آج روٹین کی گشت پر تقریباً 2:00 بجے رات یہ بابا جی جن کی عمر 80 برس تھی ہمارے پاس آئے ۔ اور بولے ،
" بیٹا میں لیہ سے شاہکوٹ آیا ہوں ۔میرا گاؤں تین چار کلومیٹر نظام پورہ دیواسنگھ ہے۔ میرے بیٹے سے ایک کال ملا دو وہ مجھے لے جائے کیونکہ اس وقت رات کا آخری پہر ہے اور میرے گاوْں کوئی سواری نہیں جائیگی میں سفر کا تھکا ہوا ہوں "
بابا جی کے کہنے پر میرے ساتھی عامر علی عامر نے اپنے فون سے بابا جی بیٹے کو فون ملایا جس کا نمبر 03428801911 ہے ۔
بیٹے نے فون پر جو بات کی اس کے بعد بابا جی کی آنکھوں میں پانی سا چمکنے لگا اور رنگ واضح طور پر فق ہو گیا اور ہمیں پتا چلا کہ اس نے بابا جی کو لینے آنے سے انکار یہ کہہ کر کر دیا کہ ،
" ایتھے بہہ جا کسے تھاں تے، سویرے کسی چیز تے بہہ ھ کہ آ جاویں "
میری بات بابا جی کہ بیٹےسے ہوئی تو اس نے اپنا نمبر ہی بند کر دیا۔
جس پر ہم نے بابا کو تسلی دی کہ ہم چھوڑ آتے ہیں تو بابا جی نے کہا،
"میں ایسے بیٹے کے گھر نہیں جاوْں گا میں واپس لیہ ہی جا رہا ہوں"
جس کے بعد عامر نے بابا جی کی بیٹیوں کے بارے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک بیٹی دس بارہ کلو میٹر اسلام نگر رہتی ہے جس کا نمبر لیکر اس سے بات کی تو بلا توقف اس نے کہا،
" میرے ابا جی کو کہیں اور نہ جانے دینا میں ابھی کچھ کرتی ہوں "
ہم نے بابا جی ساتھ بٹھایا اور گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے ، تو ایک نمبر سے 03423529226 کال ہمیں چک نمبر 82 کے قریب آئی، فون اٹھایا ، تو ایک آواز آئی ،
جی میں بابا جی کا داماد ہوں اور میں ان کو لینے آرہا ہوں "
نظام پورہ، چیلیانوالہ سٹاپ جو کہ ہماری باؤنڈری تھی وہاں پر ہم رک گئے اور انتظار کرنے لگے تو بابا جی کا داماد آگیا۔
بیٹی نے پتا نہیں کتنی منتوں کے ساتھ اپنے شوہر کو لینے بھیجا ہو گا اور وہ نیک انسان بھی آدھی رات کو ویران راہوں پر لینے آپہنچا ۔
جب بابا جی کو اس کے حوالے کیا تو بابا جی نے مجھے کہا ،
" بیٹا دکھ اِج ایہہ رہے گا کہ توھانوں کجھ کھلا پلا نیئں سکیا"
ہائے بابا تیری خودداری ،
انسان جن بیٹوں کے لیے کام کر کر کہ اپنی کمر توڑ لیتا ہے اور ان کے لیے جاگیریں بناتا ہے ان کی بے نیازی اور بے پرواہی اور بابا جی کی بے بسی کو دیکھ کر اور بیٹیاں جن کو وراثت میں سے یہ کہہ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے ، کہ سار پیسہ داما کھا جائے گا ۔
اُن کی تڑپ دیکھ کر ہمارا تو دل بھر آیا کہ اگر ایسے بیٹے ہوتے ہیں تو ان سے ہزار گنا بیٹیاں بہتر ہیں۔
یہ بیٹیاں جو عمر کے کسی حصہ میں بھی ماں باپ کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتیں!
بیٹیوں کو سلام اور ،
بہوؤں کو بھی سلام، کیوں کہ بھائی اُن کے بھی ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭
" بیٹا میں لیہ سے شاہکوٹ آیا ہوں ۔میرا گاؤں تین چار کلومیٹر نظام پورہ دیواسنگھ ہے۔ میرے بیٹے سے ایک کال ملا دو وہ مجھے لے جائے کیونکہ اس وقت رات کا آخری پہر ہے اور میرے گاوْں کوئی سواری نہیں جائیگی میں سفر کا تھکا ہوا ہوں "
بابا جی کے کہنے پر میرے ساتھی عامر علی عامر نے اپنے فون سے بابا جی بیٹے کو فون ملایا جس کا نمبر 03428801911 ہے ۔
بیٹے نے فون پر جو بات کی اس کے بعد بابا جی کی آنکھوں میں پانی سا چمکنے لگا اور رنگ واضح طور پر فق ہو گیا اور ہمیں پتا چلا کہ اس نے بابا جی کو لینے آنے سے انکار یہ کہہ کر کر دیا کہ ،
" ایتھے بہہ جا کسے تھاں تے، سویرے کسی چیز تے بہہ ھ کہ آ جاویں "
میری بات بابا جی کہ بیٹےسے ہوئی تو اس نے اپنا نمبر ہی بند کر دیا۔
جس پر ہم نے بابا کو تسلی دی کہ ہم چھوڑ آتے ہیں تو بابا جی نے کہا،
"میں ایسے بیٹے کے گھر نہیں جاوْں گا میں واپس لیہ ہی جا رہا ہوں"
جس کے بعد عامر نے بابا جی کی بیٹیوں کے بارے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک بیٹی دس بارہ کلو میٹر اسلام نگر رہتی ہے جس کا نمبر لیکر اس سے بات کی تو بلا توقف اس نے کہا،
" میرے ابا جی کو کہیں اور نہ جانے دینا میں ابھی کچھ کرتی ہوں "
ہم نے بابا جی ساتھ بٹھایا اور گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے ، تو ایک نمبر سے 03423529226 کال ہمیں چک نمبر 82 کے قریب آئی، فون اٹھایا ، تو ایک آواز آئی ،
جی میں بابا جی کا داماد ہوں اور میں ان کو لینے آرہا ہوں "
نظام پورہ، چیلیانوالہ سٹاپ جو کہ ہماری باؤنڈری تھی وہاں پر ہم رک گئے اور انتظار کرنے لگے تو بابا جی کا داماد آگیا۔
بیٹی نے پتا نہیں کتنی منتوں کے ساتھ اپنے شوہر کو لینے بھیجا ہو گا اور وہ نیک انسان بھی آدھی رات کو ویران راہوں پر لینے آپہنچا ۔
جب بابا جی کو اس کے حوالے کیا تو بابا جی نے مجھے کہا ،
" بیٹا دکھ اِج ایہہ رہے گا کہ توھانوں کجھ کھلا پلا نیئں سکیا"
ہائے بابا تیری خودداری ،
انسان جن بیٹوں کے لیے کام کر کر کہ اپنی کمر توڑ لیتا ہے اور ان کے لیے جاگیریں بناتا ہے ان کی بے نیازی اور بے پرواہی اور بابا جی کی بے بسی کو دیکھ کر اور بیٹیاں جن کو وراثت میں سے یہ کہہ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے ، کہ سار پیسہ داما کھا جائے گا ۔
اُن کی تڑپ دیکھ کر ہمارا تو دل بھر آیا کہ اگر ایسے بیٹے ہوتے ہیں تو ان سے ہزار گنا بیٹیاں بہتر ہیں۔
یہ بیٹیاں جو عمر کے کسی حصہ میں بھی ماں باپ کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتیں!
بیٹیوں کو سلام اور ،
بہوؤں کو بھی سلام، کیوں کہ بھائی اُن کے بھی ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں