Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 29 جنوری، 2016

ملٹری ایمپائراور فوجی افسران (حاضر یا ریٹائر)

انسانی معلومات کےفقدان سے ہی ، "میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں"  فائدہ اٹھاتی ہیں اور سوچنے والے تخیلاتی ذہن کو گمراہ کرتی ہیں !

یہ وہ چال ہے جس کو، چلنے سے پہلے اللہ نے ابلیس کو آگاہ کیا جو "پرپیگنڈہ ۔ مردانگی کا بھرم اور خیالات میں منفیت پیدا کرنا " ۔ممکن ہے کہ اِس فہم سے آپ متفق نہ ہولیک یہ ایسی "کیو لائن" ہے  جس کا استعمال ہمیشہ سے اور اب بھی  ،انسانی فراست پر پردے ڈالنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے ۔
یہ کام تو فوج اُس وقت سے کر رہی ہے جب میں نے فوج میں کمیشن لیا ، اِس کا نام " چائلڈ ویلفیئر سنٹر ( سی ڈبیلو سی )" ہے ۔

1- سی ڈبلیو سی ،  میں کینٹونمنٹ میں رہنے والی ، فوجیوں کی بیویوں اور بچیوں کو گھر داری کے طریقے ، مثلاً سلائی، کشیدہ کاری ، ڈیزائینگ اور کمپیوٹر ٹرینگ سکھائی جاتی ہے ۔

2- فوجی فاونڈیشن ٹرسٹ ۔ نے اِن مقاصد کو مزید پھیلایا ہے جہاں ، تمام ریٹائر فوجیوں، اُن کے بچوں کو ٹینیکل تعلیم اور سپیشل بچوں کو " ری ہیبیلیٹیٹ " کیا جاتا ہے ۔ فوجی فاونڈیشن سکول ، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر لیول تک کھل گئے ہیں ، جہاں ریٹائر فوجی رہتے ہیں ۔ ان سکولوں میں سویلئین بچے بھی پڑھتے ہیں ۔

3- ایف جی سکول ، پہلے کینٹ پبلک سکول ہوتے تھے ، جن میں آفیسرز کے بچے اور خانوں و سرداروں و وڈیروں  کے بچے پڑھتے تھے، اور ایف جی اردو میڈیم میں جوانوں اور جے سی اوز کے بچے پڑھتے تھے ، اب اِن سکولوں میں کینٹ پبلک سکولوں کو انگلش میڈیم میں تبدیل کر کے پورے ملک کے کینٹونمنٹ میں پھیلا دیا ہے ۔

4- آرمی پبلک سکول ، کے متعلق بتانے کی ضرورت نہیں ، یہاں آرمی حاضر اور ریٹائرڈ افراد کے بچے اور پوتے پوتیاں پڑھتے ہیں ۔ سویلئین حضرات کے بچے بھی پڑھتے ہیں ۔

5- آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی ، بھی فوج کا فوجیوں اور سویلئین کے بچوں کے لئے ، ایک عرصہ سے کام کرنے والا اداراہ ہے ۔

6- فوجی فاونڈیشن یونیورسٹی اور نیشنل یونیوررسٹی سائینس اینڈ ٹیکنالوجی ، فوج کا راولپنڈی میں ، نیچنل ڈیفینس کالج کے اسلام آباد میں شفٹ ہونے کے بعد اس کی بلڈنگ میں قائم ہوا ، اور اب فوج کے ادھار سے بننے والا یہ ادارہ ، مکمل اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور سویلئین کے بچوں کو تربیت دے رہا ہے ، یہاں ہونہار اور پڑھنے والے ، سپیشل بچوں کے لئے کوٹہ ہے ۔

7- میڈیکل کیٹیگری فوجی ۔ پہلے فوج میں میڈیکل کیٹیگری سی اور بی ہونے والے ، میجر ریٹائر ہو جاتے تھے ، لیکن اب فوج میں وہیل چئیر پر ، فوج کی وجہ سے بیٹھنے والے ، کرنل اور بریگیڈئر ہیں اور فوج کے ایڈمنسٹریشن کے نظام کو بہ احسن خوبی انجام دے رہے ہیں ۔
کمبائینڈ میڈیکل ہسپتال ۔ راولپنڈی میں آسمان سے باتیں کرتے اونچے اونچے بلاک جو جنرل کیانی دور میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے منافع سے بنے ، جس میں پاکستان کے سویلئن شہریوں کا علاج ہوتا ہے بوڑھا اور بڑھیا بھی اِس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ بلکہ بوڑھے اور بڑھیا نے میٹرک فیل بچوں کو گھریلو ملازم کی تربیت دے کر فوجی آفیسروں کے پاس سویلیئن ملازم رکھوایا ہے ۔
8۔فوجی فاونڈیشن ہسپتال ۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں جو شیر شاہ کی جی ٹی روڈ (مارشل ریس) کے علاقوں سے برٹش رائل ایمپائر میں بھرتی کئے گئے تھے ۔ بڑٹش انڈین آرمی کی اکاونٹ برانچ کیا فوجی اور کیا آفیسر سب کا عرف عام بنولا فنڈ (بینیولنٹ فنڈ) کاٹا جاتا تھا۔ اب ہوا یوں کہ ایمان ادار برٹش گورنمنٹ کو اُن کی مملکت میں فوجی ایمپائر میں خدمت انجام دینے والے ، تمام زندہ و اللہ کی امان میں گئے فوجوں کا بنولا فنڈ پاکستان آرمی کے اکاونٹ میں برٹش پاؤنڈ کی صورت میں واپس کر دیا بو ہزاروں تو نہیں لاکھوں پاؤنڈ بنا ۔ اب اِس رقم کا کیا کیا جائے ۔ اُن دنوں موجود میٹنگ میں موجود کمانڈر انچیف نے فیصلہ کیا کہ اںس سے ریٹائرڈ فوجیوں کی ویلفیئر کے لئے ایک فاونڈیشن بنائی جائے ۔کیوں کہ 1947 کے بعد ریٹائر ہونے والوں کا علاج کمبائنڈ ملٹری ہسپتال یا ملٹری ہسپتال ہے ہو رہا تھا ۔ لہذا 1954 میں فوجی فاونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور 1959 میں 50 بستروں کا ریٹائرڈ فوجیوں کی بیویوں کے لئے ٹی بی ہسپتال راولپنڈی میں کھولا گیا ۔ جو بڑھتےبڑھتے ان ایک بہت بڑا ہسپتال بن چکا ہے ، جہاں سے سویلیئن بھی اپنا علاج کرواتے ہیں ۔ جو برٹش انڈین ایمپائر کے پاکستانی سپاہیوں کی تنخواہوں سے کاٹے گئے بنولا فنڈ کا تحفہ ہے ۔ کیا یہ "میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں" کے علم میں ہے ؟؟

اوپر دیئے گئے تمام ٹرسٹی اداروں کو بنانے کے لئے گورنمنٹ آف پاکستان نے کوئی رقم نہ زمین دی،  یہ سب کینٹونمنٹ کی زمین پر بنے جو برٹش ایپمائر نے شہنشائے ہند بہادر شاہ ظفر سے 1857 میں ھتھیائی تھی اور کسی سویلیئن کے مربعے یا کھیت نہیں تھے ۔ اُس کے بعد فوج نے خود اپنے ویلفیئر پراجیکٹس سے پیسا بنایا اور اِس میں لگایا ہے ، جو مکمل فوجی طریق کار کے مطابق آڈٹ ہوتا ہے ، اِن سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بچے ، ذھنی طور پر نہایت با صلاحیت ہوتے ہیں ۔

انگریزوں نے فوجی جوانوں کے بچوں کے لئے ایک پبلک سکول جو سرائے عالمگیر (جہلم) میں تھا ، اُسے ملٹری کالج میں تبدیل کیا ، جو آج کل ملٹری کالج ، جہلم کے نام سے مشہور ہے ۔ جس میں فوج کے جے سی اوز اور جوانوں کے امتحان پاس کرنے والے بچوں کے لئے شروع کیا ، جن کا کوٹہ 80 فیصد اور دیگر ( آفیسر اور چوہدریوں، خانوں اور وڈیروں ) کے بچوں کے لئے تھا ۔ فوجی یتیم خانہ کا نام دے کر ، فوجی آفیسرز اپنے بچے یہاں پڑھانا ہتک سمجھتے تھے ، لہذا ، کم اہم مالدارفوجی آفیسروں (فیس اور بچوں کی جدائی افورڈ کرنے والوں کے ) کے بچوں نے داخل ہو کر فوج میں سیکنڈ لفٹین بن کر ایلیٹ کلاس میں شامل ہونا شروع کیا ۔ تو مالدار آرمی آفیسروں کو ہوش آیا ۔ لیکن زیادہ تر مالدار آفیسروں کے بچے یہاں سے ایف ایس سی کرنے کے بعد جرمانہ ادا کرکے فوج میں کمیشن حاصل کرنے سے جان چھڑاتے یا اکیڈمی جا کر چھ مہینے کے اندر نکلنے کی کوشش کرتے ریلیگیٹ ہوتے یا ڈرم آؤٹ ۔
لیکن اب بھی 100 بچوں میں سے 10 آرمی آفیسر کے بچے ہوتے ہیں ، 10 سویلئین کے اور 80 جوانوں کے ۔ جنرل کیانی جوانوں کے بیٹوں میں سے ہے ، اگر یہ ملٹری کالج نہ ہوتا تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی اور دیگر جے سی اوز ، این سی اوز اور اسپاہوں کے بچوں کے مقابلے میں کنگ کمیشن جرنل و بریگیڈئرزاور کرنل  کے بیٹوں کا کیا مستقبل ہوتا ، اس کی وضاحت ضروری نہیں ، کیوں کہ بہترین تربیت و تعلیم انسان کو انسانوں میں ممتاز کرتی ہے ۔ اِس وقت ملک میں ملٹری اور کیڈٹ کالج کی شاخیں آرمی کھول رہی ہے ۔

فوج کی تمام زمینں جو انگریزوں نے بزور بندوق و توپ چھینیں اور رائل برٹش انڈین آرمی  کے استعمال کے لئے رکھیں ، جس کے نزدیک، کسی بھی سویلئین کو رہنے کی اجازت نہ تھی ، پھر فوج ہی نے خالی زمینوں کو آباد کرنے کے لئے ، ریٹارڈ فوجیوں کو دینا شروع کیا جہاں ، اُسے وہ آباد کر سکتے تھے ، اِن فوجیوں نے وہاں اپنی زمینوں پر اپنے سویلیئن ملازمین کو گھر بنانے کی اجازت دی تاکہ وہ وہیں رہ کر زمینوں پر کام کر سکیں ۔وہاں دو تین یا چار گھروں سے دس بیس گھروں کی کالونی بننا شروع ہوگئی ۔ مالکِ زمین کے فوت ہونے کے بعد ، بیٹوں کو زمین میں کوئی دلچپسی نہیں تھی ، انہوں نے 10 مرلے کی جگہ 500 روپے میں اور کھیتوں کی جگہ زیادہ سے زیادہ 5000 روپے ایکڑ میں سویلیئن کو فروخت کر دی ، کینٹونمنٹ بورڈ کی اجازت کے بغیر سٹامپ پیپر پر، جہاں آبادی بڑھنا شروع ہوئی اور کینٹونمنٹ کے ارد گرد سویلئین آبادیوں کا ھجوم ہونا شروع ہوا ،
جب سیکیورٹی کا مسئلہ آیا تو فوج کی آنکھ کھلی تو پانی گردن تک آچکا تھا سٹامپ پیپروں کی مدد سے عدالتوں نے اُسے سر سے بھی اوپر کر دیا ، جیسا اب  اسلام آباد میں ندی نالوں میں گھس بیٹھیوں کی کچی آبادیوں اور مسجدوں سے ہو رہا ہے ۔ 
 
آرمی ویلفیئرھاؤسنگ آرگنائزیشن کا قیام  1978 میں سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے مطابق ریٹائرڈ آرمی آفیسرز اور سروس کے دوران اللہ کی امان میں جانے والے آفیسروں کی بیواؤں کے لئے قائم کی گئی ۔ لیکن اِس سے پہلے کینٹونمنٹ میں پلاٹ اِسی ایکٹ کے مطابق دیئے جاتے اور 99 سال تک اُنہیں کے نام رہتے ۔ جو اُن کے لواحقین سٹامپ پیپرز پر سویلیئن کو بیچ دیئے جاتے ۔ جس سے اُن پر قبضے کی وجہ سے لیز کے کئی قانون مسائل بنے کیوں کہ قبضہ کرنے والے لیز کی رقم بچانے کے لئے ۔ جو فوجی آفیسروں، اُن کی بیواؤں اور بچوں کے لئے معمولی تھی ۔ مگر سویلیئن کے لئے اب بھی زیادہ ہے ۔ کیوں کہ یہ بھنک پھیل چکی تھی لہذا  1977 میں ، ایک 500 گزپلاٹ کی فائلیں صرف 15 ہزار روپے میں بکنا شروع ہوگئیں  میں اُن دنوں کوئٹہ میں جونیئر آفیسرز لیڈر کورس کر رہا تھا کہ پراپرٹی ڈیلروں کا طوفان امنڈ پڑا ویسے بھی بیلٹنگ میں نکلنے والے پلاٹوں کی قیمت  قسطوں میں تھی ۔ بے شمار سیکنڈ لفٹینوں نے 15 ہزار میں اپنے پلاٹ کے حقوق بیچے اور موٹر سائیکلیں لیں ، چونکہ کشمیر سے کورس کرنے آیاتھا اس لئے شائد بچ گیا ۔ پیسوں کی ضرورت نہ تھی ، 570 روپے تنخواہ میں بہترین گذارہ ہوتا تھا والدہ کو بھی بھجواتا تھا اور بہن کو ایم بی بی ایس کرنے کا خرچہ بھی دیتا تھا ، میرے میس کا خرچہ کل 150 روپے آتا تھا ۔ 

1973 میں، میں سیاچین میں تھا ،جہاں جانے سے پہلے جنوری 1993 میں ، لیفٹننٹ کرنل کے لئے ، میجر جنرل امجد شعیب نے ناپنے انا کو سکون پہنچانے کے لئے " پرمننٹ اَن فٹ فار فردر پروموشن " کر دیا ، اپنی یونٹ 57" میڈیم رجمنٹ" (جس میں اب میرا بیٹا میجر ہے ) جس کو میں نے  19 اکتوبر 1975 میں کشمیر ، ٹیٹوال سیکٹر کے پاس نیلم ویلی کے قصبے کے پاس دھنّی کینٹ میں جائن کیا تھا ، جس کا 31 جنوری کو پچاسواں سالگرہ کا دن ہے ۔ جس کو منانے کے صرف میں 31 جنوری 1966 کے ، یونٹ کو وجود میں لانے والے آفیسروں اور اُن کے بچوں کے بچوں کو اکٹھا کر رہا ہوں ۔ جو میری آج تک کی زندگی کا راولپنڈی ویٹرنز چیپٹر کا ایک میگا ایونٹ ہوگا اور یہ سب ہمارا مشترکہ خرچہ ہے ہر کھانے والا اپنا خرچہ خود دے گا ، یونٹ سے صرف شیلڈ بطور یادگار سے ویٹرنز کو دی جائے گی ۔ 
 
لیکن شاید سویلئینز سمجھیں کہ فوج نے من و سلویٰ کا دروازہ ہم پر کھول دیا ہے ۔ ہمارے لئے یہ اُسی طرح خوشی کا موقع ہو گا جب میٹرک کے دو ساتھی عرصہ بعد ملتے ہیں اور کہتے ہیں :

" ابے پنڈت ، تو بڈھا ہو گیا ، ھا ھا ھا "
" تو مولوی چھرے اپنے کالے بالوں سے خضاب اتار کر دیکھ ، کسی بے چین روح کا مجسمہ نظر آئے گا ۔ ھا ھا ھا "

ھاں تو میں بات کر رھا تھا سیاچین سے ، چھٹی جاتے وقت مجھے کمانڈنگ آفیسر نے بتایا ، کہ مورگاہ ٹو ، کے پلاٹ مل رہے ہیں ، ذرا وہاں جاکر دیکھنا کیسا علاقہ ہے ، پلاٹ لیا جائے یا نہیں ؟
میں اپنے بچپن کے دوست شوکت چوھان ، جس نے راولپنڈی ائر پورٹ کے پاس ، جنگل و بیابان میں گھر بنایا تھا ، وہ مجھے ائرپورٹ سے اپنے گھر لایا کل 20 تیس گھر نظر آرہے تھے ، ائرپورٹ سے اسلام آباد ھائی وے کی طرف جاتے ہوئے دائیں جانب ، اُس نے فخر سے بتایا وہ جو گھر دیکھ رہے ہو ، دائیں طرف لال ٹینکی والا وہ میرا گھر ہے ۔
جب میں نے اسے مورگاہ ٹو کا بتایا ، تو اٗس نے کہا ، " تم بھی بے وقوف ہو اور تمھارا سی او بھی ، بلکہ سارے فوجی بے وقوف ہوتے ہیں ، مورگاہ (ڈی ایچ اے ) ون ، میں ٹوٹل کے دس گھر بنے ہیں اور فوج ، اپنے معصوم آفیسروں کا پیسہ مورگاہ
(ڈی ایچ اے ) ٹو میں پھنسا رہی ہے ۔ کراچی ڈیفنس ھاؤسنگ سوسائٹی کو سنبھال نہیں سکی  ۔ وغیرہ وغیرہ "
یہ معصوم فوجی دوسرے دن ، مورگاہ ٹو دیکھنے گیا ۔ لیکن چپ رہا ، کیوں کہ ایک سویلئین چاھے دوست ہی سہی،کے سامنے  اپنے فوجی دماغوں کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا تھا ۔ واپسی پر مورگا ون ایک پتلی تین کلومیٹر کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر گھومتے ہوئے دیکھا ، اور آفیسرں کے بنائے ہوئے مکمل اور نامکمل گھروں پر بھی دیکھا ، اور شوکت چوھان کو یہ لنگڑا عذر پیش کیا ۔
" یار شوکت بھائی ، بات یہ ہے کہ ہم فوجی ساری عمر سویلئین سے دور رکھے جاتے ہیں ، اورنہ سویلئین ہم کو اور نہ ہم سویلئین کے طریق کار کو برداشت کر سکتے ہیں ،

گویا
ہوئے اِس قدر مہذب کبھی آبادیوں کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر جنگلوں میں مرے ہسپتال جاکر ۔

آہ سویلئین تو ہمیں اپنے پڑوس میں نہیں برداشر کر سکتے ، اسی لئے فوج جنگلوں میں گھر بنا رہی ہے "
تو دختر نیک اختر ، اِس معصوم 40 سالہ میجر نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو بھی منع کر دیا اور خود تو پلاٹ لینے کی کوئی ایسی کوشش بھی نہیں کی ، نہ کراچی ڈیفنس میں اور نہ فوج کی کسی سکیم میں ، کیوں کہ فوج نے عسکری ھاوسنگ میں ایک گھر دینے کا وعدہ کر رکھا تھا ، کہ جس کی قسطیں ، یہ غریب فوجی ماہانہ دے رہا تھا ۔
12 1کتوبر 1999 کے بعد یکم دسبر 1999، میں ریٹائر ہو کر ، یہ غریب اسلام آباد میں آیا اور بحریہ فیز 8 میں دوپلاٹ ایک بیچنے والے سے ، ڈی ایچ اے فیز ون اور ٹو کی حالت دیکھنے کے بعد لے لئے۔ پھر جون میں ایک ریٹائرڈ  سنیئر
فوجی دوست آیا اُس نے کہا، اُسے بیٹیوں کی شادی کے لئے پیسوں کی سخت ضرورت ہے ، اُس کے پاس ڈی ایچ اے ٹو میں دو پلاٹ ہیں ایک فوج سے ملا تھا 4 لاکھ میں ، اُسی کے ساتھ دوسرا لیا ساڑھے 4 لاکھ میں اب مارکیٹ نہیں ، میں وہ دونوں 6 لاکھ میں بیچنا چاھتا ہوں کوئی خریدنے والا ہو تو بتائے ۔ میں نے پراپرٹی ڈیلروں سے معلوم کیا ایک کو پلاٹ خریدنے کا کہا ، اُس نے ساڑھے تین لاکھ کھڈے کے پلاٹ کے بتائے ۔ دوسرے کو اِن میں سے ایک پلاٹ بیچنے کا کہا تو اُس نے ، ڈھائی لاکھ بتائے کہ خریدار کوئی نہیں، بیچنے والا نہ مانا تو میں نے اپنے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ جو میں  ڈی ایچ اے کراچی کا 300 گز کا پلاٹ بیچ کر 1996 میں خریدے اور جن کے شش ماہی منافع سے میں اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتا ، اُنہیں بڑھیا کے منع کرنے کے باودجود بیچ کر 6 لاکھ میں دونوں پلاٹ ، خرید لیے ، اِس لئے نہیں کہ میں بہت مالدار تھا بلکہ اِس لئے کہ پلاٹ کی قیمت یہی بنتی تھے ، ٹرانسفر نہیں کرائے کہ پیسے لگتے تھے ، یہ دونوں پلاٹ مجھے ضرورت پڑی تو میں نے اگست 2000 میں بیچ دیئے ، مبلغ سات لاکھ میں ۔ کتنے میں ؟ مبلغ ساڑھے تین لاکھ کا ایک پلاٹ ۔ جس رقم سے میں نے دوبارہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ لے لئے اور بڑھیا کے طعنوں سے نجات پائی ، اور یوں میں  9/11 کے بعد ایک کثیر منافو سے محروم ہوگیا کیوں کہ یہ دونوں پلاٹ 80 لاکھ ، 80 لاکھ میں بِکے یوں لوگوں نے پاگلوں کی طرح پلاٹ لینا شروع کئے ، اور پھر اکتوبر 2011 میں اِن پلاٹوں نے غوطہ لگایا اور کوئی ان پلاٹوں کو 35 لاکھ فی پلاٹ خریدنے کے لئے تیار نہیں تھا ، آج یہ پلاٹ ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہیں۔ اور سویلیئن میں مشہور ہے کہ فوجی ککھ پتی سے کروڑ پتی بن گئے ۔
اِس طرح ریٹائر فوجیوں کی ملٹری ایمپائر ، سویلئین کی نظروں میں ،
"میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں" کچوکے چُبھا رہے ہیں ، جس پراپرٹی کو بوسٹ ، امریکی نیچرائزڈ پاکستانیوں نے 9/11 کے بعد کیا ۔ 
 میرا پی ایم اے کا پلاٹون میٹ،  جو 1979 میں لفٹینی سے نکل کر امریکہ روشن مسقبل کے لئے گیا تھا ۔ وہاں اُس نے بے تحاشہ ڈالر کمائے ، پاکستان اب شائد دفن ہونے کے لئے آیا ھے ، ہم روزانہ گالف کھیلتے ہیں ، اُس نے ڈیفنس میں گھر بنا کر کرائے پر دینے کی بات کی ، مجھ سے پوچھا ،
" کہ یہاں کنال پر بنے ہوئے گھروں کے کیا کرائے ہیں، میرا پروگرام ہے "
" میں نے کہا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مکمل گھر کے "
" بس 5 کروڑ کے گھر کا اتنا کرایہ ؟ " وہ حیرانی سے بولا ۔
" پانچ کروڑ کیسے ، 6 لاکھ کا پلاٹ اور 50 لاکھ تعمیر ؟ " میں نے جواب دیا ۔
" لیکن میں نے معلوم کیا ، ابھی تو جہاں تم رہ رہے ہو پلاٹ ڈھائی کروڑ کا ہے " وہ بولا
" نہیں پلاٹ 6 لاکھ اور تعمیر سوا کروڑ " میں بولا
" تم پاگل ہو گئے ہو ؟" وہ بولا
" نہیں ہمیں تم بے وقوف امریکن شہریوں نے پاگل کر دیا ہے - جو اب روتے ہیں کہ ہمیں اپنی انویسٹمنٹ کا وہ ریٹرن نہیں آرھا ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بے وقوف نودولتیئے گھر بناتے ہیں اور عقلمند اُن میں کرائے پر رہتے ہیں ، اور اپنے بچوں کی سہولت کے مطابق شفٹ کرتے رہتے ہیں "

اب وہ شہر سے دور شہر بسانے کے چکر میں زمینیں خرید رہا ہے ۔ اور امریکہ میں اپنے موٹلز اور گھر بیچ رھا ہے ۔ جب سویلئین ، یہ سنیں گے کہ سابقہ لفٹین صاحب ھاوسنگ سوسائیٹی بنا رہیں ہیں تو ھونٹوں میں انگلیاں دبا لیں گہ کہ

" لفٹین صاحب نے فوج کو ڈٹ کر لوٹا تو میجر صاحب نے کتنا لوٹا ہو گا "۔ 
٭٭٭٭٭

  

پیر، 25 جنوری، 2016

پیرا گلائیڈنگ . سوالات

اُڑنا ہر انسان کا خواب رہا ہے ۔ لیکن حقیقت میں اُڑنے کا خواب اب ہر کسی کے بس میں ہو چکا ہے ۔ آپ جہاز اُڑا سکتے ہیں ، گلائیڈر اُڑا سکتے ہیں یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر بھی اُڑا سکتے ہیں لیکن اِس کے لئے آپ کو اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے ۔ 

لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں ؟ کہ آپ فیملی پکنک پر گئے ہوں اور راستے میں آپ کا بچہ کہتا ہے کہ بابا میں " پیرا گلائیڈنگ" کروں گا۔
اور آپ اپنے 12 سالہ بچے کو حیرت سے دیکھتے ہیں ، کہ یہ کیا فرمائش کررہا ہے اور آپ اُسے پریشانی سے سمجھاتے ہیں کہ یہ بہت مشکل اور خطرناک ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ بتاتا ہے کہ اُس کی کلاس فیلو نے بتایا ہے کہ اُس نے " پیرا گلائیڈنگ" کی ہے ۔ 



جس میں اُسے بہت مزہ آیا اور وہ اب پیرا گلائیڈر ونگ اپنے بلیزر پر لگا کرفخر سے سکول آتی ہے-
2- کیا میرا بیٹا یا بیٹی پیرا گلائیڈنگ کر سکتے ہیں ؟
آپ کے ذہن میں خیال آتا ہے ، کہ یہ یقیناً بہت مہنگا شوق ہو گا ؟
یہ مہنگا ، خطرناک اور مشکل شوق نہیں ۔ آپ یوں سمجھیں ، کہ جب آپ کے چار سالہ بچے نے بیڈ سے نیچے پڑے ہوئے گدے پر چھلانگ لگائی تھی ۔ تو اُس کی خوشی کا کیا عالم تھا اور آپ دونوں میاں بیوی کتنے خوش ہوئے تھے !


٭ - آپ کا بچہ صرف 2000 روپے میں ٹینڈم فلائیٹ کر سکتا ہے ۔
٭-  اور آپ بھی  4000 روپے میں دو سولو فلائیٹ کر سکتے ہیں ۔
3- کیا پیرا گلائیڈنگ میں بچوں کے لئے خطرہ تو نہیں ؟
یقین مانئیے ، 12 سال کے بچوں سے لے کر بڑھاپے تک ، تھوڑی سی ہمت یعنی اتنی کہ وہ دس سے بیس گز دوڑ سکے اور تین فٹ اونچائی سے چھلانگ لگا سکے ۔ تو وہ یقیناً فضاء میں اُڑ کر خوشی سے نعرے لگا سکتا ہے ۔

4- پیرا گلائیڈنگ کا فائدہ ؟
جب آپ کا بچہ اپنے بلیزر پر ، " پیرا گلائیڈنگ ونگ " لگا کر سکول جائے گا تو اُس کے کلاس فیلو اُسے رشک سے دیکھیں گے ، مگر ٹہریئے آپ کی 6 بیٹی بھی ونگ لگا سکتی ہے ۔
" پرائیڈ   پیرا گلائیڈنگ فیملی کلب " نے پیرا گلائیڈنگ کو اتنا آسان بنادیا ہے کہ آپ کے لئے یہ ایک یادگار " فیملی پکنک " بن جائے گی اور ممکن ہے کہ آپ یا آپ کے بچے اسے ، مہم جویانہ کھیل، کی حیثیت سے اپنا لیں ۔
5- بچوں کے علاوہ کیا میں یا میری بیگم پیرا گلائیڈنگ کر سکتی ہے ؟
پیرا گلائیڈنگ کے پیرا شوٹ ، 50 کلو گرام وزن سے 300 کلو گرام وزن ، بلکہ اِس سے بھی زیادہ وزن کے ساتھ کسی بھی پہاڑی سے فضاءِ میں گلائیڈ کرتے ہوئے، گراونڈ کنٹرول سے دی جانے والی صرف دو ہدایات پرعمل کرتے ہوئے آرام سے زمین پر اُتر سکتے ہیں ۔ 
 پہلی دائیں یا بائیں مُڑنے کی ہدایت اور 
دوسری زمین پر آرام سے اترنے کے لئے ، ھاف اور فُل بریک لگانے کی ہدایت ۔
6- کیا پیرا گلائیڈنگ کے دوران فضا میں اونچا بھی جا سکتے ہیں ؟
پیرا گلائیڈنگ کے پیرا شوٹ ، سے گلائیڈ کرنے کا انداز بالکل عقاب کی طرح ہوتا ہے جو فضا میں پر پھیلائے مہارت سے منڈلاتا رہتا ہے ۔ 
   لیکن نو آموز پیرا گلائیڈر ، صرف بلندی سے نیچے کی طرف آتا-
ہوا کے دوش پر اوپر جانے کے لئے اُسے عقاب ہی کی طرح ہوا کی رفتار اور اُس کے اوپر اُٹھنے کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ جس کے لئے ، ایک پیرا گلائیڈر کو مختلف کورسز کرنے ہوتے ہیں ، جن کے ذریعے وہ نو آموز سے امیچر اور پھر ماسٹر گلائیڈر بن جاتا ہے ۔

7- ہم " پرائیڈ فیملی پیرا گلائیڈنگ کلب " کے ساتھ پیرا گلائیڈنگ بطور فیملی پکنک کیسے کر سکتے ہیں ؟
اپنا نام ، شناختی کارڈ نمبر ، موبائل نمبر ، پوسٹل ایڈریس اور ممکنہ تاریخ سے ہم کو آگاہ کریں۔ 
ہم ایک دن میں 20 افراد کو پیرا گلائیڈنگ کروا سکتے ہیں ۔ جس کے لئے ہم نے ہفتہ اور اتوار کا دن ، مخصوص کیا ہے ۔ اگر آپ کو ہفتے کے دن کی بکنگ نہیں ملی تو اتوار کو یقیناً مل جائے گی ۔


* -  اسلام آباد میں ہمارا رابطہ آفس ہے ۔
* - ڈی ایچ اے اسلام آباد میں ہمارا رابطہ آفس جلد ہی شروع ہو رہا ہے

ہم عنقریب راولپنڈی،  لاہور اور کراچی میں بھی اپنے کلب کی ایکٹیوٹی کریں گے ۔ 
فی الحال ہم خان پور ڈیم کے پاس پیرا گلائیڈن زون میں ، پیرا گلائیڈنگ کروا رہے ہیں ۔
یہ راولپنڈی سے جانے والوں کے لئے روٹ میپ ہے ۔

٭ - پیرا گلائیڈنگ کے لئے صبح 9 بجے تک منگ پہنچنا ہوتا ہے 

٭ - فائینل پروگرام کا شیڈول جمعرات تک معلوم کر لیں تاکہ آپ کو پریشانی نہ ہو۔

  ****SMS  کے لئے ہمارا موبائل نمبر ۔ 5500208-0336  ہے *****
   E Mail: mnk1953@gmail.com

****************

٭    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭  ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭٭ ٭ ٭ ٭ ٭  ٭ ٭٭٭٭  ٭
٭                                                 -        پیرا گلائیڈنگ کیا ہے ؟
 ٭                                                 -       پیرا گلائیڈنگ ایک کھیل  
٭                                                 -     تھیوری ۔ پیرا گلائیڈر فلائیٹ ۔ 

 ٭                                                 -    پیرا گلائیڈر کنٹرولز
 ٭                                                 -  پیرا گلائیڈرز ۔ گراونڈ ٹریننگ 
 ٭                                                 -  بلندی سے پیرا گلائیڈنگ 

٭                                                 -    پیرا گلائیڈنگ . سوالات
٭    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭  ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭٭ ٭ ٭ ٭ ٭  ٭ ٭٭٭٭  ٭

پیر، 11 جنوری، 2016

بابے اور بیبیاں !

وٹس ایک پر ایک 10 سالہ چھوٹے فوجی دوست کی درد بھری داستان ، جس کی 8 سالہ چھوٹے دوست نے تصدیق کی ۔
بوڑھا اب کیا تصدیق کرے ۔ آپ سب سمجھدار ہو لیکن ، عقلمند دوسروں سے سیکھتا اور ہم ، ٹہرے بے وقوف ۔
رازداری کی خاطر نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں ۔ وگرنہ یہ داستان مشترکہ ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عبدالمنان ایک دکاندار تھا۔ یہ کپڑے کی دکان کر تا تھا۔ یہ ایک متوسط درجے کا خوشحال انسان تھا۔ اس کی شادی اوائل جوانی میں ہی ہوگئی تھی۔ یہ چونکہ فکر معاش سے آزاد تھا لہذا ہرسال ایک برانڈ نیو بچہ اس دنیا میں لانا اس نے اپنا شرعی، اخلاقی، قومی اور خاندانی فریضہ سمجھ لیا تھا۔ 
عبدالمنان کی زندگی ایک خوشگوار معمول کے مطابق گزرتی رہی۔ یہ اپنے بچوں اور بیوی سے بڑی محبت کرتاتھا۔ یہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ یہ ایک خوش مزاج اور جولی طبیعت کا انسان تھا۔ یہ کبھی غصے میں نہیں آتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی جو اس کی فطرت بھی تھی اور دکانداری مجبور ی بھی۔ کیونکہ غصیلے دکاندار کے تو آئی فون بھی نہیں بکتے۔ وقت گزرتا گیا۔ عبدالمنان کے بچے بڑے ہوگئے یہ نویں دسویں کلاس تک پہنچ گئے۔
یہ چونکہ کم عمری میں ہی شادی کرچکا تھا لہذا اس کی عمر بھی “کھیلنے کھانے” کی تھی۔ یہ وہ اہم مقام تھا جہاں سے عبدالمنان کی زندگی نے ٹریجک ٹرن لیا۔

یہ جب بھی اپنی بیوی کے پاس بیٹھتا ، یہ جب بھی اس سے کوئی رومانوی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔ اس کی زوجہ اسے ڈانٹ دیتی۔یہ اسے شٹ اپ کہہ دیتی ۔ یہ اسے کہتی
” حیاکرو، بچے وڈّے ہوگئے نیں، تہانوں اپنے ای شوق چڑھے رہندے نیں”۔

عبدالمنان کی زندگی کے “معمولات” درہم برہم ہوگئے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہائپر ہونے لگا۔ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا۔ اس کے بچّے اس سے ڈرنے لگے۔ اس کی دکانداری پر بھی اثر پڑنے لگا۔ یہ گاہکوں سے الجھنے لگا۔ یہ معمولی باتوں پر تو تکار کرنے لگا۔ لوگ حیران تھے کہ عبدالمنان ، جو ایک خو ش مزاج اور جولی انسان تھا ، اس کی یہ حالت کیونکر اور کیسے ہوئی۔


یہی وہ المیہ ہے جو پاکستانی بابوں کو ڈیسنٹ بابے کی بجائے چاچا کرمو ٹائم پیس جیسے بابوں میں بدل دیتا ہے۔ 


یہ جیسے ہی ادھیڑ عمری کی منزل پار کرتے ہیں۔ 

ان کی زوجہ ، بیوی سے مزار کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کے پاس سے اگربتیوں کی خوشبو اور قوالیوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ اس کے پاس بیٹھنا تو درکنا ر اس کی طرف پشت کرنا بھی بے ادبی شمار ہوتا ہے۔ یہ وہی بیوی ہوتی ہے جوشادی کے پہلے سال خاوند کے گھر آنے پر مور نی کی طرح “پیلیں” پارہی ہوتی تھی۔ 
اب یہ خانقاہ کا مجاور بن جاتی ہے ۔یہ بابے کی زندگی میں ایک ایسی “کسک” بھردیتی ہے جس کی وجہ سے بابا، کپتّا، سڑیل اور ٹھرکی ہوجاتا ہے۔
آپ کسی محلّے میں چلے جائیں ۔ آپ گلیوں میں تھڑوں پر بیٹھے بابوں کو چیک کرلیں۔ یہ سب زندگی سے بے زار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ ہر بچے کو جھڑکتے ہیں اور ہر بچّی کو تاڑتے ہیں۔ یہ بابے بے قصور ہیں۔ ان کی مائیوں نے ان کا یہ حال کیا ہے۔ 


آپ دبئی چلے جائیں، آپ بنکاک چلے جائیں۔ آپ ملائشیا چلے جائیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ آپ دیکھیں گے کہ گورے مائیاں بابے کیسے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیریں کرتے ہیں۔ یہ سر عام “اظہار محبت” بھی کرتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے عاشقی ٹُو جیسے سین بناتے ہیں۔


جبکہ پاکستانی بابوں کو یہ موقع تنہائی میں بھی نہیں ملتا۔ ان کی آخری عمر اعتکاف میں ہی گزرجاتی ہے۔

 
جب تک ہم بابوں کے مسائل کو سمجھیں گے نہیں۔ جب تک ہم ان کو حل کرنے کے لیے ان کی مائیوں کو کنونس نہیں کریں گے۔
بجٹ کا خسارہ ہویا لوڈشیڈنگ۔ ڈرون حملے ہوں یا کیبل پر انڈین چینلز۔ امن و امان کا مسئلہ ہو یا پرویز خٹک کی صحت۔ عائلہ ملک کی دوسری شادی ہو یا شہباز شریف کی چوتھی (یاشاید پانچویں، چھٹی یا ساتویں شادی) ۔ پاکستان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ 


کیونکہ بابے اپنے اپنے پروفیشن میں ماہر ہوتے ہیں لیکن ان کی مائیوں کی بے اعتنائی انہیں ہر چیز سے متنفر کرکے سڑیل اور کوڑا کردیتی ہے۔ 

یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے یہ صرف تھڑوں پر بیٹھ کر سڑ سکتے ہیں ۔ 




کیلے کے چھلکے بھی کھائیے

   کیلے کے چھلکے کو کوڑے دان کی نذر مت کیجئے !

٭    ۔                                                  کیلے کا چھلکا غذائیت سے پر ہے۔ اس میں معدنی پوٹاشیم بکثرت ہوتا ہے ۔ یہ معدن ہمارے بلند فشار خون (بلڈ پریشر ) کم کرتا اور موڈ بہتر بناتا ہے۔ اس میں حل پذیر ریشہ بھی خوب ملتا ہے   یہ ریشہ ہم میں سیری کا احساس پیدا کرتا-
٭    ۔                                                   کولیسٹرول ( ایل ڈی ایل ) سے نجات دلاتا ہے 
 ٭    ۔                                                  یہ چھلکا غیر حل پذیر ریشہ بھی رکھتا ہے، ہماری آنتوں
 کی صفائی کرکے ہمارا نظام ہضم ٹھیک کرتا ہے،  کیلے کے چھلکے کی خصوصیات کے باعث بھارت سمیت کئی ایشائی ممالک میں یہ بطور سبزی پکایا جاتا ہے 
٭    ۔       اس کی یخنی (سوپ) بھی بنتی ہے
 لہذا آئندہ بے پروائی سے کیلے کا چھلکا مت پھینکیئے 
بلکہ اسے کام میں لائیے

٭    ۔                                      چھلکے کے نیچے واقع سفید حصہ بھی غذائیت رکھتا ہے  ماہرین طب کے مطابق یہ سفید حصہ وٹامن سی اوروٹامن بی 6 کا حامل ہے۔!
٭    ۔                                       سفید حصے میں سائٹرولین ( Citrulline) نامی کیمیائی مادہ  بھی ملتا ہے  یہ ایک امائنو ایسڈ یا تیزاب ہے،  جو ہمارے بدن میں خون کی نالیوں کو صاف کرتا ہے- یوں ان میں خون روانی سے دوڑتا اور ہمیں تندرست رکھتا ہے
  ٭۔ یہ  چہرے کے دانے ،پمپلز، چھائیاں، نشانات، ایکزیما، خارش، داد ،چمبل ،خشکی، ایڑی کا پھٹنا ، گویا جلد  کے  ہر مسئلے کا بہترین آزمودہ حل ہے-

٭٭٭صحت  پر  مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں   ٭واپس٭٭٭٭

اتوار، 10 جنوری، 2016

پرائیڈ فیملی پیرا گلائیڈنگ کلب

چم چم اور برفی، "پرائیڈ فیملی پیرا گلائیڈنگ" ٹرپ کے ساتھ جاتے ہوئے ۔
بوڑھا ، بوڑھی ، چم چم ، بوڑھے کی کپتان بیٹی اور برفی کے ماما اور بابا دو کاروں میں ، منگ پیرا گلائیڈنگ زون میں جانے کے لئے روانہ ہوئے ، یہ بوڑھے کا " پرائیڈ فیملی پیرا گلائیڈنگ کلب" کا پہلا گروپ تھا ، جس کی افتتاحی تقریب کی پہلی " پیرا گلائیڈر " چم چم تھی ۔ 

بوڑھے نے فیس بک اور وٹس ایپ پر جب اپنے ریکارڈ کی داستان ڈالی تو ، بہت سے دوستوں نے کہا کہ ہم بھی ، اپنے بچوں کے ساتھ پیرا گلائیڈنگ کرنا چاھتے ہیں ۔ بوڑھے نے سوچا ، پلان بنایا ، ایکسپلور کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں بوڑھے نے "ایڈونچر گلائیڈنگ کی دنیا " میں پہلا قدم ، اُن دوستوں کی خواہش پر رکھ دیا ہے ، جو فضا میں اُڑنا چاہتے ہیں ۔
شروع میں "پرائیڈ فیملی پیرا گلائیڈنگ کلب" ویک اینڈ ( ہفتہ اور اتوار) پیرا گلائیڈنگ ہو گی ۔ جو جی دار فیملی اور نوجوانوں کے لئے ترتیب دی جا رہی ہے ، 

کیوں کہ آج بوڑھا ، چم چم کے پہاڑ پر چڑھا اور ساڑھے 6 سالہ ، چم چم نے بوڑھے کا ھاتھ پکڑا یہ کہہ کر ،
" آوا ، آپ کی سانس تیز چل رہی ہے ، آپ تھک گئے ہو ، میرا ھاتھ پکڑ لو ! "


63 سالہ بوڑھے نے مستقبل کی پیرا گلائیڈر چم چم کے ساتھ بلندیوں پر اُسے لے جانے کے لئے اُس 
کا ھاتھ پکڑا اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
وہ دونوں آہستہ آہتہ قدم بڑھاتے ہوئے اوپر چڑھنے لگے !
دونوں اوپر پہنچے تو ، بوڑھے کا بیٹا اور بیٹی اوپر پہنچ کر ، بوڑھے کے حکم کا انتظار کر رہے تھے
بوڑھا اور چم چم دونوں ایک پتھر پر بیٹھ کر سستانے لگے ، لیکن چم چم فوراً اپنا پسندیدہ کھیل ، پہاڑی سے پتھر لڑھکانے میں مصروف ہو گئی ۔

بوڑھے کے سانس بحال ہوئے اور ہوا بھی تھوڑی تیز ہونے لگی تو بیٹے نے بوڑھے سے پوچھا ،
" پپا پہلے آپ جائیں گے یا ہم دونوں میں سے کوئی ؟"

بوڑھے نے چم چم کی طرف دیکھا اور اُسے بلایا ، اور پوچھا ،
" مائی سوئیٹ ھارٹ ، کیا تمھیں مجھ پر فخر ہے ؟ "
" یس آوا " چم چم بولی اور بوڑھے کو ڈرل پپی دی ۔
" تو میں بھی آپ پر فخر کروں ، میری بہادر نواسی " بوڑھا بولا
ّ یقیناً ، آوا ! میں پہلی چھوٹی لڑکی ہوں جو اتنا اونچا پہاڑ چڑھ کر آئی " چم چم پورے یقین کے ساتھ بولی ۔

" مجھے فخر ہے کہ آپ نے اور میں نے ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ " بوڑھا بولا " اور اب آپ دوسرا ریکارڈ قائم کرو گی ، پہلی فلائیٹ لے کر ۔"
" کیا آپ کو یقین ہے آوا ، کہ کوئی خطرہ نہیں ؟" چم چم نے ڈر ظاہر کیا " ہم بہت اونچائی پر ہیں ! "
" کیا میں آپ کو ایسا کام کرنے کو کہوں گا ، جس میں خطرہ ہو ؟ " بوڑھا بولا ۔
" نہیں آوا ، مجھے آپ پر یقین ہے " چم چم بولی ۔
چم چم کا یہ سٹائل بن چکا ہے ، کیوں کہ چم چم کی ماما نے اُس کے ذہن میں بٹھا دیا ہے ۔ کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے سوچے ، کہ
کیا اِس میں نقصان نہیں ؟
اِس کام کے کرنے سے چم چم کو کیا فائدہ ہوگا ؟
کیا چم چم کی فیملی ، اِس کام پر فخر محسوس کرے گی یا سوری فیل کرے گی ؟
اگر چم چم ، مطمئن ہے تو وہ کام کرے ورنہ ، ماما سے پوچھے گی ۔ فیملی ڈسکشن ( چم چم ، ماما اور بابا) ہو گی اُس کے بعد اجازت ملنے پر کام کیا جائے گا ۔ گو کہ چم چم ماما اور بابا کی اجازت سے بوڑھے کے ساتھ آئی تھی ، لیکن اُس کے باوجود اُسے ہچکچاہٹ تھی ۔
بوڑھے نے پوچھا، " کیا وہ تیار ہے ؟ "
چم چم نے ھاں میں سر ھلاتے ہوئے بولی ،
" اوکے آوا ، میں تیار ہوں ! "

" یہ انکل عرفان ہیں ، اور یہ اچھے پائیلٹ ہیں " بوڑھے نے ماہر انسٹرکٹر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ، " ان سے ھاتھ ملاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی مدد کریں "


چم چم نے ھاتھ ملایا ، عرفان نے چم چم کو گلائیڈنگ ھارنیس پہنائے ، اور تھوڑے انتظار کے بعد ، چم چم پائلٹ عرفان کے ساتھ ، فضا میں تھی اور خوشی سے نعرے لگا رہی تھی ۔ 


بوڑھے کی بیٹی اور بیٹا ، سولو ، ائر بورن ہوئے ، پھر باری باری باقی ممبروں نے ائر بورن کیا ،

بوڑھے نے وہی پیرا شوٹ لینا تھا ، جس پر چم چم اور انسٹرکٹرعرفان گئے تھے -

" آوا ! مجھے بہت مزہ آیا میں 5 فلائیٹس اور کروں گے "
چم چم پھر واپس جمپنگ پلیٹ فارم پر پہنچتے ہی بولی ۔

گو کہ چم چم تھوڑا نروس تھی لیکن بوڑھے کو معلوم تھا وہ دوبارہ لازمی آئے گی مگر اتنا جلدی ، اُس نے سوچا نہ تھا ۔ 




چم چم نے ایک اور جمپ لگا کر 10 جنوری 2016 کو " پرائیڈ پیرا گلائیڈنگ فیملی کلب" کی مستقل رُکنیت حاصل کر لی۔ !
چم چم کے لئے تالیاں !
چم چم کو بوڑھے نے  پہلی تعارفی سولو فلائیٹ کروائی ۔
  ٭ ٭٭ ٭معلومات کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں  ٭  ٭ ٭٭
٭                                                 -        پیرا گلائیڈنگ کیا ہے ؟
 ٭                                                 -       پیرا گلائیڈنگ ایک کھیل  
٭                                                 -     تھیوری ۔ پیرا گلائیڈر فلائیٹ ۔ 

 ٭                                                 -    پیرا گلائیڈر کنٹرولز
 ٭                                                 -  پیرا گلائیڈرز ۔ گراونڈ ٹریننگ

٭                                                 -    پیرا گلائیڈنگ . سوالات


پہلا مضمون:  ۔جوان ،  بوڑھا اور پیرا گلائیڈنگ

اگلا مضمون :۔   جاری ہے

   ٭٭٭٭٭٭


بدھ، 6 جنوری، 2016

میں سچ لکھوں گا

اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی. اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا
" تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟"
میں نے تڑپ کر کہا :
" میں سچ لکھوں گا اماں اور سچ کا پرچار کروں گا. لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں. میں انھیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا."

میری ماں فکر مند سی ہو گئی. اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا :
 " اگر تو نے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا ' دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا. ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے."

( محمد اکرم اعوان)

ڈاکٹر رابعہ- کولھو کا بیل


طفیل کو یہاں آئے ہوئے دو سال ہونے کو ہیں. شاہزیب اس کے یہاں آنے کے تین ماہ بعد پیدا ہوا تھا اور اب اسے فون پہ بابا کہ کر بلاتا ہے. وہ یہاں آیا تو میسن کے ویزے پر تھا لیکن کمپنی نے اس سے گھاس کاٹنے سے لے کر کر کوڑے کی گاڑی لوڈ کروانے تک ہر کام لیا تھا.
پچھلے چار ماہ سے اس کے پیشے کے مطابق اسے بلاکوں کی چنائی و ا لے کام پر لگایا گیا تھا. کام کی سائٹ دوبئی میں ہے اور کمپنی کا لیبر کیمپ ابوظہبی میں. اس ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دو طرفہ مسافت میں صرف ہونے والا وقت اور ہمت اس کی اپنی ہے .
کمپنی کو صبح ساڑھے چھ بجے انٹری درکار ہے اور اسی لیے اسے صبح ساڑھے تین بجے اٹھنا پڑتا ہے. نہا کہ نماز پڑھنا اور پھر ناشتے کی قطار میں کھڑا ہونا اب اسے مشکل نہیں لگتا لیکن دو گھنٹے صبح اور دوگھنٹے شام کو بس کی لکڑی کی سیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر کمر میں مسلسل درد رہنے لگا ہے. وہ جو گھر والوں کے لیے سہانے سپنے خریدنے میلوں دور اس منڈی میں اپنی جوانی بیچنے آیا ہے اس کی زندگی کولہو کے بیل سے بھی زیادہ بے جہت ہے. وہ لیبر کیمپ کے تیسرے فلور کے ایک کمرے کی بارہویں چارپائی پر سوتے ہوئے اکثر سوچا کرتا تھا کہ میرے اپنے خواب کہاں گئے اور اب صرف دو سال بعد اسے یہ سوچنا بھی مشقت لگنے لگا ہے کہ میرے اپنے بھی کچھ خواب تھے.
کام والی سائٹ سے چھ بجے چھٹی کر کے ہاتھ پیر دھوتے ساڑھے چھ ہو جاتے ہیں اور پھر لیبر بس میں سوار ہوکر حاضری مکمل کرتے کرتے سات بج جاتے ہیں امارات کی تیز رفتار سڑکوں پر ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ کم از کم دو گھنٹے تو لگا ہی دیتا ہے۔
آج جب وہ نو بجے لیبر کیمپ میں پہنچا تو اسے اپنے اس خیال کی تائید کرنا مشکل نہ لگا کہ اگر ڈانگری اتار کر کپڑے پہننے لگا تو میس کی قطار اور لمبی ہو جائے گی لہذا پہلے کھانا حاصل کرلوں پھر ایک ہی بار کپڑے بدل لوں گا ۔ قطار میں کھڑے کھڑے جب کافی دیر گزری گئی تو اس نے وقت گزاری کیلیے اپنے سے آگے بندوں کی گنتی شروع کردی ۔ آج سیدھا میس پر آنے کے باوجود اس کا انچاسواں نمبر تھا۔
اس کی گیروے رنگ کی ڈانگری سے پسینے کی بو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے جو ساتھ والوں سے زیادہ خود اس کو پریشان کیے ہوئے تھے ۔ اتنے میں اس کے ٹوٹی ہوئی سکرین والے سمارٹ فون پر سکائپ کی گھنٹی بجی اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرا گئی۔ اس نے کال اٹینڈ کرنا چاہی دو تین بار انگلی سے سکرین دبائی لیکن کال اٹینڈ ہونے کی بجائے ریجیکٹ ہوگئی ۔ اس نے دل میں سوچا کہ کاش اس دفعہ پاسپورٹ رینیوئل کے پیسے نہ دینے پڑتے تو میں ایک نیا موبائیل خرید لیتا۔ دوبارہ گھنٹی بجی اب کے اس نے بڑی احتیاط سے مختلف زاویے سے سکرین پر انگلی رکھی ۔ کال اٹینڈ ہو گئی ۔ اس نے ہینڈ ز فری نکالنے کیلیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ساتھ ہی میڈیکل انشورنس کا کارڈ بھی اس کے ہاتھ میں آگیا ۔ اسے یاد آیا کہ صبح اس لیے جیب میں ڈالا تھا کہ واپسی پر ہسپتال جانا ہے ۔ اس کے پیروں میں سیمنٹ کی وجہ سے الرجی ہو گئی تھی جو سارا دن سیفٹی بوٹوں میں ٹھنسے ہونے کے باعث مزید خراب ہورہی تھی ۔ اس نے بدبودار گیروی آستین سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور ہینڈز فری کانوں میں اڑس لی ۔
اس کی چھوٹی عاشی بول رہی تھی ۔
" بابا دیکھیں ماما نے آج پھر چکن بریانی بنا دی میں نے کہا بھی تھا پلاؤ بناؤ۔.مجھے چکن بہت گندا لگتا ہے.۔
بابا آج اچھی ماموں بھی آئے ہیں ہم سب موٹر سائیکل پہ باہر گھومنے گئے تھے ہم نے آئس کریم بھی کھائی تھی ۔
بابا ماموں سے بات کرواؤں؟۔ "
اس کا جواب سنے بغیر ہی عاشی نے فون ماموں کو پکڑا دیا ۔ " بھائی جان کیسے ہیں آپ ۔؟" 
اچھی نے رسماً پوچھا تو اس نے بھی سپاٹ لہجے میں جواب دیا
" میں ٹھیک ہوں"
اس نے ایک نظر ٹوٹی ہوئی سکرین والے موبائل کو اور دوسری نظر کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی ہوئی قطار کو دیکھا۔
"بھائی جو آپ نے سیل فون بھیجا تھا نا وہ گوگی باجی کو پسند آ گیا اب میرے لیے ایک اور موبائل بھیج دیں لیکن پہلے والا نہ بھیجیے گا وہ ایپل کا نیا ماڈل آیا ہے میں کل اس کی تصویر آپ کو وٹس ایپ کر دوں گا"
۔ "باجی سے بات کریں گے۔؟ "
یہ کہہ کے اچھی نے فون اپنی باجی کو پکڑا دیا ۔
"ہیلو جی آپ کیسے ہیں؟
 کام سے واپس آ گئے؟
اچھا آج نا میں گئی تھی حمیرا کی طرف ۔ اس کی نند کی شادی ہے نا تو اس نے بلا یا تھا کہ آ کے کچھ سیٹنگ کروا دو۔ تھک گئی سارا دن ۔ کام بھی کچھ خاص نہیں کیا اور میری تو کمر اکڑ گئی ہے قسم سے. اچھا یاد آیا وہ کہہ رہی تھی کہ بھائی سے کہہ کے مجھے دوبئی سے میک اپ کٹ منگوا دو ۔ کرسٹن ڈائر کی. سنا ہے وہاں سے ایک نمبر مل جاتی ہے ۔ وہ تو پیسے دے رہی تھی میں نے کہا شرم نہیں آئے گی تجھے تیرا بھائی دوبئی میں کام کرتا ہے اور تو اسے میک اپ کٹ کے پیسے دے گی۔ اچھا سنیے میرے لیے نا اچھا سا ایک پرفیوم ضرور بھیجیے گا۔ "
طفیل کے پاس ان ساری باتوں کا جواب سوائے ایک ٹھنڈی سانس کے اور کچھ نہیں تھا. ۔
باتیں چلتی رہیں اور پتہ نہیں کب اس کی پلیٹ میں بنگالی چاول اور باس والی مچھلی کا ایک ٹکڑا آ گرا ۔ آج کے مینیو میں یہی کچھ تھا۔ اس نے پھر بات کرنے کا کہہ کر فون بند کیا اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھانے لگا.
جب وہ میس سے نکلا تو ساڑھے دس بج چکے تھے ۔ صبح ساڑھے تین بجے اٹھنے کے لیے رات کو جلدی سونا پڑتا ہے لیکن جب وہ تین منزلوں کی آہنی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کے سامنے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کسی نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑوں کی بالٹی اٹھا کے دروازے کے باہر رکھ دی تھی.
اسے یاد آیا کہ جمعرات کو کپڑے اس لیے بھگوئے تھے کہ جمعے کو دھل جائیں گے لیکن جمعے کو پھر سائٹ پر جانا پڑا اور اب ان میں سے بو آنے کی وجہ سے دوسرے لوگوں نے اٹھا کر باہر رکھ دیے. وہ کمرے میں داخل ہونے کی بجائے سیفٹی بوٹ وہیں اتار کر ننگے پاؤں بالٹی لیے نیچے واشنگ ایریا میں آگیا. اس کے ننگے پیر زمین پر لگنے مشکل تھے. اسے سیمنٹ سے الرجی ہو گئی تھی اور چھالے مسلسل رس رہے تھے. پچھلی دفعہ ڈاکٹر نے جو مرہم لکھ کے دی تھی وہ سٹور سے دو سو درہم کی مل رہی تھی اسی لیے اس نے نہ لی لیکن اس کے بعد میڈیکل انشورنس کارڈ لے کر ہسپتال جانے کا موقع ہی نہ مل سکا.
رات کے پونے بارہ بجے جب وہ گیلی ڈانگری نچوڑ کر کمرے باہر بندھی تار پر پھیلا رہا تھا تو اس کے ذہن میں یہی سوچیں کولہو کے بیل کی طرح گردش کر رہی تھیں کہ
جب حلیمہ کو پتہ ہے کہ عاشی چکن نہیں کھاتی تو وہ ہر روز کیوں بنا لیتی یے.
اچھی سے موبائل گوگی نے لے لیا ہے تو اسے نیا آئی فون لے کے دینا پڑے گا اور
حمیرا کی نند کی شادی اللہ کرے تنخواہ کے بعد ہی ہو.
اب پتہ نہیں کرسٹن دائر کی میک اپ کٹ کتنے کی آئے گی.
کپڑوں سے آنے والی دو دنوں سے بهيگے تعفن زدہ واشنگ پاؤڈر کی سڑاند نے اسے یاد دلایا کہ
حليمہ نے پرفیوم بھی کہا تھا.



 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔