شگفتگو کی 19واں مناثرہ
14 مارچ 2020
بمقام: درِ مرشد، بحریہ 8، اسلام آباد
شرکاء:
جناب ارشد علی مرشد (میزبان)
جناب ڈاکٹرعزیز فیصل
جناب قیوم طاہر
عاطف مرزا (روداو اور نظامت)
***********************
غلغلے بلند تھے کسی کورونا نامی وائرس کی آمد آمد کے، انہی دنوں مارچ بھی
ساتھ ہی آ پہنچا۔ اس مہینے میں زندگی میں ویسے ہی اچھل کود لگ جاتی ہے۔
مناثرہ بھی ہر مہینے کے دوسرے ہفتے کی خصوصی ڈش ہے۔
فروری کے مناثرے کے
دوران کرنل ارشد علی مرشد نے مارچ کے مناثرے کی دعوت دراز کی تھی۔
دوسرا
ہفتہ پہنچنے سے چند روز پہلے ہی ڈاکٹرعزیز فیصل نے بانی ارکان پر مناثرہ
لازمی قرار دیا۔ لے دے کے دو چار ہی اسلام آباد میں قابو آئے ہوئے تھے سو
حکم عدولی کی گنجائش تھی نہ دل۔
14 مارچ بروز ہفتہ شِکر دوپہرے میں
نے اپنی ہنڈا سوک کا انجن گرم کیا اور درِ مرشد کی طرف دُڑکی لگا دی۔ وقت
کا گھنٹہ ہونے کے قریب تھا کہ میں بحریہ فیز 8 کے باہر پہنچ گیا، رستے میں
ڈاکٹر عزیز فیصل نے ناکہ لگایا ہوا تھا، انہیں وہاں سے اٹھا لیا تاکہ عوام
الناس اتنے سخت ناکے پر پریشان نہ ہوں۔
مرشد کے بتائے رستے پر چلتے
چلتے، گوگل آنٹی کی مدد سے ہم جا وارد ہوئے درِ مرشد پر۔ مرشد چونکہ فون پر
بھی رستہ گیری کر رہے تھے لہٰذا خود باہر استقبال کے لیے موجود تھے۔ (جملے
میں رستے کا ت سائیلنٹ نہ کیا جائے)۔ ہمیں وصول کر کے گھر کے تہ خانے تک
لے گئے، ایسے مزاح کا مال، انہوں نے زمین کے نیچے پہنچا دیا۔ کچھ دیر میں
اعلیٰ حضرت جناب قیوم طاہر بھی پہنچ گئے۔
پیر و مرشد حضرت ارشد علی
مرشد نے پہلے پانی سے تواضع کی اور مناثرے کے دوران یا بعد میں چائے کا
جھانسہ دے کر کچھ دیر کے لیے غائب ہو گئے۔
ڈاکٹر عزیز فیصل نے غیر صدریہ
انداز میں مجھے نظامت کو حکم دے ڈالا۔ مرشد واپس پہنچے تو ڈاکٹر عزیز فیصل
صاحب نے تلاوت کی سعادت حاصل کر کے نشست کا اغاز کیا۔
رواج کے مطابق
میں نے نظامت کا ذمہ لیتے ہوئے فکاہیہ تحریر "پانچواں روپ" پیش کی۔ جس میں
خواتین کے چار روپ گنوانے کے بعد پانچویں روپ کی آن، بان، شان اور مختلف
اثرات و کیفیات سے لبریز جملے پیش ہوئے۔
حاضرین نے ہمارے اس مضمون
میں اپنی محبوباؤں کے عکس دیکھنے کی کوشش کی ، مگر دھندلاتی ہوئی یادوں میں
کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ مضمون کے تناظر میں سب نے بہت سی یادیں تازہ کر
لیں۔
دوسرے مقرر جناب ارشد علی مرشد صاحب نے اپنا مضمون پیش کیا جس
میں انہوں نے انسان کے وفادار دوست یعنی کتے کی شان میں انتہائی اہم
معلومات پیش کیں۔ دورانِ تبصرہ ٹائم چاروں شرکاء نے اپنے تجربات و مشاہدات
میں کتوں کے کردار پر خاطر خواہ روشنی ڈالی۔
تیسرے نمبر پر ڈاکٹر
عزیز فیصل نے اپنے شرارتی نثرانچے کے خوانچے حاضرین کےسامنے رکھ دیے۔ سچ
کہوں تو چیدہ چیدہ معاملات کو پیچیدہ انداز میں پیش کر کے رنجیدہ لوگوں کی
سنجیدہ بیماریوں کا جہاں دیدہ احوال کہا۔ اس پر تبصرے اور تحسین کے دوران
قہقہہ آور گفتگو ہوئی جس سے چاروں شرکا دیر تک محظوظ ہوتے رہے۔
محفل
کے آخر میں جناب قیوم طاہراِس بار ذرا وکھرے انداز میں سامنے آئے اور چند
نامی گرامی گمنام کرداروں کو متعارف کرانے پر مامور ہو گئے۔ جس پر ہم سب
حاضرین نے اُن کی بات ماننے میں ہی عافیت سمجھی۔
نشست کے اختتام پر
چائے، سموسے، فروٹ چاٹ، دہی بھلےہمراہ اچار چٹنیوں کے لائے گئے تو معلوم
ہوا کہ مرشد کے لنگر خانے پر انتظام کم از کم ایک درجن ارکان کے لیے تھا،
مگر خوفِ کرونا نےکے سبب نہ آنے والوں کا نصیب صرف چار "مساکرین" پر ہی
کھولا گیا۔ رج کے کھا پی کر ہم سب نے نے رب کا شکر ادا کیا۔
اجازتوں
کے مراحل طے کرتے کراتے جب ہم درِ مرشد سے باہر پہنچے تو تصویریں بنانا
یاد آ گئیں۔ دورانِ نشست یہ فریضہ قضا ہوگیا تھا۔ خیر اس کےبعد قیوم طاہر
صاحب کی کار کا تعاقب کرتے میں اور ڈاکٹر عزیز فیصل بحریہ ٹاؤن کی حدود سے
باہر آئے۔ ڈاکٹر صاحب کو ہمک ٹاؤن کے داخلی راستے کے قریب جی ٹی روڈ پر خدا
حافظ کہا۔ یوں یہ 19واں مناثرہ انجوائے کر کے ہم خوش خوش اپنے گھروں کو آ
گئے۔
٭٭٭٭٭واپس ٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں