یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے جو واقعات عام طور پر مشہور ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اصلیت کیا ہے ؟
اس کا سراغ لگانا اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن کے قریب ہے راویوں کا اپنا چشم دید واقعہ کوئی نہیں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ جن کا سرخیل ایک کوفی ابو مخنف تھا ۔ جِس نے جھوٹ کا پرچار کیا جو چلتا چلتا برصغیر میں پہنچا اور پھر میڈیا نے اُچک کر زباں خاص و زدِ عام کردیا ۔
اِس پر مزید کہ شیعاً کاتبوں نے یزید کو سفاک اور ظالم منوانے کے لئے ، خالص ایرانی ذاکروں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر ، کوفہ ، بصرہ و بغداد میں قتلِ حسین کو زیادہ پُر اثر بنانے کے لئے ،انداز نالہ و شیون کو شیعاً مذہب کا حصہ بنادیا ، جس سے شامِ غریباں میں گریہ و زاری کروانے والا ذاکر کامیاب قرار پایا ۔ اور ذاکر کے کہے ہوئے الفاظ تاریخ کا حصہ بنتے گئے ۔
کذب و افتراء کی داستانیں پاک و ہند میں بہت مقبول ہوئیں ۔ اب تو انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے ، کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور پاکستان ذوالجناح کا صدقہ ہے ۔
ہندوستان کا ترنگا پرچم علی حسن و حسین کے رنگوں سے بنا ہے اور چرخہ ، اُمِ حسن و حسین کی نشانی ہے ۔
شیعا ً یاوہ گوئیاں اتنی کثرت سے پھیلائی گئیں کہ اب ہر خاص و عام اِس سچ تصوّر کرنے لگا ہے ۔
٭۔قدیم ترین راوی، ابو مخنف (لوط بن یحیٰی ابن سعید ابن مخنف الکوفی-100 ہجری ۔ وفات 157ھ)۔ -
خانہ جنگیوں پر اس کی مختلف تالیفات ہیں، جنگ جمل ، صفین اور نہروان، بیت السقیفہ اور کربلا پر "مقتل ابی مخنف" مشہور ہے،
اس میں واقعات کربلا میں بیان کیے گئے ہیں اور یہ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں سے ایک ہے۔ جو جھوٹی کہانیوں اور داستان سرائیوں سے بھر پور ہے اور بیشتر روایتیں ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں-
اس کا بیٹا ہشام اور اس قماش کے دوسرے تاریخ دانوں کو آئمہ رجال اور ان کے ہمعصر تاریخ دانوں اور بعد میں آنے والے مورخین نے کٹر شیعہ ، جھوٹا ، دروغ گو اور کذاب قرار دیا ہے۔ کربلا (60 ھجری) کے حادثے کے وقت تو ابو محنف کا اس دنیا میں وجود ہی نہ تھا ۔
شیعہ تاریخ کا یہ بدکردار داستان گو ، جس نے ، خود سے علی بن ابو طالب کے خلاف ہونے جھوٹی جنگیں کو اپنے خطبوں کی بنیاد بنایا ۔تاکہ شیعانِ علی کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔
معلوم نہیں کہ شیعوں نے اسلام باد تا کراچی جتنی مسافت کے سفر میں کیسے ایک خاتون کو اونٹ پر لے جا کر بصرہ میں علی ابنِ ابوطالب سے جنگ کروانے کی کہانی گھڑی ؟ ( فرموداتِ مفتی )
٭- أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبری ۔ (224-311)
ابن جریر طبری نے " قال ابو مخنف " کی تکرار کے ساتھ ساری روایتوں کواپنی کتاب میں شامل کر لیا۔
اور طبری سے دوسرے مورخین نے انہیں نقل در نقل اپنی تاریخوں میں شامل کرنا شروع کر دیا اس لئے ان موضوعات کو اعتبار کا درجہ حاصل ہوتا گیا۔اللہ کے الدین میں متشابھات شامل کرکے لوگوں کو بھٹکانے میں ابنِ کثیر کے بعد طبری دوسرے نمبر پر ہے ۔ ( فرموداتِ مفتی )
اب آئمہ رجال کے اقوال ان کے بارے میں سنیئے.
٭- یحیی بن معین(158-223ھ) کہ الکلبی لائق اعتماد نہیں . ۔
٭۔ ابو حاتم الرازی اسماعیلی (195-322ھ) نے متروک قرار دیا . اور فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
۔ ابن حبان (218-354ھ) فرماتے ہیں کہ الکلبی (110-204 ھ) سبائی گروہ کا تھا۔ جو کہتے ہیں کے علی کو موت نہیں آئی وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے اور اس کو عدل سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح دنیا ظلم سے بھری ہے . (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 62)
٭ ۔ ابن عدی(227-365ھ) نے فرمایا وہ تو کٹر شیعہ ہے اور شیعوں ہی کی خبریں روایت کرتا ہے.(معجم الدبا جلد 2 صفحہ 41) اور فرمایا کہ وہ کوفی تھا اور اس کی روایتیں کسی کام کی نہیں۔
٭ ۔ دار قطنی (306ھ – 385ھ )
حسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن النعمان بن دینارعبد اللہ البغدادی ہے، ان کا تعلق بغداد کے محلہ دار قطن سے تھا جس کی وجہ سے انہیں الدارقطنی کہا جاتا ہے۔
دار قطنی نے کہا کسی اعتبار کے لائق نہیں۔دار قطنی اور ائمہ رجال کی ایک جماعت نے اس کو متروک قرار دیا ہے ۔
٭ ابن عساکر (498-572ھ) نے فرمایا کہ وہ رافضی نا قابل اعتبار ہے .میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 256 ..
٭- امام ابو الفرج ابن جوزی(1116-510 ھجری )
ابنِ جوزی ، نام لکھ کر " کذاب " کے لفظ سے ان کا تعارف کراتے ہیں .( تذکرہ الموضوعاتصفحہ 286 )
٭ ابن تیمیہ (621-728ھ) نے بھی ان کو جھوٹا بتایا ہے کہ ابو محنف اور ہشام بن محمّد بن السائب کلبی اور ان جیسے راویوں کا دروغ گو اور جھوٹا ہونا تو اہل علم میں مشہور اور معروف بات ہے .( منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 13 )۔
٭۔ امام ذہبی ( حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ذهبی دمشقی ترکمانی شافعی۔ 673ھ -749)۔
ابو مخنف ، اس کا سن وفات حضرت امام ذہبی نے 170 ھ کے لگ بھگ بتایا ہے اور پیدائش حادثہ کربلا کے 40 سال بعد یعنی 100 ہجری )
٭ ۔ جلال الدین سیوطی (849۔911ھ)
امام سیوطی. "الا لی المفنو عہ فی الاحادیث الموضوعہ" صفحہ 386 میں ابو مخنف اور اس کے ہم داستان گو، الکلبی(119– 204) کے بارے میں لکھا ہے "کذابان "
٭- عبد الوهاب بن مولوي محمد غوث بن محمد بن أحمد الهندي المدرسي ۔ (1230-1287 ھجری)
صاحب "کشف الاحوال فی نقد الرجال" صفحہ 92 میں کہتے ہیں لوط بن یحیی اورابو مخنف ، کذاب تھے . ۔
٭۔ مرہ نے لکھا، کہ وہ تو کوئی چیز ہی نہیں ۔
٭۔جوزجانی کہتے ہیں ہیں وہ کذاب تھا۔
دیگر کذّاب ۔
٭- محمّد بن السائب الکلبی ابو المندر۔
٭۔اعمش کہا کرتے تھے: "اس سبائی ،الکلبی سے بچو، میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس کا نام جھوٹوں میں لیتے ہیں۔اور اس کا بیٹا ہشام ابن کلبی بھی راوی ہے اور کوئی 150 رسائل اور کتابوں کا مصنف ہے اور اس کو متروک قرار دیا ہے ۔
٭- امام سفیان ثوری کہتے ہیں: "کلبی سے بچو۔" کہا گیا: "آپ بھی تو ان سے روایت کرتے ہیں؟" کہا: "میں اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانتا ہوں۔" سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کلبی نے مجھ سے کہا: "میں ابو صالح سے جتنی روایتیں بیان کرتا ہوں، وہ سب جھوٹ ہیں۔
٭- احمد بن زہیر کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: "کیا کلبی کی تفسیر کو دیکھنا جائز ہے؟" انہوں نے کہا: "نہیں۔
٭-ا بن معین کہتے ہیں: "کلبی ثقہ نہیں ہے۔
٭- جوزجانی نے کلبی کو "کذاب" اور دارقطنی نے متروک قرار دیا ہے۔
٭-امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس کا کتاب میں ذکر کرنا درست نہیں ہے تو پھر اس سے روایت قبول کیسے کی جائے۔
ہشام بن محمد بن سائب الکلبی (d. 204/819)
یہ انہی کلبی صاحب کے بیٹے تھےاور اپنے والد سے روایات لیا کرتے تھے۔ بڑے عالم اور اخباری گزرے ہیں تاہم محدثین نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ دارقطنی نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عساکر انہیں ثقہ نہیں سمجھتے۔ 150 کتب کے مصنف تھے۔
تاریخ طبری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہشام کلبی کی بہت سی روایات، ابو مخنف ہی سے منقول ہیں۔ بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہشام نے ابو مخنف کے علاوہ کسی اور راوی سے بھی روایت کیا ہے۔ ہشام کے پڑدادا اور محمد بن سائب کے دادا جنگ جمل اور صفین میں باغی پارٹی کا حصہ تھے۔ ہشام سے ان کے بیٹے عباس بن ہشام اکثر روایت کرتے ہیں جو اسی خاندان کا حصہ ہیں۔
٭- سیف بن عمر التیمی (d. c. 185/800)
یہ صاحب کثیر تاریخی روایات کے راوی ہیں اور اس فن پر انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یحیی بن معین انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ان کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ابو حاتم نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عام روایات "منکر" ہیں۔ ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ ان پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ایسی بہت سی روایات، جو حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خلفائے راشدین کی منفی تصویر پیش کرتی ہیں، سیف بن عمر ہی سے منقول ہیں۔؎
الغرض یہ ہیں وہ راوی اور اس قماش کے دوسرے بھی جن کی من گھڑت روایتوں سے داستان کربلا مرتب ہوئی آپ لوگ عقیدت اور توہم پرستی سے ذرا ہٹ کر سوچیں جن کو امام ابن تیمیہ کچھ جھوٹ اور کذب بیانی .من گھڑت اور کذب حق نما فرماتے ہیں.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور حسین کی عظمت ، مفاد کا بھی خیال نہیں کیا فتوحات کے بارے میں جھوٹے قصے بیان کیے ہیں اور قتل حسین کی خبریں بیان کرنے والے جو اہل علم مصنف ہیں جیسے بغوی اور ابن ابی الدینا انہوں نے بھی با وجود اپنے علم کے اس بارے میں نقل ہی ماری ہے تحقیق نہیں کی اور جو مصنف بغیر سند کے اس بارے میں کہتے ہیں وہ تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے .(منہاج السنتہ جلد 2 صفحہ 248 ).۔
یہاں داستان کربلا کی من گھڑت روایتیں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے زمانۂ حال کے ایک شیعہ مورخ جناب شاکر حسین امروہی مصنف مجاہد اعظم فرماتے ہیں کہ سینکڑوں باتیں لوگوں نے اپنی طبیت اور ذہنیت کے تحت تراش لیں واقعات کی تدوین عرصۂ دراز کے بعد ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیا .۔
ابو مخنف ، اور لوط بن یحیی کربلا میں تو خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے سن سنا کر لکھے لہذا مقتل ابو مخنف ، پر بھی پورا وثوق نہیں پھر یہ کہ مقتل ابو مخنف ، کے مختلف نسخے پائے جاتے ہے ہیں ۔ جن کا بیان بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا، اور خود ابو مخنف ، واقعات کے جمع کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص نے ان کے بیان کردہ سنے سنائے واقعات کو قلمبند کر دیا ہے ۔
مختصر یہ کہ شہادت امام حسین کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے بھرے ہیں کہ اگر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا جاۓ تو کئی بڑے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے اور اکثر واقعات مثال کے طور پر
٭ ۔ تین رات اور دن پانی کا بند رہنا ،۔
٭ ۔ مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا ،
٭ ۔ شمر کا آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ کر آپ کا سر جدا کرنا ،
٭ ۔آپ کی لاش سے کپڑے تک اتار لینا ،
٭ ۔آپ کی لاش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ،
٭ ۔نبی زادوں کی چادریں تک چھین لینا ،
٭ ۔آپ کے سر مبارک کی توہین وغیرہ وغیرہ
یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے جو واقعات عام طور پر مشہور ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں!
اصلیت کیا ہے ؟
اس کا سراغ لگانا اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن کے قریب ہے راویوں کا اپنا چشم دید واقعہ کوئی نہیں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔
قدیم ترین راوی ابو مخنف ، ، لوط بن یحیی اور اس کا بیٹا ہشام اور اس قماش کے دوسرے تاریخ دانوں کو آئمہ رجال اور ان کے ہمعصر تاریخ دانوں اور بعد میں آنے والے مورخین نے کٹر شیعہ ، جھوٹا ، دروغ گو اور کذاب قرار دیا ہے۔
خانہ جنگیوں پر ان کی مختلف تالیفات ہیں ، جنگ جمل ، صفین اور نہروان اور کربلا پر "مقتل ابی مخنف ، " مشہور ہے، جو جھوٹی کہانیوں اور داستان سرائیوں سے بھر پور ہے اور بیشتر روایتیں ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں ان کی ساری روایتوں کو ابن جریر طبری نے " قال ابو مخنف ، " کی تکرار کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کر لیا
اور طبری سے دوسرے مورخین نے انہیں نقل در نقل اپنی تاریخوں میں شامل کرنا شروع کر دیا اس لئے ان موضوعات کو اعتبار کا درجہ حاصل ہوتا گیا۔
کربلا کے حادثے کے وقت تو ابو مخنف ، کا اس دنیا میں وجود ہی نہ تھا اس کا سن وفات حضرت امام ذہبی نے 170 ھ کے لگ بھگ بتایا ہے .(میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 260) اور بعض لوگوں نے 175 ھ یعنی حادثہ کربلا کے 100 سال بعد .اور وہ کس قسم کے تاریخ دان تھے آئمہ رجال کے اقوال ان کے بارے میں سنیئے.
٭ ۔ صاحب "کشف الاحوال فی نقد الرجال" صفحہ 92 میں کہتے ہیں لوط بن یحیی اور ابو محنف کذاب تھے .
٭ ۔صاحب "تذکرہ الموضوعات" نام لکھ کر " کذاب " کے لفظ سے ان کا تعارف کراتے ہیں .صفحہ 286 .
٭ ۔ امام سیوطی. "الا لی المفنو عہ فی الاحادیث الموضوعہ" صفحہ 386 میں ابو مخنف ، اور اس کے ہم داستان گو الکلبی کے بارے میں لکھا ہے "کذابان "
٭ ۔ دار قطنی نے کہا کسی اعتبار کے لائق نہیں۔
٭ ۔ ابو حاتم نے متروک قرار دیا . اور فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
٭ ۔ ابن معین کہتے ہیں کسی اعتبار کے لائق نہیں .
٭ ۔ مرہ فرماتے ہیں کہ وہ تو کوئی چیز ہی نہیں
٭ ۔ ابن عدی نے فرمایا وہ تو کٹر شیعہ ہے اور شیعوں ہی کی خبریں روایت کرتا ہے.(معجم الدبا جلد 2 صفحہ 41) اور فرمایا کہ وہ کوفی تھا اور اس کی روایتیں کسی کام کی نہیں .
٭ ۔ محمّد بن السائب کلبی ابو النصر الکونی کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں کہ الکلبی سبائی گروہ کا تھا۔ جو کہتے ہیں کے علی کو موت نہیں آئی وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے اور اس کو عدل سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم سے بھری ہے . (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 62)
٭ ۔ یحیی بن معین کہ الکلبی لائق اعتماد نہیں .
٭ ۔جوزنجانی کہتے ہیں، " وہ کذاب تھا ".
٭ ۔دار قطنی اور ائمہ رجال کی ایک جماعت نے اس کو متروک قرار دیا ہے ۔
٭ ۔ عمش نے فرمایا اس سبائی کلبی سے بچتے رہو وہ کذاب ہے .اور اس کا بیٹا ہشام بھی راوی ہے اور کوئی 150 رسائل اور کتابوں کا مصنف ہے جس کا پورا نام محمّد بن السائب الکلبی ابو المندر ہے اور اس کو متروک قرار دیا ہے .
٭ ۔ ابن عساکر نے فرمایا کہ وہ رافضی نا قابل اعتبار ہے .میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 256 .
٭ ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ان کو جھوٹا بتایا ہے فرماتے ہیں .
کہ ابو محنف اور ہشام بن محمّد بن السائب کلبی اور ان جیسے راویوں کا دروغ گو اور جھوٹا ہونا تو اہل علم میں مشہور اور معروف بات ہے . منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 13 .
الغرض یہ ہیں وہ راوی اور اس قماش کے دوسرے بھی جن کی من گھڑت روایتوں سے داستان کربلا مرتب ہوئی آپ لوگ عقیدت اور توہم پرستی سے ذرا ہٹ کر سوچیں جن کو امام ابن تیمیہ کچھ جھوٹ اور کذب بیانی .من گھڑت اور کذب حق نما فرماتے ہیں.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور حسین کی عظمت ، مفاد کا بھی خیال نہیں کیا فتوحات کے بارے میں جھوٹے قصے بیان کیے ہیں اور قتل حسین کی خبریں بیان کرنے والے جو اہل علم مصنف ہیں جیسے بغوی اور ابن ابی الدینا انہوں نے بھی با وجود اپنے علم کے اس بارے میں نقل ہی ماری ہے تحقیق نہیں کی اور جو مصنف بغیر سند کے اس بارے میں کہتے ہیں وہ تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے .(منہاج السنتہ جلد 2 صفحہ 248 ).
یہاں داستان کربلا کی من گھڑت روایتیں بیان کرنے کا موقح نہیں ہے زمانۂ حال کے ایک شیعہ مورخ جناب شاکر حسین امروہی مصنف مجاہد اعظم فرماتے ہیں کہ سینکڑوں باتیں لوگوں نے اپنی طبیت اور ذہنیت کے تحت تراش لیں واقعات کی تدوین عرصۂ دراز کے بعد ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیا .
ابو محنف اور لوط بن یحیی کربلا میں تو خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے سن سنا کر لکھے لہذا مقتل ابو محنف پر بھی پورا وثوق نہیں پھر یہ کہ مقتل ابو محنف کے مختلف نسخے پائے جاتے ہے ہیں ۔ جن کا بیان بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا اور خود ابو محنف واقعات کے جمح کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص نے ان کے بیان کردہ سنے سنائے واقعات کو قلمبند کر دیا ہے ۔
مختصر یہ کہ شہادت امام حسین کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے بھرے ہیں کہ اگر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا جاۓ تو کئی بڑے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے اور اکثر واقعات مثال کے طور پر ٭ ۔ تین رات اور دن پانی کا بند رہنا ،
٭ ۔ مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا ،
٭ ۔ شمر کا آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ کر آپ کا سر جدا کرنا ،
٭ ۔آپ کی لاش سے کپڑے تک اتار لینا ،
٭ ۔آپ کی لاش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ،
٭ ۔نبی زادوں کی چادریں تک چھین لینا ،
٭ ۔آپ کے سر مبارک کی توہین وغیرہ وغیرہ
نہایت مشہور اور ہر شخص کی زبان پر ہیں حالانکہ ان میں سے بعض سرے سے غلط ہیں ، بعض مشکوک ہیں بعض ضیف بعض مبالغہ آمیز اور بعض تو بالکل من گھڑت ہیں
اصلیت کیا ہے ؟
اس کا سراغ لگانا اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن کے قریب ہے راویوں کا اپنا چشم دید واقعہ کوئی نہیں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ جن کا سرخیل ایک کوفی ابو مخنف تھا ۔ جِس نے جھوٹ کا پرچار کیا جو چلتا چلتا برصغیر میں پہنچا اور پھر میڈیا نے اُچک کر زباں خاص و زدِ عام کردیا ۔
اِس پر مزید کہ شیعاً کاتبوں نے یزید کو سفاک اور ظالم منوانے کے لئے ، خالص ایرانی ذاکروں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر ، کوفہ ، بصرہ و بغداد میں قتلِ حسین کو زیادہ پُر اثر بنانے کے لئے ،انداز نالہ و شیون کو شیعاً مذہب کا حصہ بنادیا ، جس سے شامِ غریباں میں گریہ و زاری کروانے والا ذاکر کامیاب قرار پایا ۔ اور ذاکر کے کہے ہوئے الفاظ تاریخ کا حصہ بنتے گئے ۔
کذب و افتراء کی داستانیں پاک و ہند میں بہت مقبول ہوئیں ۔ اب تو انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے ، کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور پاکستان ذوالجناح کا صدقہ ہے ۔
ہندوستان کا ترنگا پرچم علی حسن و حسین کے رنگوں سے بنا ہے اور چرخہ ، اُمِ حسن و حسین کی نشانی ہے ۔
شیعا ً یاوہ گوئیاں اتنی کثرت سے پھیلائی گئیں کہ اب ہر خاص و عام اِس سچ تصوّر کرنے لگا ہے ۔
٭۔قدیم ترین راوی، ابو مخنف (لوط بن یحیٰی ابن سعید ابن مخنف الکوفی-100 ہجری ۔ وفات 157ھ)۔ -
خانہ جنگیوں پر اس کی مختلف تالیفات ہیں، جنگ جمل ، صفین اور نہروان، بیت السقیفہ اور کربلا پر "مقتل ابی مخنف" مشہور ہے،
اس میں واقعات کربلا میں بیان کیے گئے ہیں اور یہ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں سے ایک ہے۔ جو جھوٹی کہانیوں اور داستان سرائیوں سے بھر پور ہے اور بیشتر روایتیں ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں-
اس کا بیٹا ہشام اور اس قماش کے دوسرے تاریخ دانوں کو آئمہ رجال اور ان کے ہمعصر تاریخ دانوں اور بعد میں آنے والے مورخین نے کٹر شیعہ ، جھوٹا ، دروغ گو اور کذاب قرار دیا ہے۔ کربلا (60 ھجری) کے حادثے کے وقت تو ابو محنف کا اس دنیا میں وجود ہی نہ تھا ۔
شیعہ تاریخ کا یہ بدکردار داستان گو ، جس نے ، خود سے علی بن ابو طالب کے خلاف ہونے جھوٹی جنگیں کو اپنے خطبوں کی بنیاد بنایا ۔تاکہ شیعانِ علی کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔
معلوم نہیں کہ شیعوں نے اسلام باد تا کراچی جتنی مسافت کے سفر میں کیسے ایک خاتون کو اونٹ پر لے جا کر بصرہ میں علی ابنِ ابوطالب سے جنگ کروانے کی کہانی گھڑی ؟ ( فرموداتِ مفتی )
٭- أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبری ۔ (224-311)
ابن جریر طبری نے " قال ابو مخنف " کی تکرار کے ساتھ ساری روایتوں کواپنی کتاب میں شامل کر لیا۔
اور طبری سے دوسرے مورخین نے انہیں نقل در نقل اپنی تاریخوں میں شامل کرنا شروع کر دیا اس لئے ان موضوعات کو اعتبار کا درجہ حاصل ہوتا گیا۔اللہ کے الدین میں متشابھات شامل کرکے لوگوں کو بھٹکانے میں ابنِ کثیر کے بعد طبری دوسرے نمبر پر ہے ۔ ( فرموداتِ مفتی )
اب آئمہ رجال کے اقوال ان کے بارے میں سنیئے.
٭- یحیی بن معین(158-223ھ) کہ الکلبی لائق اعتماد نہیں . ۔
٭۔ ابو حاتم الرازی اسماعیلی (195-322ھ) نے متروک قرار دیا . اور فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
۔ ابن حبان (218-354ھ) فرماتے ہیں کہ الکلبی (110-204 ھ) سبائی گروہ کا تھا۔ جو کہتے ہیں کے علی کو موت نہیں آئی وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے اور اس کو عدل سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح دنیا ظلم سے بھری ہے . (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 62)
٭ ۔ ابن عدی(227-365ھ) نے فرمایا وہ تو کٹر شیعہ ہے اور شیعوں ہی کی خبریں روایت کرتا ہے.(معجم الدبا جلد 2 صفحہ 41) اور فرمایا کہ وہ کوفی تھا اور اس کی روایتیں کسی کام کی نہیں۔
٭ ۔ دار قطنی (306ھ – 385ھ )
حسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن النعمان بن دینارعبد اللہ البغدادی ہے، ان کا تعلق بغداد کے محلہ دار قطن سے تھا جس کی وجہ سے انہیں الدارقطنی کہا جاتا ہے۔
دار قطنی نے کہا کسی اعتبار کے لائق نہیں۔دار قطنی اور ائمہ رجال کی ایک جماعت نے اس کو متروک قرار دیا ہے ۔
٭ ابن عساکر (498-572ھ) نے فرمایا کہ وہ رافضی نا قابل اعتبار ہے .میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 256 ..
٭- امام ابو الفرج ابن جوزی(1116-510 ھجری )
ابنِ جوزی ، نام لکھ کر " کذاب " کے لفظ سے ان کا تعارف کراتے ہیں .( تذکرہ الموضوعاتصفحہ 286 )
٭ ابن تیمیہ (621-728ھ) نے بھی ان کو جھوٹا بتایا ہے کہ ابو محنف اور ہشام بن محمّد بن السائب کلبی اور ان جیسے راویوں کا دروغ گو اور جھوٹا ہونا تو اہل علم میں مشہور اور معروف بات ہے .( منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 13 )۔
٭۔ امام ذہبی ( حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ذهبی دمشقی ترکمانی شافعی۔ 673ھ -749)۔
ابو مخنف ، اس کا سن وفات حضرت امام ذہبی نے 170 ھ کے لگ بھگ بتایا ہے اور پیدائش حادثہ کربلا کے 40 سال بعد یعنی 100 ہجری )
٭ ۔ جلال الدین سیوطی (849۔911ھ)
امام سیوطی. "الا لی المفنو عہ فی الاحادیث الموضوعہ" صفحہ 386 میں ابو مخنف اور اس کے ہم داستان گو، الکلبی(119– 204) کے بارے میں لکھا ہے "کذابان "
٭- عبد الوهاب بن مولوي محمد غوث بن محمد بن أحمد الهندي المدرسي ۔ (1230-1287 ھجری)
صاحب "کشف الاحوال فی نقد الرجال" صفحہ 92 میں کہتے ہیں لوط بن یحیی اورابو مخنف ، کذاب تھے . ۔
٭۔ مرہ نے لکھا، کہ وہ تو کوئی چیز ہی نہیں ۔
٭۔جوزجانی کہتے ہیں ہیں وہ کذاب تھا۔
دیگر کذّاب ۔
٭- محمّد بن السائب الکلبی ابو المندر۔
٭۔اعمش کہا کرتے تھے: "اس سبائی ،الکلبی سے بچو، میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس کا نام جھوٹوں میں لیتے ہیں۔اور اس کا بیٹا ہشام ابن کلبی بھی راوی ہے اور کوئی 150 رسائل اور کتابوں کا مصنف ہے اور اس کو متروک قرار دیا ہے ۔
٭- امام سفیان ثوری کہتے ہیں: "کلبی سے بچو۔" کہا گیا: "آپ بھی تو ان سے روایت کرتے ہیں؟" کہا: "میں اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانتا ہوں۔" سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کلبی نے مجھ سے کہا: "میں ابو صالح سے جتنی روایتیں بیان کرتا ہوں، وہ سب جھوٹ ہیں۔
٭- احمد بن زہیر کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: "کیا کلبی کی تفسیر کو دیکھنا جائز ہے؟" انہوں نے کہا: "نہیں۔
٭-ا بن معین کہتے ہیں: "کلبی ثقہ نہیں ہے۔
٭- جوزجانی نے کلبی کو "کذاب" اور دارقطنی نے متروک قرار دیا ہے۔
٭-امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس کا کتاب میں ذکر کرنا درست نہیں ہے تو پھر اس سے روایت قبول کیسے کی جائے۔
ہشام بن محمد بن سائب الکلبی (d. 204/819)
یہ انہی کلبی صاحب کے بیٹے تھےاور اپنے والد سے روایات لیا کرتے تھے۔ بڑے عالم اور اخباری گزرے ہیں تاہم محدثین نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ دارقطنی نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عساکر انہیں ثقہ نہیں سمجھتے۔ 150 کتب کے مصنف تھے۔
تاریخ طبری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہشام کلبی کی بہت سی روایات، ابو مخنف ہی سے منقول ہیں۔ بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہشام نے ابو مخنف کے علاوہ کسی اور راوی سے بھی روایت کیا ہے۔ ہشام کے پڑدادا اور محمد بن سائب کے دادا جنگ جمل اور صفین میں باغی پارٹی کا حصہ تھے۔ ہشام سے ان کے بیٹے عباس بن ہشام اکثر روایت کرتے ہیں جو اسی خاندان کا حصہ ہیں۔
٭- سیف بن عمر التیمی (d. c. 185/800)
یہ صاحب کثیر تاریخی روایات کے راوی ہیں اور اس فن پر انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یحیی بن معین انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ان کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ابو حاتم نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عام روایات "منکر" ہیں۔ ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ ان پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ایسی بہت سی روایات، جو حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خلفائے راشدین کی منفی تصویر پیش کرتی ہیں، سیف بن عمر ہی سے منقول ہیں۔؎
الغرض یہ ہیں وہ راوی اور اس قماش کے دوسرے بھی جن کی من گھڑت روایتوں سے داستان کربلا مرتب ہوئی آپ لوگ عقیدت اور توہم پرستی سے ذرا ہٹ کر سوچیں جن کو امام ابن تیمیہ کچھ جھوٹ اور کذب بیانی .من گھڑت اور کذب حق نما فرماتے ہیں.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور حسین کی عظمت ، مفاد کا بھی خیال نہیں کیا فتوحات کے بارے میں جھوٹے قصے بیان کیے ہیں اور قتل حسین کی خبریں بیان کرنے والے جو اہل علم مصنف ہیں جیسے بغوی اور ابن ابی الدینا انہوں نے بھی با وجود اپنے علم کے اس بارے میں نقل ہی ماری ہے تحقیق نہیں کی اور جو مصنف بغیر سند کے اس بارے میں کہتے ہیں وہ تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے .(منہاج السنتہ جلد 2 صفحہ 248 ).۔
یہاں داستان کربلا کی من گھڑت روایتیں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے زمانۂ حال کے ایک شیعہ مورخ جناب شاکر حسین امروہی مصنف مجاہد اعظم فرماتے ہیں کہ سینکڑوں باتیں لوگوں نے اپنی طبیت اور ذہنیت کے تحت تراش لیں واقعات کی تدوین عرصۂ دراز کے بعد ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیا .۔
ابو مخنف ، اور لوط بن یحیی کربلا میں تو خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے سن سنا کر لکھے لہذا مقتل ابو مخنف ، پر بھی پورا وثوق نہیں پھر یہ کہ مقتل ابو مخنف ، کے مختلف نسخے پائے جاتے ہے ہیں ۔ جن کا بیان بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا، اور خود ابو مخنف ، واقعات کے جمع کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص نے ان کے بیان کردہ سنے سنائے واقعات کو قلمبند کر دیا ہے ۔
مختصر یہ کہ شہادت امام حسین کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے بھرے ہیں کہ اگر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا جاۓ تو کئی بڑے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے اور اکثر واقعات مثال کے طور پر
٭ ۔ تین رات اور دن پانی کا بند رہنا ،۔
٭ ۔ مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا ،
٭ ۔ شمر کا آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ کر آپ کا سر جدا کرنا ،
٭ ۔آپ کی لاش سے کپڑے تک اتار لینا ،
٭ ۔آپ کی لاش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ،
٭ ۔نبی زادوں کی چادریں تک چھین لینا ،
٭ ۔آپ کے سر مبارک کی توہین وغیرہ وغیرہ
یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے جو واقعات عام طور پر مشہور ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں!
اصلیت کیا ہے ؟
اس کا سراغ لگانا اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن کے قریب ہے راویوں کا اپنا چشم دید واقعہ کوئی نہیں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔
قدیم ترین راوی ابو مخنف ، ، لوط بن یحیی اور اس کا بیٹا ہشام اور اس قماش کے دوسرے تاریخ دانوں کو آئمہ رجال اور ان کے ہمعصر تاریخ دانوں اور بعد میں آنے والے مورخین نے کٹر شیعہ ، جھوٹا ، دروغ گو اور کذاب قرار دیا ہے۔
خانہ جنگیوں پر ان کی مختلف تالیفات ہیں ، جنگ جمل ، صفین اور نہروان اور کربلا پر "مقتل ابی مخنف ، " مشہور ہے، جو جھوٹی کہانیوں اور داستان سرائیوں سے بھر پور ہے اور بیشتر روایتیں ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں ان کی ساری روایتوں کو ابن جریر طبری نے " قال ابو مخنف ، " کی تکرار کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کر لیا
اور طبری سے دوسرے مورخین نے انہیں نقل در نقل اپنی تاریخوں میں شامل کرنا شروع کر دیا اس لئے ان موضوعات کو اعتبار کا درجہ حاصل ہوتا گیا۔
کربلا کے حادثے کے وقت تو ابو مخنف ، کا اس دنیا میں وجود ہی نہ تھا اس کا سن وفات حضرت امام ذہبی نے 170 ھ کے لگ بھگ بتایا ہے .(میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 260) اور بعض لوگوں نے 175 ھ یعنی حادثہ کربلا کے 100 سال بعد .اور وہ کس قسم کے تاریخ دان تھے آئمہ رجال کے اقوال ان کے بارے میں سنیئے.
٭ ۔ صاحب "کشف الاحوال فی نقد الرجال" صفحہ 92 میں کہتے ہیں لوط بن یحیی اور ابو محنف کذاب تھے .
٭ ۔صاحب "تذکرہ الموضوعات" نام لکھ کر " کذاب " کے لفظ سے ان کا تعارف کراتے ہیں .صفحہ 286 .
٭ ۔ امام سیوطی. "الا لی المفنو عہ فی الاحادیث الموضوعہ" صفحہ 386 میں ابو مخنف ، اور اس کے ہم داستان گو الکلبی کے بارے میں لکھا ہے "کذابان "
٭ ۔ دار قطنی نے کہا کسی اعتبار کے لائق نہیں۔
٭ ۔ ابو حاتم نے متروک قرار دیا . اور فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
٭ ۔ ابن معین کہتے ہیں کسی اعتبار کے لائق نہیں .
٭ ۔ مرہ فرماتے ہیں کہ وہ تو کوئی چیز ہی نہیں
٭ ۔ ابن عدی نے فرمایا وہ تو کٹر شیعہ ہے اور شیعوں ہی کی خبریں روایت کرتا ہے.(معجم الدبا جلد 2 صفحہ 41) اور فرمایا کہ وہ کوفی تھا اور اس کی روایتیں کسی کام کی نہیں .
٭ ۔ محمّد بن السائب کلبی ابو النصر الکونی کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں کہ الکلبی سبائی گروہ کا تھا۔ جو کہتے ہیں کے علی کو موت نہیں آئی وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے اور اس کو عدل سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم سے بھری ہے . (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 62)
٭ ۔ یحیی بن معین کہ الکلبی لائق اعتماد نہیں .
٭ ۔جوزنجانی کہتے ہیں، " وہ کذاب تھا ".
٭ ۔دار قطنی اور ائمہ رجال کی ایک جماعت نے اس کو متروک قرار دیا ہے ۔
٭ ۔ عمش نے فرمایا اس سبائی کلبی سے بچتے رہو وہ کذاب ہے .اور اس کا بیٹا ہشام بھی راوی ہے اور کوئی 150 رسائل اور کتابوں کا مصنف ہے جس کا پورا نام محمّد بن السائب الکلبی ابو المندر ہے اور اس کو متروک قرار دیا ہے .
٭ ۔ ابن عساکر نے فرمایا کہ وہ رافضی نا قابل اعتبار ہے .میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 256 .
٭ ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ان کو جھوٹا بتایا ہے فرماتے ہیں .
کہ ابو محنف اور ہشام بن محمّد بن السائب کلبی اور ان جیسے راویوں کا دروغ گو اور جھوٹا ہونا تو اہل علم میں مشہور اور معروف بات ہے . منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 13 .
الغرض یہ ہیں وہ راوی اور اس قماش کے دوسرے بھی جن کی من گھڑت روایتوں سے داستان کربلا مرتب ہوئی آپ لوگ عقیدت اور توہم پرستی سے ذرا ہٹ کر سوچیں جن کو امام ابن تیمیہ کچھ جھوٹ اور کذب بیانی .من گھڑت اور کذب حق نما فرماتے ہیں.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور حسین کی عظمت ، مفاد کا بھی خیال نہیں کیا فتوحات کے بارے میں جھوٹے قصے بیان کیے ہیں اور قتل حسین کی خبریں بیان کرنے والے جو اہل علم مصنف ہیں جیسے بغوی اور ابن ابی الدینا انہوں نے بھی با وجود اپنے علم کے اس بارے میں نقل ہی ماری ہے تحقیق نہیں کی اور جو مصنف بغیر سند کے اس بارے میں کہتے ہیں وہ تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے .(منہاج السنتہ جلد 2 صفحہ 248 ).
یہاں داستان کربلا کی من گھڑت روایتیں بیان کرنے کا موقح نہیں ہے زمانۂ حال کے ایک شیعہ مورخ جناب شاکر حسین امروہی مصنف مجاہد اعظم فرماتے ہیں کہ سینکڑوں باتیں لوگوں نے اپنی طبیت اور ذہنیت کے تحت تراش لیں واقعات کی تدوین عرصۂ دراز کے بعد ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیا .
ابو محنف اور لوط بن یحیی کربلا میں تو خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے سن سنا کر لکھے لہذا مقتل ابو محنف پر بھی پورا وثوق نہیں پھر یہ کہ مقتل ابو محنف کے مختلف نسخے پائے جاتے ہے ہیں ۔ جن کا بیان بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا اور خود ابو محنف واقعات کے جمح کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص نے ان کے بیان کردہ سنے سنائے واقعات کو قلمبند کر دیا ہے ۔
مختصر یہ کہ شہادت امام حسین کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے بھرے ہیں کہ اگر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا جاۓ تو کئی بڑے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے اور اکثر واقعات مثال کے طور پر ٭ ۔ تین رات اور دن پانی کا بند رہنا ،
٭ ۔ مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا ،
٭ ۔ شمر کا آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ کر آپ کا سر جدا کرنا ،
٭ ۔آپ کی لاش سے کپڑے تک اتار لینا ،
٭ ۔آپ کی لاش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ،
٭ ۔نبی زادوں کی چادریں تک چھین لینا ،
٭ ۔آپ کے سر مبارک کی توہین وغیرہ وغیرہ
نہایت مشہور اور ہر شخص کی زبان پر ہیں حالانکہ ان میں سے بعض سرے سے غلط ہیں ، بعض مشکوک ہیں بعض ضیف بعض مبالغہ آمیز اور بعض تو بالکل من گھڑت ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭