آج جب ، اقام الصلاۃ ، یوم الجمعہ (جمعۃ الوداع) کے بعد مسجد سے نکلنے کے لئے واپس مڑا تو پچھلی صف میں کھڑے ہوئے ، ادھیڑ عمر شخص نے بڑی گرم جوشی سے ھاتھ ملایا
آپ مؤاحد ہیں ؟" اُس نے پوچھا
"وہ کیا ہوتا ہے ؟ " میں نے سوال کیا ، وہ تھوڑا گڑبڑا گیا ۔
" جی وہ آپ رفع یدین کر رہے تھے " وہ بولا
" اوہ ، اچھا !" میں نے جواب دیا اور اُس سے ، گرم جوشی سے ھاتھ ملایا ۔ اور مسجد سے باہر آگیا ۔
ایسا ہی واقع ڈی ایچ اے ۔ مورگاہ-1 کی بڑی مسجد میں پیش آیا ۔ وہاں یہ پوچھنے والے ، فوج کے سینئر آفیسر تھے ۔
ایک سوال ، ہمارے ایک دھانسو گروپ " المواخات " کے ٹیکسلاکے ممبر قاضی صاحب نے بھی اقام الصلاۃ ، عصر کے بعد 2004 میں پوچھا ،
" میجر صاحب ! آپ حنبلی ہیں ؟ "
" نہیں " میں نے جواب دیا
" لیکن آپ رفع یدین کر رہے تھے! " قاضی صاحب مسکراتے ہوئے بولے ۔
"
رفع یدین ، کیا صرف حنبلی کرتے ہیں ؟ " میں نے پوچھا ۔
" نہیں ، اہل تشیع بھی کرتے ہیں " وہ بولے
" لیکن میں اہل تشیع میں سے نہیں " میں نے جواب دیا
" مجھے معلوم ہے "وہ بولے " آپ کے باقی آداب اہل تشیع کے نہیں ہیں "
" جی ٹھیک نوٹ کیا آپ نے " میں نے جواب دیا
" اگر آپ حنبلی نہیں ، تو رفع یدین کرنے کی وجہ ؟ " انہوں نے پوچھا ۔
" یہ سول فورم میں کر لیں ! " میں نے جواب دیا ۔ اور ہم دونوں باقی احباب کے ہمراہ ، فورم کی باقی کاروائی مکمل کرنے کے لئے، طارق عبدالمجید کے آفس میں داخل ہوئے ۔
جب سب آگئے تو ، میں نے سب کو مخاطب کر کے کہا ،
" صلاۃ کے بعد قاضی صاحب نے مجھ سے سوال کیا ، کہ آپ رفع یدین کیوں کرتے ہیں ؟ "
" اِس لئے کہ آپ حنبلی ہو ! " طارق عبدالمجید نے جواب دیا ۔
طارق عبدالمجید، اور میں 2001 کے واقف ہیں اور ہماری واقفیت ، کمپیوٹر سوسائٹی آف پاکستان ، اسلام آباد چپٹر کی میٹنگ میں ہوئی اور یہ میرے گھر کی پشت پر واقع سٹریٹ 46 میں رہتے تھے اور مجاہد مسجد میں اکثر آمنا سامنا ہوتا تھا -
میں حنبلی نہیں اور نہ ہی شیعہ ہوں ، رفع یدین کرنے کی وجہ ،امام کعبہ اور امام مسجد النبوی کا رفعہ یدین کرنا ہے " میں نے جواب دیا ۔
" اور اگر کل، امام رفع یدین چھوڑ دے تو پھر آپ بھی چھوڑ دیں گے ! " طارق نے چھبتا ہوا سوال پوچھا ۔
" جی " میں نے جواب دیا ۔
" یہ کیا بات ہوئی ؟ " طارق نے دوبارہ پوچھا ۔
" وجہ رفع یدین یہ آیت ہے طارق صاحب !،
"میں نے جواب دیا-
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿البقرة: 2/149﴾
1979 میں جب ،شیعہ کے ایک گروپ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور اگر وہ کامیاب ہوجاتے ، تو کیا آپ شیعوں کی طرح نماز پڑھتے ؟ " طارق نے الجھن زدہ لہجے میں پوچھا ۔
" اگر وہ قابض ہو جاتے تو پھر دیکھتا کیسے اقام الصلاۃ کرنا ہے ؟ " میں نے جواب دیا
طارق نے ، ظہیر الاسلام عباسی (سابقہ میجر جنرل - اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے - امین) کی طرف دیکھا ،
" آپ کیا کہتے ہیں ؟ "
" میرا خیال ہے کہ آپ میجر صاحب کو ہی کہنے دو ہم اُن سے سنتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں " جنرل عباسی بولے ۔
" کیا مسلمانوں کو متحد ہونا چاھئیے ؟ " میں نے سوال کیا
" بالکل نظام خلافت میں اِس کا حل موجود " جنرل عباسی شدّت سے نظامِ خلافت کے دوبارہ احیاء کے پیچھے حزب التحریر کی طرح پڑے ہوئے تھے ، ہماری اِس میٹنگ میں حزبِ التحریر کے تین دوست بھی آتے تھے جو قائدِ اعظم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ عبدالرشید غازی بھی کبھی کبھار آجاتے ۔ جن کو میں 1976 سے جانتا تھا ۔
لہذا سب نے جنرل عباسی کی تائید کی ۔
اگر میں دخل نہ دیتا تو بحث نظام خلافت کی طرف مُڑ جاتی ۔ جس کا میں شدت سے مخالف تھا اور ہوں بھی ۔
کیوں کہ یہ الگ موضوع ہے ۔
" نظامِ خلافت ، مسلمانوں کے لئے اتحاد کے لئے مفید ہے یا نہیں ، اُس پر الگ مذاکرہ رکھ لیتے ہیں ، فی الحال رفع یدین پر بات کرتے ہیں " میں نے کہا ۔
" جی ٹھیک ہے " سب نے کہا ۔
" شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کیا ہے ؟ " میں نے پوچھا
" خانہ کعبہ " دو تین دوستوں نے جواب دیا ۔
" اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کہاں ہے ؟ " میں نے پوچھا ۔
" مکّہ میں -" جواب ملا ۔
" کیا مَكَّةَ ، بِبَكَّةَ ، الْكَعْبَةَ، الْبَيْتَ الْحَرَامَ اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قرآن میں ہیں ؟ " میں نے پوچھا ۔
جی بالکل لکھے ہیں " جواب ملا ۔
" کبھی آپ حضرات نے غور کیا ، کہ ان الفاظ کی کیا اہمیت ہے جو اللہ نے ایک ہی جگہ کے 4 مختلف اسماء بتائے ہیں ؟ " میں نے پوچھا ۔
میں جب کسی بھی قرآنی مذاکرے یا میٹنگ میں گیا تو میرے پاس میرا بیگ ہوتا جس میں تین کتابیں ہوتیں ۔
جو اب بھی میری سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہیں ۔ اور 1994 سے میرے ساتھ ہیں ۔
" میجر صاحب ، آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ اللہ کا اسلوب ہے ۔ جو وہ اپنی آیات کو سمجھانے کے لئے اختیار کرتا ہے ۔" شمس الحق اعوان (سابقہ ڈاکٹر اسرار الحق جماعت ) نے جواب دیا ۔
" تو ہم اِس اسلوب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یا سب الفاظ کو ایک ہی جگہ کے نام دیتے ہیں ؟ "میں نے پوچھا ۔
" آپ بتائیے " شمس صاحب بولے ۔
" اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ :-
فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ۔
یہ کیوں کہا !
فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔
" جاری رکھیں " شمس صاحب بولے ۔ جو ہمارے اِس فورم " المواخات " کے کوآرڈینیٹر تھے -
" تاکہ ساری دنیا کے مسلمان، اِس آیت پر عمل کریں،
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ
اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ
عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ
فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ
مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ
لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿آل عمران: 3/103﴾
" حَبْلِ
اللَّـهِ نظامِ خلافت ہے-" جنرل صاحب بولے
" نہیں سر، حَبْلِ
اللَّـهِ ، شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ہے اور وہی آپ کے رَبّ کی طرف سے الْحَقُّ ہے " میں نے جواب دیا ۔
"یار کوئی انسان ہوگا نا پتھر کی دیواریں تو نہیں ہونگی نا " طارق سے برداشت نہ ہوسکا وہ بولا ۔
" میں رفع یدین اِس لئے کرتا ہوں ، کہ امامِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کرتا ہے اور اللہ کی آیات کے مطابق، امامِ کعبہ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ہے اور حَبْلِ
اللَّـهِ کا محافظ ، امام المؤمنین الوقت ہے "۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فیس بُک کے بہت دوستوں کے ذاتی پیغامات ، ملے ،
" آپ حافظ نہیں ، تو فوراً آیت کیسے نکال لیتے ہیں ؟"
جواب:
یہ پکچر المعجم المفہرس کی ہے ، یہ میں نے کوئیٹہ سے 100 روپے کی 1994 میں
لی تھی ۔ اِس میں تمام الفاظ عربی حروفِ تہجی میں ۔ لکھے ہوئے ہیں ۔ اگر
آپ اِس صفحے کو بڑا کر کے دیکیں تو دائیں طرف " ب ل غ " مادے سے بننے والے الفاظ ہیں ۔
جو اِس صفحے میں ہیں اور پہلے کالم کا پہلا لفظ بلغ ہے جو ، "الکتاب " میں 10 بار آیا ہے اور جن 10 جگہ آیات میں آیا وہ اِس " المعجم المفہرس " میں درج ہیں
اور سامنے دوسرے کالم میں ھائی لائٹر سے انڈر لائن کئے ہوئی آیات دیکھیں ۔
بالا
اللہ کے الفاظ پر کلک کرنے سے ، جو ویب پیج آئے گا وہ ،" اوپن برھان "
نامی ہے ۔
کمپیوٹر پر یہی معجم آپ تنزیل نامی ویب سائیٹ پر دیکھ سکتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"الکتاب
" کو سمجھنے کےلئے میں نے اِن الفاظ کا فہم سمجھا ، کہ کس لفظ کا کیا
مادہ بنتا ہے اور اُس کا بنیادی فہم کیا ہو سکتا ہے ۔ یہ میرے لئے اللہ کے
الفاظ کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوا ۔
رنگوں کا استعمال میری مجبوری ہے ، اپنی وضاحت کے لئے ۔ کہ کن نکات کی یہاں
۔ کس اعتبارِ ترتیل و تصریف سے اہمیت ہے ۔
گرائمر بس اتنی معلوم ہو ، کہ:
1- انسان کا ہر عمل فعل کہلاتا ہے ۔ جیسے ۔بلغ
2- جو فعل عمل پذیر ہوا کرنے والے کی صفت بن گیا۔جیسے ۔مبلغ
3- تنوین لگائیں اور یہ اسم بن گیا ۔مبلغ
4-اگر دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان فعل کا حکم ہو تو ضمیریں ( ی ۔ نا ، ک ۔ کم ۔ ہ- ھم ) وجود میں آئیں گی ۔
5-ضمیریں فعل میں جڑ کر ،مکمل جملہ بناتی ہیں۔ بلغ نا ۔
6- زمانہ ۔ فعل انجام دیا جاچکا ہے۔(ماضی) ،دیا جارہا ہے یا ابھی دینا ہے (مضارع)، فعل کی حالت کو تبدیل کرے گی۔ بلغ نا(ماضی) ۔ یبلغ نا (مضارع) ۔
7- اِن جملوں کو جوڑنے والے حروف ۔ وبلغ ۔ لیبلغ
8- فعل کو انجام دینے والے مذکریا مؤنث ۔ بَلَغَتَ ۔ بَلَغَتِ
اگر یہ سادہ 8 اصول سمجھ لیں تو یوں سمجھیں کہ آپ الکتاب کے فہم سے جڑ گئے ۔
سب سے اہم :
آپ
کے ذہن میں اللہ سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے جو سوال آئیں وہ لکھ لیں اور
اُن کا جواب "الکتاب " میں تلاش کریں ۔ جواب آپ کو آج نہیں تو کل "الکتاب "
سے عربی میں ضرور مل جائے گا ۔
لیکن اگر آپ تراجم کے ماہر ہیں تو شائد آپ کو کبھی نہ ملے ۔