Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 23 اگست، 2015

زخمی مجاہد کی سوچ

  بم بلاسٹ کان پهاڑ دینے والا تھا-
 چیتھڑے اُڑے.  میں نے خود کو دھماکے کے ساتھ فضا میں اُچھلتے ہوئے پایا تھا اور اندھیرا چھا گیا تھا .. میں سن رہا تھا ..میں کلمہ دہرا رہا تھا .. ذہن سے دھماکے کئ دھند چھٹی ، آنکھیں گھمائیں ۔ تو دیکھا خاک خون اور راکھ میں چھپا ہوا وہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا -
میرا دوست اسی صورت مجسم تھا ، جیسا دھماکے سے پہلے تھا ، اس کی ملکوتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ٹہر گئی تھی ...جو اپنے دوسالہ بچے کی شرارتیں بتاتے ہوئے اُس کے چہرے پر آئی تھی ۔
اس کے ہونٹ اب جنبش نہیں کر رہے ..آنکھیں جھپک نہیں رہیں .. وہ اپنے مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو چکا تھا ..
.
میرے ایک ساتھی میں ابھی کچھ سانس باقی تھی اس نے اپنی نگاہ آسمان کی اور کی.. ذرا مسکرایا ,شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کی، کلمہ شہادت ادا کیا .اور آنھیں بند کر لیں ۔
میرے ساتھی میرے دوست .. میری آنکھوں نے انہیں جام شہادت نوش کرتے دیکھا ۔۔۔ ۔ مجھے اپنا خیال آیا .. مجھے درد کیوں نہیں ہو رہا ..
لیکن کیا یہ وہی بدن ہے جو پچھلے 27 سال سے میرا ساتھ دیتا چلا آ رہا تھا .. ہاتھ سے ٹٹولنا چاہا ،  شاید میرے ہاتھ سُن ہوگئے تھے .. پاؤں کو حرکت دینا چاہی تو وہ بھی نہ ہلا پایا ..
اللہ الصمد .. اللہ اکبر ..
گردن کو حرکت دینا چاہی ، درد محسوس نہ ہونے کی وجہ سے ، میری ریڑھ کی ہڈی گردن کے نیچے سے ٹوٹ چُکی تھی .

مجھے احساس ہوا کہ میں گردن سے اوپر زندہ ہوں، دماغ کےحواس، سانس اور دل کو کنٹرول کرنے والے حصے ابھی سلامت ہیں . میں سوچ سکتا ہوں . اللہ کا شکر ادا کر سکتا ہوں .
مجھے اندازہ ہے کہ اس عارضی دنیا میں میرا وقت مکمل ہونے کو ہے . میں خوش ہوں کہ میدان جنگ میں فرائض کی بجا آوری میں سینے پر زخم کا تمغہ سجا کر شہید ہونے والوں میں میرا نام ہو گا ..
میں چند باتیں آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں.... مجھے میری اپنی مٹی کا کفن دینا . مجھے میرے وطن میں دفن کرنا ...مجھے ماں کی گود میں سکون ملتا ہے ..
امی ابو میں ڈرا نہیں ہارا نہیں پیٹھ دکھا کر بھاگا نہیں..
امی آپ کے دودھ کا حق ادا کر کے جا رہا ہوں آپ نے بسم اللہ پڑھ کے دودھ پلایا میں کلمہ ادا کر کے جاؤں گا .
ابو آپ کا لہو ہوں ..میں اس لہو کو اپنے وطن کی مٹی میں جذب ہوتے دیکھ رہا ہوں یہ لہو میرے وطن کی رگوں میں جان بن کر دوڑے گا .. میری جان کی کوئی بات نہیں میرا پاک وطن سلامت رہے ..
میرے بچو ..میری گڑیا میری آنکھوں کا نور میری پیاری فاطمہ .. بابا ہر وقت تمہارے پاس رہیں گے . تمہیں بهولیں گے نہیں تمہارے پاس میرے بابا ہیں نا ..ان سے میری باتیں کرنا .ان سے میرے وہ قصے سننا جو میں تمہیں نہ سنا پایا .. جب وہ تمہیں میری شرارت سنائیں گے اور ہنس پڑیں گے تو اس ہنسی میں سے میں جهلکوں گا .. ان کی آنکھوں کی نمی سے میں تمہیں جھانک کر دیکھوں گا ..
علی میرے بیٹے ..میرے شیر جوان ..میرے فخر.. جن ہاتھوں نے تمہارے بابا کو پروان چڑھایا ہے وہی شفیق ہاتھ .. تمہارے دادا اور دادو کے ہاتھ .. وہی مہربان ہاتھ اب تمہیں بھی سینچیں گے . میرے بیٹے تم ابھی کمسن ہو لیکن میرے بعد اب تم ہی اپنی بہنا کے گبهرو بھائی اور اپنی امی کے جوان بیٹے ہو گے . بوڑھے دادا اور دادو کے بیٹے بھی اب تم ہی ہو . انہیں مایوس مت کرنا میری طرح تم نے بھی اس خاکی وردی کو زیب تن کرنا ہے . جب تم کاکول اکیڈمی سے پاس آوٹ ہو گے  تمہاری پاسنگ آوٹ پریڈ میں، میں وہیں سب کے ساتھ پریڈ گراونڈ میں بیٹھا تمہارے لئے تالیاں بجا رہا ہوں گا ....

تمہارے سینے اور کاندھے پر سجنے والے تمغے درحقیقت میرے سینے پر سجیں گے ..
 خدیجہ .. میری رفیقہ تم خوش نصیب ہو . رونا مت .. شہید کبھی مرا نہیں کرتے .. تم جو ہر نماز میں سہاگ کی سدا سلامتی کی دعا مانگتی تھی ..سو وہ دعا قبول ہوئی تم سدا سہاگن رہو گی کہ مجھے حیات ابدی کی نوید، شہادت کی صورت میں ملنے والی ہے ...
میری رفیقہ تم سے میرا ظاہری ساتھ مختصر رہا .. لیکن اللہ کا شکر ہے کہ تم جیسی عزم و ہمت والی بہترین عورت اللہ تعالیٰ نے میرے لئے چنی .. مجھے تم پر اور تمہارے ساتھ پر فخر ہے .. تم سے محبت میرے دل کی دهڑکنوں میں بسی ہے . تمہیں حق ہے کہ میرے بعد تم اور ساتھی چن لو .. بس یاد رکھنا میں ہر صورت تم سے محبت کرتا رہوں گا ..

آپ سب کا اپنا میجر عبداللہ. .... .

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تحریر : رابعہ خرم درانی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

2 تبصرے:

  1. کیوں رلاتے ہو سر جی ۔۔۔۔ یہ ایسی عظیم اور سچی کہانیاں ہیں جو ہمارے بچوں کے نصاب میں شامل ہونی چاہئے ۔۔۔۔ جانے کیوں ہمارے درندہ صفت پالیسی میکر لوگ ایسا نہیں کرتے ۔۔۔ شاید وہ ہمارے آنے والی نسلوں کو زنخا بنانا چاہتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. اب لکھاریوں نے کہانیوں کا رُخ موڑ دیا ہے ۔

    ہماری اداکارائیں اور اداکار اب رول ماڈل بن چکے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔