Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 27 ستمبر، 2013

پاکستانی کاغذی روپے کی کہانی

 معاشی زندگی میں زر کی اہم اقسام سونا اور چاندی ہیں۔ جن میں سونا بنیادی اکائی ہے، لہذا باقی تمام اشیاء کی قیمتوں کا تعین سونے کی مقدار سے ہوتا ہے کہ ایک تولہ سونے سے کیا کیا اشیاء کتنی مقدار میں خریدی جاسکتی تھیں / ہیں۔ گو کہ ہمارے پاس ابھی اور ماضی میں پائی جانے والی اشیاء کا سونے کے مقابلے میں تناسب موجود نہیں مگر ایک اہم نسبت معلوم ہے جو سونے اور چاندی کی ہے۔
 630 ء میں ایک تولہ سونا =7 تولہ چاندی (بحوالہ نصاب زکوۃ)
 1850 ء میں ایک تولہ سونا =16 تولہ چاندی (بحوالہ سرسید کے مضامین)
 1999 ء میں ایک تولہ سونا = 50 تولہ چاندی۔
 2004 ء میں ایک تولہ سونا = 77 تولہ چاندی۔
 2013 میں ایک تولہ سونا = 80 تولہ چاندی۔
جب سونے، نے اشرفی اور چاندی نے روپے کی شکل اختیار کی تو ایک روپے کا سکہ ایک تولہ خالص چاندی کا ڈھلا ہوتا تھا۔
 چونکہ روپیہ گردش زر میں استعمال ہوتا۔ لہذا چاندی اور سونا زر قرار پایا ۔

 سونے کی اہمیت نے اس کی ذخیرہ اندوزی میں اضافہ کیا اورآہستہ آہستہ سونے اور چاندی کے درمیان فاصلہ بڑھتا رہا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ 630 ء میں 7 روپے(خالص چاندی) میں ایک تولہ ملنے والا سونا 2004 ء میں خالص 60 روپے(چاندی) میں اور پھر چاندی کا قد اتنا چھوٹا ہو گیا کہ اب 10 ستمبر 2013 میں ایک تولہ سونا 77 روپے(چاندی) میں ملنے لگا - آج کل کیونکہ چاندی کا روپیہ استعمال نہیں ہوتا لہذا یہ نسبت عجیب لگے لیکن یہ حقیقت ہے کیونکہ موجودہ 607 کاغذی روپے کی قیمت ایک تولہ خالص چاندی کے برابر ہے۔ ماضی میں سونا اور چاندی، سکّوں کی صورت میں استعمال ہونے لگے اور بارٹر سسٹم ختم تو نہیں ہوا بلکہ کم ہو گیا ۔ زر کی قیمتوں میں تغیر اور تبدل لازم ہے۔ چاندی کا استعمال چونکہ زیورات اور دیگر اشیاء میں ہوتا لہذا جدید معیشت دانوں نے گردش زر کے طور پر اس کا استعمال کم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی جگہ اعتبار زر کے طور پر تانبے، پیتل اور کانسی کے سکے بنے۔

اور بالآخر اپنی وزن کی خرابی کے باعث یہ کاغذی نوٹ میں تبدیل ہو نے لگے ۔ لیکن معیار زر اور زر ،سونا ہی رہا۔


بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی بھی حکومت اپنی مرضی سے کاغذی نوٹ نہیں چھاپ سکتی ۔
 جیسے 2000 کی اسمبلی میں اعظم طارق نے درخواست کی تھی کہ حکومت کافی نوٹ چھاپے اور غریبوں کو دے ، تاکہ مہنگائی جو اُن کی کمر توڑ رہی ہے اُس پر قابو پایا جاسکے ۔ 
ہم جب چھوٹے تھے تو یہی خواب تھا ، کہ بڑے ہوکر نوٹ چھاپنے کی مشین بناؤں گا اور خوب نوٹ چھاپوں گا اور صرف اپنی بہنوں اور بھائیوں کے علاوہ غریبوں کو دوں گا ۔
 پھر ایک وقت آیا کہ کاغذی نوٹ ، اعتبارِ زر سے میعارِ زر کے عہدے پر ترقی پاگئے ۔
 یوں 1945 کی جنگِ عظیم کے بعد کاغذی نوٹوں کی بہتات ہوگئی ، جس میں برطانوی پونڈ کو سبقت حاصل تھی ۔ جو 2442 ڈالر کے برابر تھا۔
 1945 برصغیر میں 100 برطانوی پونڈ تنخواہ لینے والا ، 2,44,200 برطانوی ڈالر لیتا تھا ۔
 1946 میں ایک ہندوستانی برطانوی روپیہ ، 12.17 امریکی ڈالر کے برابر تھا ۔
 14 اگست 1947 کے بعد ہندوستانی برطانوی روپیہ ، پاکستان میں بھی استعمال ہونا شروع   ۔ چنانچہ ایک ہندوستانی برطانوی برطانوی روپیہ ، 1 امریکی ڈالر کے برابر ہو گیا تھا ۔ 
   یکم جولائی  1948 میں    ، ہندوستانی برطانوی روپیہ ، پر پاکستان کا لفظ چھاپنے سے ۔ 1 امریکی ڈالر   3.3085 روپے کے برابر ہوگیا۔ کیوں کہ وہ برطانوی میعارِ زر سے تبدیل ہو کر پاکستانی میعار زر میں تبدیل ہوگیا ۔
 یاد ہے نا کہ ریزرو بنک آف انڈیا جس نے  سنٹرل بنکنگ اتھارٹی کے طور پر 30 ستمبر تک کام کرنا تھا،   30 جون 1948  کو اُس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا اور     یکم جولائی  1948 کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں ہوا۔
اور پاکستان نے خالص اپنا نکل سے بنا ہوا روپیہ کا سکہ جاری کیا ۔
 تو دوستو ! میری پیدائش کے سال بعد تک یعنی 1954 تک ،  1 امریکی ڈالر   3.3085 روپے کے برابر ہی رہا اور 1855 میں یہ       3.9141 روپے ہو گیا ۔  

ڈالر آہستہ آہستہ آگے نکلتا رہا اور روپیہ ہانپتا کانپتا اُس کے برابر پہنچنے کی کوشش کرتا رہا ۔ لیکن  وزن تو نہیں ہاں ، انڈر نیوٹریشن رہنے کی وجہ سے  اب یعنی 2013 میں ،     1 امریکی ڈالر   101.6290 روپے کا ہے اور شاید جس طرح پاکستان کے حالات ہیں ، اپوزیشن کی تلملاہٹ کی وجہ سے  سننے میں آیا ہے کہ ڈالر   کے قد میں مزید اضافہ ہو لیکن پاک چائینا کوریڈور کی وجہ سے  ، ڈالر کا مزید پھیلنا رُک جائے ۔
چلیں چھوڑیں آئیں آپ کو دکھاتے ہیں پاکستان کے کرنسی نوٹ  کا ارتقاء:
٭-  1947 تا 1971 ۔ وحدتِ(مشرقی و مغربی) پاکستان    کی کرنسی ۔
 

٭-  1971  تا حال ۔  پاکستان    کی  اضافی کرنسی ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 ٭- ڈالر کے پیچھے پاکستانی   روپیہ  کی دوڑ
٭ ۔  پاکستانی   سکہ ،روپیہ اور کوڑی 

1 تبصرہ:

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔