Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 3 مارچ، 2020

ابا کی محبوبہ !

 میرے بار بار مانگنے پر بھی ابا مجھے سائیکل نہیں دیا کرتے تھے -
بہت پیاری تھی اپنی بائیسکل ابا کو۔۔!
 بڑے پریم سے ہر جمعہ کے روز اس کی سروس کرتے،
 ساتھ پرانے گانے چلتے -

بابو جی دھیرے چلنا
 پیار میں ذرا سنبھلنا 
بڑے دھوکے ہیں
 اس راہ میں
 ہاں ذرا سنبھلنا۔
 سائیکل نہ ہو ۔  جیسے محبوبہ ہو اتنی محبت ، حد ہے۔
 بھئی میں کیا کرتا ۔۔۔۔!
 مجھے ابا کی سائیکل بہت بھاتی ، جب موقع ملتا لے کر نکل پڑتا ۔ 
میں چلاتا بھی تو برے طریقے سے تھا نا ! 
اکثر گرا بھی دیتا ، چین اتر جاتی ۔
 ہینڈل مڑ جاتا میرے گھٹنے بھی چھل جاتے،
 اماں سے ڈانٹ علیحدہ پڑتی ۔
پھر ایک دن ابا نے سائیکل عزیز چچا کو دے دی-
 یہ میرے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔
 شاید میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ۔
 اپنے پیارے ابا کی یہ کج ادائی مجھے ہرگز نہیں بھائی،
 وہ جانتے بھی تھے مجھے سائیکل چلانے کا کتنا شوق تھا اور میری بجائے سائیکل انہوں نے اُٹھا کر عزیز چچا کو دے دی ۔
 میں ابا سے بہت ناراض تھا۔
 بچپن کے ہاتھ سے میرا ہاتھ کب چھوٹا پتہ ہی نہیں چلا اور میں بڑا ہو گیا -
سائیکل والی ناراضگی بھی میرے ساتھ ہی بڑی ہو گئی ۔
 انہیں دنوں میں نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا اور میرا میڈیکل میں داخلہ ہو گیا ۔ میں پڑھائی میں مصروف ہو گیا ۔ ۔
 بچپن کی یادیں سنوار کر تہہ لگا کر سنبھال رکھی تھیں ۔ 
کبھی کبھار لوری کی دھنوں کی طرح بجتیں، اُن میں ایک اداس دھن سب سے علیحدہ بجا کرتی ۔
گلی محلے سے گزرنے والی سائیکل کی گھنٹی اور ابا کے پرانے گانے اب بھی میری اداسی کا سبب بن جایا کرتے ۔ 
جانے کیوں سائیکل کا دکھ میرے دل سے جاتا نہیں تھا ۔ 
یادوں کی تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں دوڑتا پھرتا ، عجیب دکھ تھا کملا جھلا ۔
 شاید بچپن کے سب دکھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، پھٹی جیب سے آخری دو آنے گرنے کے دکھ جیسے !
 ابا بوڑھے ہو گئے بیمار رہنے لگے ۔ وقت گزر گیا اور 
میں ڈاکٹر بن گیا۔
 ابا کو جانے کی جلدی تھی شاید میرے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے ۔
دو دن بعد ہی چلے گئے !
عزیز چچا افسوس کرنے آئے ، دیر تک میرا ہاتھ تھام کر بیٹھے ابا کی باتیں کرتے رہے۔
 ابا کا ذکر ہو اور ان کی محبوبہ کا ذکر نہ چھڑے یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
سب ہی سائیکل کو ابا کی محبوبہ کہا کرتے تھے۔
 یار تیری فیس بھرنے کے لئے انہوں نے سائیکل بیچ ڈالی۔
 میں نے بہت کہا آپ ادھار لے لیں ۔مگر ایک نہیں مانے ، تو جانتا ہے نا اپنے اصولوں کے کتنے پکے تھے تیرے ابا ۔۔۔۔۔۔!
 میں نے کہا اپنی محبوبہ کے بغیر جی پائیں گے ۔۔۔۔!
 کہنے لگے میرے پتر پر ایسی ہزار محبوبائیں قربان۔۔۔!
 اس سے آگے میں کچھ سُن ہی نہیں سکا -
میرے دل میں پڑی ناراضگی سسکنے لگی۔
بابو جی دھیرے چلنا،
 پیار میں ذرا سنبھلنا،
 او بڑے دھوکے ہیں،
 اس راہ میں !
یہ کیسا دھوکا کھایا تھا؟ 
 میں نے پیار میں!
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔