Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 28 فروری، 2018

سٹاک مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے ؟


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں نیا شخص آیا اور اس نے اعلان کروایا کہ وہ دیہاتیوں سے ایک بندر 10 روپے میں خریدے گا۔ اس گاؤں کے اردگرد بہت زیادہ بندر تھے ، سو دیہاتی بہت خوش ہوئے ، انہوں نے جال لگا کر ، کیلے رسی سے باندھ کر اور دیگر کئی طریقوں سے بندر پکڑنا شروع کئے
اس آدمی نے ایک ہزار بندر 10روپے میں خریدے ، اب بندروں کی تعداد کافی کم ہو چکی تھی ، چند ایک بندر باقی تھے جنہیں پکڑنا مشکل ہو گیا تھا ۔ یوں سمجھیں اندھا دھند فائرنگ والا معاملہ ختم ہو چکا اور ٹارگٹڈ آپریشن کی نوبت آ گئی تھی
اس نے اعلان کیا کہ اب وہ بندر 20 روپے میں خریدے گا ، اس سے دیہاتیوں میں نیا جزبہ نیا ولولہ پیدا ہوا اور ایک دفعہ پھر انہوں نے پوری قوت سے بندر پکڑنا شروع کئے
چند دن بعد بندر اکا دکا ہی نظر آتے اور اس نئے آئے ہوئے تاجر کے ایک بڑے پنجرے میں تقریبا 1300 بندر جمع ہو چکے تھے ۔
جب تاجر نے بندروں کی خریداری میں سستی دیکھی تو اس نے فی بندر قیمت پہلے 25 روپے مقرر کی اور پھر اگلے دن قیمت 50 روپے کر دی۔ اس قیمت میں اس نے صرف 9 بندر خریدے ۔۔
اب جو بندر بھی نگاہ انسانی کی زد میں آتا ، داخل زندان کر دیا جاتا
اسکے بعد وہ کام کے سلسلے میں کسی دور دراز شہر چلا گیا اور اسکا اسسٹنٹ کام سنبھالنے لگا
اسکی غیر موجودگی میں اسکے اسسٹنٹ نے دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا کہ :
  اے میرے عزیز دوستو- اس بڑے پنجرے میں تقریبا 1450 جانور ہیں جو استاد نے جمع کئے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تم سب کو یہ سارے 35 روپے فی بندر کے حساب سے بیچ دیتا ہوں ، جب ماسٹر آئے تو تم اسے یہ بندر 50روپے میں بیچ دینا۔

دیہاتی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے بندر خرید لئے
اسکے بعد انہوں نے نہ کہیں تاجر کو دیکھا نہ ہی اسکے اسسٹنٹ کو ، بس ہر جگہ بندر ہی بندر تھے-

اسے کہتے ہیں اسٹاک مارکیٹ...

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔