Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 2 جولائی، 2015

ایک گوگو گا گا نے روزہ رکھا

" آوا ، یہ کون ہے ؟ " چم چم ایک سمارٹ سے نوجوان کی لیپ ٹاپ پر تصویر دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
بوڑھا چم چم کو اُس کی تصویر دکھا رہا تھا جس کو پہچاننے کے لئے اُس نے اپنے فیس بک کے پیارے دوستوں کے ذہن کی آزمائش کی تھی ۔ 
چم چم کھلکھلا کر ہنس رہی تھی ۔
" آوا صاف پتا لگ رہا ہے کہ یہ میں ہوں ، پھر آپ کے دوست مجھے کیوں نہیں پہچانتے " چم چم نے کہا 
" اب دیکھو نا ، میرے اِس دوست نے سب سے پہلے پہچان لیا ہے کہ یہ چم چم ہے " بوڑھا بولا 
" یہ آپ کا دوست کیسے ہو سکتا ہے ، یہ تو مانی موں (مانی ماموں) کی طرح ینگ ہے " چم چم نے نکتہ اعتراض اٹھایا ۔
" نہیں ، مائی پرنسز یہ جو داڑھی والا ہے یہ میرا دوست ہے ، اِس نے لکھا ہے ، کہ جب یہ چھوٹا بچہ تھا تو اِس نے روزہ رکھا تھا " بوڑھا بولا ۔
" واؤ ، میرے اتنا " چم چم نے پوچھا
" نہیں ، یہ چھ سال کا کلاس ٹو میں تھا ۔ جب روزہ رکھا تھا ۔ آپ تو کلاس ون میں ہو نا " بوڑھا بولا 
" اچھا میری ماما نے روزہ کب رکھا تھا " چم چم نے پوچھا 
"جب وہ آپ سے تھوڑی سے بڑی تھی اُس نے روزہ رکھا تھا " بوڑھے نے بتایا 
"اچھا آوا ، آپ نے روزہ کب رکھا تھا ؟ جب آپ گوگو گاگا تھے " چم چم نے پوچھا 
" میں نے " بوڑھا بولا , " ھاں میں نے روزہ رکھا تھا ، لیکن یہ بڑی درد بھری کہانی ہے روزہ رکھنے کی "
 درد بھری کہانی کا نام سنتے ہی ، چم چم ہائپر ہو گئی ،
 " آوا میں یہ سنوں گی ، آپ سنائیں پلیز " وہ بولی
بوڑھا اُس وقت اپنے بستر پر ٹیک لگا کر آرام دہ پوزیشن میں نیم دراز تھا ، ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی میز پر لیپ ٹاپ رکھا تھا ۔ اُس کے بائیں طرف چم چم لیٹی تھی اور اپنے آئی پیڈ پر وڈیو گیم کھیل رہی تھی ، وہ آج سخت بور تھی کیوں کہ ، عوّا نے اُس سے لیپ ٹاپ لے لیا تھا جس پر وہ کارٹون فلمیں دیکھتی ، آج کل وہ بار بار " چلر پارٹی" دیکھتی اور قہقہے لگاتی رہی ۔
بوڑھے نے اُس کا ٹایم ٹیبل بنایا تھا ۔ جس میں ، سوموار سے جمعہ کے دن تک :
1۔ سمر کیمپ ،
2- سمر کیمپ سے ایک بجے دوپہر واپی پر لنچ ،
3- قاری صاحب سے قرآن پڑھنا 
4۔ بریک ۔
5 - بوڑھے کا چم چم کو پڑھا ہوا قرآن دھرانا -
6- ڈارئینگ یا آرٹ ورک -
7 - بوڑھے کا کہانی سنانا ۔
8 ۔ سلیپ ٹائم
9۔ پارک جانا-
10 ٹی وی ٹائم ۔
11 ۔ ڈنر ۔
12 مووی ٹائم ۔
13۔ سلیپ ٹائم -
یہ اور بات کہ یہ ٹائم ٹیبل ، سٹڈی کم بیڈ روم میں بورڈ پرلگا تھا ، قرآن کلاس تو ضرور ہوتی ہے باقی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے ۔
ہاں تو بچو ! بوڑھے نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اپنے دائیں طرف میز اور لیپ ٹاپ اٹھا کر نیچے رکھا اور کہانی شروع کی ۔ 

" بہت پرانی بات ہے ، جب نمّو چھوٹا تھا اورآپا پکّی کلاس میں پڑھتی تھی " بوڑھا سانس لینے کو رُکا کیوں کہ چم چم اُس کے سینے پر بیٹھ گئی تھی ۔
" آوا یہ پکّی کلاس کیا ہوتی ہے " چم چم نے پوچھا -
" عالی جیسے آپ کی نرسری ہوتی ہے ، اِس طرح اردو میں چھوٹی کلاس کو کچّی اور اُس سے بڑی کو پکّی کلاس کہتے تھے اور پھر کلاس 1 ہوتی تھی -"
" آوا ! آپا اُدرو پڑھتی تھی" چم چم نے پوچھا-

" ہاں وہ اُردو پڑھتی تھی اور زمین پر بیٹھتی ، انگلش تو ہم سب نے 6 کلاس میں شروع کی تھی "
" اچھا آوا آگے سنائیں " چم چم بولی

" ھاں تو میں کہہ رھا تھا ، کہ ہم اُس گھر کے نزدیک رہتے تھے ، جس کے نزدیک کڑوے اور میٹھے مالٹوں کا باغ ایک چرچ میں تھا۔ جہاں سے محلّے بچے پکنے پر مالٹے توڑا کرتے تھے اور وہاں کا فادر اور چوکیدار بچوں کو کچھ نہیں کہتے بلکہ سب کو بٹھا کر کہانیاں سنایا کرتے تھے ،یہ وہاں کی بات ہے"
" وہ اچھے آدمی کی کہانی جو سب بچوں کی مدد کرتا تھا " چم چم نے بوڑھے کو یاد کرواتے ہوئے کہا-
یہ سننا تھا کہ چم چم نے کہا ،
"  نہیں وہ سنائیں ، آوا وہ سنائیں " چم چم مچل کر بولی ۔
" آج نہیں کل !" بوڑھا بولا -

" آج ایک گوگو گاگا نے روزہ رکھا،  یہ کہانی ہے، کیوں کہ میں نے دوستوں سے وعدہ کیا ہے کہ میں یہ اُنہیں نمّو کا پہلا روزہ رکھنے کا واقعہ سناؤں گا-"
" اوکے آوا" چم چم بولی ۔
" تو وہ جو گھر تھا وہاں ، نمّو کی ماما ، بابا  ، آپا اور چھوٹا بھائی رہتے تھے ، اُن کی مرغیاں بھی تھیں اور ایک بکری بھی اور ایک چھوٹا سا خوبصورت لیلا بھی تھا " بوڑھے نے کہانی کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا۔
" جیسے ، میرا کیوٹ سا بے بے گوٹ ہے گاؤں میں " چم چم بولی
" ہاں بالکل ویسا ، ہی کیوٹ سا ، لیکن وہ بڑا شریر تھا وہ ٹکر مارتا تھا " بوڑھا بولا 
" تو ہوا یوں ، کہ پھر اُن کے گھر رمضان آگیا "
" کیسے آیا ؟ " چم چم بولی 
"بس چاند دیکھا اور اُس کی امی ابّا نے بتایا  کہ رمضان آگیا ہے " بوڑھا بولا ،
" ہوا یوں کہ ایک دن نمّو سویا ہوا تھا ، کہ اُسے برتنوں کی آواز آئی اُس نے اُٹھ کر دیکھا ، تو کمرے میں اندھیرا تھا ۔ اور برآمدے میں روشنی ہو رہی تھی ، نمّو کو اندھیرے میں بہت ڈر لگتا تھا "
" آوا ، مجھے بھی لگتا ہے " چم چم بولی
" اوہ یس ، اندھیرے میں ہر بچے کوڈر لگتا ہے" بوڑھے نے ہاں میں ھاں ملائی ۔
" تو نمّو ، اُٹھا اور برامدے میں آیا ، وہاں پتا ہے - نمّو نے کیا دیکھا؟ " بوڑھا سسپنس پیدا کرتا ہوا بولا
" کیا دیکھا ؟ " چم چم بولی
" نمّو نے دیکھا کہ ، نمّو کی ،  ماما ، بابا اور آپا چپکے چپکے پراٹھے کھا رہے تھے " بوڑھا بولا ۔
" میں بھی کھاؤں گا" ، نمُّو بولا
" ہم روزہ رکھ رہے ہیں " آپا بولی
" کہاں رکھ رہے ہیں ؟ " نمّو بولا 
" مجھے نکال کر دو میں بھی کھاؤں گا "نمّو نے پوچھا
" چلو آکر بیٹھ جاؤ " نمّو کی ماما نے کہا
نمّو نے بھی اپنی ماما اور بابا کے ساتھ بیٹھ سحری کھائی- آپا نے دو پراٹھے کھائے ، نمّو کیوں پیچھے رہتا ۔
" امی میں بھی دو پراٹھے کھاؤں گا " نمّو بولا ۔

امی نے نمّوکو بھی دو پراٹھے دیئے ۔ ایک پراٹھا کھایا ، تو نمّو کا پیٹ بھر گیا ، تو نمّو نے دوسرا پراٹھا بچا دیا ، امی نے وہ دوسرا پراٹھا، نعمت خانے میں رکھ دیا ۔
" آوا ، یہ نعمت خانہ کیا ہوتا ہے ؟" چم چم نے پوچھا ۔

" چم چم پہلے فرج نہیں ہوتے تھے ، ایک الماری کے چاروں طرف جالی لگادیتے اُس میں ساری چیزیں رکھتے کہ خراب نہ ہوں - اور ہاں ایک چھینکا ہوتا تھا ، پتا ہے چھینکا کیا ہوتا ہے " بوڑھے نے پوچھا 
" نہیں آوا" چم چم بولی 
" عالی ، آپا نے بلی پالی تھی ، آپ کومعلوم ہے کہ بلی دودھ شوق سے پیتی ہے" بوڑھے نے پوچھا -
" یس آوا ، وہ تو سارا دودھ پی جاتی ہے " چم چم بولی 
" تو عالی ، چھینکے میں دودھ رکھا جاتا تھا ۔ بلی چھلانگ مارکر بھی دودھ نہیں پی سکتی " بوڑھا بولا ۔

" اچھا آوا آگے سنائیں " چم چم بولی
 " اچھا تو میں کیا کہہ رہا تھا ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" آؤا ، آپ نے دوسرا پراٹھا بچا دیا " چم چم بولی -
"اوہ ، اچھا ، ہاں تو نمٗو خوشی خوشی سو گیا ۔ صبح اُٹھا تو  چم چم، کیا بتاؤں ، نمّو رات کی بات بھول گیا کہ اُس نے تو روزہ رکھا تھا "۔ بوڑھا بولا-
" آوا ، میں بھی بھول جاتی ہوں " چم چم بولی ۔
وہ رات کی بات بھول گیا ، اُس نے جالی والی الماری کھولی ، وہاں سے پراٹھا نکالا اور کھانے لگا ۔

اب آپا نے دیکھا تو شور مچا دیا ،
" امی امی ، لالہ نے روزہ توڑ دیا " آپا چلائی ۔
"آوا ، بچے کیسے روزہ توڑتے ہیں ؟ " چم چم نے پوچھا -
" عالی نمّو بھی پریشان ہو گیا " بوڑھا بولا، "کہ اُس نے تو کچھ نہیں توڑا ، تو آپا الزام کیوں لگا رہی ہے "۔ 
بس وہ رونا شروع ہو گیا ، اُس کی امی نے جو اُس کا رونا سنا تو وہ قرآن پڑھنا چھوڑ، دوڑی آئیں ۔
" کیا ہوا ، کیوں شور مچا رکھا ہے " امی نے پوچھا
" اور تم کیوں بھاں بھاں رو رہے ہو ؟ " امی نے نمّو سے پوچھا
" امی، اِس نے روزہ توڑ دیا ، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے " - آپا بولی
" امی ، آپا جھوٹ بول رہی ہے میں نے کچھ نہیں توڑا" نمّو نے حقیقت بیان کی
" نجمی ، کَھپ نہ پا "  گلزار خالہ بولیں ۔ جو شور سن کر اپنے گھر سے دوڑی آئیں تھیں -
" وے بھیڑیئے ، وت لالہ نوں نہ روایا کر " گلزار خالہ نے ڈانٹا اور نمّو کو گود میں اٹھا لیا - امی نے خالہ کو دیکھا تو واپس قرآن پڑھنے چلی گئیں ۔
" خالہ ، اِس نے روزہ توڑا ہے ، میں نے دیکھا ہے " آپا اپنی بات پر زور دے بولی ۔
" آہ ، بڑی آئی روزہ توڑا ہے ۔ لالہ روزہ افطار کیتا اے کوئی نئیں توڑیا ، چل توں میرے نال چل " گلزار خالہ نمّو کو گود میں اُٹھائے اپنے گھر لے گئیں ۔ انہوں نے گھر جاکر ، نمّو کو پھر روزہ افطار کروایا ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ آپا نے بھی روزہ افطار کرلیا ۔
نمّو کو معلوم ہو گیا تھا ۔ کہ بڑوں کا روزہ ، دن بھر میں ایک ہوتا ہے اور بچوں کے دو ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ بچے سحری کے بعد 12 بجے دوپہر تک کچھ نہ کھائیں ۔
اب بچو ، نجمی اور نمّو دونوں بچوں کا روزہ رکھتے ۔
سحری کرتے اور پھر ، نمّو تو سو کر اُٹھنے کے بعد روزہ افطار کر لیتا ۔ کبھی 12 بجتے تک نہ کھاتا ، یوں وہ رمضان گذرنے لگا -
پھر آپا نے دھماکا کیا ،" وہ بھی بڑوں کا روزہ رکھے گی" ۔ 
نمّو پیچھے کیوں رہتا ۔ اُس نے بھی اعلان کر دیا،
"وہ  ابا والا روزہ رکھے گا "۔
" بچو جی ، تم ابا والا روزہ سےر کھو گے؟ " آپا نے انگوٹھا دکھاتے ہوئے اُسے چڑایا ۔
" کیوں نہیں رکھ سکتا ؟ " نمّو بولا
اور دونوں میں لڑائی ہو گئی اور عالی، پتہ ہے، آپا نمّو کے قابو میں آگئی ۔
" کیسے آوا ، وہ تو بڑی تھی نا " چم چم یک دم بولی -
" وہ ایسے کہ نمّو نے آپا کی دو چٹیا میں سے ایک پکڑ لی " بوڑھا بولا " اور آپا چینخنے لگی-
" نمّو کی ماما نے نمّو کو شُش نہیں کیا " چم چم بولی
" وہ اِس لئے کی وہ گھر سے باہر ، درخت کے نیچے باقی بچوں کے ساتھ گھر گھر کھیل رہے تھے " بوڑھا بولا ،
" اِس سے پہلے آپا اُسے پکڑتی ، نمّو دوڑ کر خالہ کے گھر گھس گیا ، اور آپا روتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی "
" پھر نمّو کی ماما نے اُسے نہیں مارا " چم چم بولی
" نہیں خالہ ، نے اُسے ماما سے بچا لیا " بوڑھا بولا
"جسے ، عوّا مجھے بچا لیتی ہے " چم چم بولی
" اوہ ، یس بالکل ایسے ، لیکن آپا اُس سے ناراض ہو گئی " 
 بوڑھا بولا 
" اور اگلے دن جمعۃ الوداع تھا ، نمّو اور آپا دونوں سحری پر اُٹھ گئے، کیوں کہ دونوں نے آج بڑوں والا روزہ رکھنا تھا ۔ دونوں بہن بھائیوں نے سحری کی ، امی کے ساتھ ، دعا مانگی اور سو گئے ۔ 
" عالی ، کیا بتاؤں کیا ہوا ! " بوڑھے نے سسپنس پیدا کرتے ہوئے کہا 
" کیا ہوا ؟ کیا ہوا ؟ آوا جلدی بتائیں " چم چم ہائپر ہو کر بولی ۔
جب نمّو سو کر اُٹھا توپھر بھول گیا کہ اُس نے بڑوں کا روزہ رکھا ہے ۔ وہ اُٹھا اُسے سخت پیاس لگی تھی ، اُس نے صراحی سے گلاس اتارا اور ابھی صراحی کو پکڑا تھا کہ اچانک آپا آئی ،

" لالہ تمھارا روزہ ، نہیں ہے " وہ خلافِ توقع آرام سے بولی
" خالہ نے کہا ہے کہ بچے تو پانی سکتے ہیں ۔" نمّو بولا
" نہیں ، بڑوں کے روزے میں نہ پانی پی سکتے ہیں ، نہ دودھ پی سکتے ہیں ، نہ روٹی کھا سکتے ہیں اور نہ جھگڑا کرتے ہیں " آپا نے نمّو کو درس دیا '" بس سیپارہ پڑھتے ہیں ، تم اپنا یسرنا القرآن پڑھو ۔ چلو وضو کر کے آؤ "

" مائی ڈیر چم چم ، آپا نے نمو کو بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا ،جب نمّو کمرے سے باہر نکلے تو آپا اُسے دیکھتی رہے، کہ کہیں پانی تو نہیں پی رہا - اب بے چارے 4 سال کے بچے کو پیاس لگ رہی ہے اور اُس کی آپا اُس کے پیچھے پیچھے اور نمّو کو سخت پیاس لگے " بوڑھے نے سخت افسردہ ماحول بنا دیا
" آوا ، وہ خالہ کے گھر جا کر پانی پی لے " چم چم نے حل بتایا
" واہ عالی ! آپ کتنی ہمدرد ہو نمّو کی " بوڑھا بولا، " نمّو نے آپ کی بات سن لی اور وہ چُپکے چُپکے دروازہ کھول کر ، خالہ کے گھر گیا ، خالہ بھی قرآن پڑھ ہی تھیں "
وے ، آجا میرا سوہنا پتر ، کی ہویا ، وَت نجمی تے کُج نئی آکھیا " خالہ چمکارتی ہوئی بولی ۔
" خالہ بہت پیاس لگی ہے اور پیٹ میں اُوئی اُوئی بھی ہے " نمّو نے بسورتے ہوئے کہا

" وہ صحیح کہ رہا تھا ۔ آوا جب پیٹ خالی ہوتا ہے،  تو اُوئی اُوئی ہوتی ہے " چم چم بولی
" تو عالی ، خالہ لپک کر اُٹھیں اور جلدی سے صراحی سے پانی کا گلاس بھر کر لائیں اور نمّو کو جوں ہی دیا " بوڑھا بولا
" خالہ ، اِس کا روزہ ہے ، ٹوٹ جائے گا " نمّو کی آپا جو چپکے سے خالہ کے گھر آگئی تھی اور چھپ کر دیکھ ہی تھی آرام سے بولی-
" چپ کر نئیں تے چنڈ مارساں " خالہ بولی " لالے توں پانی پی " اور خالہ نے نمّو کو پانی زبردستی پلا دیا ۔
" روزہ توڑ خدا کا چور ، روزہ توڑ خدا کا چور " آپا چلائی ۔
" میں نے نہیں توڑا ، خالہ نے زبردستی پانی پلایا ہے " نمّو بولا
" روزہ تو ٹوٹ گیا نا جی ، تو نے تو بڑوں کا روزہ رکھا تھا " آپا منہ چڑاتی ہوئی بولی، " اب اللہ میاں دیکھیں گے "
" میں ، امی کو بتاتی ہوں " یہ کہہ کر آپا گھر دوڑ گئی

خالہ نے نمّو کو ، بڑی اچھی افطاری کرائی ، نمّو خالہ کے ہاں سو گیا ۔ شام کو خالہ نے اٹھایا اور نمّو ڈرتا ڈرتا خالہ اور خالو کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے ۔ کہ امی نے برامدے میں کمبل پر سفید چادر ڈال کر افطاری کا انتظام کیا ہوا ہے اور ایک پیڑھی پر آپا بیٹھی ہے دوسری پر چھوٹا اور تیسری پر جاکر نمّو بیٹھ گیا ، امی نے افطاری میں پکوڑے ، بالو شاہی ، جلیبی ، کھجوریں رکھی تھیں ۔
 خالہ نے ، آپا ، نمّو اور چھوٹے کے گلے میں چمکتے ہوئے ہار ڈالے اور اذان کا انتظار کرنے لگے - اذان ہوئی ،  سب نے روزہ کھولا ۔ 
چونکہ آپا نے ہمت دکھائی لہذا وہ بڑوں کا روزہ رکھنے کا مقابلہ جیت گئی ۔ 
ابا نے وعدہ کیا کہ وہ عید پر تینوں بچوں کے ساتھ آپا کے پہلے روزے کی تصویر کھنچوائیں گے، جو آپا نے ،27 اپریل 1957 کو نوشہرہ میں رکھا تھا ۔
" آوا یہ والی تصویر " چم چم بولی
"ہاں یہی تصویر ، یہ میرے ابّا ہیں ، اُن کی گود میں چھوٹا بھائی (2 سال) ہے اور نمّو(4 سال) اور آپا (6 سال)سائڈ پر بیٹھے اور سب ، کیمرے سے چڑیا نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں ، مگر یہ تصویر بڑی عید کو کنچھوائی گئی تھی"



" سال گذرنے لگے ، نمُو کے ابا کی پوسٹنگ نوشہرہ سے ایبٹ آباد ہوگئی، اب اُن کے ساتھ ایک اور چھوٹی بہن بھی تھی   سعیدہ ، بالکل چینیوں کی طرح گول گول اُس کی ناک تھی ،  نمّو گھر کے پاس برکی سکول میں  کچی جماعت میں داخل ہو گیا آپا پہلی کلاس میں آگئی تھی ،  بعد اقبال خالو اور گلزار خالہ بھی پوسٹنگ پر نوشہرہ سے ایبٹ آباد آگئے اور  وہیں آئے ، جہاں نمّو نے اُڑنے کی کوشش کی تھی یہ وہاں کی بات ہے " اُس نے چم چم کو یاد کراتے ہوئے کہا

یہ سننا تھا کہ چم چم نے زور سے قہقہہ لگایا ،
" جب نمّو بے ہوش ہو گیا تھا ۔ اور خون نکل آیا تھا ۔  نہیں اب  وہ سنائیں ، وہ سنائیں " چم چم مچل کر بولی ۔
" آج نہیں کل !" بوڑھا بولا ، " بس اب سلیپ ٹائم ہو گیا ہے "

" آوا ، نمّو نے بڑوں کا روزہ کب رکھا " چم چم نے پوچھا ۔
" ھاں ، نمُو چھ سال کی عمر میں پہلا روزہ رکھا تھا ۔ مارچ 1959 کا مہینہ تھا ۔ ایبٹ آباد کے سارے پھلوں کے درختوں پر پھل لگ رہے تھے ، نمّو اور اُس کے بہن بھائی سوئیٹر پہنتے تھے ۔ نمّو نے بڑے آرام سے روزہ رکھا نہ اُسے پیاس لگی اور نہ بھوک "
" آوا کیا نانو نے بھی آپ کے ساتھ روزہ رکھا تھا " چم چم نے پوچھا ۔
" مائی سوئیٹ ھارٹ ، آپ کی نانو اُس وقت ایک سال کی گوگو گاگا تھی اور وہ ہر وقت اوہو اوہو ( چم چم کا فیڈر)  مانگتی تھی ، اور ہاں روزہ وہ رکھتی تھی مگر وہ ہاف ڈے کا " 


 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




٭                                                 -       نمّو کی پہلی اُڑان
٭                                                 -      نمّو نے دوسری اُڑان
٭                                                 -     نمّو کی تیسری اُڑان
٭                                                 -     نمو کی چوتھی اُڑان
٭                                                 -      نمّو کی پانچویں اور چھٹی اُڑان  
٭                                                 -     نمّو کی ساتویں اُڑان
٭                                                 -      نمّو کی آٹھویں اُڑان ۔

٭                                                 -    پیرا گلائیڈنگ کیا ہے ؟

1 تبصرہ:

  1. بہت ہی اعلیٰ تحریر سر جی ۔۔۔ کمال کا سماں باندھا ہے ۔۔۔ مستقبل اور ماضی کا حسین امتزاج

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔