشات کی لاشعوری اور تحت الشعوری خواہشات کی تسکین و تشفی کے لیے استمراری بنیادوں پر نت نئے آسائشی آلات و تعاملات کو منصّہ شھود پر لا کھڑا کیا ہے وہاں مویشیوں کو ان کی مابہٖ الافتخار آزادیوں سے بھی امتناعی رسومات کی نگہداشت کی بنیاد پر محرومِ استقلالیہ کر دیا ہے، در آن حال یہ کہ دس ہزار سال میں مویشیوں کے خدّ و خال میں اظہاری تبدیلیوں کا باب تو مفتّح رکھا گیا مگر ان کی نشست و برخواست، قیام و طعام اور مجلسی استخدام کا مطلق خیال نہیں رکھا گیا، چنانچہ اس پورے عرصہء ارتقائے تہذیبِ انسانی بلحاظ استواریِ تعلقات بالافراد حیوانی علی الخصوص اجناسِ گاؤ و میش و بز و شتر وغیرھم، میں نہ تو مویشیوں کے لیے کھانے کے برتنوں کا کوئی مناسب اہتمام کیا گیا نہ لباس کا انصرام کیا گیا نہ بستروں کی فراہمی کا افہام کیا گیا اور نہ ان کے لیے اخبارات و کتب و رسائل اور ریڈیو، ٹی وی اور موبائل فون جیسی سہولتوں کا کوئی سلسلہ سر انجام دیا گیا، یہاں تک کہ بھینسوں کے لیے بین سنانے کا بھی کوئی جدلیاتی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
اب ہم آتے ہیں بھینسوں کی فلسفیانہ زندگی کے بالائے فہم انسانی قیافوں کی مدد سے تجزیاتی تجزیے کی جانب۔
ہرچند کہ بھیڑ ایک بہت بے ضرر اور بے فہم جانور ہے، اور یہی کیفیت بکری، دنبہ وغیرہ قسم کے مویشیوں کی بھی ہے مگر گائے خصوصاً بیل اپنی طاقت کے غرور میں انسانی برادری کو ذرا خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی ناپسندیدگی اور سرکشی کا اظہار مسلسل گردن ہلا ہلا کر کرتے رہتے ہیں، جبکہ بھینس اس کے مقابلے میں صراحتاً ایک فلسفیانہ زندگی گزارنے کی قائل نظر آتی ہے اور ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو کائنات کے پوشیدہ رازوں پر غور و فکر کر کے ان ازلی گتھیوں کو خاموشی سے سلجھانے کی کوشش کرے جن پر اس کی فہم کے دائرے عدم بسیط و غیر محیط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت میں گائے سے کہیں زیادہ ہونے کے علی الرغم، وہ بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتی ہے، اور اسی وجہ سے کولہو اور رہٹ جیسی لغویات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ نہ بیلوں کی طرح دوڑوں میں حصّہ لیتی نظر آتی ہے۔۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر بھینس کی فلسفیانہ زندگی کے مطالعے کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تو مستقبل بعید میں امکانی طور پر مویشیوں کی زندگی کے روحانی اور بالائے ہیجانی عوامل کو سمجھنے کی یقیناً کوئی نہ کوئی راہ نکلے گی جس سے اس پورے مدوّرانہ استبداد میں شامل حیات و ممات کی گرہیں امکانی طور پر کشادہ ہو سکتی ہیں۔ امید ہے کہ عقلمندوں کے لیے اشاریہ کافی ہوگا
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں