اسوہءِ رسول اللہ کہاں سے سمجھی جائے ؟ اور اُس پر کیسے عمل کیا جائے ؟
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی عمل کو پہلے شروع کرنے والا ، اّول کہلاتا ہے ۔جیسے،
" اچھا یہ بتاؤ سب سے پہلے (اوّل) کلاس میں کون داخل ہوا ؟ " اِسی طرح :
الکتاب میں اوّل عمل و فعل کرنے کے حساب سے آیات درج ہیں، قطع نظر کہ الکتاب میں ، اِن آیات کا سیاق و سباق کیا ہے لیکن اِس مضمون میں لفظ ، " أَوَّلُ " کے سیاق و سباق کا تعلق کُلّی طور پر اسوہءِ رسول اللہ سے ہے ۔
أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ [6:14] ، أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [6:163] ، [39:12] ، أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ [7:143] ، [26:51] ، أَوَّلُ الْعَابِدِينَ [43:81] ،
أَوَّلَ كَافِرٍ [2:41] ۔
نوٹ: آیات کے نمبر پر کلک کرنے سے پوری آیت سامنے آجائے گی ،
انسانوں میں ، اللہ کی وحی پر عمل کرنے والا سب سے پہلاانسان ، رسول اللہ اِنسان ہوتا ہے ،اور رسول اللہ کی زُبان سے اللہ کی آیات سُن کر اُن پر ایمان لانے والا دوسرا انسان ، رسول اللہ کی زبان پر اعتبار کرتے ہوئے ، اللہ کی آیات پر ایمان لاتا ہے ۔کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ رسول اللہ کا مکمل اسوہءِ ( فعل اور عمل ) اُسے سنائی گئی اللہ کی آیات کے مطابق ہے ۔
ربِّ کائینات کی طرف سے ہر انسان میں دو اقدار الہام ہوئی ہیں ، ایک انسانی (تقویٰ) اوردوسری شیطانی (فجور) ۔
انسانی اقدار ، پر عمل کرنے والا ، أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ [6:14] ، ہوتا ہے۔
شیطانی اقدار، پر عمل کرنے والا ، أَوَّلَ كَافِرٍ [2:41] ہوتا ہے
لیکن تمام اولین افراد سے بھی اول ربِ کائینات ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [57:3]
وہ (ربِّ کائینات ) الاول ہے اور الآخر ہے اور الظاہر ہے اور الباطن ہے اور وہ کُل شئے کے ساتھ علیم ہے ،
کیوں کہ تمام انسانی ہدایات اُسی کی طرف سے ہیں اور تمام شیطانی ہدایات بھی اُسی کے تخلیق کردہ شیطان کی طرف سے ہیں ۔ لہذا کائینات کی ہر شئے کا اُسے علم ہے ۔ اور رہی انسانی اشیاء سب اُس کے لئے ظاہر ہیں ۔ کیوں کہ انسان اُس کی تخلیق ہے ۔ لہذا تمام انسانی کمزوریوں جن سے شیطان اُسے أَوَّلَ كَافِرٍ بنانے کے لئے فائدہ اُٹھا سکتا ہے ، اُن کا سدباب کرنے کے لئے ، ربِّ کائینات نے اپنے انبیاء اور رسولوں پر اپنی ہدایات وحی کیں ، وہ سب سے پہلے اُن پر ایمان لا کر اور اپنے اعمال میں شامل کر کے أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ بنے ، اور انسانوں کو اِن ہدایات پر عمل کرنےکے لئے اپنی زُبانِ مبارک سے انسانوں کو بتائیں ۔ لیکن سب انبیاء نے ،سے پہلے ایک انسانی فعلِ بد کو ختم کرنے کے لئے اللہ کی یہ آیت بتائی ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ [61:2] كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ [61:3]
اے ایمان لانے والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس کا تم فعل نہیں کرتے ؟ ۔ اللہ کے نزدیک نہایت قابلِ اعتراض ہے کہ تم وہ کہو کہ جس کا تم فعل نہیں کرتے ۔
اللہ کی اِس آیت نے ، بشمولِ نبی و رسول ، تمام ایمان والوں کے لئے حیلہ و جوازات کے تمام رخنے بند کر دئیے ہیں ۔ جن کی راہ انسانوں کو شیطان دکھاتا ہے ۔
انسانی تما م افعال جو وہ شیطان کا ہاتھ پکڑ کر کرتا ہے ، اُس پر فخر کرنا بھی انسان کو سکھاتا ہے ، اور انسانوں کی کثیر جماعت جو شیطانی پیروکار ہوتی ہے وہ اِن افعال کو حیلہ و جوازات سے ورق (پیراہن) الجنت پہناتے ہیں ،
لیکن وہ تمام انسانی افعال جو اللہ انسان کو کرنے کی ترغیب ، اپنی کثیر انعامی سکیم کے ذریعہ ، انبیاء و رسولوں سے دلواتا ہے ، انسانوں میں شیطانی پیروکار اُنہیں تصوراتی اور تخیلاتی سکیم کا حصہ بتاتے ہیں ، کیوں کہ شیطانی پیروکار وں نے اللہ کی انعامی سکیم کو ، اپنی اپنی تصنیفات میں ، مُفتے کی سکیم بنا کر اُس کی افادیت کو صفر سے ضرب دلوا دی ہے ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ایمان والوں، بلکہ خود اللہ کے رسول کو ضِيقُ صَدْرُ کی پریشانی لاحق ہونے لگتی ہے ۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿15:97﴾
اور ہمیں علم ہے کہ اُن اقوال پر تجھے ضِيقُ صَدْرُ ہو نے لگتا ہے ۔
قارئین : یہ ضِيقُ صَدْرُ رسول اللہ اور ایمان والوں کو کیوں ہوتا ہے ؟ کیوں کہ اُن لوگوں نے :الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿15:96﴾
وہ ( تمام شیطانی انسانی ) جنہوں نے اللہ کے مع إِلَـٰهًا آخَرَ بھی قرار دئیے ہیں ، پس جلد ہی اُنہیں علم ہو جائے گا !
قارئین : اللہ کے مع دیگر الہہ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو اللہ کا ہے ، یعنی انسانی ہدایت ، جس کے لئے اُنہیں نے اللہ کے مقابلے میں الکتب کے انبار لگا کر بڑی خوبصورتی سے اللہ کے احکام کے موضوع تبدیل کر ڈالے ہیں یہ کہہ کر ، رسول اللہ پر منڈھ دیا ، کہ ، " یہ بھی اللہ نے بذبانِ رسول اللہ کہلوایا ہے !"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ ایسا سوال ہے جو صدیوں سے ایک پیچیدہ مسئلہ بنایا گیا ہے، ماضی نے کچھ انسانوں نے انسانوں کو اسوہءِ رسول اللہ سمجھانے کے لئے عام کتابیں لکھیں ، جن کی اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ۔ کیوں کہ اللہ نے مکمل اسوہءِ رسول اللہ ، الکتاب میں درج کر دی ہے ۔
وہ کیسے ؟
وہ اِس طرح کہ ،الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے لے کرمِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک اللہ نے اپنے احکامات تمام انبیاء اور محمدﷺ کو دئیے ، جو مختلف نہیں سب کے لئے ایک تھے ، یہی احکامات الکتاب میں درج ہیں اور تا قیامت کسی بھی تبدیلی کے بغیر حفّاظ کی دماغ کی ہارڈ ڈسک پر اللہ لکھتا رہے گا ۔یہی احکامات اللہ نے محمدﷺ کے دماغ پر لکھے ، پھر محمدﷺ نے اُنہیں ، انسانوں پر حسبِ موقع اور پوچھے گئے سوالوں کی مناسبت سے تلاوت کیا۔اللہ کی طرف سے انسانی ہدایت کے لئے نازل کی جانے والی آیات ، اللہ کی ترتیل کے مطابق الکتاب میں درج ہیں ، رسول اللہ نے بھی اِنہی آیات سے اللہ کی بنیادی ہدایات موصول کی اور عمل کیا ۔ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی عمل کو پہلے شروع کرنے والا ، اّول کہلاتا ہے ۔جیسے،
" اچھا یہ بتاؤ سب سے پہلے (اوّل) کلاس میں کون داخل ہوا ؟ " اِسی طرح :
الکتاب میں اوّل عمل و فعل کرنے کے حساب سے آیات درج ہیں، قطع نظر کہ الکتاب میں ، اِن آیات کا سیاق و سباق کیا ہے لیکن اِس مضمون میں لفظ ، " أَوَّلُ " کے سیاق و سباق کا تعلق کُلّی طور پر اسوہءِ رسول اللہ سے ہے ۔
أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ [6:14] ، أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [6:163] ، [39:12] ، أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ [7:143] ، [26:51] ، أَوَّلُ الْعَابِدِينَ [43:81] ،
أَوَّلَ كَافِرٍ [2:41] ۔
نوٹ: آیات کے نمبر پر کلک کرنے سے پوری آیت سامنے آجائے گی ،
انسانوں میں ، اللہ کی وحی پر عمل کرنے والا سب سے پہلاانسان ، رسول اللہ اِنسان ہوتا ہے ،اور رسول اللہ کی زُبان سے اللہ کی آیات سُن کر اُن پر ایمان لانے والا دوسرا انسان ، رسول اللہ کی زبان پر اعتبار کرتے ہوئے ، اللہ کی آیات پر ایمان لاتا ہے ۔کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ رسول اللہ کا مکمل اسوہءِ ( فعل اور عمل ) اُسے سنائی گئی اللہ کی آیات کے مطابق ہے ۔
ربِّ کائینات کی طرف سے ہر انسان میں دو اقدار الہام ہوئی ہیں ، ایک انسانی (تقویٰ) اوردوسری شیطانی (فجور) ۔
انسانی اقدار ، پر عمل کرنے والا ، أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ [6:14] ، ہوتا ہے۔
شیطانی اقدار، پر عمل کرنے والا ، أَوَّلَ كَافِرٍ [2:41] ہوتا ہے
لیکن تمام اولین افراد سے بھی اول ربِ کائینات ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [57:3]
وہ (ربِّ کائینات ) الاول ہے اور الآخر ہے اور الظاہر ہے اور الباطن ہے اور وہ کُل شئے کے ساتھ علیم ہے ،
کیوں کہ تمام انسانی ہدایات اُسی کی طرف سے ہیں اور تمام شیطانی ہدایات بھی اُسی کے تخلیق کردہ شیطان کی طرف سے ہیں ۔ لہذا کائینات کی ہر شئے کا اُسے علم ہے ۔ اور رہی انسانی اشیاء سب اُس کے لئے ظاہر ہیں ۔ کیوں کہ انسان اُس کی تخلیق ہے ۔ لہذا تمام انسانی کمزوریوں جن سے شیطان اُسے أَوَّلَ كَافِرٍ بنانے کے لئے فائدہ اُٹھا سکتا ہے ، اُن کا سدباب کرنے کے لئے ، ربِّ کائینات نے اپنے انبیاء اور رسولوں پر اپنی ہدایات وحی کیں ، وہ سب سے پہلے اُن پر ایمان لا کر اور اپنے اعمال میں شامل کر کے أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ بنے ، اور انسانوں کو اِن ہدایات پر عمل کرنےکے لئے اپنی زُبانِ مبارک سے انسانوں کو بتائیں ۔ لیکن سب انبیاء نے ،سے پہلے ایک انسانی فعلِ بد کو ختم کرنے کے لئے اللہ کی یہ آیت بتائی ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ [61:2] كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ [61:3]
اے ایمان لانے والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس کا تم فعل نہیں کرتے ؟ ۔ اللہ کے نزدیک نہایت قابلِ اعتراض ہے کہ تم وہ کہو کہ جس کا تم فعل نہیں کرتے ۔
اللہ کی اِس آیت نے ، بشمولِ نبی و رسول ، تمام ایمان والوں کے لئے حیلہ و جوازات کے تمام رخنے بند کر دئیے ہیں ۔ جن کی راہ انسانوں کو شیطان دکھاتا ہے ۔
انسانی تما م افعال جو وہ شیطان کا ہاتھ پکڑ کر کرتا ہے ، اُس پر فخر کرنا بھی انسان کو سکھاتا ہے ، اور انسانوں کی کثیر جماعت جو شیطانی پیروکار ہوتی ہے وہ اِن افعال کو حیلہ و جوازات سے ورق (پیراہن) الجنت پہناتے ہیں ،
لیکن وہ تمام انسانی افعال جو اللہ انسان کو کرنے کی ترغیب ، اپنی کثیر انعامی سکیم کے ذریعہ ، انبیاء و رسولوں سے دلواتا ہے ، انسانوں میں شیطانی پیروکار اُنہیں تصوراتی اور تخیلاتی سکیم کا حصہ بتاتے ہیں ، کیوں کہ شیطانی پیروکار وں نے اللہ کی انعامی سکیم کو ، اپنی اپنی تصنیفات میں ، مُفتے کی سکیم بنا کر اُس کی افادیت کو صفر سے ضرب دلوا دی ہے ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ایمان والوں، بلکہ خود اللہ کے رسول کو ضِيقُ صَدْرُ کی پریشانی لاحق ہونے لگتی ہے ۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿15:97﴾
اور ہمیں علم ہے کہ اُن اقوال پر تجھے ضِيقُ صَدْرُ ہو نے لگتا ہے ۔
قارئین : یہ ضِيقُ صَدْرُ رسول اللہ اور ایمان والوں کو کیوں ہوتا ہے ؟ کیوں کہ اُن لوگوں نے :الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿15:96﴾
وہ ( تمام شیطانی انسانی ) جنہوں نے اللہ کے مع إِلَـٰهًا آخَرَ بھی قرار دئیے ہیں ، پس جلد ہی اُنہیں علم ہو جائے گا !
قارئین : اللہ کے مع دیگر الہہ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو اللہ کا ہے ، یعنی انسانی ہدایت ، جس کے لئے اُنہیں نے اللہ کے مقابلے میں الکتب کے انبار لگا کر بڑی خوبصورتی سے اللہ کے احکام کے موضوع تبدیل کر ڈالے ہیں یہ کہہ کر ، رسول اللہ پر منڈھ دیا ، کہ ، " یہ بھی اللہ نے بذبانِ رسول اللہ کہلوایا ہے !"
میں حیران ہوتا ہوں ، کہ اللہ کی وہ اہم آیت جو رسول اللہ کو اللہ نے بطور نذیر (وارننگ) بتائی ، جو آج بھی اُتنی ہی اہم ہے ، کہ مستانینِ حدیث اِسے کِس جواز اور حیلے کی بنیاد پر نظر انداز کر سکتے ہیں ؟
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿ 3:79﴾
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿ 3:79﴾
ایک بشر جسے اللہ
،الْكِتَابَ،الْحُكْمَ
اور النُّبُوَّةَ عطا کرے ! اُس سے
یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لوگوں سے کہے، کہ تم اللہ کے سواء میرے عباد (میری ہدایت ماننے والے) ہو جاؤ۔ لیکن
وہ تو(لوگوں سے ) کہے گا کہ تم خود ربانی ہو جا ؤ ! اس لئے کے تمھیں الکتاب کا علم ہے اور تم
درس دیتے ہو!
قارئین ، یہ بالا آیت اسوہءِ رسول کی ابتداء ہے اور انتہا ہے ، وہ یہ کہ ایمان والے ، الکتاب کا علم حاصل کر کے ربّانی بنیں اور لوگوں کو الکتاب کی آیات کا درس دیں ۔ جو اسوہءِ حسنہ ہے
لَّقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ
يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿ 33:21﴾
حقیقت میں تمھارے لئے رسول اللہ کی اسوہ ء حسنہ ہے۔ جو اللہ اور یوم الآخر سے رجو ع چاہتا ہے اور اللہ کا ذکر (ربّ کی آیات کے ساتھ) کثرت سے کرتا ہے-
1- محمدﷺ نے کبھی الحق کو باطل کا لباس نہیں پہنایا
اور نہ ہی الحق کو چھپایا ، ہمیں بھی رسول اللہ کی اِس اسوہءِ حسنہ پر عمل کرنا
چاھیئے !
وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ [2:42]
اور تم کسی بھی الحق کو باطل کا لباس مت پہناؤ اور نہ ہی تم الحق کو چھپاؤ
میں محمد ﷺ کی اتباع میں ، اپنی لفّاظی سے یا عمل سے نہ الحق کو باطل کا لباس پہناؤں گا اور نہ ہی الحق کو چھپاؤں گا ۔
2- محمدﷺ نے ، الکتاب کی تلاوت کی اورخود بھی الکتاب میں موجود الْبِرِّ کے ساتھ عمل کیا ، لہذا ہمیں بھی چاھئیے کہ الکتاب کو عقل سے پڑھیں اور الْبِرِّ کے ساتھ عمل کر کے لوگوں کو تلقین کریں !
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿2:44﴾
کیا تم انسانوں کو الْبِرِّکے ساتھ عمل کرنے کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو اور تم الکتاب کی تلاوت کرتے ہوں (جس میں پہلے تمھیں خود الْبِرِّکے ساتھ عمل کرنے کا حکم ہے ) کیا تم عقل استعمال نہیں کرتے ؟
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿2:44﴾
کیا تم انسانوں کو الْبِرِّکے ساتھ عمل کرنے کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو اور تم الکتاب کی تلاوت کرتے ہوں (جس میں پہلے تمھیں خود الْبِرِّکے ساتھ عمل کرنے کا حکم ہے ) کیا تم عقل استعمال نہیں کرتے ؟
٭٭٭٭الکتاب سے اسوہءِ رسول کی تلاش جاری ہے ٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں