Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 14 ستمبر، 2019

شگفتگو کی تیرھویں محفل

نشست: تیرھویں نشست۔ظہیر قندیل اور بیگم ظہیر قندیل صاحب کی  رہایش محمد ظہیر قندیل صاحب، کیڈٹ کالج، حسن ابدال میں منعقد کی گئی -

محفل کا وقت تو 4 بجے شام کا تھا اور ہماری کوشش تھی چار بجے کیڈٹ کالج کے گیٹ پر ہوں، مگر کوئی سوا چار بجے ہم گیٹ پر تھے اور پہنچنے والوں میں سب سے پہلے۔ ہمارے ساتھ تھے آصف اکبر اور ڈاکٹر سائرہ بتول۔ متوقع شرکاء میں سے ارشد محمود صاحب کو کوئی دشواری پیش آ گئی، باقی سب ہی کچھ دیر میں پہنچ گئے۔
پانچ بجنے میں دس منٹ تھے اور محفل شروع کرنے کا عندیہ دیا جا رہا تھا کہ کچھ شرکاء نے کہا نماز کے بعد۔ اس طرح آغاز پانچ بجنے کے کچھ دیر بعد ہوا۔
تیرھویں محفل تھی۔ کسی نے اس حوالے سے یاد دلایا کہ تیرہ کا ہندسہ اہل مغرب کے لیے نحوست کی علامت ہے۔ ہم یہ کہتے کہتے رہ گئے کہ ہمارے معاشرے میں بھی ایک طبقے میں تیرہ تیزی کی نحوست جزو ایمان ہے، کیونکہ محفل شگفتہ تھی اور یہاں توہمات پر شگفتہ مضمون تو پڑھا جا سکتا ہے لیکن اس قسم کی بات چیت کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔
بہرحال مغربیوں کو تیرہ کی نحوست مبارک، ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں، یعنی نہ تثلیث کے قائل نہ تیرہ کے عدد سے خائف۔ ہمارے لیے ہر دن اور ہر عدد بابرکت ہی ہے چنانچہ زعفرانی بزم مناثرہ کی تیرہویں نشست ایسی مبارک ثابت ہوئی کہ ستمبر کے خشک موسم میں بھی بہار آگئی۔۔۔ جی ہاں بزم کی باغ و بہار شخصیات نے بقول عاطف مرزا " ایک سے ایک چھٹا ہوا مزاحیہ مضمون پیش کیا"۔ حسن ابدال پنچہ صاحب کے بعد کیڈٹ کالج کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا یے۔ اسی نیک نامِ زمانہ کیڈٹ کالج کے شعبہِ اردو کی محمد ظہیر قندیل صاحب سربراہی فرماتے ہیں اور ساتھ ہی ادب کے میدان کے بھی شہسوار ہیں، چنانچہ شگفتہ نثر نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے دو محافل میں شرکت کیا کی، گویا دبستاں کھل گیا۔ حضرت مصر ہوئے کہ مجھے بھی میزبانی کا موقع دیا جائے۔ لوگوں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا، چنانچہ پیشکش ٹھنڈی ہونے سے پہلے ہی چٹ کر لی گئی۔ فوائد کا باب بہت طویل ہوجائے گا جو اگر سرسبز کہساروں کے دامن میں کیڈٹ کالج کی دل پذیر روشوں میں گھرے خوب صورت کاٹیج کی مدح شروع کر دی گئی سو اس موضوع کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
محفل میں میزبان کا ہونا عموماً لازم سمجھا جاتا ہے اور یہ استثناء شاید صرف آصف اکبر کو حاصل ہے کہ وہ ایک مشاعرے کے میزبان تھے جو ان کے دفتر میں منعقد ہوا، مگر وہ خود کاروباری مصروفیت کی وجہ سے کراچی گئے ہوئے تھے، چنانچہ مشاعرہ ان کے دفتر میں ان کی غیر موجودی میں ہوا۔ پس یہاں میزبان بھی چشم براہ تھے اور ان کی بیگم بھی ان کی پشت پناہ تھیں۔
شرکائے محفل (بہ لحاظ حروف تہجّی)
محمد ظہیر قندیل - - میزبان
آصف اکبر
حبیبہ طلعت
حسیب الرحمان اسیر
سائرہ بتول، ڈاکٹر
عاطف مرزا
عزیز فیصل، ڈاکٹر
محمد عارف
بیگم ظہیر قندیل نے بھی واحد سامع کے فرائض جزوقتی طور پر انجام دیے۔


محفل کے اختتام کے بعد معروف ادیب ضیاالمصطفی ترک بھی تشریف لائے۔ ان کی تواضع عاطف مرزا کی فرمائش پر آصف اکبر کے مضمون کے طویل تر عنوان سے کی گئی۔ ترک صاحب نے اسے سن کر یوں اطمینان کا اظہار کیا جیسے کہہ رہے ہوں کہ دیگ کا اندازہ چاول کے ایک دانے سے ہو گیا۔
محفل حسب روایت اسی ترتیب سے چلی جسے رائج الوقت مفہوم میں بے ترتیب بھی کہہ سکتے ہیں یعنی بغیر کسی صدر مجلس اورمہمان خصوصی کے۔ ۔سب ہی اراکین یکساں توجہ و احترام سے سنے جاتے ہیں۔۔
محفل کا آغاز محمد ظہیر قندیل نے میزبان کا حق جتاتے ہوئے اپنی زیرِ ترتیب کتاب کے ایک باب اسم معرفہ کی اقسام سے کیا جس کے چست فقروں نے محفل کو مسکرانے پر مجبور کیا جبکہ کچھ لوگوں نے قہقہانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ہمارے لیے اس ضمن میں مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ بحیثیت خاتون اس قسم کی محافل میں ہمارے قہقہہ لگانے کو آداب محفل کے خلاف سمجھا جاتا ہے، اس لیے ہم انتہائی غیر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ اگر مفت میں مل جائے تو اپنے ساتھ ایک قہقہہ گر رکھا کریں۔

میزبان کے مسلسل داد سمیٹنے کے بعد آصف اکبر نے "اکیسویں صدی کے تمثیلی تناظر میں سماجی حیثیت سے محروم مویشیوں کا جدلیاتی سطح پر ما بعد التشبیہاتی مطالعہ "پیش کیا۔ اس مضمون میں بھاری بھرکم مگر بے معنی اصطلاحات کے ذریعے دور جدید کے ان تحقیقاتی مضامین کا مضحکہ اڑایا گیا ہے جن کی کیفیت بھی اسی قسم کی ہوتی ہے۔ اس منفرد موضوع کو بہت پسند کیا گیا۔ اس قہقہہ بار مطالعے کو بلاشبہ پیچیدہ تر مطالعوں کی پیدائش میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کامیاب کوشش کہا جا سکتا ہے۔

اب باری تھی ڈاکٹر عزیز فیصل کی جنہوں نے' ہور کیہہ حال اے؟' کے عنوان تلے جدید ذرائع مواصلات کی سب سے معروف اور مستعمل قسم موبائل فون پر روشنی ڈالی، اور یہ واضح کیا کہ پیکیج کے بہت سستے ہونے کی وجہ سے لوگ بے مقصد گفتگو کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی تحریر کو حسب معمول بھرپور داد ملی۔
عاطف مرزا نے ' توبۃ الپی ایچ ڈی" کے عنوان سے اپنے پی ایچ ڈی کے نامکمل سفر کی ناگفتہ بہ تفصیلات سے آگاہ کیا، جس کی برکت سے کچھ کھٹے انگوروں سے پرہیز کرنے والوں کو مزید توبہ کی توفیق بھی نصیب ہوئی ہو گی۔ یہ مضمون بھی داد سمیٹتا رہا۔

حبیبہ طلعت، یعنی راقم الحروف نانی فرنویس نے اپنے مضمون "ناک کا سوال ہے بابا" کا دوسرا اور آخری حصّہ پیش کیا۔ مسئلہ یہی پیش آتا رہا کہ آواز بار بار دھیمی ہوجانے کے سبب سامعین بہت سارے دلچسپ نِکات سن نہیں پائے، قرات ہماری بچپن سے ہی مخدوش ہے۔
  
ڈاکٹر سائرہ بتول نے " یا اللہ وزن کم کردے" کے عنوان سے انتہائی خوبصورت انداز میں انسانوں کا وزن کم کرنے یا نہ کرنے کی بابت ادب و سائنس سے دلچسپ تاویلات پیش کیں۔ اس محفل میں ان کی یہ دوسری ہی شرکت تھی، مگر انہوں نے اپنی معیاری تحریروں کی بدولت محفل میں اپنی ایک جگہ بنا لی ہے۔ ان کو بھی کھل کر داد دی گئی۔

اب باری تھی محمد عارف کی جنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں "خان بابا" پر لکھا مزاحیہ خاکہ پیش کیا۔ ان کے مضمون کی روانی میں قہقہوں کی وجہ سے یقیناً خلل پڑا۔ ان کے اس جملے کو خصوصی داد ملی کہ وہ (مشار الیہ بہ خاکہ) عمر کے اس حصّے میں ہیں جہاں اعمال لکھتے فرشتوں کو بھی حیا آتی ہے، مگر حیا صرف فرشتوں کو ہی آتی ہے۔

آخر میں محفل میں پہلی بار تشریف آنے والے قلمکار حسیب الرحمن اسیر نے بھری جوانی میں "بارے جوانی کے" کے کچھ درد بیان کیے۔ مضمون عمدہ لیکن واضح طور پر مختصر تھا جس کے باعث پرواز اڑنے سے پہلے ہی لینڈ کر گئی اور سننے والوں کو ایک احساس تشنگی دے گئی۔

آخر میں حسبِ روایت بیگم ظہیر قندیل نے عصرانے کے نام پر برگر کی خصوصی شمولیت کے ساتھ عشائیے کا اہتمام کر ڈالا، جس نے شرکاء کو تقریباً اتنی ہی دیر مصروف رکھا جتنی دیر محفل چلی تھی۔ برگرز کے علاوہ پاسٹا، اسپرنگ رولز، چنا چاٹ اور فروٹ چاٹ کے ساتھ ساتھ ذائقہ سے بھرپور چائے کے ہمراہ بھی لوازمات جن میں خستہ بسکٹ اور کیک شامل تھے- 
افسوس تو آصف اکبر کے حال پر ہو رہا تھا جو مرچ سے مکمل پرہیز کرنے کے سبب ان نعمتوں سے بڑی حد تک محروم ہی رہے۔
بارے جب خلق نے اٹھنے پہ کیا غور و خوض
تب کسی شخص نے تصویر کا شوشہ چھوڑا
آخر میں گھر کے خوبصورت لان میں تصویریں بھی بنوائی گئیں۔ اور یوں اس یادگار محفل کا اختتام ہوا۔ کہتے ہیں مالک کی حکمت مالک ہی جانتا ہے ۔۔یہ بات یوں یاد آئی کہ حسن ابدال میں واقع ظہیر قندیل صاحب کا گھر مناسب مسافت پر واقع ہے سو ان کی خوب صورت لائبریری( جس کی تصاویر بھی اہتمام سے لی گئی ہیں) ہماری ' دست برد' سے محفوظ رہ گئی ہے۔ چلیے پھر سہی -
(مبصّر -  حبیبہ طلعت )
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔