Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 16 مارچ، 2020

فیض احمد فیضؔ :ایک مطالعہ

  فیض احمد فیض کو اور اس کی شاعری کو جاننے کے لئے  ، اُس کی فیملی  والد ،  والدہ ، بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ جو کہ لوگوں کے لئے یقیناًحیرت انگیز ہو گی   ۔

 ضلع سیالکوٹ میں نارووال سے تقریبا   آٹھ میل دور کالا قادر کا گاؤں  تھا اور اب بھی ہے ۔  یہ  ایک  چھوٹا سا گاؤں ہے ۔ یہاں  تھوڑی سی زمین  کی ملکیت رکھنے والی جاٹ کسانوں کی آبادی تھی    ۔وہ سب اپنے آپ کو چوہدری  کہلواتے تھے ، اُن  میں ایک  چودھری سلطان احمد بھی تھے، جن کے کئی بھائی تھے  ۔ لیکن سلطان احمد  اپنے دیگر بھائیوں سے مختلف تھے کیوں کہ وہ    ہر روز ناروال کے گورنمنٹ   اسکول  میں پڑھنے کے لئے پیدل جاتا   ، سکول کے بعد ضلعی عدالتوں میں کام کرتا  یوں اِس نے ھائی سکول کا امتحان پاس کرکے ،  گاؤں میں چوہدری کے ’پڑھے لکھے‘ بیٹے کے طور پر  اپنا نام منوایا ۔  یہ  فیض احمد چوہدری کے والد ماجد تھے ۔

سلطان احمد کے  بھائیوں کے درمیان زمین کے تنازعے پر اختلاف ہو گیا ، یہ بیٹوں کے جوان ہونے پر ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی ، لیکن اِس اختلاف نے  سلطان احمد کو مشتعل کردیا  اور وہ گھر سے بغیر کچھ کسی کو بتائے غائب ہو گیا  ۔ پولیس اور دیہاتیوں نے  اس کو  بہت ڈھونڈا   لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔ کہ  کالا قادر کے چودھری کا یہ، ذہین اور پڑھا لکھا بیٹا  کہاں غائب ہوگیا تھا؟
ہمیں بعد میں یہ معلوم ہوا  کہ سلطان احمد ، گھر سے نکل کر  افغانستان پہنچ  گیا ،  جہاں وہ افغانستان کے نئے  امیر ، امیر عبد الرحمٰن ،( جو انگریز کے ذریعہ تسلیم شدہ حکمران  تھا) کی خدمت میں حاضر ہوا۔اور اُس کے دربار میں ملازم ہو گیا ، اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے وہ          ترقی کرتا کرتا  میر منشی یعنی چیف سیکرٹری - افغانستان  کے عہدے تک پہنچ گیا ۔ 
اپنی ملامت کے دوران  سلطان احمد نے کئی افغا ن عورتوں سے شادیاں کیں ، جن سے اس کی متعدد بیٹیاں تھیں ، لیکن کوئی بیٹا نہیں تھا۔اس  نے  کابل کے پوش  علاقے میں ایک خوبصورت مکان بھی بنوایا ۔ پھر ایک دن افواہ اُڑی  کہ چوہدری سلطان احمد ، میر منشی ،   ایک برطانوی جاسوس تھا۔ اس نے انکار کیا ، لیکن امیر کے شبہات بڑھتے گئے۔
 اس سے پہلے کہ امیر کے سپاہی اُسے گرفتار کرتے ، چوہدری سلطان احمد کابل سے فرار ہوگئے اور مولوی کا بھیس بدل کر ، وہ ڈیورنڈ لائن کے  پار   پہنچ گیا ، جہاں اُس نے  امیر کا نمائندہ بن کر  انگریزوں سے مذاکرات کئے ۔انگریزوں اور امیر کابل  کے درمیان بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کو کم  کیا ۔ 
  سلطان احمد اپنے گاؤں جانے کے بجائے سیدھے بمبئی کی طرف روانہ ہوا ، جہاں سے اس نے انگلینڈ جانے والے بحری جہاز پر بیٹھا ، کابل کے چیف سیکریٹری کا  خوشدلانہ  استقبال کیا گیا   اور جلد ہی اُس نے  برطانوی شاہی کے ساتھ دوستانہ  تعلقات بنا لئے ، سلطان احمد نے  اردو ، پنجابی ، فارسی ، عربی ، انگریزی ، پشتو اور روسی زبان میں عبور حاصل کیا۔ انگلینڈ میں اُس  نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور انگلش ادب میں ایم اے پاس کیا۔ اس کے بعد اس نے قانون  کا امتحان پاس کیا اور اُسے بار میں بلایا گیا۔ 
  اس طرح کالا  قادر کے چودھری سلطان احمد برطانوی اشرافیہ میں جا پہنچے ۔ کالاقادر کے گاؤں میں رہنے والے  سلطان احمد  کے اہل خانہ کے پاس اب بھی اس کی  برطانوی رائل خاندان کے ساتھ متعدد تصاویر موجود ہیں ، جو اُن کے لئے ایک اعزاز ہے ۔
ملکہ برطانیہ نے سلطان احمد کو  خان بہادر کا خطاب دیا اور اُسے  سرگودھا میں کئی مربع اراضی مختص کی گئیں۔
سلطان احمد نے سیالکوٹ میں قانونی پریکٹس شروع   اور علامہ اقبال سمیت متعدد بااثر دوست بنائے۔ اس دور میں اُس نے  نے افغانستان کے امیر عبد الرحمن کی سوانح عمری لکھی جو آج تک کلاسیکی ہے۔جس  کاپی شاید اب بھی کہیں بھی اچھی  بُک شاپ میں مل سکتی ہے۔
 سلطان احمد کی والدہ نے،  ان سے پنجابی لڑکی سے شادی کرنے کو کہا ،  چنانچہ پنجابی بیوی   فاطمہ سلطان سے ، اس کے چار بیٹے تھے اور کوئی بیٹی نہیں۔ سب سے بڑا چوہدری طفیل احمد تھا ، جس نے علی گڑھ سے طبیعیات میں ایم ایس سی کیا ، دوسرے بیٹے چوہدری فیض احمد ، تیسرے نمبر پر چوہدری عنایت احمد ، ایک بیرسٹر ، اور سب سے چھوٹے چوہدری بشیر احمد تھے۔

 اس وقت تک افغانستان کے امیر کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ اس نے اپنے میر منشی سلطان احمدکے ساتھ زیادتی کر دی تھی  جو اس وقت تک خان بہادر چوہدری سلطان احمد بن چکا تھا۔لہذا  اُس نے سلطان احمد کی افغان بیویوں  اور بیٹیوں کو اُس کے پاس  لاہور بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح  افغانستان سے آنے والا ، پورا خاندان ان کے فیروز پور روڈ کے گھر پر اترا۔
سلطان احمد کی  پنجابی بیوی  فاطمہ سلطان جسے ان کے بیٹے ’بی بی جی‘  کہتے تھے   کو یہ کریڈٹ جاتا ہے  ، جس نے اپنے شوہر سلطان احمد کے  افغانی خاندان کی دیکھ بھا ل کی ۔ خان بہادر سلطان احمد کی موت کے بعد ،   فاطمہ سلطان  اس خاندان کی برائے نام سربراہ ہوگئیں۔ وہ ایک غیر معمولی عورت تھی۔ اس نے اپنے شوہر کی افغان بیویوں سے فارسی بولنے والی بیٹیوں کو تعلیم دی۔ وہ پورے کنبے کی دیکھ بھا ل اور تعلیم کے سلسلے میں سرگودھا میں زمینیں بیچتی رہی   ۔
فیض احمد نے سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور یہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد   فیض  نے ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ فیض  کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔  بی اے  فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا۔
تیسرے ماسٹر   فلسفہ  کے دوران ، فیض احمد کو   پرنسپل ، ایم اے او کالج   امرتسر ، ایم ڈی تاثیر نے  کالج میں عربی لیکچرر کی نوکری دی۔ 
 جس گھر میں فیض پروان چڑھا تھا ، وہاں اس کی سوتیلی بڑی  بہنیں  فصیح  فارسی  بولتی تھیں اور وہ اُن سے فارسی  میں بات کرتا تھا ۔   یہ بات بہت سے لوگوں کو حیرت کی بات ہوگی  کہ اس کے والد  سلطان احمد نے،  گاؤں کالا  قادر میں  ایک چھوٹی سی  لیکن بہت خوبصورت ، مسجد بنائی۔ جب فیض بیروت میں جلاوطنی پر تھے ، انہوں نے کلاسیکی فارسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ایک ’نعت‘ بھیجی ، جسے بہت سے لوگ ان کی عمدہ نظم سمجھتے ہیں۔ وہ نظم سنگ مرمر  کی تختی پر کندہ  کروا کر اُسے مسجد کے دروازے پر لگایا گیا تھا۔
اپنی وفات سے قبل ، فیض احمد فیض  اپنے آبائی گاؤں کالا  قادر گئے ،  کھیتوں میں گھومتے پھرے گاؤں کے تمام بوڑھے لوگوں سے ملاقات کی۔ وہ کافی دیر تک مسجد کے سامنے بیٹھے رہے  ، دروازے پر لگی تختی کو بے یقینی سے دیکھا  اور  سر ہلایا۔ 
  ایک ممتاز اِشتراکیت سٹالنسٹ فکر کا کمیونسٹ ،جو  زندگی میں ایک لمبا فاصلہ طے کرچکا تھا  لیکن پھر بھی اس کی جڑیں مضبوطی سے اسی مٹی میں تھیں جہاں سے اس نے جنم لیا تھا۔ 
شاید اس کے لئے یہ ایک صوفیانہ لمحہ تھا۔ ساری زندگی وہ بہت پر سکون آدمی رہا۔ اب بھی  وہ  پرسکون تھا۔ وہ لاہور واپس آیا اور دو دن بعد  وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا ۔ 
فیض احمد فیض کی پہلی نظم جو 1929 میں لکھی گئی ۔ 

میرے معصوم قاتل
 ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں
 اداسی میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں
 محبت کی دنیا پہ شام آ چکی ہے
 سیہ پوش ہیں زندگی کی فضائیں
 مچلتی ہیں سینے میں لاکھ آرزوئیں 
تڑپتی ہیں آنکھوں میں لاکھ التجائیں 
تغافل کی آغوش میں سو رہے ہیں
 تمہارے ستم اور میری وفائیں
 مگر پھر بھی اے میرے معصوم قاتل
 تمہیں پیار کرتی ہیں میری دعائیں
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فیض احمد فیضؔ نے اپنی شاعری میں مظلوم طبقے کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔ جذبوں کی صداقت،تمثالوں کی تازگی ، لفظ کے تخلیقی استعمال اور امیجری کی ندرت فیض ؔکے کلام کے ا متیازی اوصاف ہیں ۔تخلیقی اعتبار سے فیضؔ کا کلام حریت فکر اور جرأت اظہار کی اعلا مثال ہے ۔ فیض احمدفیضؔ کا نظام فکر انقلابی تصورات سے مزین ہے۔ ظلم واستبداد کے خلاف ان کی آوازا قتدار کے ایوانوں میں لرزہ برپا کر دیتی ۔قید و بند کی صعوبتیں بھی انھیں حق گوئی سے باز نہ رکھ سکیں ۔ اپنے افکار اورجرأت اظہا ر کی بدولت فیضؔ کو بین الا قوامی حیثیت حاصل ہے ۔ فیضؔ کو بین الاقوامی اہمیت دلانے کا تمام تر انحصار حریت فکر کی امین ان کی شاعری پر ہے ۔ ان کی شاعری خلوص ، صداقت اور انصاف کا پرچار کرتی ہے ۔ ظالمانہ استحصالی و استبدادی نظام کے خلاف ان کے خیالات ہمیشہ فکر ونظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوں گے ۔ فیضؔ کی شاعری ملکی اور بین الاقوامی تاریخ کے نشیب وفراز پر محیط ہے ۔ ان کا سیاسی اور سما جی مرتبہ جوکچھ بھی ہو مگر ان کی جرأت اظہار ، بے باکی اور ظلم کے خلاف بھرپور احتجاج پر مبنی ان کی شاعری انھیں اردو ادب میں بلند منصب عطا کرتی ہے ۔ فیضؔ کے کلام کی حقیقی اہمیت اور قدروقیمت کا تعین کر نے کے لیے ان کی شاعری کے ادبی محاسن ہی کافی ہیں ۔ وہ حریت فکر کا علم بلند رکھتے ہوئے ظلم کے کریہہ چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ ادبی اعتبار سے فیضؔ کا یہ اسلوب انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
بر صغیر سے برطانوی استبداد کا خاتمے کے بعد پس نوآبادیاتی دور میں توقع تھی کہ پاکستان میں سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ وجود میں آئے گالیکن آزادی کے بعد ہمارے ہاں سماجی اصلاح کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہ ہوسکا ۔ سیاسی نظام مفلوج کردیا گیااور رہی سہی جمہوریت کاگلا گھونٹ دیا گیا ۔ فیض ؔنے اس جبر کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں انھیں گرفتار کرلیا گیالیکن جوں جوں صعوبتیں بڑھتی گئیں ان کی آواز لہو ترنگ ہوتی گئی۔ فیض ؔنے مظلوموں کی حمایت اور جبر کے خلاف احتجاج کو مطمح نظرٹھہرایا ۔ انھوں نے جو کچھ کہا ڈنکے کی چوٹ پہ کہا ۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں فیض ؔکی شاعری حوصلے اور امید کی نقیب ہے ۔ ان کی شاعری جہد مسلسل اور قوت وحرکت کی پیغا م بر ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ فیضؔ کی شاعری میں دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کے ساتھ دلی وابستگی کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔ بقول احمد ندیم قاسمی :
’’ فیضؔ کو سامراج سے نفرت ہے ۔ سرمایہ داری اورجاگیرداری سے نفرت ہے ۔ غلامی اور محکومی سے نفرت ہے ۔ گنے چنے انسانوں کے ہاتھو ں کروڑوں انسانوں کے سفاکانہ استحصال سے نفرت ہے ۔ جبر اور ظلم سے نفرت ہے۔‘‘ (1)
فیضؔ نئی آگہی اور نئی حسیت کے شاعر تھے ۔ وہ ظلم سے نفرت کرتے ہیں اور مظلوم انسانیت سے محبت کرتے ہیں ۔ وہ حق وانصاف کی بالا دستی کے خواہاں ہیں ۔ فیض ؔنے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو اپنے شعری تجربوں کی اساس بنایا ہے ۔ ان کے شعری تجربے میں اپنے عہد کے تمام اہم واقعات شامل ہیں جنھیں بیان کرکے انھوں نے حرف صداقت لکھنے کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ملی حوادث اور قومی مسائل کے بارے میں فیضؔ جو مجموعی تاثر پیش کرتے ہیں وہ ان کے جرأت مندانہ اندازِ فکر کا نقیب ہے وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے ۔ جب ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہو اور لب اظہار پر تالے ہوں تو ان لرزہ خیز حالات میں شاعر جو کہ قوم کی دیدہ بیناہوتا ہے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قو م کو فکری رہنمائی فراہم کرے اور حب الوطنی کے جذبات کو مہمیز کرکے قومی بیداری کے سلسلے میں اپنا حقیقی کردار ادا کرے ۔شعر وادب کے حولے سے ادیب کا کیا کردار ہونا چاہیے اس سلسلے میں فیض احمد فیضؔ نے وضاحت کی ہے:
’’ ادیب کا کردار محدود ہوتا ہے کیونکہ وہ حکومت تو چلا تا نہیں ہے ، وہ تو محض عوام کا ترجمان ہو تا ہے اور عوام کی ذہنی اور جذباتی تر بیت کرتا ہے۔‘‘ (2)
فیض ؔنے عالمی سطح پر اپنے انداز فکر کی افادیت کا لوہا منوایا ۔ فیض ؔکے تصوارات اور نظریۂ حیات کی اساس انسانیت سے دلی وابستگی ہے ۔ انھوں نے محدود قومیت ، فرقہ پرستی اور ہرقسم کی عصبیت کو ہدف تنقید بنایا ۔ وہ مذہب کے شیدائی تھے اس لیے انھوں نے اپنے آبائی گاؤں کالا قادر میں ایک بوسیدہ مسجد کو نئے سرے سے اپنی جیب سے تعمیر کرایا۔ فیضؔ نے علاقائی ،لسانی ،نسلی اورفرقہ وارانہ تعصبات پر گرفت کی ۔ اپنے عہد کے پر آشوب ماحول کے بارے میں ان کے اشعار جرأت اظہار کی شاندار مثال ہیں ۔ اپنی حق گوئی اور بے باکی کی و جہ سے وہ طویل عرصہ تک پاکستانی حکمرانوں کے معتوب رہے۔ سال 1956میں سید امتیاز علی تاج نے پاکستان آرٹس کونسل ، لاہورکے سیکرٹری کی ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ سال 1960 میں سید امتیاز علی تاج نے مجلس ترقی ادب لاہور میں چلے گئے ۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے عہد حکومت (27 October 1958 – 25 Mairch 1969) میں فیضؔ نے کچھ عرصہ پاکستان آرٹس کونسل ، لاہورکے سیکرٹری (1959تا جون 1962) کی حیثیت سے سیدامتیاز علی تاج کی جگہ خدمات انجام دیں ۔ قدر ت اﷲ شہاب نے اس زمانے کا ایک واقعہ لکھا ہے :
’’جس زمانے میں فیضؔ صاحب لاہو ر آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر تھے ، جسٹس ایس اے رحمان نے ایک روز مجھ سے فرمایاکہ اگر صدر مملکت اس ادارے کو کسی وقت وزٹ کر لیں تو ممکن ہے اس کے کام میں چند مقا می رکاوٹیں دور ہو جائیں ۔صدر تو بہ خوشی مان گئے لیکن گورنر نواب کالاباغ نے خود آنے سے صاف انکار کر دیا۔انھیں منانے کی کوشش کرنے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے پاس پنجاب پولیس کا ایک نامی گرامی افسر بیٹھا ہوا تھا،نواب صاحب نے دو ٹوک جواب دے دیاکہ وہ ایسے کنجر خانوں میں جانا پسند نہیں کرتے ،صدر صاحب کو بھی وہاں مت لے جاؤ۔فیض احمد فیضؔ کے متعلق نا پسندیدگی کا اظہار فرمانے کے بعد انھوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے پولیس افسر کی طرف اشارہ کیا ’’ فیضؔ کے لیے میں نے یہ السیشن پال رکھا ہے صدر کے دورے کے بعد اسے چھوڑوں گا‘‘پولیس افسر نے بیٹھے ہی بیٹھے اپنی دم ہلائی اور سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا۔میں نے فیضؔ صاحب کو یہ واقعہ سنایا تو وہ اپنے دستور کے مطابق مسکرا کر چپ ہو رہے اور تھوڑے عرصے بعد وہ نہایت خاموشی سے آرٹس کونسل سے رخصت ہو گئے۔ ‘‘(3)
پاکستان آرٹس کونسل ، لاہورکے سیکرٹری کے عہدے سے فیض احمد فیضؔ کے مستعفی ہونے کے بعدسید امتیازعلی تاج کے داماد اور یاسمین امتیاز( یاسمین طاہر) کے شوہر طاہر نعیم نے ان کی جگہ لی ۔ا س زمانے میں سٹیج کیا جانے والا ڈرامہ ’’ آداب عرض ‘‘جو آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈرامہ نگار الویور گولڈ سمتھ ( 1728-1774 :Oliver Goldsmith ) کے مشہور مزاحیہ ڈرامے (She Stoops to Conquer) کا اردو ترجمہ تھا۔ فیض احمد فیض ؔنے جوہر ِقابل کی ہمیشہ قدر کی اور ترجمہ نگاری کی اہمیت پر زور دیا ۔یاسمین امتیاز اور نعیم طاہر کی شادی کے موقع پر فیض احمد فیض نے 23۔مارچ 1962کو یہ سہرہ لکھاـ:
سجاؤ بزم ،درِ مے کدہ کشادہ کرو
اُٹھاؤ سازِ طرب ، اہتمام ِ بادہ کرو
دعا کو ہاتھ اُٹھاؤ کہ وقت نیک آیا
رُخِ عزیز پہ سہرے کے آج پُھول کِھلے
زندگی کی تلخیوں ،ابتلا اور آزمائش کو فیض احمد فیضؔ نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔وہ عزم و ہمت کی چٹان بن کر آلام روزگار کے مسموم بگولوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے تھے۔اپنی شاعری میں بھی انھوں نے ہمیشہ اسی طرح کا روّیہ اپنانے کی تلقین کی ۔زندگی ان کے نزدیک جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کے مانند تھی۔زندگی ،اس کے غیر مختتم مسائل اور کڑی آزمائشوں کے بارے میں وہ کبھی حرف شکایت
لب پر نہ لائے۔ان کے مزاج میں ایک منفرد نوعیت کی شان استغنا تھی جو ہر حال میں ساغر کو نگوں رکھنے پر مائل کرتی اور وہ اس پر قانع رہتے تھے ۔ان کے کلام میں ایک جانباز شاعر،ہمدرد انسان،جری تخلیق کار
اور حریت فکر کے مجاہد کے ضمیر کی للکار آج بھی قصر شاہی کے بلند و بالا ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتی ہے ۔انھوں نے نہایت سکون اور ضبط و تحمل سے کام لیتے ہوئے نہ صرف جبر کا ہر انداز مسترد کیا بلکہ اس جانب بھی توجہ دلائی کہ جو ظلم پہ لعنت نہیں کرتا وہ آپ لعین ہے اور جو بھی شخص جبر کا منکر نہیں وہ تو خود دین کی آفاقی تعلیمات کا منکر ہے ۔پرورش ِلوح و قلم کے دوران میں جو کچھ ان کے دل پر گزرتی وہ رقم کرتے رہے اور کسی صورت میں بھی ظالم و سفاک موذی و مکار استحصالی قوتوں کے فسطائی جبر سے ہراساں نہ ہوئے۔انسانیت کی عزت و تکریم ،انسانی حقوق کی بحالی ،معاشرتی انصاف اور سلطانی ٔجمہور کے لیے انھوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں پوری دنیا میں ان کا اعتراف کیا گیا۔آمریت کے خلاف ان کی بلند آواز نے سلطانی ٔجمہور کے لیے جدو جہد کرنے والوں کے دلوں میں ایک ولولہ ٔ تازہ پیدا کر دیا۔فیض احمد فیضؔ کی حق گوئی و بے باکی مقتدر حلقوں کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔اس لیے وہ اکثر ریاستی جبر کا نشانہ بنتے مگر ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔وہ جانتے تھے کہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے قربانیاں ناگزیر ہیں۔فیض احمد فیضؔ کی شاعری میں سیاسی لے نرم لہجے میں بڑی کاٹ کی حامل ہے ؂
آگئی فصل سکوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سلے نہ سلے
دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کھل گئے زخم ، کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے

فیض احمد فیضؔ نے سیاسی اور معاشرتی زندگی کے ارتعاشات کے بارے میں نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اپنے جذبات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ۵ جنوری ۱۹۶۵ ء کو صدر ایوب کی کامیابی کی خوشی میں کراچی میں جشن فتح یابی کے نام سے ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا ۔ صدراتی انتخاب میں ڈھاکہ اور کراچی کے رائے دہندگان نے بھاری اکثریت نے صدرایوب کے خلاف حق رائے دہی استعمال کیا ۔ جشن فتح یابی کے موقع پر لیاقت آباد اور چند دوسرے علاقوں میں زبردست چھڑپیں ہوئیں ۔ رات کی تاریکی میں ان بستیوں پر شدید حملے کیے گئے اس قدر جانی اور مالی نقصان ہو ا کہ۱۹۴۷ء کے الم ناک واقعات کی یاد تازہ ہوگئی ۔ فیض احمد فیضؔ نے صدراتی انتخاب اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر غم وغصے کا اظہار کر تے ہوئے اپریل 1965میں کہا ؂
لہو کا سراغ 

 کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن ِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیٔ لبِ خنجر نہ رنگ ِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبّہ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرفِ خدمت ِ شاہاں کہ خوں بہادیتے
نہ دیں کی نذ ر کہ بیعانہ ٔ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علَم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا ، یتیم لہو
کسی کے پاس سماعت کا وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی ، نہ شہادت ، حساب پاک ہو ا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا ، رزقِ خاک ہوا
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

فیـض احمد فیضؔ کی شاعری میں مقامیت کے ساتھ ساتھ ایک خاص تواز ن اور اعتدا ل کی حامل عالمگیریت بھی موجود ہے جس نے تخلیق کار کے فکر و خیال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔اس عالم ِ آب و گِل میں حیات و کائنات کے بارے میں فیـض احمد فیضؔ کاتصور ندرت اور تنوع کی عمدہ مثال ہے۔ فیـض احمد فیضؔ کے اسلوب میں جہاں تک موضوعات ،مواد ،ہئیت،فنی نزاکتوں اور تخلیقی مقاصد اور اس کے پس ِ پردہ کار فرما لاشعوری محرکات کاتعلق ہے یہ سب اس طرح مدغم ہو گئے ہیں کہ ان کی گرہ کشائی کٹھن مر حلہ ہے ۔ان کی شعر ی اسلوب میں گنجینہ ٔمعانی کے طلسم کا رازعلامات ،اشارات،تشبیہات ،استعارات ،تلمیحات ،رمزاور کنایہ کے بر محل استعمال میں پوشیدہ ہے ۔ مشرق کی علمی و ادبی میراث کی خوشہ چینی اور مغرب سے اخذ و استفادہ کاجو انداز فیـض احمد فیضؔ کے اسلوب میں نمایاں ہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔فیض احمد فیضؔ کے اسلوب میں مشرق سے بیزار ی یا مغرب کی تقلید کا کہیں تاثر نہیں ملتا ۔فیضؔ نے ملکی حالات ، تاریخ ، ثقافت اور معاشرت سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں اس کے باوجود فیضؔ کی شاعری آفاقیت کی حدود کو چھو لیتی ہے۔ ان کی شاعری اقتضائے وقت کے مطابق ہر عہد میں اذہان کو مستنیر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوگی ۔ اپنے عہد کے سیاسی معاشرتی اورعمرانی حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تغیر پذیر تہذیبی اور ثقافتی اقدار کواپنے اسلوب میں جگہ دے کر فیـض احمد فیضؔ نے وہ طرزِ فغاں ایجاد کی ہے جواپنی مثال آ پ ہے ۔ترقی پسند تحریک کے زیر اثر فیـض احمد فیضؔ نے اشتراکی فکر و فلسفہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کی شاعری کے اہم موضوعات میں طبقاتی کش مکش اور استحصالی عناصر کے جبر کے خلاف کھل کر لکھاگیا ہے ۔مراعات یافتہ استحصالی طبقے کی شقاوت آمیزنا انصافیوں کے خلاف فیضؔ نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار اداکیا۔مفلوک الحال محنت کش طبقے ،دہقانوں،مزارعین اور مفلس و قلاش بیماروں کی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کرنے والے استحصالی طبقے کے خلاف فیـض احمد فیضؔ کی پکار در اصل ضمیر کی للکار ہے ۔ ارضِ وطن ،اہلِ وطن بل کہ پوری انسانیت کے ساتھ انھوں نے بے لوث محبت اور خلوص اوردردمندی پر مبنی ایک رشتہ استوار کر رکھاتھا۔ فیـض احمد فیضؔ نے مظلوم اور دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا جو رشتہ استوار کررکھا تھا اس کے اثرات ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ حریت فکر و عمل کے اس عظیم مجاہدنے حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے سدا اسوۂ حسین ؑ کوپیش نظر رکھا۔فیض احمد فیضؔ نے کبھی درِ کسریٰ پر صدانہ کی وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان بوسیدہ کھنڈرات میں جامد وساکت پتھروں،حنوط شد ہ لاشوں ، ملخ ومُور، بوم و شپر اور زاغ و زغن کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زدمیں آنے کے بعدتخت وکلاہ و تاج کے سب سلسلے عبرت کی مثال بن جاتے ہیں ۔ فیـض احمد فیضؔ کے اسلوب کاتنوع،ان کی کثیر الجہات شخصیت ،حب الوطنی ،شان ِ استغنا،عجزو نیاز اور فن کارانہ انا نے انھیں ممتاز اور منفردمقام عطاکیا ۔ فیض احمد فیضؔ نے انسانیت کے ساتھ خلوص ،دردمندی ،وفا اورایثار کاجوعہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاجِ گردشِ لیل و نہار قرار دیتے ہوئے اس پر عمل پیرارہے ۔ دنیا بھر کی انسانیت کے ساتھ فیض احمد فیضؔ کارشتہ اس قدرمستحکم ہے کہ وہ کسی قسم کی حدود کوخاطر میں نہیں لاتے ۔ اپنے عہد کے مایہ نازفلسفی، ،مقبول ترین معاصر شاعر ،سیاسی مفکر اور ادیب و نقاد کی حیثیت سے وہ اپنی زندگی میں ایک نابغہ ٔ روزگار ہستی بن چکے تھے ۔ ان کی شاعری میں عصری عوامل حریت فکر کے مظہر ہیں ؂
دیدہ ٔتر پہ وہا ں کون نظر کرتا ہے
کاسہ ٔ چشم میں خوں ناب ِ جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض طلب ان کے حضور
دست وکشکول نہیں کاسۂ سر لے کے چلو

فیض احمد فیضؔ کی شعری عظمت کاثبوت یہ ہے کہ ان کی شاعری نے مشرق کی فضاؤں سے نکل کر مغرب میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے ستم رسیدہ انسانو ں کاہمیشہ ساتھ دیا ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلسل استحصال کا شکار اور سماج کے ستائے ہوئے مجبور افراد جب اپنی نجات کا کوئی ذریعہ نہیں پاتے تو باغیانہ خیالات انھیں دبوچ لیتے ہیں۔ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی میں بے اطمینانی،بے  سکونی روز افزوں ہے۔فرد کی عدم شناخت اور بے چہرگی نے ایک گمبھیر مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ حریت ضمیر اورحق گوئی کی پاداش میں فیض احمد فیضؔ کو چار برس قید تنہائی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔اسیر ی کے یہ ایام فیض احمد فیضؔ کی مستقل مزاجی اور صبرو استقامت کی راہ میں حائل نہ ہوسکے ۔اسی عرصے میں ان کے دو شعری مجموعے دستِ صبا اور زندان نامہ سامنے آئے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے ایام اسیری کی صعوبتوں نے اس جری تخلیق کار پر فکر و خیال کے نئے دریچے وا کر دئیے ۔ ان شعری مجموعوں میں رجائیت پسندی ،قوت ارادی اور یقین و اعتمادپر مبنی جرأت مندانہ اندازِ فکر ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ راول پنڈی سازش کیس میں ان کے ساتھ جو ساتھی قید ہوئے ان میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سیدسجاد ظہیراور میجر جنرل اکبر خان شامل تھے ۔اس زمانے میں فیض احمد فیضؔ انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز(Pakistan Times ) کے مدیر کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھے۔ 

فیض احمدفیضؔ کوسال1962میں لینن انعام سے نوازا گیا۔ زندان نامہ کے مقدمہ میں ’’روداد قفس‘‘ کے عنوان کے تحت سابق میجر اسحق رقم طراز ہیں :
’’فیض صاحب 9 مارچ1951کو قید ہوئے اور اپریل 1955میں رہا ہوئے۔اس عرصے میں وہ پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور کے جیلوں میں قید تنہائی میں رہے اس کے بعدجولائی 1953تک حیدرآباد (سندھ)جیل میں راول پنڈی سازش کیس کے باقی اسیروں کے ساتھ رہے۔حیدرآباد میں دوران مقدمہ کے دن بھی عجیب دن تھے ۔تین مہینوں سے ٹوڈی قسم کے لوگ اخباروں، اشتہاروں، جلسوں،جلوسوں میں ہمیں گولی کا نشانہ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔بعض اخباروں نے ’’ غدار نمبر ‘‘ نکال دیئے تھے ۔کچھ اس قسم کا ما حول پیدا کر دیا گیا کہ ملک میں ہر مرد آزاد یہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کو بھی سازش میں دھر لیا جائے گا۔چاروں طرف ایک دہشت اور سرا سیمگی کی فضا تھی اور ہمارے رشتہ داراور دوست ہماری جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ‘‘
لاؤ تو قتل نامہ مرا
سننے کو بھیڑ ہے سر محشر لگی ہوئی
تہمت تمھارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی
رندوں کے دم سے آتش مے کے بغیر بھی
ہے میکدے میں آگ برابرلگی ہوئی
آباد کرکے شہرِخموشاں ہر ایک سُو
کسِ کھوج میں ہے تیغِ ستم گر لگی ہوئی
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میان ِ قاتل و خنجر لگی ہوئی
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کسِ کسِ کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی

اردو ادب میں علی گڑھ تحریک کے بعد جس تحریک نے سماجی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے وہ ترقی پسند تحریک( 1936) ہے ۔ اردو ادب نے بھی ترقی پسندخیالات سے اثرات قبول کیے ۔افسانوی مجموعہ ’’ انگارے ‘‘ کی اشاعت (1932) اسی سوچ کی مثال ہے ۔فیض احمد فیضؔ کی شاعری کو ترقی پسند اور غیر ترقی پسندادیبوں اور ہر مکتبہ ٔ فکر کی طرف سے یکساں پزیرائی ملی ہے۔
ماہرینِ علم بشریات نے فرد کی آزادی پر زور دیتے ہوئے کہاہے کہ جبر کے ماحول میں تو طیور بھی اپنے آشیا نوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔فیض احمد فیضؔ نے ان تمام دشواریوں کے باوجود حوصلے اور استقامت سے حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔مسائلِ زیست کی یلغار اور مصائب کی بھر مار معا شرتی زندگی کو عدم توازن اور بے اعتدالی کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے ۔اس الم ناک صور ت حال میں استحصالی عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ مجبوروں کے چام کے دام چلاتے ہیں ۔دہشت گردی،بھتہ خوری،منشیات فروشی اور جرائم کا ایک قبیح سلسلہ چل نکلتا ہے جس کے مسموم اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر مرتب ہوتے ہیں۔فیض احمد فیضؔ نے معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد اپنے جذبات،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو نہایت خلوص اور دیانت داری سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔اس سے ان کے انقلابی اور وجدانی شعور کا سراغ ملتا ہے ۔ ان کا جرأت مندانہ اسلوب ہی ان کی پہچان ہے ۔ ان کی آواز اپنے عہد کی حقیقی اور نمائندہ آواز ہے جس نے زندگی اور اس کی مقتضیات کی صحیح ترجمانی کرکے دلوں کو ولولہ ٔ تازہ عطا کیا ، انسانوں کو شعور ِحیات سے آشنا کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے انصاف ، آزادی ٔفکر اور سچائی کی نئی راہوں کی جستجو کو نصب العین بنایا ۔ 

فیضؔ نے تمام عمر جمہوریت ،آزادیٔ اظہار،تیسری دنیا کے مسائل ، سیاسی آزادی اور معاشرتی اور سماجی انصاف کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات ،تہذ یبی اور ثقافتی اقدار اور عوامی مسائل کے بارے میں ان کے جراؔت مندانہ خیالات اس بے ساختہ پن سے شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں جس طرح زندگی اپنے نشیب وفراز سے گز ر کر ارتقائی منازل طے کرتی ہے ۔ فیضؔ ایک نظریاتی شاعر تھے ۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے ان کی شاعری کو نئی جہت عطا کی ۔ فیضؔ کی سیاسی شاعری میں بھی حریت فکر کے جذبات سطح فائقہ پر نظر آتے ہیں
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کی ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
فیض احمد فیضؔ نے انسانی اقدار کی سربلند ی کو موضوع سخن بنایا ۔ وہ ہمیشہ جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔فیض احمد فیضؔ کی کی وسعت نظر ی ان کے تخلیقی عمل کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرتی ہے ۔انھوں نے اپنی شاعری کے معجز نما اثر سے آزادی ،انسانی حقوق ،عدل اور جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں انھوں نے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی مساعی کیں ۔فیض احمد فیض ؔنے جہد للبقا اور حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد میں فرد کی فعال اور بھر پور شرکت کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ان کا خیال تھا کہ جب تک افراد کو معاشرے میں ترقی اور نمو کے مساوی مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ،اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون کا قیام نا ممکن ہے۔معاشرتی زندگی میں تمام خرابیاں نا انصافیوں اور استحصال کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔انھوں نے سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اور عالمی تناظر میں حقائق کا تجزیہ کیا اور شاعرانہ اسلوب کو ازلی اور ابد ی صداقتوں سے ہم آہنگ کر کے ایک منفرد راہ اپنائی۔ان کے نزدیک زندگی کی مثال مفلس کی قبا کی سی ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔متاعِ لوح و قلم چھن جانے کے بعد بھی وہ خون دل میں اُنگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم کرتے رہے ۔ان کو اس بات کا شدید قلق تھاکہ اُجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ بنا دی گئی ہے۔ان کا یہ کہنا کس قدر کرب کا مظہر ہے :
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
تمام تر تلخیوں کے باوجود وہ پُر اُمید رہنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ان کو یقین ہے کہ فروغِ گلشن و صوت ہزار کا موسم ضرور آئے گا۔وہ کھیتی کے کونے کھدروں میں اپنے لہو کی کھاد بھرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اگلی رُت کی فکر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ان کی یہ نظم اسی جانب اشارہ کرتی ہے
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
پس نو آبادیاتی دور میں فیض احمد فیض ؔنے غیر فعال معاشرے میں ثقافت کے بارے میں نئے خیالات ، نئے اسالیب اور متنوع موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ پاکستان میں سلطانیٔ جمہورکے خاتمے کے بعدفیض احمد فیضؔ نے سال 1979میں بیروت میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ ایک جلاوطن پردیسی کی حیثیت سے ان کے ہاں عصری آگہی کے عنصر نے ان کی شاعری کو آفاقی حیثیت عطا کر دی ہے ۔یہ عصری آگہی اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو مداروں میں سر گرم عمل دکھائی دیتی ہے ۔پہلا مدار معاشرے ، سماج ، وطن اوار اہل وطن کے مسائل پر محیط ہے جب کہ دوسرے مدار میں آفاقی اور کائناتی موضوعات سما گئے ہیں ۔ حیات و کائنات کے جملہ اسرار و رموز اور معاشرتی زندگی کے پیچ و خم اس انداز میں شیر وشکر ہو گئے ہیں کہ قاری دم بہ خود رہ جاتا ہے اور اسے روحانی مسرت کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ شاعری حیات افزا تصورات اور حیات بخش تجربات کی آمیزش سے جام جہاں نما کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔زندگی بسر کرنے ، زندگی کے تلخ حقائق کا احساس وادراک اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیا ر کرنے کی تلقین کرنا فیض احمد فیضؔ کی شاعری کا اہم ترین موضو ع قرار دیا جاسکتا ہے۔
فیض احمد فیضؔ کواس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جاگیردارانہ نظام کے باعثپس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں ثقافتی بے چینی و اضطراب کی جڑیں بہت گہری ہو رہی ہیں ۔ جب بھی ظلم واستبداداور استحصالی عناصر کا قبیح کردار زیر بحث آتا ہے تو فیضؔ کا تخلیقی عمل ایک شعلہ جوالا بن جاتا ہے ۔ ایک انسان دوست تخلیق کار کی حیثیت سے وہ دل فگاروں کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ رخت ِدل باندھ کر آگے بڑھیں اور دست وکشکول کے بجائے کاسہ سر لے کے چلیں اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں ۔ ان کی شاعری میں سرفروشی کے بد لتے ہوئے انداز سامنے آتے ہیں ۔جبر کے ماحول میں مقتل شہر میں کوئی گردن میں طوق ڈالے نمودار ہوتا ہے اور کوئی کاندھے پہ دار لادے وارد ہوتا ہے۔
فیض احمد فیضؔ نے استحصالی قوتوں اور آمریت کے بتوں کو پاش پاش کرنے کے سلسلے میں اپنی شاعری کو ایک مو ثر قوت کے طور پر استعمال کیا۔ فیضؔ کا دھیما لہجہ قلب ونظر کو مسخر کرنے پرقادر ہے۔ حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں کے لیے ان کی شاعری میں حوصلے اور امید کا پیغام ہے ۔ معاشرتی ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھنے والے مظلوم طبقے کی حمایت میں انھوں نے آواز بلند کی اور جبر واستبداد کے خلاف بھرپور احتجاج کومطمح نظرٹھہرایا ۔ ان کی شاعری پاکستان کی سیاسی تاریخ کے نشیب وفراز کامکمل احاطہ کرتی ہے ۔
ڈھاکہ سے واپسی پر
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملا قاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
فیض ؔکی نظریاتی وابستگی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ انھوں نے ا پنے لیے ایک واضح نصب العین کا تعین کیا اور دوسروں کو بھی حق وصداقت کی راہ پر گامزن ہونے کی تلقین کرتے رہے ۔ وہ گریہ وزاری کے بجائے جہد وعمل اور بھر پور احتجاج پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ روّیہ ان کی شاعری میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کی شاعری صدیوں تک دلوں کو ولولہ ٔ تازہ عطا کرتی رہے گی ۔فیض احمد فیضؔ کا نام شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کر چکا ہے ۔
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) شروع ہوئی تو سال 1942میں فیض احمدفیضؔ برطانوی فوج کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوگئے۔ابتدا میں انھیں کیپٹن کارینک ملاسال1944 میں انھیں لیفٹنٹ کرنل بنا دیاگیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پُوری دنیا میں فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ محکوم اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے والے قائدین نے ممولے کو عقاب سے لڑنے کا ولولہ عطا کیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سامراجی طاقتوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنی نو آبادیات سے بادِلِ نا خواستہ کُو چ نا پڑا ۔ وقت کے اس ستم کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جاتے جاتے سامراجی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے یہاں فتنہ و فساد اور خوف و دہشت کی فضا پیدا کر دی۔ فیض احمدفیضؔ کا خیال تھا کہ ساتا روہن اور گُرگ منش شکاری ہمیشہ نئے جال تیار کرتے رہتے ہیں ،زنجیریں بدلتی رہتی ہیں مگر الم نصیبوں کے روز و شب کے بدلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔فیض احمدفیضؔ نے یہ بات ہمیشہ زور دے کر کہی کہ جب تک کسی قوم کے افراد احتسابِ ذات پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ نہیں اپناتے اس وقت تک اُن کی قسمت نہیں بد ل سکتی۔حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی روش وہ زادِ راہ ہے جو زمانۂ حال کو سنوارنے ،مستقبل کی پیش بینی اور لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کرنے کا وسیلہ ہے۔ ایک مر نجان ومرنج انسان کی حیثیت سے فیض احمدفیضؔ کو کسی کی دل شکنی و دِل آزاری سے اُسے کوئی غرض نہ تھی ۔ انھیں اس امر پر تشویش تھی کہ پس نو آبادیاتی دور میں ہوسِ زر نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر لی ہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔فیض احمدفیضؔنے اس جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو اپنی ملت کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کرنا پڑے گا۔ایک ذمہ دار شہری کا یہ فرض نہیں کہ وہ محض اپنی ذات کے نکھار،نفاست،تزئین ،عمدگی اور پر تعیش ماحول کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حریتِ فکر و عمل کو شعار بنائے اور اپنے جذبات،احساسات،اور اظہار و ابلاغ کے جملہ انداز حق وصداقت سے مزین کرے۔ بیروت میں فیض احمدفیضؔ نے کولمبیایونیورسٹی کے پروفیسر ایڈ ورڈ سعید (1935-2003 : Edward Said )سے ملاقات کی اور پس نو آبادیاتی مطالعات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ جہاں تک ادب میں پس نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔فیض احمدفیضؔ نے اس جانب متوجہ کیاہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔ فیض احمدفیضؔ نے اس امر پر زور دیاکہ یہ دیکھناضروری ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھاتیسری دنیا کے ممالک کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے :
"The widespread territorial rearrangements of the post-World War Two period produced huge demographic movements,for example the Indian Muslims who moved to Pakistan after 1947 partition,or the Palestinians who were largely dispersed during Israel,s establishment to accomodate incoming European and Asian Jews; and these transformations in turn gave rise to hybrid political forms.(4)
فیض احمدفیضؔ نے دیارِ مغرب کے مکینوں کی مشرق دشمنی کے خلاف نہایت بے باکی سے اظہار ِ خیال کیا ۔انھوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ مطالعۂ ادب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہومر کے زمانے ہی سے یورپی فکر پرجورو ستم اور جبر و استبداد کا عنصر حاوی رہا ہے ۔بادی النظر میں یہ تاثر عام ہے کہ ہر یورپی باشندے کا مزاج جابرانہ اور آمرانہ ہے اور نسل پرستی،سامراج کی حمایت اورمریضانہ قبیلہ پرستی اہلِ یورپ کی جبلت اور سرشت میں شامل ہے۔فیض احمدفیضؔ کی زندگی شمع کے مانند گزری انھوں نے اہلِ وطن کو متنبہ کیا کہ کوئی دیوتا،کسی قسم کے حالات،کوئی من گھڑت تجریدی تصوریا ضابطہ بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانیت کے چام کے دام چلانے اور ان پر کوہِ ستم توڑنے اور مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کا جواز پیش نہیں کرتا ۔فیض احمدفیضؔ کو یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآ خر سر نگوں ہو گا اور حریتِ ضمیر سے جینے والے عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے۔فیض احمدفیض ؔنے معاشرے کے ان مظلوم انسانوں کے حقیقی ترجمان کاکردار اداکیا جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے کٹ جاتی ہے۔انھوں نے نے اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مرہونِ منت ہے ۔یہ افراد ہی ہیں جو کسی قوم کی تاریخ کے مخصوص عہد کے واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ حریتِ فکر کی پیکار اور جبر کے خلاف ضمیر کی للکار سے تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے ۔حریتِ فکر کے مجاہد تاریخ کے اوراق سے فرسودہ تصورات اور مسخ شدہ واقعات کو حذف کر کے اپنے خونِ جگر سے نئی خود نوشت تحریر کرتے ہیں۔ جب جو ر و جفا کا بُر اوقت ٹل جاتا ہے توتاریخ میں مذکور ماضی کی بے ہنگم اور بد وضع قباحتیں جنھیں ابن الوقت مسخروں نے نظر انداز کر دیا ان پر گرفت کی جاتی ہے ۔افراد پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق میں مذکور تمام بے سرو پا واقعات کو لائق استردا دٹھہراتے ہوئے انھیں تاریخ کے طوماروں میں دبا دیں۔
پس ماندہ اور نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کے مظلوم باشندوں کا لہو سوز ،یقیں سے گرمانے میں فیض احمدفیضؔنے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیا ۔ وہ ایک ایسے دردِ دِل رکھنے والے اور درد آشنا مسیحا تھے جس نے نہایت خلوص سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ یہ امر کس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ کہ بے گناہ افراد کو اس شک کی بنا پر جبر کے پاٹوں میں پِیس دیا جائے کہ ان کے آبا و اجداد نے ماضی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کا ارتکاب کیا تھا اور موجودہ دور کے ظالم ان کا نشانہ بنتے رہے ۔اپنے بلاجواز انتقام کے لیے یہ دلیل دی جائے کہ چونکہ ان کے خاندان نے ماضی میں ظلم سہے ہیں اس لیے اب وہ نسل در نسل ان مظالم کا انتقام لیں گے اور اپنے آبا و اجداد کے دشمنوں کی زندگی اجیرن کر کے انھیں ماضی کے تلخ سمے کے سم کا ثمر کھانے پر مجبور کر دیں گے۔فیض احمدفیضؔ نے سادیت پسندوں پر واضح کردیاکہ کسی کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔اس سے پہلے کہ مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے فسطائی جبر کو اپنے انتہا پسندانہ روّیے پر غور کرنا چاہیے۔
فیض احمد فیضؔ کی تصانیف :
نقش فریادی ( 1941)،دستِ صبا ( 1953)،زندان نامہ ( 1956)،دست ِتہہِ سنگ (1965)،میزان : مجموعہ مضامین(1962)، سرِوادی ٔ سینا ،نسخہ ہائے وفا( کلیات : 1990)
ایوارڈ : وفات سے پہلے فیض احمد فیض کو ادب کے نوبل انعام کے لیے نامزدکیا گیا۔
1۔ MBE : 1946، 2 ۔لینن انعام : 1963،3۔نگار ایوارڈ ،4۔نشان امتیاز :1990 ( بعداز وفات )،5۔Avicenna Award ( بعد ازوفات )
فیض احمدفیضؔ نے اپنے قلبِ حزیں کی کیفیات ،جذبہ ٔعشق و محبت کی ہمہ گیری اور محبوب کے حسن و جامل کی مرقع نگاری کے ساتھ ساتھ بندہ ٔ مزدور کے تلخ اوقات کو بھی اپنی شاعری کاموضوع بنایا ہے ۔افکار کی بوقلمونی ،حسن و عشق کے بیان ،محبوب سے پیمانِ وفا اور جذبۂ انسانیت نوازی کا مظہر فیضؔ کا بے حد مقبول کلام درج ذیل ہے :
نقشِ فریادی : مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ ،تنہائی ،چندروزاور مری جان ! فقط چند ہی روز،بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے ،ہم لوگ،موضوعِ سخن
دستِ صبا :لوح و قلم ،طوق و دار کا موسم ،دو آوازیں ،دو عشق،ایرانی طلبا کے نام ۔۔!، شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ،زنداں کی ایک صبح ،زنداں کی ایک شام ،یاد
زنداں نامہ :ملاقات،ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ،دریچہ ،آجاؤ افریقا
برصغیرمیں نوآبادیاتی دور کے مظالم تاریخ کالرزہ خیز باب ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے آغازکے ساتھ ہی برطانوی استعمار نے بہت بڑ ی تعداد میں مقامی باشندوں کو اپنی جنگ کی بھٹی میں جھو نک دیا۔رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے پنجاب میں 1919میں مارشل لا لگا دیاگیا۔امرتسر میں ایک پر امن احتجاجی جلوس کو منتشر کرنے کے لیے بر طانوی پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔جلوس میں شامل نہتے اور پر امن لوگ اپنی جان بچانے کے لیے شہرکی طرف بھاگے ۔اس اثنا میں ایک انگریز خاتون مارسیلا شیروڈ کو کسی نے ڈنڈامارا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔احتجاجی جلوس میں شامل گلی کے لوگوں نے ابتدائی طبی امدا دینے کے بعدفوری طور پرمس مارسیلا شیروڈ کو ہسپتال پہنچایاجہاں وہ صحت یاب ہو کر انگلستان چلی گئی۔اس واقعہ کے بعد جنرل ڈائر نے حکم دیا کہ جس گلی میں مس مارسیلا شیروڈ کو پیٹا گیاوہاں سے لوگ پیٹ کے بَل رینگتے ہوئے گزریں ۔ (5)اس گلی کے متعدد بے گناہ لوگوں کو کوڑے مارے گئے ۔ 13۔اپریل 1919کو چار بجے سہ پہر امرتسر کے جلیاں والا باغ میں نہتے عوام کے دس ہزار افراد کے ایک پر امن احتجاجی جلسے پر جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دیا ۔اس قدر اندھادھند فائرنگ کی گئی کہ گولی بارود ختم ہو گیا۔ شقی القلب برطانوی پولیس کی اس فائرنگ کے نتیجے میں 1516بے گناہ انسان لقمۂ اجل بن گئے۔(6)پنجاب کے لیفٹنٹ گورنر سر مائیکل اوڈ وائر نے برطانوی پولیس کی اس شقاوت آمیز کارروائی کوصحیح قرار دیا۔(7) جلیاں والا باغ میں خون کی ہولی کھیلنے والا سفاک جنرل ڈائر جب واپس انگلستان پہنچا تو اُسے ہیروقرار دیتے ہوئے اُسے تلوار پیش کی گئی ۔(8)نوآبادیاتی دور میں برصغیر میں خوف اور دہشت کی فضا تھی اور ہر طرف لُوٹ مار کا بازارگرم تھا۔مالا بار کے موپلوں کو دبانے کے لیے وہاں مارشل لالگادیا گیااور ان کے خاندان کے ہزاروں افراد کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرلیاگیا۔ ایک سو (100) موپلوں کوایک مال گاڑی میں بھر کر ہلاری منتقل کیا گیاجن میں سے ستر موپلے 19۔نومبر 1921کی شب دم گھٹنے کے باعث مرگئے ۔(9) تقسیم ہند کے موقع پر30۔جون 1947کووائسرائے ہندنے دو سر حدی کمیشن مقرر کیے جن کاسر براہ ریڈ کلف تھا۔ انگریزوں نے ریڈ کلف ایوارڈ میں تعصب اور بد نیتی سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ۔جسٹس منیر نے ریڈ کلف ایوارڈ کے بارے میں لکھا:
’’ اگر یہ ایوارڈقانونی تھا تواس میں قانونی فیصلے کی ہر صفت مفقود تھی ۔اگر یہ ایوارڈ سیاسی تھاتو پھر انصاف پسندی اور غیر جانب داری کا دعویٰ کیوں ۔یہ کیوں نہ کہہ دیاجائے کہ ہندوستان انگریزوں کی ملکیت تھااوران کے وائسرائے نے جسے جو چاہا دے دیا۔‘‘(10)
انتقال آبادی کے وقت جو فسادات ہوئے ان کے نتیجے میں بہت جانی نقصان ہوا۔مسلم تارکین وطن کی تعدا ایک کروڑ بیس لاکھ بیان کی جاتی ہے ۔(11) مسلمان مہاجرین کے قافلے جانی اور مالی نقصان اُٹھا کر بے شمار اُمنگیں اور تمنائیں اپنے دل میں لییارض ِپاکستان کی طرف بڑھ رہے تھے ۔جب یہاں پہنچے تو انھیں سر چھپانے کو کہیں جگہ نہ ملی اور وہ خاک بہ سر رہے ۔(12) فیض احمدفیضؔ نے سدافکر وخیال اور قلبی و روحانی آزادی کی تمناکی ۔فیض احمدفیضؔ کواس بات کا قلق تھاکہ پہاڑ سی رات میں پردۂ ظلمات نے عروس ِ سحر کوڈھانپ لیا۔اسی تلخ و تُند و درشت حقیقت کے باعث فیض احمدفیضؔ کو کہناپڑا:
صبح ِ آزادی
اگست ۱۹۴۷
یہ داغ داغ اُجالا ،یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
چلے تھے یار کہ مِل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کاساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غم ِ دِل
جواں لہوکی پُر اسرار شاہراہوں سے
چلے جویار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبرخواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں ،بدن بُلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رُخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھاحسینانِ نُور کا دامن
سبک سبک تھی تمنّا،دبی دبی تھی تھکن
جگر کی آگ ،نظر کی اُمنگ،دِل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے ا ٓئی نگارِ صبا ،کدھر کو گئی
ابھی چراغ ِ سرِ رہ گزر کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی ٔ شب میں کمی نہیں آ ئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آ ئی
دنیا کی بڑی زبانوں میں فیض احمد فیضؔ کی شاعری کے تراجم کا سلسلہ جاری ہے ۔برطانیہ میں مقیم مارکسی مورخ وکٹر کرمن ( 1913-2009 : Victor Kiernan) نے سب سے پہلے فیض احمد فیضؔ کے اُردو کلام کاانگریزی ترجمہ کیا۔ فیض احمدفیض کے کلام کاروسی اور بلوچی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے ۔ فیض احمد فیضؔ کے کلام کے دیگر مترجمین میں بھارت کے ادیب شیو کے کمار ( Shiv K Kumar)، ٹی ۔آر کرنن ( T.R. Kiernan)نومی لزرڈ (Noami Lizard)،مستنصر دلوی ( Mustansir Dalvi)، وجے پرشاد ( Vijay Parshad)اور آغاشاہد علی شامل ہیں۔ذیل میں فیض کی ایک نظم کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے ۔انگریز ی ترجمہ ٹی۔ آر۔کیرنن(TR. Kiernan )

This stain-covered daybreak, this night-bitten dawn
This is not the dawn of which there was expectation;
This is not that dawn with longing for which
The friends set out, (convinced) that somewhere there would be met with,
The fire of the liver, the tumult of the eye, burning of the heart, -
There is no effect on any of them of (this) cure for separation.
Whence came that darling of a morning breeze, whither has it gone?
The hour of the deliverance of eye and heart has not arrived.
Come, come on, for that goal has still not arrived.

فیض احمدفیضؔ نے واضح کیا کہ جتنابھی لہو تھا انھوں نے وہ صرفِ قباکردیا۔
ان کی شاعری میں کچھ علاتیں ایسی ہیں جنھیں ایک نفسیاتی کل کے روپ میں دیکھنا چاہیے ۔ مثال کے طورپر آواز، آئینہ، بہار،رات، ،داغ،قبا،زخم،انتظار،شعلہ ،سیاہی ،راہ وغیرہ ۔یہی وہ علامات ہیں جن کے معجزنما اثر سے لاشعور کی تاب و تواں متشکل ہوتی ہے ۔فیض احمدفیضؔ نے اپنی شاعری میں زندگی کے ایسے شعور کو جگہ دی جوزندگی کی حقیقی معنویت سے لبریزہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب معاشرتی اور سیاسی انتشار نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے فیض احمدفیضؔ نے اپنے قارئینِ ادب کواپنے ساتھ ملاکرخزاں کے سیکڑوں مناظر میں طلوع ِ صبح ِ بہاراں کی جستجوجاری رکھی ۔مادی زندگی کی بے اعتدالیوں ،بے ہنگم ارتعاشات اور تکلیف دہ تضادات پر فیض احمدفیضؔ کی گہری نظر رہی۔ ایک ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے انھوں نے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی مقدوربھرکوشش کیس۔حسن بے پروا کی رنگینیاں ،حسن کی کشش،جذبۂ محبت ،پیمانِ وفا،محبوب کی یادیں ،غم ِ جہاں ،غم عشق اورغمِ دوراں اگرچہ فیض احمدفیضؔ کی شاعری کے اہم موضوع ہیں مگر ان کی شاعری میں موضوعات کوثانوی حیثیت حاصل ہے ان کے عہدکا ماحول اور معاشرتی فضا تخلیقی فعالیت پر غالب دکھائی دیتی ہے ۔فیضؔ کی شاعری میں اُمیدوں کی فصل کے غارت ہونے اورزندگی بھر کی محنت کے اکارت جانے پردلی رنج کا ظہارکیا گیاہے ۔عملی زندگی میں فیض احمد فیض ؔ یاس و ہراس کے سخت خلاف تھے ۔اس لیے انھوں نے ہوائے جورو ستم میں حوصلے اور صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے مشعلِ وفا کو فروزاں رکھا۔ انتہائی نا مساعدحالات بھی انھیں قنوطیت کا شکار نہیں کر سکے ۔ اُن کی شاعری بیزار کن یکسانیت ،تباہ کن جمود،افسو س ناک بے حسی ، اذیت ناک ستحصال اور سادیت پسندی کی عقوبت کے خلاف ایک للکار کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روزِروشن کی طرح واضح ہے کہ فیض احمدفیضؔ کاکلام ایک وحدت ہے جس کااہم ترین نکتہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے مکمل آزادی کی جانب پیش قدمی ہے ۔جب تک دنیا باقی ہے فیض احمدفیضؔ کی شاعری دکھی انسانیت کی پناہ گاہ بنی رہے گی۔
تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیاہے
کیا کیانہ دِلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دستِ صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


(تحریر : ڈاکٹر غلام شبیر رانا  ۔مصطفیٰ آباد ۔ جھنگ )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مضمون کے مآخذ:
(۱)احمد ندیم قاسمی :فیض کی شاعری کا طلسم،فنون ،لاہور،مئی ،۱۹۸۵، صفحہ ۵۴َ
(۲)طاہر مسعود :فیض احمدفیض سے انٹرویو،جنگ ،کراچی ،۳۰ نومبر ،۱۹۸۴،صفحہ ۱۱۔
(۳)قدرت اﷲ شہاب :بیاد فیض ،جنگ ، لاہور،۱۹ نو
4 . Edward W Said:Representation of the Intellectual,Vintage Books,New York,1996,Page,50
5 ۔ نور احمد سیّد : مارشل لاسے مارشل لا تک ،سیّد نور احمد کوئنزروڈ،لاہور ، طبع دوم ،1966،صفحہ 16
6۔صفدر محمود ڈاکٹر : پاکستان تاریخ اور سیاست ،جنگپبلشرز،لاہور ، اشاعت سوم ،1990،صفحہ 21
7۔ خلیق الزماں چودھری : شاہراہِ پاکستان ،انجمن اسلامیہ پاکستان ،کراچی ،اشاعت اوّل ،1967،صفحہ 339
8۔ حسن ریاض سیّد :پاکستان ناگزیر تھا،جامعہ کراچی ، اشاعت سوم ،جون ، 1982 ،صفحہ108
9۔ ایضاً ،صفحہ 62
10 ۔ احمدسعید : حصول پاکستان ،الفیصل ناشران ،لاہور ، ستمبر ،1992،صفحہ 246
11۔صفدر محمودڈاکٹر : مسلم لیگ کا دورِ حکومت ،غالب پبلشرز، لاہور ، دسمبر ،1982،صفحہ 47
12۔نصیر انور : ’’نئی بستیاں ‘‘ مضمون مشمولہ ہفت روزہ لیل و نہار ،لاہور ،جلد 9،شمارہ 37،13۔ستمبر 1959،صفحہ 3
 
٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔