Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 21 اگست، 2020

پڑھتا جا شرماتا جا

٭پڑھتا جا شرماتا جا😢😷🤔
1955ءمیں کوٹری بیراج کی تکمیل کےبعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی۔4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے:
1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ
2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ
3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ
6:میجرعامر۔۔243ایکڑ
7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ
8:صبح صادق۔۔400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے۔

1962ءمیں دریائےسندھ پرکشمورکےقریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔
اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپے
ایکڑ تھا۔عسکری حکام نےصرف500روپےایکڑکےحساب سےخریدا۔

گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ
2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ
دیگر کئی افسران کو بھی نوازا گیا۔

ایوب خان کےعہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:ملک خدا بخش بچہ  ۔ وزیر زراعت۔۔158ایکڑ
2:خان غلام سرور خان۔ وزیرمال۔۔240ایکڑ
3:جنرل حبیب اللہ ۔ وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ
4:این-ایم-عقیلی ۔وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ
5:بیگم عقیلی۔251ایکڑ
6:اخترحسین ۔گورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ
7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ
8:سیدحسن  ۔ ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ
9:نوراللہ ۔ریلوے انجینئر۔۔150ایکڑ
10:این-اے-قریشی  ۔ چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ
11:امیرمحمد خان ۔ سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ
12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑ

جن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ
2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ
3:بریگیڈیر ایف-آر-کلو ۔240ایکڑ
4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑ

گوھر ایوب کےسسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔
جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کےاہم کردارتھے۔

جنرل ایوب نےجن ججزکوزمین الاٹ کی گئی:
1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ
2:جسٹس انعام اللہ خان۔۔240ایکڑ
3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ
4:جسٹس فیض اللہ خان۔۔240ایکڑ
5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑ
جسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکےعلاوہ ان پرنوازشات رھیں۔

ایوب خان نےجن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:
1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ
2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ
3:اللہ نوازترین۔۔240ایکڑ
نجف خان لیاقت علی قتل کیس کےکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نےماری تھی۔
اللہ  نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتےرھے۔

٭۔ 1982میں حکومت پاکستان نےکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنےکیلئےزمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل ٭۔صادق عباسی نےسندھ کےجنگلات کی قیمتی زمین240روپےایکڑکےحساب سےمفت بانٹی۔
٭۔ اس عرصےمیں فوج نےکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں25لاکھ ایکڑزمین خریدی۔
٭۔ 1993میں حکومت نےبہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کےحوالےکی۔
٭۔جون2015میں حکومت سندھ نےجنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کےحوالےکی۔
٭۔ 24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کےمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔ جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔
٭۔ 2003میں تحصیل صادق آباد کےعلاقےنوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کےحوالےکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کےبغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔
٭۔ اسی طرح پاک نیوی نےکیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کےنام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔
٭۔ 2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔
٭۔ اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نےاسےکاشتکاروں میں زرعی مقاصدسےتقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نےاپناحق ظاھرکیا۔
اس وقت کےڈی۔جیISPRشوکت سلطان کےبقول فوج اپنی ضروریات کیلئےجگہ لےسکتی ہے۔
٭۔ 2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکےمطابق فوج ملک27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔
اسی عرصےمیں16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئےگئے۔
 
 فوج کےپاس موجود زمین کی تفصیل:
لاھور۔۔12ہزارایکڑ
کراچی۔۔12ہزارایکڑ
اٹک۔۔3000ایکڑ
ٹیکسلا۔۔2500ایکڑ
پشاور۔۔4000ایکڑ
کوئٹہ۔۔2500ایکڑ
اسکی قیمت 300بلین روپےہے۔

2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔
بہاولپورمیں سرحدی علاقےکی زمین380روپےایکڑکےحساب سےجنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سےلیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔
 
چندنام یہ ہیں:
پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔
مختلف اعدادوشمارکےمطابق فوج کےپاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کےکل رقبےکا12%ہے۔

سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپےہے۔
ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئےاستعمال ہورہی ہے۔جسکو کئی ادارےجن میں فوجی فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن،آرمی ویلفیئرٹرسٹ استعمال کررھےہیں۔

نیز بےنظیر بھٹو نے بیک جنبشِ قلم جنرل وحید کاکڑ کو انعام کے طور پر 100مربع زمین الاٹ کی تھی۔
اس کے علاوہ بریگیڈیئر و جرنیل سمیت سبھی آرمی آفیسرز ریٹائرمنٹ کے قریب کچھ زمینیں اور پلاٹ اپنا حق سمجھ کر الاٹ کرا لیتے ھیں۔ 
مثال کے طور پر ماضی قریب میں ریٹائرہونے والے جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بننے کے بعد لاھور کینٹ میں868کنال کا نہایت قیمتی قطعہ زمین الاٹ کرانے کے علاؤہ بیدیاں روڈ لاھور پر بارڈر کے ساتھ90ایکڑ اراضی اور چند دیگر پلاٹ بھی (شاید کشمیر آزاد کرانے کے صلہ میں یا پھر دھرنے کرانے کے عوض) الاٹ کروائے جن کی مالیت اربوں میں بنتی ھے۔ 
ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی چند مرلے کے پلاٹ کےلئے ساری زندگی ترستا رہتا ہے کیا یہ نوازشات و مراعات یا قانونی اور حلال کرپشن ھے یا اس جرنیلی مافیا کی بےپناہ لالچ و حرص وھوس؟ 
کیاعوام کو اس کے خلاف آواز اٹھاکر اس حلال کرپشن کو روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاھیئے؟
🇵🇰
حوالہ جات:
Report on lands reforms under ppls govt.
Booklet by Govt in 1972.
Case of Sindh.(G.M.Syed)
The Military and Politics in Pakistan..
(Hassan Askari)
Military Inc.
(Dr. Ayesha siddiqa)
پی۔ایل۔ڈیز اور مختلف اخبارات
٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 14 اگست، 2020

جوڑوں کا درد - بیل گری کا مربہ

  بیل گری  کا مربہ بنانے  کی ترکیب :
جوڑوں۔ خاص کر گھٹنوں کے درد کے لئے ، مہاجر زادہ نے ، اِسے آزمایا اور فائدہ مند پایا -
 طریقہ ـ
اپنے قریبی    پنسار سے پاؤ   بیل گری لیں- جو 200 روپے کی ملتی ہے ۔ یہ خشک اور بد رنگت ہوتی ہے ۔ 
 ٭- اِس  کے چار   ٹکڑے  منتخب کریں اور اُنہیں رات بھر پانی میں رہنے دیں ۔ صبح  چاروں ٹکڑے نکال لیں ، ٹوتھ برش سے اُن پر لگے  خشک کالے نشانات اتاریں ۔ اور صاف پانی سے دھو لیں ۔
٭-ایک  دیگچے یا پین میں اِنہیں ڈالیں اور ایک گلاس صاف  پانی ملائیں - اور ہاتھوں سے اِس کا ملیدہ بنائیں اور سخت ٹکڑے ایک پلیٹ میں رکھتے جائیں - بعد میں چھری سے سخت حصوں کو چھوٹا چھوٹا کاٹ لیں  اور ملیدے میں ملادیں-
 ٭- اب اِسے  آگ پر چڑھادیں اور  خوب پکنے دیں -چمچ سے پلاتے رہیں ، تاکہ پیندے میں لگ کر یہ جل نہ جائے -جب  یہ گاڑھا ہو جائے  تو اِسےا اتار کر ٹھنڈا کریں - 
٭- ٹھنڈا ہونے پر حسبِ  ذائقہ شہد ، چینی یا شکر ڈال  کر خوب ملائیں ، بیل گری کا مربہ تیار ہے- اِسے کر فریج یا ٹھنڈی جگہ رکھ دیں -
٭- اب  ایک ہفتے تک ، روزانہ  خالی پیٹ ایک چمچ دن میں تین بار کھائیں ۔
٭- اگلے دو ہفتے ،  صبح شام ایک چمچ کھائیں -
٭-اور پھر  ایک چمچ روزانہ نہار منہ کھائیں ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

جمعرات، 13 اگست، 2020

زنانہ خراٹے اور مردانہ غراٹے

آصف اکبر سے فون پر خیرو خیریت  کے لئے رابطہ کیا  حالاتِ حاضر ہ  و ناظرہ کے بعد  طبیعاتِ عمر رسیدگی و بوسیدگی کا باب کھولا ، اُنہوں نے مشورہ دیا  کہ بہتر ہے الگ کمروں میں سویا جائے ۔  تاکہ طعنے  اور غراہٹ نہ سننی پڑیں :
کیا بچوں کی طرح کان میں  ہیڈفون لگائے سن رہے ہیں ؟
آپ کے لیپ ٹاپ کی روشنی ، سے نیند خراب ہوتی ہے!
کیا آپ خاموشی سے ٹائپ نہیں  کر سکتے جو ٹائپ رائٹر کی طرح کھڑ کھڑ ا رہے ہیں ؟
یہ آدھی رات کو کِس  سے گپیں لگ رہی ہیں ؟ 
بھائی کیوں دشمنی کرنے پر تلے ہو ؟ اِس عمر میں الگ کمرے  میں سونے کا مطلب تو یہ ہے کہ صبح ہی معلوم ہو کہ بوڑھا ، دارِ فانی سے کوچ کر گیا ہے   یا بڑھیا   -
رات کو کم از کم ، ایک دوسرے پر نظر تو ڈال لیتے ہیں کہ سانس چل رہی ہے یا نہیں !
ویسے بھی اِس عمر  میں ویسے ہی سانس سے زیادہ خراٹے زندگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ 
ایک دفعہ چم چم کو عدیس ابابا میں بوڑھے اور بڑھیا کے ساتھ سونے کا شوق چُرایا ۔ بڑھیا نے اپنے ساتھ سُلانے سے انکار کر دیا ۔کہ تم رات کو سوتے میں بہت اچھلتی ہو ۔ بوڑھے نے اپنے بیڈ کے ساتھ نیچے میٹرس بچھا لیا  تاکہ اگر بوڑھا گرے تو زیادہ چوٹ نہ آئے ، ویسے بھی اِس عمر میں ہڈیاں گورنمنٹ کے منصوبوں کی طرح جڑتی ہیں اور پائداری بھی نہیں ہوتی -
خیر چم چم بوڑھے سے نمو کے   بچپن کے قصے سنتے سنتے سوگئی اور بوڑھا چپکے سے میٹرس پر اتر کر سو گیا۔
صبح چم چم اُٹھی ، تو شکوہ کیا کہ وہ بہت ڈسٹرب نیند سوئی ، کیوں کہ  آپ دونوں بہت زور سے سنورنگ کرتے ہیں -
ویسے آوا ، آپ نانو سے زیادہ سنورنگ کرتے ہیں  اور بابا  بہت  زو ر سے سنونگ کرتے ہیں ، کیوں؟ - چم چم نے پوچھا 
" بات یہ  مردوں کے زور سے سنورنگ کرنے کی خاص وجہ ہے " بوڑھا بولا
وہ کیا ؟ - چم چم نے پوچھا 
" آہ یہ ایک لمبی ، مزاحیہ اور درد بھری کہانی ہے ، کبھی وقت ملا تو سناؤں گا"۔ بوڑھے نے سسپنس پیدا کرتے ہوئے کہا ۔
"نہیں ابھی سنائیں " چم چم بولی ۔
" دن کو کہانی نہیں سناتے ، مسافر راستہ بھول جاتے ہیں " بوڑھا بولا
" آوا، آپ  کون سا مسافر کو کہانی سنا رہے ہیں ؟" چم چم نے جواب دیا 
" سنا دیں نا کیوں تنگ کر رہے ہیں ؟" بڑھیا بولی 
"اوکے " بوڑھابولا ۔
مائی سوئیٹ ھارٹ ، میرے جو سُپر گریٹ گرینڈ فادر تھے وہ غاروں میں رہتے تھےاور غار بھی خوفناک جنگلوں میں تھے  اور وہاں ہر قسم کے خوفناک جانور بھی تھے " 
" آر یو شیور ؟ " چم چم بے یقینی سے بولی " آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟"
" سو فیصد " بوڑھا بولا ۔
"تو چم چم ، میری جو سُپر گریٹ گرینڈمدر تھیں وہ  بہت ڈرتی تھیں - آپ کی نانو کی طرح "
" اچھا پھر؟" چم چم بولی 
" تو ہوتا یہ تھا ، کہ رات کو غار کے دروازے کے باہر کوئی ، آواز آتی تو  میری  سُپر گریٹ گرینڈ مدر ، ڈر کرآواز نکالتیں ، آ آ آ آ ،  تو میرے  سُپر گریٹ گرینڈفادر اپنا ڈنڈا اُٹھا کر شور مچاتے باہر نکلتے اور کوئی بھی جانور وہاں ہوتا وہ ڈر کر بھاگ جاتا- " بوڑھا بولا ۔

"ان پر وہ جانور حملہ نہیں کرتا؟" چم چم بولی 
" ارے نہیں ، پہلے تو وہ جانور سُپر گریٹ گرینڈ مدر کی آواز سے دبک جاتا اور پھر  سُپر گریٹ گرینڈفادر کے شور مچانے  اور ڈنڈے کے خوف سے بھاگ جاتا " بوڑھا بولا ۔
" اُس کے بعد وہ پھر آتا " چم چم نے پوچھا ۔
" بالکل " بوڑھا بولا " ساری رات  یہ تماشا جاری رہتا " 
" لیکن اِس کا آپ کے سنورنگ سے کیا تعلق ؟؟" چم چم نے پوچھا 
"بتاتا ہوں ، بتاتا ہوں "  بوڑھا بو لا -" اِسی لئے تو میں نے کہا تھا -یہ ایک لمبی ، مزاحیہ اور درد بھری کہانی ہے "
 " اچھا ، آگے سنائیں؟" چم چم بولی
" ہاں ، تو چم چم ۔ سُپر گریٹ گرینڈ مدر اور فادر کے بچے بڑے ہوتے گئے ، اُنہوں نے بھی رات کو یہ شور مچانا جاری رکھا -پھر اُن بچوں کے بچے ہوئے ،اُنہوں نے بھی رات کو یہ شور مچانا جاری رکھا -"
" یہ کتنے سال پہلے کی بات ہے ؟" چم چم نے پوچھا -
" تقریباً دس ہزار، چھ سوپینتیس سال ، آٹھ مہینے اور 15 دن پہلے  " بوڑھے نے بتایا -
" آوا ، آپ جوک کر رہے ہیں " چم چم بولی " میں نے آپ کے سنورنگ کا پوچھا ہے ۔ آپ کے سپر گریٹ گرینڈ فادر کی شاوٹنگ کا نہیں ، اُس سے کیا تعلق ہے ؟ "
" چم چم میں نے کہا ہے نا کہ یہ بہت لمبی ، مزاحیہ اور درد بھری کہانی ہے "بوڑھا بولا " اگر یہ کہانی سننا ہے تو صبر سے بیٹھنا ہوگا- ورنہ میں بوڑھا آدمی ہوں اور دماغ کمزور ہے کہانی بھول جاؤں گا  "
 " اوکے اب نہیں بولوں گی آپ سنائیں "چم چم بولی
" ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ " بوڑھے نے چم چم سے پوچھا ۔
" آپ کے  گرینڈ فادر، شاوٹنگ کرتے تھے ؟" چم چم بولی
" میں نے ایسا تو نہیں کہا " بوڑھا بولا " میرے   گرینڈ فادر بالکل شور نہی ںکرتے تھے "
" اوہ سوری  سپر گریٹ گرینڈ فادر" چم چم بولی
" نہیں ، چم چم  میں نے شاید کہا تھا، سُپر گریٹ گرینڈ مدر اور فادر کے بچے بڑے ہوتے گئے ، اُنہوں نے بھی رات کو یہ شور مچانا جاری رکھا -پھر اُن بچوں کے بچے ہوئے ،اُنہوں نے بھی رات کو یہ شور مچانا جاری رکھا -"
" اوہ ، یس " چم چم بولی -
" ہاں تو پھر اُن کے بچوں ، کے بچوں ، پھر اُن بچوں کے بچوں   نے بھی رات کو شور مچانا شروع کیا اور یہ اُن کی عادت بن گئی۔  غاروں سے وہ درختوں پر سونے لگے ، لیکن  جب بھی رات کو گریٹ گرینڈ مدر ڈر کر شور مچاتی اور گریٹ گرینڈ فادر  نیند سے شور مچاتے اٹھتے  اور بعض دفعہ زمین پر گر جاتے اور ٹانگ ، ہاتھ ، بازو اور کبھی تو، اگر زیادہ اونچے درخت پر سوتے تو گردن تڑوا لیتے"
" اوہ مائی گاڈ ، وہ اپنے آپ کو باندھ کیوں نہیں لیتے ، تاکہ گریں نہیں" چم چم بولی 
" سو انٹیلیجنٹ آئیڈیا چم چم  سو انٹیلیجنٹ"بوڑھا بولا " مجھے معلوم ہے کہ آپ جینئیس ہو ، شاباش ۔ تو گریٹ گر ینڈفادر  کی گریٹ گرینڈ ڈاٹر نے یہی مشورہ دیا - اُس کے بعد  ۔ گریٹ گر ینڈفادر نے یہ مشورہ سب قبیلے کو بتایا اور سب مردوں نے خود کو  رات کو درختوں سے خود کو باندھنا  شروع کر دیا -لیکن ایک پرابلم پیدا ہو گئی "
" وہ کیا ؟" چم چم نے پوچھا ۔

" صبح کے وقت کوئی گریٹ گر ینڈفادر ،   درخت سے الٹا لٹکا ملتا ، اور کبھی کمر کے بل بندھا لٹکا ہوتا "  بوڑھا  بولا -
" امیزنگ ، پھر تو بچے خوب ہنستے ہوں گے " چم چم ہنستے ہوئے بولی  " بڑا مزہ آتا ہوگا "
" وہ تو ٹھیک ہے " بوڑھا بولا " لیکن سب روتے بھی تھے ، جب کوئی گریٹ گر ینڈفادرگردن سے لٹکا ملتا"
" اوہ ، سو سیڈ ، تو وہ درخت پر گھر کیوں نہیں بنا لیتے " چم چم بولی " تاکہ ایکسیڈنٹس نہ ہوں " 

" ایسا ہی ہوا " بوڑھا بولا " اُنہوں نے درختوں پر اپنی ہٹس بنانا شروع کر دیں "
" گریٹ ، اب تو وہ سیف ہو گئے ، تو پھر بھی شور مچاتے ؟" چم چم بولی 
" یقیناً کیوں کہ ، پینتھرز اور چیتا تو درخت پرچڑھ سکتے ہیں " بوڑھا بولا " لہذا اِن درندوں کو ڈرانے کے لئے شور کا سلسلہ جاری رہا ۔ یعنی عورتیں ڈر کر چلاتیں اور مرد شور مچاتے "
" آوا ، جب لوگوں نے زمین پر گھر بنائے ، تو پھر اُنہوں نے درندوں کو بھگانے کے لئے شور مچانے کا سلسلہ ختم کر دیا ؟" چم چم نے پوچھا -
" چم چم، یہ بتاؤ کہ کیا یہاں کوئی شیر یا چیتا ہے " بوڑھے نے پوچھا -
" نہیں ، وہ تو  زو میں ہوتے ہیں " چم چم بولی
" تو تمھاری نانو ، ڈر کر کیوں چینختی ہیں ؟"بوڑھے نے پوچھا 
" وہ تو ، کسی بھی چیز سے ڈر کرچینختی ہیں ؟ چم چم بولی " لیکن اِس کا سنورنگ سے کیا تعلق ؟" 
" بہت گہرا تعلق ہے ، میری   جینئیس چم چم " بوڑھا بولا " آپ سوچو ؟" 
" کیا ڈرنا ، نانو کی عادت بن چکی ہے ؟ " چم چم بولی 
" نہیں رات کو سوتے میں ڈر کر شور مچانا " بوڑھا بولا -
" آپ کا مطلب رات کو سنورنگ کرنا " چم چم بولی 
" ایگزیکٹلی ، یہ سنورنگ ہی  وہ عادت ہے جو تمھاری نانو کی گریٹ گر ینڈمدر سے آرہی ہے" بوڑھے نے جواب دیا

" لیکن آپ کے خراٹے ، نانو سے زیادہ  لاؤڈ ہوتے ہیں " چم چم بولی ۔
" مائی سوئیٹ ہارٹ، مردوں خراٹے نہیں ، بلکہ غراٹے  ہوتے ہیں " بوڑھا بولا -
" اوہ تھینکس گاڈ ،  میں رات کو سنورنگ نہیں کرتی ، مجھ پر یہ ٹریڈیشن ختم ہو گئی ہے " چم چم  بولی -
اور پھر بوڑھے نے چم چم کو اُس کے غراٹے لینے کی وڈیو دکھائی تو اُسے یقین ہو گیا ، کہ خراٹوں اور غراٹوں کی یہ ٹریڈیشن کبھی ختم نہیں ہوسکتی -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔