Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 30 ستمبر، 2021

انسان۔ بچہ اور بیداریِ فکر۔1

آفاقی سچائیاں ۔ انسان۔ بچہ اور بیداری ءِ فکر

تمہید۔

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے دوستو !۔
خالد مہاجر زادہ کا سفر 7 محرّم  ( 16 ستمبر)  1953 کو عصر کے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد اِس دنیا میں شروع ہوتا ہے(بوڑھے کے بچپن میں تواریخ ایسے یاد رکھی جاتی تھیں ) اور اللہ کا احسان ہے کہ اب تک جاری ہے ۔ 28 اگست 2021 کو تقریباً دوپہر 2:00 بجے کے بعد گھر کے ارد گرد  سوکھے پتوں کے  جلانے سے  دھوئیں سے پھیلی ہوئی مسموم فضاء  کی وجہ سے ،
68 سالہ بوڑھے کو اپنی آخری سالگرہ منانے سے 18 دن پہلے ، دمے کا حملہ کھانسی کی صورت میں شروع ہوا ۔جس کو وینٹولین کے بخارات بھی ختم نہ کرسکے ۔ نیبولائزر نے بھی شدت میں کمی نہ آنے دی ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ فضاء میں آکسیجن کم ہوتی جارہی ہے ۔ 2:45 منٹ پر بوڑھا اپسنے پھیپھڑوں پر پڑنے والے پیٹ کے دباؤ کی شدت کو کم کرنے کے لئے کھڑا ہوا ، تاکہ پھیپڑوں میں جانے ولی آکسیجن تھوڑی زیادہ ہوجائے ۔ بوڑھے کو شاید کھانسی سے پسینے آرہے تھے ۔ وہ بڑھیا کو ہدایات دینے ، بہو اور بڑی بیٹی کے سوالات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ دو آیات دھرا رہا تھا ۔ جو کائینات میں سے بوڑھے کے ذہن میں ،سیاچین میں میت خانے میں پڑی ہوئی۔ جولائی 1993  میں ، کیپٹن شفیق آرٹلری (چکوال)اور برف میں دبنے والے 7 پنجاب رجمنٹ کے دو جوانوں کے اکڑے ہوئے جسموں کو دیکھتے ہوئے اُبھریں ۔

 اللّهُ لَا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [3:2]

پہلی آیت۔ بوڑھے کے ذہن میں اُس وقت بیدار ہوئی جب 11 مئی 1991 کو بوڑھے کا بیوی بچوں ، ساس و سسر اور سالے کے دو بچوں  کے ساتھ حیدر آباد سے میرپورخاص جانے والی سڑک پر  کوئی ڈھائی بجے کے لگ بھگ ہوا ۔اُس کے بعد سے   بوڑھے کی عادت  بن گئی ۔

پھر اِس میں ۔ والد کے اللہ کی امان میں جانے کے بعد ۔   دوسری آیت شامل ہو گئی ۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ [14:41]

  تیسری اور آخری آیت ۔جو بوڑھے کو 2000 میں ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد شفٹ   ہونے  پر، مذہبی   میٹنگزاور سوشل میڈیا کے ذریعے ،  قرآنی سوچ  پر پروان چڑھنے والے  دوستوں   کے  ، القرآن  اور غیر از قرآن فہم کے بعد  ملی  ۔

 مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا [33:40]

 اور بوڑھے  نے   کائینات کے خالق رب العالمین (یعنی  معلّم القرآن)    اور رحمت للعالمین  کے درمیا ن  ،کتاب اللہ (اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائینات) اور الکتاب (القرآن) کو رکھ کر ایک حتمی لکیر کھینچ دی کہ اِس  متوازی لائن کے باہر نہیں نکلنا ۔  کیوں کہ لَا إِلَـهَ إِلاَّ اللّهُ  کے درمیان  القرآن جس کو انسانوں تک  بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک پہنچانے کے بعد وہ     مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ   کے منصب پر سرفراز ہو کر  خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ قرار پائے ۔جس پر  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ نےآدھا عمل کیا

 ٭- کتاب اللہ (بوڑھا مرکز اور اُس کو حواسِ خمسہ سے ملنے والی تمام معلومات )   سے بوڑھے کے نفس کو انسان کا بچہ (الانعام نہیں)  رہنے پر مدد ملی   ۔ کیوں کہ آپ ہی کی طرح بوڑھے کے حواس خمسہ کا تعلق بیرونی دنیا سے ہے ۔ جس سے آپ کا اُس وقت رابطہ ختم ہوجاتا ہے ۔ جب آپ نیند کی آغوش یا بے ہوشی میں چلے جاتے ہیں ۔ 

گویا آپ کے اندر کی دنیا  اور آپ کے باہر کی دنیا جس کا مرکز آپ ہیں ، اور اِن دونوں دنیاؤں کے درمیان رابطہ آپ کے حواسِ خمسہ ۔جس کے بارے میں آگے چل کر بات ہوگی ۔

 ٭- القرآن ۔ روح القدّس (جبرائیل) نے مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين کو ، کائینات کے خالق کا ناقابلِ تبدیل حکم ، عربی میں قرءت کرکے صدیوں پہلےتاریخ کے مطابق  ۔اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ تک پہنچایا ۔

 جسے سے سننے والوں نے ، عربی میں ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين (القرآن کے پہلے حافظ ) تک  ایک تسلسل میں ،  حفظ کیا   ۔اور مسلسل حفظ کرتے آرہے ہیں ۔
 کسی ایک نے بھی، جی ہاں کسی ایک نے بھی، تاریخ کی کتابوں  سے نزول   القرآن ۔اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ تک حفظ  نہیں کیا ۔ 
یہ اللہ کے کلام کا حفظ،   جی ہاں ، عربی میں ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک ،کرہءِ ارض پر انسانوں کے لئے  القرآن کہلایا جاتا  رہا  ۔القرآن  کہا جاتا ہے اور القرآن کہلایا جاتا رہے گا ۔اور ہمیشہ حفّاظ  ( اللہ کے منتخب انسانوں   کے دماغ کی ھارڈ  ڈسک میں  ) ناقابلِ تبدیل رہے گا کیوں کہ یہ ۔۔ ۔  ۔ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ ۔ ۔ ۔ [2:185]

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے پیارے    دوستو !۔

آپ سوچ رہے ہوگے کہ یہ ساری باتیں تو آپ کو بھی معلوم ہیں ، تو یہ بوڑھے کو کیا ہوا  ؟ 

کہ وہ ہمیں رٹّاا ہوا سبق پڑھانے چلا ہے ۔ 

دوستو ،میں آپ کو کوئی سبق نہیں پڑھا رھا  اور نہ ہی اِس بوڑھے کی یہ ہمت و طاقت ہے ۔ کہ کسی بھی انسان  کو  اُس کے دماغ میں موجود ، پڑھائے ہوئے سبق  مزید پڑھا سکے اور یا  تبدیل کر سکے ۔ جو آپ کے دماغوں میں ،حواسِ خمسہ کے ذریعے  مختلف  صفات کی صورت میں الفاظ کا فہم  بن کر ،   پیدائش کے بعد سے اب تک رقم ہو گیا وہ اَن مٹ ہے ۔ 

یہی اِس بوڑھے کا حال ہے ۔

 ہاں البتہ بوڑھا  بھی آپ ہی کی طرح  ،دماغ  کی ھارڈ ڈسک میں ، جمع ہونے والی مختلف صفات کا  اپنے ذہن میں تجزیہ کرکے اپنا ایک فہم بناتا رہتا ہے ۔  

بوڑھے کے نزدیک ہر انسان کا  دماغ ،  ایک ھارڈ ڈسک اور کتاب اللہ کا مرکز(بوڑھے کے  لئے  ، بوڑھے کا دماغ  جس کا مرکز ہے ، چنانچہ بوڑھے کے لئے کتاب اللہ ،بوڑھے کے باہر اور اندر کی دنیا  پر مشتمل مکمل ریکارڈ ہے )   ۔

لہذا بوڑھے کی ، کتاب اللہ  جو اُسے کے دماغ میں، پیدائش   پر ، حواسِ خمسہ کے بیدار ہونے  کے بعد     ،  حواسِ خمسہ سے  ہر سیکنڈ میں ملنے والی تمام معلومات  کا ریکارڈ کتابت ہو چکا ہے  اور ذہن کا کام حواسِ خمسہ سے دماغ  میں  کتابت ہوئی ،    اِن  تمام معلومات کو جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد پر ہر سیکنڈ  میں  میموری ( شعور) میں لا کر  تجزیہ کرنا اپنے ذہن میں نئی صفا ت بنانا     اور اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا  اور جسے واپس اپنے  دماغ میں دوبارہ محفوظ کر دینا یا  اُس میں اضافہ یا کمی کرکے محفوظ کر دینا ۔اور باقی تمام معلومات کو تحت الشعور میں ڈال دینا  ہے ۔آپ کا ماضی آپ کے تحت الشعور کا حصہ بنتا جا رہاہے ۔ اور آپ کا حال آپ کا شعور ہے ۔

 تحت الشعور اور شعور کے درمیان ربط  صرف اُن معلومات کو رہتا ہے  جن کو آپ  ایک مخصوص سائیکلک  لنک سے جوڑتے ہیں ۔ یہ سائیکلک لنک ، یاداشت کہلاتا ہے ۔ جو سوچ  کی زنجیر پر شعور میں آتا ہے ،اگر اُس معلومات کی آپ کو ضرورت نہیں رہتی تو وہ تحت الشعور میں  شعور سے دور جاتی رہتی ہے ۔   اگر  مہاجرزادہ ،  تصویر کی مدد سے سمجھائے  تو اِس طرح ہوگا ۔

یہ ایک برفانی تودہ ہے  جو گلیشیئر سے ٹوٹ کر سمندر میں تیرتا ہے ۔ اور جس کی ایک معمولی سے چوٹی اُس کا پتہ دیتی ہے ۔ آپ اِسے عارضی طور پر ایک دماغ سمجھیں  ۔ اور اِس کی سمندر سے اوپر تیرتی ہوئی سطح کو ذہن ۔ ذہن جس کا تعلق بیرونی دنیا سے ہے اور جو اندرونی دنیا کو اطلاعات دیتا ہے ۔ اِس میں شعور اور تحت الشعور کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 

آپ کے ذہن میں کوئی سوچ ابھرتی ہے ۔ جوباہر کی دنیا سے ملنے والے پیغام کے سہارے  تحت الشعور سے شعور میں آنے کی کوشش کرتی ہے مگر آپ کا یاداشت کا لنک ٹوٹا ہوا ہے ۔ لہذا آپ کے ذہن میں کہاں اور کب جیسی لہریں اُٹھتی ہیں ۔ 

لیکن یہ لہریں ، یوں سمجھیں کہ تحت الشعور سے اُٹھنے والے یہ  سوچ کے  چھوٹے چھوٹے بلبلے اندازہً  70 ہزار ہوتے  ہیں، جو روزانہ آپ کے ذہن  میں  بنتے ہیں ۔ یہ  اتنے ننھے کہ  سیکنڈوں میں معدوم ہوجاتے ہیں ۔ لیکن آپ اِ ن بلبلوں کو آپس میں جوڑ کر تھوڑا سا بڑا کر لیں ۔ تو یہ تھوڑا اور اوپر  آجائے گا لیکن پھر بھی شعور کی گرفت میں نہیں آئے گا ۔

ویسے کیا واقعی آپ کے ذہن میں روزانہ 70 ہزار سوچ کے بلبلے جنم لیتے ہیں ؟
آپ بھی کہیں گے کہ مہاجرزادہ نے بہت بڑی گپ لگائی کیا ایسا ممکن ہے  ؟

شعور کی گرفت میں لانے کے لئے آپ اپنے سوچ کے بلبلے کو اتنا بڑا کر لیں کہ یہ تحت الشعور کی تہہ سے اُٹھے اور اُس سوچ کی بلبلوں کو کھینچتا ہوا ایک جوار بھاٹا کی صورت میں آکر  آپ کے شعور میں تمام معلومات اور جزئیات کے ساتھ آکر پھٹے اور وقتی طور پر پورے شعور پر چھا جائے ۔ اور بعض دفعہ تو وہ ننھا سا بلبلہ خود، اُسی قسم کے تمام بلبلوں کو دماغ سے کھینچ کر ، ایک جوار بھاٹا بن جاتا ہے ۔

اِسے بیداری ءِ فکر کہتے ہیں ۔ کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے ؟ 

نہیں نا ۔

لیکن ہو سکتا ہے !۔

مگر کیسے ؟
چلیں آگے بڑھتے ہیں اور اپنی  بیداری ءِ فکر کو ایک ایڑ لگائیں تاکہ وہ سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑنے لگے ۔

اگلا مضمون:   بچہ اور بیداریءِ فکر۔  


٭٭٭٭مزیدمضامین  پڑھنے کے لئے  فہرست پر واپس  جائیں ۔ شکریہ ٭٭٭٭


 پچھلا مضمون :زیرو  پوائینٹ سے آخری پوائینٹ تک 



پیر، 27 ستمبر، 2021

شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر 1775۔1860

آج سے ٹھیک 184 برس قبل یعنی 28 ستمبر 1837 کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تاجپوشی 62 سال کی عمر میں  ہوئی تھی۔ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی قبر کا نام و نشان نہیں ملتا تھا، لیکن اب اس کی حادثاتی دریافت نے اس صوفی بزرگ، عمدہ اردو شاعر اور تاریخ کے بدنصیب بادشاہوں میں سے ایک کی یاد دوبارہ تازہ کر دی ہے۔

 بہادر شاہ ظفر کا نام ابو ظفر سراج الدین محمد تھا۔ ان کی ولادت اکبر شاہ ثانی کے زمانۂ ولی عہدی میں ان کی ہندو بیوی لال بائی کے بطن سے 14 اکتوبر 1775 میں ہوئی۔ ابو ظفر تاریخی نام ہے۔ اسی مطابقت سے انہوں اپنا تخلص ظفر رکھا۔ چونکہ بہادر شاہ کے جد امجد اورنگ زیب کے بیٹے کا لقب بھی بہادر شاہ تھا لہٰذا وہ بہادر شاہ ثانی کہلائے۔ ان کی تعلیم قلعۂ معلی میں پورے اہتمام کے ساتھ ہوئی اور انہوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ لال قلعہ کی تہذیبی زندگی اور اس کے مشاغل میں بھی انہوں نے گہری دلچسپی لی۔ 

شاہ عالم ثانی کا انتقال اس وقت ہوا جب ظفر کی عمر 31 سال تھی لہٰذا انہیں دادا کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملا۔ ان ہی کی صحبت کے نتیجہ میں بہادر شاہ ظفر کو مختلف زبانوں پر قدرت حاصل ہوئی۔ اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ برج بھاشا اور پنجابی میں بھی ان کا کلام موجود ہے۔ ظفر منکسر المزاج اور خلیق انسان تھے۔ ان کے اندر حلم و ترحم تھا اور غرور و نخوت ان کو چھو کر نہیں گیا تھا۔ شاہانہ عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔ شہزادگی کے زمانہ سے ہی مذہب کی طرف جھکاؤ تھا اور کالے صاحب کے مرید تھے۔ اپنے والد اکبر شاہ ثانی کے گیارہ لڑکوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ لیکن اکبر شاہ نے اپنے دوسرے چہیتے بیٹے مرزا سلیم کو ولی عہد بنانا چاہا۔ انگریز اس کے لئے راضی نہیں ہوئے۔

 پھر اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیوی ممتاز محل نے اپنے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی ولی عہدی کا اعلان بھی کر دیا گیا اور گورنر جنرل کو اس کی اطلاع کر دی گئی جس پر گورنر جنرل نے سخت تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے انگریزوں کی ہدایات پر عمل نہ کیا تو ان کی پنشن بند کر دی جائے گی۔ 

مرزا جہانگیر نے ایک مرتبہ ظفر کو زہر دینے کی بھی کوشش کی اور ان پر غیر فطری حرکات کا الزام بھی لگایا گیا لیکن انگریز ظفر کی عزت کرتے تھے اور ان کے خلاف محل کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ 1837میں اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد بہادر شاہ کی تاجپوشی ہوئی۔

 قلعہ کے دستور کے مطابق بہادر شاہ ظفر کی شادی نو عمری میں ہی کر دی گئی تھی اور تاجپوشی کے وقت وہ پوتے پوتیوں والے تھے۔ ظفر کی بیگمات کی صحیح تعداد نہیں معلوم لیکن مختلف ذرائع سے شرافت محل بیگم، زینت محل بیگم، تاج محل بیگم، شاہ آبادی بیگم، اختری محل بیگم، سرداری بیگم کے نام ملتے ہیں۔

 ان میں زینت محل سب سے زیادہ چہیتی تھیں اور ان سے ظفر نے اس وقت 1840 میں شادی کی تھی جب ان کی عمر 65 سال تھی۔ جب کہ زینت محل 19 سال کی تھیں۔ تاج محل بیگم بھی بادشاہ کی چہیتی بیویوں میں تھیں۔ شاہ آبادی بیگم کا اصل نام ہندی بائی تھا۔ اختری محل بیگم ایک گانے والی تھیں، سرداری بیگم ایک غریب گھریلو ملازمہ تھیں جن کو ظفر نے رانی بنا لیا۔ ظفر کے 16 بیٹے اور 31 بیٹیاں تھیں۔ بارہ شہزادے 1857 تک زندہ تھے۔

 بہادر شاہ ایک وسیع المشرب انسان تھے۔ وہ ہندؤں کے جذبات کی بھی قدر کرتے تھے اور ان کی بعض رسوم بھی ادا کرتے تھے۔ انہوں نے شاہ عباس کی درگاہ پر چڑھانے کے لئے ایک علم لکھنؤ بھیجا تھا جس کے نتیجہ میں افواہ پھیل گئی تھی کہ وہ شیعہ ہو گئے ہیں لیکن ظفر نے اس کی تردید کی۔ 

انگریزوں کی طرف سے ظفر کو ایک لاکھ روپئے پنشن ملتی تھی جو ان کے شاہانہ اخراجات کے لئے کافی نہیں تھی لہٰذا وہ ہمیشہ مالی تنگی کا شکار اور قرض مند رہتے تھے۔ ساہوکاروں کے تقاضے ان کو فکر مند رکھتے تھے اور وہ نذرانے وصول کرکے نوکریاں اور عہدے تقسیم کر تھے تھے۔

 لال قلعہ کے اندر چوریوں اور غبن کے واقعات شروع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ کی عمر بڑھنے کے ساتھ انگریزوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دہلی کی بادشاہت ختم کر دی جائے گی اور لال قلعہ خالی کرا کے شہزادوں کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے شہزادہ مرزا فخرو سے جو ولی عہدی کے امیدوار تھے، ایک معاہدہ بھی کرلیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد 1857 کا ہنگامہ برپا ہو گیا، جس کی قیادت دہلی میں شہزادہ مغل نے کی۔ کچھ دنوں کے لئے دہلی باغیوں کے قبضہ میں آ گئی تھی۔ بہادر شاہ شروع میں اس ہنگامے سے بالکل بے تعلق رہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہو کیا رہا ہے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ ہندوستانی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی ہے تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ انہوں نے کوشش کی کہ باغی اپنے ارادے سے باز آ جائیں اور باغیوں سے کہا کہ وہ انگریزوں سے ان کی صلح کرا دیں گے لیکن جب باغیوں نے پوری طرح دہلی پر قبضہ کر لیا تو ان کو زبردستی مجبور کیا کہ وہ تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لیں۔ شروع میں انہوں نے بادل ناخواستہ اس زبردستی کو قبول کیا تھا لیکن جب تحریک زور پکڑی گئی تو وہ اس میں پھنستے چلے گئے اور آخر تک تحریک کے ساتھ چار مہینے آٹھ دن  رہے۔ اور 21 ستمبر  1857 کو کیپٹن ہڈسن نے   شہنشاہ ہند بہادر شاہ  ظفر کو  زینت محل اور ملازم خاص پنہ لال  کی مخبری پر محل سے گرفتار کر لیا گیا۔ 

 چار مہینے گرفتار رکھنے کے بعد 7 جنوری 1858 کو مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی ، جو لگاتار 21 دن جاری رہی ۔ ملکہ وکٹوریہ کی ملٹری کورٹ نے مندرجہ ذیل چارجز بادشاہ پر لگائے ۔

 1-کمپنی سرکار سے پنشن لینے کے باوجود  کمپنی کے ہندوستانی افسران اور سپاہیوں کو بغاوت کے لئے اُکسایا ۔

2۔10 مئی سے مغل شہزادوں نے دلّی صوبے کے لوگوں کو بغاوت کے لئے  اُکسایا ۔

3۔سرکار سے پنشن لینے کے باوجود ، سرکار کا حق ادا نہ کرکے اپنے فوجوں کو سرکاری فوجوں سے لڑوایا   اور بغاوت کا مرتکب ہوا۔

4۔ قلعے میں موجود انگریز افسروں اور سپاہوں کو قتل کروایا نیز نزدیکی ریاستوں کے حاکموں کو پیغام بھجوا کر بغاوت پر اُکسایا اور وہاں موجود انگریز افسروں اور سپاہیوں کو قتل کروایا ۔

بہادر شاہ ظفر نے یہ کہہ کر  الزام قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ میں بے خبر اور معصوم ہوں ۔میرے تمام فرامین پر دستخط باغیوں نے  مجھے مجبور کرکے لگا کر شاہی مہر ثبت کی ۔

 بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کردیا تھا۔ بادشاہ نے اعلان کیا :نہ تو میں بادشاہ ہوں اور نہ بادشاہوں کی طرح تمہیں کچھ دے سکتا ہوں ۔ بادشاہت تو عرصہ ہوا میرے گھر سے جا چکی ۔ میں تو ایک فقیر ہوں جو اپنی اولاد کو لے کر ایک تکیہ میں بیٹھا ہوں۔ مگر باغیوں کا اصرار تھا کہ وہ ان کا بادشاہ بنے۔ بہادرشاہ ظفر نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ 

بادشاہ   ملٹری کورٹ کی تمام کاروائی کے دوران اونگھتا رہتا ۔ یہاں تک کے اُس کے ملازم خاص  پنہ لال نے گواہی دی کہ بادشاہ نے ایرانی حکومت کو انگریزوں کے خلاف اکسانے کے خطوط بھیجے  ۔ بادشاہ کے خلاف گواہیاں دینے والوں میں ۔ ماکھن چند۔ بسنت خواجہ ۔حکیم احسن اللہ خان ۔ محبوب علی خان اور بیگم زینت محل شامل تھے۔چنانچہ  سارے الزام درست ثابت ہوئے اور شہنشاہِ ھند بہادرشاہ ظفر کو 17 اکتوبر 1858 کو کلکتہ بھیج دیا ۔ جہاں سے بادشاہ کو کالا پانی (رنگون کا جزیرہ) بھجوادیا اور اِس کے ساتھ بادشاہ کا نام جمعہ کے خطبے میں لینے کی ممانعت کردی ۔

گرفتاری کے بعد مقدمہ کی سماعت کے دوران بہادر شاہ نے انتہائی بے چارگی کے دن گزارے۔ قید میں ان سے ملنے گئی ایک خاتون نے ان کی حالت اس طرح بیان کی ہے،

’’ ہم نہایت تنگ و تاریک چھوٹے سے کمرہ میں داخل ہوئے۔ یہاں میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے اک کمزور، دبلا پتلا، پستہ قد بڈھا سردی کے سبب گندی رضائیوں میں لپٹا ایک نیچی سی چارپائی پر پڑا تھا۔ 

ہمارے داخل ہوتے ہی وہ حقہ جو وہ پی رہا تھا، ایک طرف رکھ دیا اور پھر وہ شخص جو کبھی کسی کو اپنے دربار میں بیٹھا ہوا دیکھتا، اپنی توہین سمجھتا تھا، کھڑے ہو کر ہم کو نہایت عاجزی سے سلام کرتا جا رہا تھا کہ اسے ہم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔‘‘

  19 مارچ 1858 کو عدالت نے بہادر شاہ ظفر کو ان تمام جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جن کا ان پر الزام لگایا گیا تھا۔ 7 اکتوبر 1858 کو سابق شہنشاہ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی نے دہلی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور رنگون میں جلا وطنی کے دن گزارتے ہوئے 7 نومبر 1860 کو صبح پانچ بچے قید حیات و بند غم سے چھوٹ گئے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭ ۔اگلا مضمون۔

٭۔تو کتنا بد نصیب ظفر 

٭- کالا پانی اور شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر 


اتوار، 26 ستمبر، 2021

آفاقی سچائیاں اور قوانینِ انسانی -0001

سر !یہ سپریم کورٹ نے جو وراثت کے بارے میں فیصلہ دیا ہے کیا یہ شرعی اور قانونی طور پر درست ہے۔ اِس سے تو وارث کی بیٹیا ں “  رُل گئی “ اور اُن کی اولاد دربدر ہوگئی ؟

ابو سعید آپ نے دو باتیں پوچھی ہیں ۔ ایک شرعی اور دوسری قانونی ۔

رہی قانونی  بات ۔ وہ تو سپریم کورٹ کے مسند انصاف پر بیٹھنے والے منصف بتا سکتے ہیں کہ اُنہوں نے جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد پر فیصلہ کیسے دیا ؟ 

ویسے بھی ، آج کل پانسے میں اُن کے وہی پلاٹ نکل رہے ہیں جو وہ چاہتے تھے ۔ بالکل اُسی طرح جس کی بنیاد پاکستان کے ایک نہایت اہم ادارے نے ڈالی اور قبضہ گروپ کے سرغنہ ملک یاض نے جس کو مزید وسعت دی ۔ اور اللہ کے معاشی نظام کو تلپٹ کر ڈالا ۔شاید اُنہوں نے ملائیت کا سہارا لیا ہو ۔

جہاں تر شرعی لحاظ ہے ۔ تو کتاب اللہ اور صرف اور صرف الکتاب کی عربی آیات جو العالمین کے کرہ ارض پر پہلے حافظ رحمت للعالمین نے انسانوں کو القرآن کیا اُس کے مطابق یہ فیصلہ اللہ کے قانون کے متصادم ہے ۔ جس کا حساب وہ اُس وراثت (منقولہ و غیر منقولہ ) کو وراثت کے مالک کے وصیت کئے بغیر اللہ کی امان میں جانے والے کے بعد اُس وراثت کو ذاتی استعمال میں لانے والوں اور ورثت کے حق سے اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں سے انحراف کرنے والوں سے لے گا ۔ چاہے وہ اِس دنیا کا کوئی بھی انسان ہو ۔ کیسے ؟
يَسْأَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ ‎۔‏ ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ۔ ‏ سورة الذاريات ۔51

سے لے گا ۔ اگر تفصیل پڑھنا ہو تو اِس لنک پر جائیں شکریہ ۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے دوستو !۔

٭ کل ایک نوجوان دوست ابو سعید   اپنے اکلوتےکے ساتھ مہاجرزادہ  سے   11 بجے ملنے آیا۔ کئی باتوں نئی اور پرانی باتوں کے علاوہ ایک نہایت اہم موضوع پر بات ہوئی ۔    ابو سعید سے مہاجرزادہ سے  ملاقات  کا سال 2008 کے الیکشن کے بعد کا سال ہے جس میں ابو سعید سے ملاقات ہوئی۔تعارف  جب ہوا تو ، مہاجرزادہ نے سوال کیا ۔

 کیا آپ کے بیٹے کا نام ابو سعید ہے ؟

نوجوان نے جواب دیا ۔ نہیں والدین نے رکھا ہے!۔

یقیناً کچھ سوچ سمجھ کر رکھا ہوگا۔ آپ کے والدین  کا  اپنے بیٹے کا نام  سعید رکھنا تاکہ آپ کا بیٹا آپ کے والدین  کے حاصل کردہ فہم و فراست  سے ملنے والی  مستقبل بینی کے باعث سعید  ( سعد ) ثابت ہو ۔

لیکن اُس نے اپنے بیٹے کے نام کے لئے ایان محمدکا انتخاب کیا ۔نام نہایت اچھا ہے ۔ایان ایک عام نام ہے جو اکثر بچوں کا رکھا جاتا ہے ۔ 

الکتاب میں بھی یہ لفظ ،ایّان موجود ہے  جسےمُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين  نے 6 بار مختلف آیات میں ،القرآن کر کے اُس کا فہم ہمیں سمجھایا ہے ۔جس کا فہم مہاجزادہ کے لئے ۔ کب کیسے اور کیوں ؟ بنتا ہے ۔ یہ 6  انسان کی خالق اور اُسے علم دینے والے ربّ العالمین  کے  منتخب کردہ الفاظ ، اِس لنک۔ایان۔  کو کلک کرکے ۔مزید جان سکتے ہیں ۔جس کی وضاحت ۔ روح القدّس نےمُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين کو اانسانی  پوچھے جانے والے ایک سوال ۔ کہ السَّاعَةِ  کب ہوگی ؟

کے بارے میں جواب رقم  الکتاب سے حفظ کروادیا تھا ۔ جو آپ کسی بھی حافظ سے پوچھ سکتے ہیں جو  روح القدّس نے  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين سے  کائینات کے الکتاب کے پہلے حافظ  سے   اُس  سوال پوچھے جانے والے  حافظ تک  متواتر  حفّاظ  کی ناقابلِ    تبدیل القرآن کے نور سے    ،پہنچنے والے کلام اللہ سے  بتا دے گا  اور وہ یہ ہے ۔ 

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ۔[7:187]   ‎‏

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے  وہ دوست جو اِس آفاقی سچ  کو مزید  سمجھنا چاھتے ہیں  وہ[7:187]  اِس کا سیاق دیکھ سکھتے ہیں ۔اور خود کو حواسِ خمسہ سےملنے والی ہدایت سے اِس لفظ ،ایّان کا فہم بنا سکتے ہیں ۔  

 لیکن  مہاجر زادہ کے مطابق لفظ ،ایّان کا  بنیادی فہم    اِسی آیت میں ہے ۔

  جس کا سیاق ابوسعید کے اکلوتے بیٹے کا نام  أَيَّانَ ہے۔ جو مہاجر زادہ کےفہم کے مطابق۔ محمد سعید یا     ابو  سعید   بن  ایان سعید ہونا چاھیئے تھا ۔    

 خیر مہاجرزادہ ۔ نے ایّان محمد سے سوال کیا کہ ،
مستقبل میں اُس کا کیا  بننے  کا ارادہ ہے ؟

فوجی آفیسر  ۔ ایّان محمد  نے جذباتی انداز میں سادگی سے جواب دیا

ساتو یں کلاس میں پڑھنے والے۔ گپلو ڈبلو   ایان  محمد سے مہاجرزادہ نے اور اُس کے فوج میں کمیشنڈ آفیسر بننے کے لئے ۔ کچھ مشورے دیئے ۔جن میں سب سے پہلے وزن کم کرنے اور کیمیکلائزڈ چینی بالکل چھوڑنے کا مشورہ دیا کیوں کہ کہیں وہ اپنے والد کی طرح  جوانی میں شوگر کا مریض نہ بن جائے اور دادا کی طرح اُس کی شوگر مارجنل رہے ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اولاد سے جہاں اپنے آباء و اجداد کی نسل چلتی ہے وہاں ، اُن کے جسمانی عارضے بھی طاقتور ہوکر یا کمزور پڑ کر جسم کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ جیسے بوڑھے کا دل والدہ اور والد دونوں کی مشترکہ دل کی بیماری کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔    

 بوڑھا  المعروف  خالد مہاجر زدہ ، بچوں کی تعلیم اور دیگر مشاغل میں بہت دلچسپی لیتا ہے تاکہ اُن کے اُن کے اپنے مستقبل کے متعقل خیالات جان سکے اور راہنمائی کے ۔اور بوڑھے کو اللہ کے منتخب انسانوں اور مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين کی اسوۃ پرچلنے والے حفظ  کرنے والے ،حفّاظ  بچوں سے بہت محبت ہے ۔جنہیں کئی انسان اپنے علم جھاڑ اور پونچھ کر مذہبی علم حاصل کرنے کے بعد " توتے یا طوطے " کے لقب سے تضحیک کرتے ہیں ۔ اوریہ جھاڑ کا علم رکھنے والے ۔ انسانی جھوٹی مذہبی  اساطیر و  کہانت پر ۔ٹسوے بہاتے ہیں اور گلے گلے تک ہر قسم کے روزمرہ گناہوں  کی دلدل میں پھنسنے کے بعد گناہ بخشوانے والے سے مفتے میں معافی بھی مانگتے ہیں ۔

خیر گذشتہ رات  بوڑھے کی گاڑی کا کلچ گذشتہ رات لالکرتی میں خراب ہو گیا ۔ بوڑھا اور بڑھیا سی ایس ڈی سے خریدارے کر کے ۔ اے ایف آئی سی جارہے تھے ۔ تاکہ بڑھیا کے دل کے حال سی ٹی انجیوگرافی کے ڈاکٹر کی تحریر اور وڈیو فلم سے ۔ دیکھا جاسکے ۔

ایک مہربان نوجوان مکینک ۔ عدنان کوموبائل فون کرکے بلایا وہ اپنا کام ختم کرکے گھر پہنچ چکا تھا ۔ اُس کی مہربانی وہ پہنچ گیا ۔ بڑھیا کو رکشے میں بٹھا دیا کہ وہ گھر وہ پہنچایا ۔ اچھلتے ، کودتے اور ہچکولے کھاتے رکشے پر گھر پہنچی ۔ وہ ایک الگ کہانی ہے ۔

عدنان کے آنے تک بوڑھے نے ، وٹس ایپ دیکھ کر دوستوں کی دعاؤں ، معلوماتی تجزیئے ، سیاست ۔ مزاح ۔شعر و شاعری ۔چٹکلوں ۔ سے اَپ ڈیٹ کرنا شرع کر دیا ۔

خیر عدنان نے گاڑی کو عارضی ٹھیک کردیا کہ وہ  بوڑھا  گھر پہنچ جائے اُس نے سوال کیا ۔

سر میرا ایک جاننے والے نے اپنی بیوی کو نشے میں طلاق دی ۔ کیا طلاق ہو گئی ؟

نوجوان طلاق کیامذاق  ھے  جو ایک لفظ سے ہوجائے ۔ اپنے دوست کو بتاؤ پریشان نہ ہو نہیں ہوئی  ۔ مہاجرزادہ نے جواب دیا ۔ اور اپنے دوست کو کہو کہ وہ کچھ بھی صدقہ دے کر اللہ سے توبہ کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی رہے جیسا وہ نشے اور/یا غصے میں بکواس کرنے سے پہلا رہتا تھا ۔

عدنان نے پوچھا :لیکن جاننے والے کہہ رہے ہیں ، کہ طلاق ہوگئی کسی مُفتی سے پوچھ لو اور حلالہ بھی کروانا ہو گا ۔

عدنان کسی حلالہ کے بھینسے کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ورنہ وہ بے چاری مرد کے حرامی پنے پر ساری عمر شوہر کے طعنے سن سن کر شرمندہ ہوتی رہے گی اور وہ گھٹیا اور بے غیرت شوہر ،اُس سے پوچھے گا کہ جنسی طاقت میں وہ زیادہ طاقت ور تھا یا میں مرد ہوں ۔

اسلام آباد اور راولپنڈی بلکہ پورے ملک میں ۔ حلالہ کے سانڈ ملائیت کے پرستار ہیں ۔ جس کی مدت دو دن، ہفتہ یا مہینہ ہوتی ہے اور وہ اپنے حرام کام کے لئے رقم خرچ کرتے ہیں ۔

اللہ کی آیات  کے مطابق صرف فدیہ (حاصل کیا گیا مہر یا جائداد ) دے کر  جدا ( خلع)   ہونے  پر شوہر سے طلاق لینے والی عورت  اپنے  شوہر کے بعد ،  دوسرے شوہر  سے نکاح کرے گی اور اُس سے طلاق یا طلاق ِ  فدیہ لینے کے بعد  وہ پہلے  شوہر  کے لئے حلال ہوگی  اور سے نکاح کر سکتی ہے ۔ ورنہ   مہر یا دی گئی دولت  زبردستی وصول کرکے ، حرام کھانے والے شوہر کے لئے حرام رہے گی ۔

یہ مضمون لکھا تھا کہ وٹس ایپ پر ایک نوجوان وکیل کا مضمون پڑھا جو ابوسعید کے سوال کا وکیلانہ  اور غیر شرعی جواب تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے دوستو !۔قلم کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ۔

آپ بھی پڑھیں :۔ شکریہ

سوال: کیا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق اب بیٹیاں یا انکے بچے اپنے حق وراثت سے محروم ہو جائیں گے؟ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔