Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 26 جنوری، 2017

کالی شلوار- منٹو افسانے

دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی۔ جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک دن اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ “ دِس لیف —— ویری بیڈ، یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔“
انبالہ چھاؤنی میں‌ اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آ جاتے تھے اور تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی “ صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت سے اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی “ صاحب تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے —— سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجے میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی —— گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی، ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے الاٹ صاحب رہتے ہیں۔ جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو۔ اور ان چھ گاہکوں سے، اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے، ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ کر کوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا، مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا “ بھئی تین روپے سے زیادہ ایک کوڑی نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہی ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے کہا “ دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو نہ ہو گا۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔“ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازہ بند کر کے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا “ لائیے ایک روپیہ دودھ کا“ ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں —— بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس مالک مکان انگریزی میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانے میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ زنجیر کو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کئے گئے ، یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی اس نے زنجیر کو پکڑ کر اٹھنا چاہا اور کھٹ کھٹ کی آواز آئی اور پھر ایک دم سے پانی اس زور کے ساتھ باہر نکلا تو ڈر کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی، دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا “ کیا ہوا —— یہ چیخ تمہاری تھی؟“
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا “ یہ مؤا پیخانہ ہے یا کیا ہے؟ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر لٹکا رکھی ہے؟ میری کمر میں درد تھا میں نے کہا کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کر چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی زمین میں دھنس جاتی ہے۔
خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہو، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھی، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگا کر وہ ساتھ لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کوئی کام نہ ملا اس لیے اس نے عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کومعلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔
خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی، اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔
خدا بخش محنتی آدمی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھنچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھنچنا سیکھا، پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیٰحدہ اپنا کام شروع کر دیا۔
کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کر دیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہو گئی۔ چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے۔
سلطانہ نے کانوں کے بندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوائیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کر لیں۔ گھر میں‌ فرنیچر بھی آ گیا۔ قصہ مختصر کہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کر لیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں، اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں نظام الدین اولیا رح کی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی۔ چنانچہ گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آ گئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر یہ فلیٹ لیا۔ جس میں دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی لمبی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کر دیا تھا تا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دوکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ، چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں، اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوئی تھی۔ پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگایا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی “ یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے “ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کر لیا کرتی تھی۔ اس طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کر لی تھیں۔ مثلاّ بڑے حروف میں جہاں “ کوئلوں کی دکان “ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں “ شرفا کے لیے کھانے کا اعلٰی انتظام ہے “ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔
دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں، چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔ پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا، “ کیا بات ہے خدا بخش، پورے دو مہینے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا —— مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا۔ پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا “ میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا راستہ بھول گئے ہیں —— یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ “ وہ اس کے آگے کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے۔ یعنی مہینے میں‌ چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔
بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ کھانا پینا، کپڑے لتے دوا دارو۔ اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین‌ مہینے میں آئے تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ سے بنوائی تھیں، آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا، “ تم میری سنؤ، اور چلو واپس انبالے —— یہاں کیا دھرا ہے —— بھئی ہو گا، پر ہمیں یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا۔ چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ۔ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“
خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا، “ نہیں، جانِ من، انبالے نہیں جائیں گے۔ یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“
سلطانہ چپ ہو رہی۔ چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر حیلے سے بھرنا تھا۔ جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکنی میں آ کر جنگلے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔
سڑک کے دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال و اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک، پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں‌ ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو، اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آیا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے، دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے —— نہ جانے کہاں پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو گا۔ یوں تو وہ بے مطلب، گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہی، پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا۔ مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے، ایک بہت بڑا چکلا ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر، کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔ سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے۔ چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکنی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا، “ دیکھو میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔“ مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کر دی “ جانِ من، میں باہر کچھ کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں ہی بیڑا پار ہو جائے گا۔“
پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آ رہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیص بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیوں کہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔

انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ گئی تو باہر بالکنی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے، پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا —— چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ میں سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا۔ جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا کدھر سے آؤں۔ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا، مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نہ اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا، “ آپ اوپر آتے ڈر کیوں رہے تھے؟“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا، “ تمہیں کیسے معلوم ہوا —— ڈرنے کی بات ہی کیا تھی۔“ اس پر سلطانہ نے کہا، “ یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے، اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔“ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا، “ تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکنی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا، “ آپ جا رہے ہیں؟“ اس آدمی نے جواب دیا، “ نہیں، میں تمہارے مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں —— چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔“
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دیئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اسی کمرے میں آ گئے جہاں پہلے بیٹھے ہوئے تھے تو اس آدمی نے کہا، “ میرا نام شنکر ہے۔“
سلطانہ نے پہلے بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا سفید قمیص تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کر دیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا “ فرمائیے۔“
شنکر بیٹھا تھا یہ سن کر لیٹ گیا۔ “ کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا، “ میں سمجھا۔ لو، اب مجھ سے سنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا پڑتی ہے۔“
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ “ آپ کام کیا کرتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا، “ یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“
“ کیا؟“
“ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔“
“ میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“
سلطانہ نے بھنا کر کہا، “ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی —— آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔“
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، “ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی۔“
“ جھک مارتی ہوں۔“
“ میں بھی جھک مارتا ہوں۔“
“ تو آؤ دونوں جھک ماریں۔“
“ حاضر ہوں، مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔“
“ ہوش کی دوا کرو —— یہ لنگر خانہ نہیں۔“
“ اور میں بھی والنٹیر نہیں۔“
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا، “ یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا، “ اُلو کے پٹھے۔“
“ میں اُلو کی پٹھی نہیں۔“
“ مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے، ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔“
“ کیوں؟“
“ اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کُھلوانے کی خاطر جا رہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا، “ تم ہندو ہو۔ اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“
شنکر مسکرایا، “ ایس جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت اور مولوی بھی یہاں آئیں تو شریف آدمی بن جائیں۔“
“ جانے کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو —— بولو، رہو گے؟“
“ اس شرط پر جو پہلے بتا چکا ہوں۔“
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی، “ تو جاؤ رستہ پکڑو۔“
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا، “ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا —— بہت کام کا آدمی ہوں۔“
شنکر چلا گیا، اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کر دیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا، اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا۔ مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نہ اس سے پوچھا، “ تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا، کہنے لگا، “ پرانے قلعے کے پاس سے آ رہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں ——“
“ کچھ انہوں نے تم سے کہا؟“
“ نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے —— پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہا ہوں، وہ اکارت نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔“
سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی، “ سارا دن باہر غائب رہتے ہو —— میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ کہیں جا سکتی ہوں نہ آ سکتی ہوئں۔ محرم سر پر آ گیا ہے۔ کچھ تو نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہیں۔ گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں، وہ ایک ایک کر کے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کیا ہو گا —— یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو۔ کچھ تو سہارا ہو جائے گا۔“
خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا، “ پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایا چاہیے۔ —— خدا کے لیے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرؤ۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی۔ پر جو کرتا ہے، اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم ۔۔۔۔۔۔“
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا، “ تم خدا کے لیے کچھ کرو، چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو، پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیص پڑی ہے اس کو میں رنگوا لوں گی۔ سفید نینون کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیص کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے۔ سو، وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کرو ۔۔۔۔۔۔ دیکھو، تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو —— میری بھتی کھاؤ، اگر نہ لاؤ۔“
خدا بخش اٹھ بیٹھا، “ اب تم خوامخواہ زور دیئے چلی جا رہی ہو —— میں کہاں سے لاؤں گا —— افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس ایک پیسہ نہیں۔“
“ کچھ بھی کرو، مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لا دو۔“
“ دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔“
“ لیکن تم کچھ نہیں کرو گے —— تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“
“ اب تم کہتی ہو تو میں‌ کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ “ لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔“
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔
ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیص نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس واپس آ کر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کے دیکھے ہوئے فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اتھی تو چار بج چکے تھے، کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔ قریباّ ایک گھنٹہ سلطانہ بالکنی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک پر رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی —— مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے تانگوں اور موٹروں کر طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہّ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آ گیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دواصل اس نے بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نہ دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا، “ تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہو اور سو دفعہ کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ —— میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی۔ کہنے لگی، “ نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔“
شنکر اس پر مسکرا دیا، “ تو میری شرطیں منظور ہیں۔“
“ کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ “ کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟“
“ نکاح اور شادی کیسی؟ —— نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں —— چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔“
“ بولو کیا بات کروں؟“
“ تم عورت ہو —— کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔“
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی۔ کہنے لگی، “ صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
“ جو دوسرے چاہتے ہیں۔“ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
“ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟“
“ تم میں اور مجھ میں‌ کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہیں، خود سمجھنا چاہیں۔“
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا، “ میں سمجھ گئی۔“
“ تو کہو کیا ارادہ ہے؟“
“ تم جیتے میں ہاری، پر میں کہتی ہوں آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“
“ تم غلط کہتی ہو —— اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے، جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو —— تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟“
“ سلطانہ ہی ہے۔“
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ “ میرا نام شنکر ہے —— یہ نام بھی عجیب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ چلو آؤ اندر چلیں۔“
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے۔ نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا، “ شنکر میری بات مانو گے؟“
شنکر نے جواباّ کہا، “ پہلے بات بتاؤ۔“
سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی، “ تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں۔ مگر ۔۔۔۔“
“ کہو کہو —— رک کیوں گئی ہو۔“
سلطانہ نے جرات سے کام لے کر کہا، “ بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں —— یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دے دیا ہے۔“
شنکر نے یہ سن کر کہا، “ تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔“
سلطانہ جے فوراّ ہی کیا، “ نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لا دو۔“
شنکر مسکرایا، “ میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس، اب خوش ہو گئیں۔“
سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر پھر اس نے پوچھا، “ کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“
سلطانہ نے ہنس کر کہا، “ تم انہیں کیا کرو گے؟“ چاندی کے معمولی سے بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔“
اس پر شنکر نے کہا، “ میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی۔، بولو دیتی ہو؟“
“ لے لو۔“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیئے۔ اس کے بعد اسے افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاّ یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرئے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا، “ ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو —— اب میں چلتا ہوں۔“
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بُندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری سے اپنی رنگی ہوئی قمیص اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لیے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔
اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا، “ قمیص اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے —— کب بنوائی؟“
سلطانہ نے جواب دیا، “ آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں، “ یہ بُندے تم نے کہاں سے منگوائے ہیں؟“
مختار نے جواب دیا، “ آج ہی منگوائے ہیں۔“
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔--

بدھ، 25 جنوری، 2017

اللہ کے نزدیک ، سنت کے دو ناقابلِ تبدیل مآخذ -حصہ 1


لیکن صبر ، حتمی رائے دینے سے پہلے اِس مضمون پر نظر ڈالیں ۔
الکتاب ، میں سُنّت کا ذکر اُس فہم میں نہیں جو مسلمانوں میں غلط العام ہے ، لیکن "سُنّت اللہ " کا ضرور ذکر ہے ۔ جو پہلے گذرے ہوئے لوگوں پر صادق ہوچکی ہے ۔ 
 قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَهُواْ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينِ [8:38]
 اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [35:43]
 فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ [40:85]

چونکہ مسلمانوں نے رسول اللہ کو بھی گذار دیا ہے ، جبکہ یہ آیت اب بھی محمد رسول اللہ کی حیات کا ثبوت دیتی ہے ۔ 

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ [3:114]

 
لہذااُنہوں نے بھی پلٹا کھا کر ، اللہ کی سُنّت کو رسول اللہ سے موسوم کر دیا ہے۔  جب کہ سُنّت ہمیشہ اللہ کی ہی رہے گی ۔ 


رسول اللہ سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں کی ۔

 مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا[33:38]
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے  کو پہلے بتا دیا ہے کہ اگر  میں شامل ہونا ہے تو اِس آیت پر کٗل ایمان لانا ہے ،

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿2:4
جبھی اللہ نے رسول اللہ کو کہلوایا ۔ 

جسے آپ سُنّت اللہ کہہ سکتے ہیں 
 جو محمد رسول اللہ سے قبل مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا کی ہیں ۔ 
جو کتاب من اللہ کے مطابق ، بعد از خدا ہیں ۔
 کیوں کہ خلیل اللہ ہیں اور محمد رسول اللہ کے ابی ہیں بشمول مسلمانوں کے !

اِس آیت پر عمل سے رسول اللہ میں،  اللہ نے وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ کے ذریعے ، 
عملی تبدیلی کروانے کے بعد الْمُسْلِمِينَ میں أَوَّلُ قرار دلوایا -
 
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿6:161

 
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿6:162

 
لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿6:163
 

حقیت یہ ہے کہ ہم جب بھی الکتاب کھول کر القرآن کرتے ہیں تو رسول اللہ ہم پر القرآن کی تلاوت کرتے ہیں ، جو ہمارے لئے ناقابلِ تبدیل سُنّت ہو چکی ہے ۔ 
یعنی الکتاب ، کی تلاوت اور اُس پر عمل ۔ جو کہ اسوہءِ رسول اللہ ہے اور حسنہ ہے ۔ 

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴿33:21
 
باقی تمام انسانوں کی سُنّت ، " غیر حسنہ " ہے ، وہ اِس لئے کہ کوئی بھی انسان ، رسول اللہ کے عملی مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا ۔ نہ امامِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، 

لیکن اِس کے باوجود اللہ نے اُسے میرے فہم کے مطابق  شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  قرار دیا ہے ۔ تاکہ مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا  کے لئے اتمامِ حجت نہ رہے !

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿2:150


منگل، 24 جنوری، 2017

دعوت نامہ ۔ رضوان خالد

کیا آپ میری دعوت پر چند لمحات کے لئے صرف مسلمان بن سکتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مل کراسلام کی ابتدائی صدیوں کا جائزہ لیں پھرآپ چاہیں تو مسلمان ہی رہیں اور چاہیں تو واپس شیعہ، سُنی، دیو بندی، بریلوی یا وہابی بن جائیں جو بہرحال اسلام نہیں اسلام سے ملتے جلتے الگ الگ مذاہب ہیں۔
میں یہ فرض کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں کہ آپ نے میری دعوت قبول کر لی ہے اور اس لمحے آپ صرف مسلمان ہیں۔
آئیے ، یکم رجب 57 ہجری میں مدینہ چلتے ہیں ۔
محمدﷺ کے وصال کو  45 سال گذر چکے ہیں ۔
اب خود کو اُس دور میں موجود تصور کریں کہ حضرت محمدﷺ کے وصال کو 80سال گزر چکے ہیں۔ ایک بھی صحابی زندہ نہیں ہے البتہ وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے صحابہ کو دیکھا تھا۔ اس وقت نہ ابو حنیفہ پیدا ہوئے تھے نہ امام مالک نہ امام جعفر صادق اور نہ فقہ لکھنے والا کوئی اورامام پیدا ہوا تھا۔

آپ ایک ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں کہ حدیث کی ایک بھی کتاب موجود نہیں ہے۔ اور امام بخاری اور مسلم سمیت دیگر محدثین پیدا ہونے میں ابھی سوا سو سال سے زیادہ عرصہ ہے۔

یہ تو بڑی مشکل صورتحال ہےاب آپ کو سُنت کیسے پتہ چلے گی؟

فرائض کیسے پتہ چلیں گے؟

لوگ آخر کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے اماموں میں سے کوئی پیدا ہی نہیں ہواجن کے کئے ہوئے کام کےبعد ہم آج شیعہ اور سُنی،حنفی،  حنبلی اور شافعی وغیرہ بنے۔

دیوبند اور بریلوی مدرسہ تو ابھی سوا ہزار سال بعد بنے گا !

لہذا آپ دیوبندی بریلوی بھی نہیں بن سکتے، وہابی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہابی فرقے کی شروعات میں ابھی سوا ہزار سال کا عرصہ ہے۔

اہلِ حدیث تو تب بنیں جب حدیث کی کوئی کتاب ہو۔جس دور میں آپ پُہنچ گئے ہیں اُس وقت لوگ حدیث نبویﷺ کو لکھنے کا تصوّر بھی نہیں کرتے تھے ۔
کیونکہ حضرت مُحمدﷺ نے صاف صاف کہا تھا کہ اگر کسی نے مجھ سے سُن کر قُرآن کے علاوہ کُچھ لکھ لیا ہے تو وہ مٹا دے۔
اور لوگوں کو اپنے بزرگوں سے سُنی ہوئی یہ باتیں یاد ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عُمر فاروقؓ اپنے اپنے ادوار میں لوگوں کی اپنے نبیﷺ کی مُحبت میں لکھی جانے والی احادیث کو اکٹھا کر کے آگ لگوا چُکے ہیں۔ اُنھیں جلیلُ القدر صحابہ کی یہ نصیحت یاد ہے کہ نبیﷺ نے قُرآن اور اپنی سُنت کے علاوہ کُچھ نہیں چھوڑا لہٰذا آپ اہل حدیث تو ہو ہی نہیں سکتے۔ صحابہ میں سے کوئی زندہ نہیں ۔ بڑی مشکل میں ہیں ہم اب کہاں جائیں؟

اتنے میں مسجد میں اذان کی آواز آتی ہے، آپ مسجد پہنچتے ہیں تو کیسے نماز پڑھیں گے، ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر؟

آپ یقیناً ویسے ہی نماز پڑھیں گےجیسے وہاں کی مسجد میں لوگ پڑھ رہے ہوں گے۔ یعنی سُنت مسلمانوں میں رائج ہےاس کے لئے حدیث کی ضرورت نہیں۔

فرائض کا پتہ ویسے ہی قرآن سے چل رہا ہے اور قرآن تو تب بھی وہی تھا جو آج ہے۔ یعنی اُس دور کے مُسلمان قُرآن اور مُعاشرے میں رائج سُنّت کے سہارے ہم سے کہیں بہتر مُسلمان تھے۔

احادیث قُرآن کے نزول کے ساتھ ساتھ اُس کی تشریح کو سُنّت کی شکل میں ابتدائی اسلامی مُعاشرے میں رائج کرنے کے لیے تھیں اور ہر سُنّت قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ہی اسلامی مُعاشرے میں رائج ہو چُکی تھی۔ قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ہی سُنّت کی بھی تکمیل ہو چُکی تھی۔ یعنی احادیث اپنی ضرورت پُوری کر چُکی تھی۔

تب ھی ابوبکرؓ اور عُمرؓ نے احادیث کے ذخیروں کو آگ لگوائی تاکہ قُرآن و سُنّت ہی آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کا ماخذ ہو۔
تب ھی آخری حج کے موقع پر حضرت مُحمدﷺ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہی صحابہؓ سے کہا کہ جو یہاں موجود نہیں اُن تک دین پہںچائیں جسے ایک آیت بھی سمجھ آئی ہو وہی باقیوں کو پہنچائے۔

بعض روایات میں ہے کہ اکثر صحابہ اُس حکم کے بعد حج ادھورا چھوڑ دیا اور مکّہ سے قُرآن اور آپﷺ کا عمل جو اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا (یعنی سُنّت) لے کر نکلے اور آدھی سے زیادہ دُنیا میں پھیل گئے۔

جن صحابہ نے نبیﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا تھا ویسے ہی سکھایا جنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر یا رفع یدین کرتے دیکھا تھا اُنہوں نے آگے ویسے ہی سکھایا۔

کوفے کی طرف جو صحابہ گئے وہ آپﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا دیکھتے رہے تھے لہٰذا عراق کے سب مُسلمانوں کی اگلی نسلیں اُسی سُنت پر عمل کرنے لگیں۔

افریقہ اور کُچھ دیگر علاقوں میں جو صحابہؓ پہنچے اُنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی سُنت سکھائی لہٰذا آج تک افریقہ کے کڑوروں مُسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے اور عین سُنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہیں۔
رفع یدین کرنا بھی سُنّت ہے نہ کرنا بھی عین سُنّت۔ نماز تو ایک مثال ہے۔
ہر مُلک کے مُسلمانوں نے مُختلف مُعاملات اور عبادات میں الگ الگ صحابہ سے الگ الگ سُنّت سیکھی لہٰذا سبھی تھوڑے تھوڑے مُختلف ہونے کے باوجود سُنّت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اللہ نے صحابہؓ کے ذریعے ہر وہ طریقۂ عبادت کسی نہ کسی مُلک میں رائج کروا دیا جو نبیﷺ نے کبھی نہ کبھی اختیار کیا تھا۔

اُس وقت کے مُسلمان جب حج کے لیے مُختلف ملکوں سے اکٹھے ہوتے تو ان اختلافات کو بھی مُحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
عراق والے کہتے کہ ہاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ زیادہ مؤدّبانہ ہے ۔
مدینہ والوں کی دلیل ہوتی کہ حضوری کا احساس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے سے زیادہ آتا ہے۔

یہ علمی مذاکرے چلتے رہتے لیکن کوئی اس اختلاف کی بُنیاد پر ایک دوسرے کو غلط نہ کہتا۔

اب اپنی آنکھیں بند کر دوبارہ کھولیں۔ ہم اس وقت120ہجری یعنی حضرت محمدﷺ کے وصال کے 110سال بعد کے مدینہ میں موجود ہیں۔
مدینہ شہر میں امام مالک موجود ہیں اور مدینے میں ہی امام جعفر صادق بھی ہیں۔ یہ دونوں امام اپنی اپنی فقہ ترتیب دے رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں رہنمائی ہوسکے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ یہ امت کو فرقوں میں بانٹیں۔ یہ ایک دوسرے کی بے پناہ عزت کرتے ہیں۔
عین اسی وقت عراق کے شہر کوفے میں امام ابو حنیفہ بھی فقہ لکھ رہے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کا دور تو ہے نہیں اور نہ ہی اخبارات یا رسالے چھپتے ہی۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کے لئے مہینوں لگ سکتے ہیں لہذا مختلف امام اپنے اپنے لوگوں کی آسانی کے لئے مخلتف ملکوں میں فقہ لکھ رہے ہیں۔
امام شافعی اب سے کچھ سال بعد غزہ فلسطین میں اپنی فقہ لکھیں گے اور امام احمد بن حنبل بغداد میں یہی کام کریں گے۔

آپ کو یہ حال سن کر شاک لگ سکتا ہے کہ باقی سب امام دور دراز ملکوں میں ہیں۔ اور نبی کے شہر میں پیدا ہونے اور اور مسجدِ نبوی میں اپنی زندگی کی سب نمازیں پڑھنے والے امام دو ہی ہیں یعنی مالک اور جعفر صادق، اور دونوں ہی اپنی اپنی فقہ میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پرھنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی وفات کے سو سال بعد ہی مسجدِ نبوی میں نماز کا طریقہ بدل گیا تھا جو ان دونوں اماموں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو اسلامی طریقہ بتایا۔ نہ صرف یہ بلکہ طلاق کے لیے بھی یہ الگ الگ مواقع پردی گئی طلاق کو ہی صحیح سمجھتے ہیں ان دونوں کے نزدیک ایک موقع پر بیس دفعہ دی گئی ایک طلاق ہی شُمار ہو گی۔ ایسے ہی مدینہ کے یہ دونوں امام اکثر مُعاملات میں عقلی دلیلں دیتے ہیں کہ عقل کے استعمال کا حُکم قُرآن میں سات سو چھپن بار ہے اور مدینے میں ابھی مُحمدﷺ کے قائم کردہ اثرات باقی تھے۔

ایسے میں آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک عظیم طالب علم کوفے سے علمِ دین سیکھنے مدینہ آتا ہے، جی ہاں یہ نعمان بن ثابت ہے جسے آپ ابو حنیفہ کہتے ہیں، یہ امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کرتا ہے اور جلد ہی اسکی شہرت پورے مکے مدینے میں پھیل جاتی ہے۔
امام مالک جب بھی اسے ملتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ امام بھی اپنی فقہ لکھ رہا ہے اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے اور رفع یدین نہ کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے جس پر نہ امام مالک اعتراض کرتے ہیں اور نہ امام جعفر صادق بلکہ امام مالک اب بھی جیسے ہی امام ابو حنیفہ کو دیکھتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں،
ان کے شاگرد پوچھتے ہیں آپ تو کسی کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوتے پھر انکے لئے کیوں کھڑے ہوتے ہیں تو امام مالک کہتے ہیں اسلام کے ایسے عالم اور عاشقِ رسول کا احترام مجھ پر واجب ہے۔

واضح رہے کہ امام مالک نے ایک حج کے علاوہ کبھی مدینے سے باہر کا سفر نہیں کیا کہ کہیں محمد کے شہر سے باہر موت نہ آجائے۔
ہر نماز مسجدِ نبوی میں ادا کی کبھی جوتے نہیں پہنے کہ میں کہیں ایسی جگہ جوتا نہ رکھ دوں جہاں محمدﷺ ننگے پاؤں گزرے ہوں۔ کبھی سواری پر نہ بیٹھے کہ کہیں میں کسی ایسی جگہ سوار ہو کر نہ گزر جاؤں جہاں سے محمدﷺ پیدل گزرے ہوں۔ لیکن وہی امام مالک جو رفع یدین اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں ایک ایسے عالم کا احترام کرتے ہیں جو رفع یدین نہ کرنے اور ہاتھ باند کر نماز کا طریقہ بتاتا ہے اور وہ ابو حنیفہ امام جعفر کی شاگردی اختیار کئے ہوئے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور جنہیں اب شیعہ امام سمجھا جاتا ہے۔
غزہ سے ایک اور امام یعنی امام شافعی مدینہ آتے ہیں وہ خود ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اپنی فقہ میں لکھ چکےہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ روئے زمین پر امام مالک سے بڑا حدیث اور فقہ کا کوئی عالم موجود نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ یہ پڑھ کر آپ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے کہ آج کے دور میں تو رفع یدین، ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اور ایسی ہی دیگر باتوں پر بیسیوں فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتےہیں اور یہ آئمہ کرام ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ اگر کوئی امام کسی دوسرے امام کے علاقے میں جائے دوسری فقہ کے لوگ انہیں جماعت کروانے کو کہیں تو وہ اپنے طریقے سے نہیں اسی امام کے طریقے سے نماز پڑھاتا ہے جس امام کی وہ مسجد ہے۔

یہ دیکھتے ہی آپکو پتہ چل جائے گا کہ آپکے علما آپکو مسلمان سے حیوان بنا رہے تھے۔
کلمہ گو بھائیوں کو شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہلِ حدیث  وغیرہ بنا کر لڑواتے تھے۔
آپکو اپنے دور کے مُلا سے نفرت اور ان آئمہ سے محبت محسوس ہو گی اور آپ مختلف طریقوں سے نماز روزہ اور دیگر عبادات کرنے والے لوگوں کو اختلاف کے باوجود محبت کی نظر سے دیکھ کر اپنے جیسا مسلمان سمجھیں گے۔

اگر میں آپ سے کہوں کہ فرقوں میں بٹ جانا شرک ہے تو شاید آپکو یقین نہ آئے کیونکہ آپکو علما نے کبھی سورہ روم کی آیت نمبر 31اور 32کے بارے میں تو نہیں بتایا ہوگا ان آیات میں اللہ کہتا ہے کہ

  مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿30/31
’’اسی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس سے متقی رہو اور  الصَّلَاةَ قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہوجاؤ،
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿30/32 اُن مشرکوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور  شِيَعًا  ہوگئے۔ کُل حزب اسی پر فرحت محسوس کرتا ہے ، جو اس کے پاس ہے‘‘۔

کیا اس آیت کے اس کھلے حکم کے بعد بھی آپ دیوبندی، بریلوی، شیعہ، حنفی شافعی یا مالکی یا
اہلِ حدیث یا سلفی کہلوانا پسند کریں گے؟
آپ سب چاہتے ہین کہ قیامت کے دِن حضرت ﷺ آپکی شفاعت کریں لیکن میں آپکو بتاتا چلوں کہ اللہ سورہ انعام کی آیت159میں اپنے نبی کو کیا حکم دے رہے ہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿الأنعام: 159﴾
 
’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں تقسیم کیا اور
شِيَعًا ہو گئے ، آپﷺ کا کسی چیز میں اسے کوئی تعلق نہیں۔


کیا یہ آیت جان کر بھی آپ شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی ، اہلِ حدیث ، سلفی وغیرہ بننا پسند کریں گےیا مسلمان ہونا چاہیں گے؟
جب اسلام آیا تو لوگ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے آپس میں نفرتیں تھیں لیکن اللہ کی رسی یعنی قرآن نے انہیں بھائی بنا دیا، سُنتِ نبوی نے انکے دِل جوڑ دئیے لیکن مسلمان پھر سے فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن اور جہنم سے قریب تر ہوگئے۔ اللہ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ- - - -   كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿3:103
 
’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جانا ۔
کیا آپ بھی وہابی، اہلِ حدیث یا اہلِ قرآن جیسے کسی فرقے سے منسوب ہونا پسند کریں گےیا مسلمان ہونا چاہتے ہیں؟
کیوں نہ ہم صحابہ کے دور کے مسلمان بن جائیں جو قرآن کو اسلامی علم کا بنیادی ماخذ مانتے تھے۔ ان کے سامنے جب کوئی حدیث پیش کی جاتی تو وہ یہ دیکھتے کہ کہیں وہ حدیث قرآن سے تو نہیں ٹکراتی، اگر ایسا ہوتا تو وہ فوراً کہہ دیتے نبیﷺ ایسا نہیں کہہ سکتے، یہ قرآن کے خلاف ہے۔ راوی سے سننے کی غلطی ہوئی ہو گی۔ اگر حدیث قرآن کے خلاف نہ ہو تو اسے سر آنکھوں پر رکھتے۔

کیوں نہ ہم سب اماموں کو اپنا لیں۔ سب کی عزت کریں اور جس امام کی بھی فقہ سے جو حکم آسانیاں پیدا کرےوہ لے لیں لیکن خود کو کسی بھی امام سے منسوب نہ کریں اور بس بغیر کسی فرقہ کے پہلے دور کے مُسلمان بن جائیں۔ کیوں نہ ہم عقل سے کام لینا شروع کر دیں کہ  الکتاب میں اللہ ، عقل کے استعمال کا49  بار حکم دیتا ہے۔

قُل لَّوْ شَاءَ اللّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَدْرَاكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ [10:16]


میں آپ کو فرقوں سے نکل کر مُحمدﷺ کے دین اور صحابہ اور تمام آئمّہ کے اسلام میں آنے کی دعوت دیتا ہوں۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : اِس مضمون  میں آیات ڈالی ہیں اور تھوڑا ایڈٹ  کیا ہے ۔ مہاجرزادہ

پیر، 23 جنوری، 2017

Cancer Update from Johns Hopkins

Johns Hopkins Update

AFTER YEARS OF TELLING PEOPLE CHEMOTHERAPY IS THE ONLY WAY TO TRY ('TRY', BEING THE KEY WORD) TO ELIMINATE CANCER, JOHNS HOPKINS IS FINALLY STARTING TO TELL YOU THERE IS AN ALTERNATIVE WAY ..

Cancer Update from Johns Hopkins:

1. Every person has cancer cells in the body.. These cancer cells do not show up in the standard tests until they have multiplied to a few billion. When doctors tell cancer patients that there are no more cancer cells in their bodies after treatment, it just means the tests are unable to detect the cancer cells because they have not reached the detectable size.

2. Cancer cells occur between 6 to more than 10 times in a person's lifetime.

3. When the person's immune system is strong the cancer cells will be destroyed and prevented from multiplying and forming tumors.

4. When a person has cancer it indicates the person has nutritional deficiencies. These could be due to genetic, but also to environmental, food and lifestyle factors.

5. To overcome the multiple nutritional deficiencies, changing diet to eat more adequately and healthy, 4-5 times/day and by including supplements will strengthen the immune system.

6. Chemotherapy involves poisoning the rapidly-growing cancer cells and also destroys rapidly-growing healthy cells in the bone marrow, gastrointestinal tract etc., and can cause organ damage, like liver, kidneys, heart, lungs etc.

7. Radiation while destroying cancer cells also burns, scars and damages healthy cells, tissues and organs.

8. Initial treatment with chemotherapy and radiation will often reduce tumor size.
However prolonged use of chemotherapy and radiation do not result in more tumor destruction.

9.. When the body has too much toxic burden from chemotherapy and radiation the immune system is either compromised or destroyed, hence the person can succumb to various kinds of infections and complications.

10. Chemotherapy and radiation can cause cancer cells to mutate and become resistant and difficult to destroy. Surgery can also cause cancer cells to spread to other sites.

11. An effective way to battle cancer is to starve the cancer cells by not feeding it with the foods it needs to multiply.

*CANCER CELLS FEED ON:

a. Sugar substitutes like NutraSweet, Equal, Spoonful, etc. are made with Aspartame and it is harmful. A better natural substitute would be Manuka honey or molasses, but only in very small amounts. Table salt has a chemical added to make it white in color Better alternative is Bragg's aminos or sea salt.

b. Milk causes the body to produce mucus, especially in the gastro-intestinal tract. Cancer feeds on mucus.. By cutting off milk and substituting with unsweetened soy milk cancer cells are being starved.

c. Cancer cells thrive in an acid environment. A meat-based diet is acidic. Meat also contains livestock antibiotics, growth hormones and parasites, which are all harmful, especially to people with cancer.

d.. A diet made of 80% fresh vegetables and juice, whole grains, seeds, nuts and a little fruits help put the body into an alkaline environment. About 20% can be from cooked food including beans. Fresh vegetable juices provide live enzymes that are easily absorbed and reach down to cellular levels within 15 minutes to nourish and enhance growth of healthy cells. To obtain live enzymes for building healthy cells try and drink fresh vegetable juice (most vegetables including bean sprouts) and eat some raw vegetables 2 or 3 times a day. Enzymes are destroyed at temperatures of 104 degrees F (40 degrees C)..

e. Avoid coffee, tea, and chocolate, which have high caffeine Green tea is a better alternative and has cancer fighting properties. Water-best to drink purified water, or filtered, to avoid known toxins and heavy metals in tap water. Distilled water is acidic, avoid it.

12. Meat protein is difficult to digest and requires a lot of
digestive enzymes. Undigested meat remaining in the intestines becomes putrefied and leads to more toxic buildup.

13.. Cancer cell walls have a tough protein covering. By
refraining from meat it frees more enzymes to attack the protein walls of cancer cells and allows the
body's killer cells to destroy the cancer cells.

14. Some supplements build up the immune system
(IP6, Flor-ssence, Essiac, anti-oxidants, vitamins, minerals,
EFAs etc.) to enable the body's own killer cells to destroy cancer cells.. Other supplements like vitamin E are known to cause apoptosis, or programmed cell death, the body's normal method of disposing of damaged, unwanted, or unneeded cells.

15. Cancer is a disease of the mind, body, and spirit.

A proactive and positive spirit will help the cancer warrior
be a survivor. Anger, unforgiveness and bitterness put the body into a stressful and acidic environment. Learn to have a loving and forgiving spirit. Learn to relax and enjoy life.

16. Cancer cells cannot thrive in an oxygenated
environment. Exercising daily, and deep breathing help to
get more oxygen down to the cellular level. Oxygen therapy is another means employed to destroy cancer cells.

This is an article that should be sent to anyone important in your life...

A very informative article and should be circulated amongst all friends

مردم شماری اور قومی بیداری

  مہاجرزادوں کا مقدمہ - مردم شماری اور قومی بیداری ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرا پچھلا مضمون ، مردم شماری یا مردم گمشدگی
 جو کلّی طور ایک معلوماتی و خبرداری مضمون تھا ، اُسے منافقین و مفسدین نے ، اپنی سوچ کے مطابق پڑھا اور مجھے پرسنل کمنٹ میں خوب سنائیں ۔ کئی منافقین نے بالا آیت کا آخری حصہ ( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ )  لکھ کر ، چوٹ کی کہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہو اور پاکستانیوں کو علاقائی و لسانی تعصب میں مبتلاء کر رہے ہو !
اُنہیں شائد یہ نہیں معلوم کہ  عَلِيمٌ خَبِيرٌ   کو نہ صرف میرے بلکہ اُن کے تقویٰ کا پتہ ہے ۔ نہیں معلوم تو اُس کمپیوٹر پروگرام کو جو مردم شماری کے اعداد و شمار بتائے گا ۔ جس کا خوابوں و خیالوں کی وحدانیت میں رہنے والوں کو شمّہ برابر بھی احساس نہیں ۔ کیوں ؟
کہ انہوں نے الکتاب کا نہیں اپنے آباء و عالموں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ۔
٭ ۔  وہ ساری دنیا کو مسلمان کر کے ، اللہ کی کئی آیات کو باطل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں ۔
٭ ۔  وہ ساری دنیا کو کھانا کھلا ، اللہ کی رزّاق  ہونے کے منصب کو باطل کر کے خود اِس منصب پر متمکّن ہونا چاہتے ہیں ۔
 
٭ ۔  وہ دولت جسے اللہ نے خالصتاً انسانی کسب بتایا ہے وہ " اپنی ضروت سے زائد " کا نعرہ مار کر اور خود عالی شان محلات کے مکین بننا چاھتے ہیں ۔

 ٭ ۔  وہ وراثت جس کی تقسیم کا نصاب خود اللہ نے ، قیامت تک لکھوادیا ہے ، اُسے اُن کے جائز وارثین سے محروم کرنا چاھتے ہیں

اب میں آتا ہوں 15 مارچ کو ہونے والی مردم شماری پر ، جہاں
نہ تقویٰ باعثِ کرامات بنے گا اور نہ مذھب ، کرامات اگر کسی نے دکھائی تو وہ زبان اور قومیت ہوگی ، کیوں کہ زبان و قومیت اللہ کی آیات ہیں:

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ ﴿30:22
 خلق السماوات اور الارض اور بولیوں اور رنگوں میں اختلاف 
اُس کی آیات ہیں ۔ صرف اُس میں العالمین کی آیات کے لئے ہیں ۔
زبان و قومیت کی بنیاد ۔ مردم شماری کے لئے اِس سندھی قومی بیداری فکر کی مہم پر غور کریں ۔ 
 
 ھوشیار خبردار
15 مارچ کان آدم شماري جو پهريو مرحلو شروع ٿي رهيو آھي.
مردم شماري فارم کي پھنجي سامھون پینسل سان نہ پر پوائنٹر پین سان پھنجي مڪمل تفصيل سان ڀريو.
ھي فارم صرف ھڪ فیملي یعني زال مڙس ۽ سندن اولاد لاء آھي
ھڪ گھر ۾ اگر 5 نڪاح پیل ڀاتي رھن ٿا تہ اھي 5خاندان لکبا نہ ڪي ھڪ
اکیون کولیو پاٹ لازمي ڳٹایو
اوھان جي ذات ڪھڙي بہ آھي پر لکرایو سنڌي ۽ گهر  ۾ ڀل ڪهڙي به ٻولي ڳالهايو پر ٻولي واري خاني ۾ صرف سنڌي لکرايو
(.هن پيغام کي پنهنجي سڀني نمبرز تائين پهچايو ڇاڪاڻ ته ان ۾ ئي اسانجي قوم جي بقا آهي .)

میری نظر میں یہ سندھی قوم کو معلومات فراہم کرنے کی اعلیٰ کوشش ہے ۔ تاکہ وہ سندھ میں ، خود اپنی غلطی ، سُستی یا اُن کے ہوشیار و بابصیرت افراد کی لاپرواہی کی وجہ سے اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائیں ۔ 

توہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ہوئے ، مہاجروں کو معلومات فراہم کرنا ، کیا تعصب کو ہوا دینا ہے ؟

ہوشیار خبردار مہاجرو ! تم جتنی بہترین علاقائی زبان بولو ، سندھی ٹوپی یا اجرک پہن کے بِھٹ شاہ پر ڈانس کرو ، اُس کے بادجود یہ ٹھپّہ تمھارے جسموں پر ثبت رہے گا ۔
تم خود کو ترکی النسل کہو یا پٹھان النسل یا راجپوتانہ کے قائم خانی یا بلوچ قبائل کا حصہ ، اگر تم گھروں میں اردو بولتے ہو تو تم کبھی سندھی، پٹھان یا بلوچ نہیں بن سکتے ،  کہلاؤ گے مہاجر ہی یا پھر میری طرح " مہاجر زادہ " ۔ 
اِس کے باوجود کہ مجھے پنجابی، پشتو اور فارسی آتی ہے۔ اگر میں نے خود کو پاکستانی لکھا تو میں قومیت کے جواربھاٹے میں نہ صرف خود ڈوبوں گا بلکہ مہاجر قوم کو بھی ڈبو دوں گا ۔
کیوں کہ مہاجر اب میری شناخت نہیں قوم ہے، میری فادری یا مادری زبان ، پنجابی ، سندھی ، بلوچی یا پٹھانی نہیں، اردو ہے ۔ اردو !
ہاں اگر میں افغانستان سے ہجرت کر کے آیا ہوتا تو ، پھر سب مجھے پٹھان ہی کہتے ، نادرا بھی مجھے روپے لے کر زمین کے بیٹے کا سرٹیفکیٹ دے دیتا، خواہ میں درّی پشتو بولتا یا افغان پشتو ، میں ایرانی بلوچستان کا مہاجر ہو کر بھی ، بلوچ ہی کہلاتا ۔
لیکن ہندوستان سے ہجرت کر کے ، میرے والدین پر ہندوستانی کا ٹھپہ چسپاں کر دیا گیا تھا ، جن دنوں میں یہ جملہ سنتا تھا ، " تم ہندوستانی ہو !" اُس وقت الطاف حسین بھی میری طرح کہنے والے کی طرف گھورتا ہوگا ۔
اور جب میں کہتا ،" نہیں میں پاکستانی ہوں "
اُس کی کھلکھلا کر ہنسنے اور زور سے ، " ہندُستوڑا ،

ہندُستوڑا " کہنے پر زمین سے پتھر اُٹھا کر اُسے مارتا اور گھر دوڑ آتا ۔

لیکن اب میں فخر کرتا ہوں ، کہ میرے ماں اور باپ نے پاکستان ہجرت کی اور پاکستان میں اُنہیں اور اُن کی اولاد کو جو عزت ملی وہ ، کسی سندھی ، بلوچی ، پنجابی یا پٹھان کی وجہ سے نہیں ، پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ملی ۔
ورنہ سندھی ، پٹھان ، بلوچ اور پنجابی تو ہندوستان میں بھی ہیں اور پاکستان سے دُگنا ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 تو مہاجر قوم کے اردو بولنے والے مہاجرو اور مہاجروں کی اولادو (مہاجرزادو) !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭۔   15 مارچ سے مردم شماری کا پہلا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔

٭۔    مردم شماری فارم اپنے سامنے بھریں اور پنسل سے نہ بھریں بلکہ پوائنٹر پین (یا بال پوائینٹ) سے مکمل تفصیلات بھریں ۔

٭۔    یہ فارم صرف ایک فیملی کے لئے ہے ، یعنی میاں ، بیوی اور اُن کے (غیر شادی شدہ ) بچوں کے لئے ۔

٭۔   ایک گھر میں اگر 5 شادی شدہ افراد اور اُن کے بچے رہتے ہوں ، تو 5 فارم الگ لے کر بھریں ۔ ایک ہی فارم میں سب کے نام نہیں لکھنا ۔
 ٭۔   مردم شماری کرنے والوں کو تمام  افراد اُن سے سامنے گنوانا ۔
٭۔   آپ کی ذات ، برادری کچھ بھی ہو۔ لیکن آپ مہاجر قوم ہو ! 
٭۔   گھر میں کون سی بولی بولتے ہو ؟ اردو  
 
نوٹ: یاد رہے ، کہ قومیت کے حساب سے مردم شماری میں کمپیوٹر بس یہی دو الفاظ اٹھائے گا ۔
1- قوم کون سی ہے ؟
2- گھر میں زبان کیا بولتے ہو ؟

(قائم خانی ، بلوچی ، درانی ، یوسف زئی ، مشرقی پنجابی ، کاٹھیا واڑی ، گجراتی وغیرہ مہاجروں کو اقلیت میں تقسیم کر دیں گے - یہ ہجرت کرنے والی انگلیاں ہیں ۔ مگر اِن کے اتحاد سے بننے والا " مُکہ " مہاجر قومیت کہلائے گا )

مہاجر قوم کی بقاء کے لئے، یہ پیغام سب مہاجروں اورمہاجروں کی اولادو (مہاجر زادو) تک پہنچائیں ۔ شکریہ  
 
 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔