Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 22 جون، 2017

کِس کِس "فوجی " کو یاد ہے؟

ریفرینڈم مشن ! 19 دسمبر 1984  
 
قادر غوری نے ، بہت پرانی یاد کو چھیڑ دیا ۔

اُس وقت آپ ڈیوٹی کہاں لگی تھی؟
میں سکھر میں تھا ۔
گھنٹہ گھر تھانے میں ہیڈ کواٹر بنایا تھا ۔
اور مزے سے ٹیوی دیکھتا رھا۔ وہ اِس طرح ، کہ دس بجے ایک خدائی فوجدار کو تھانیدار میرے پاس لایا کہ " سر ! یہ شخص فساد کروانے کی کوشش کر رہ تھا "۔

اِس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ، اُس نے تقریر شروع کی ،
" برگیڈئر صاحب "
" برگیڈئر نہیں ، کیپٹن" میں نے ٹوکا ۔
" کرنل صاحب "
" کرنل نہیں ، کیپٹن" میں نے دوبارہ ٹوکا ۔
" کیپٹن صاحب ، کچھ شر پسند لوگ ، اسلامی نظام کے لئے ووٹ ڈالنے سے لوگوں کو روک رہے ہیں ، خدارا کچھ کیجئے ؟ وہ نہ پاکستان پر سوشلسٹوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔ کرنل صاحب ۔ ۔!
" کپتان " میں نے تیسری بار ٹوکا ، " یہ بتاؤ تم نے ووٹ ڈال دیا ہے "
" جی سر میں نے اسلامی نظام کے لئے ووٹ ڈال دیا ہے " وہ بولا ۔
" گڈ ، شاباش " میں نے تعریف کی " تھانیدار صاحب ، اِس نوجوان کو لے جا کر بند کر دیں "
وہ نوجوان ھکا بکا رہ گیا تھانیدار نے اُسے بند کر دیا ۔
میں ٹی وی دیکھنے لگا ۔ آدھے گھنٹے بعد ، دو نوجوانوں کو محرر لے کر آیا ، " سر یہ آپ سے ملنا چاھتے ہیں ؟
" جی کیا بات ہے ؟ ، میں نےے پوچھا ۔
" سر وہ ہمارا آدمی آپ سے ملانے کے لئے تھانیدار پولنگ سٹیشن سے لے کر آئے تھے ، واپس نہیں آیا "ایک بولا ۔
" محرر صاحب " میں بولا ،" اِن دونوں کو بھی اندر بند کر دو "
شام پانچ بجے تک میں بڑے آرام سے قومی وحدت کے نغمے سنتا رہا ، سکھر کے کسی بھی پولنگ سٹیشن میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی اور لوگوں نے دھڑا دھڑ ایک نہیں کئی کئی ووٹ ڈالے ۔ اور ہم نے ڈالنے دیا۔
کیوں کہ ایک رات پہلے فوجیوں کے لئے جو بیلٹ پیپر آئے تھے ، وہ ایک کپتان (میرا کورس میٹ ) کی کمانڈ میں ، ٹھکا ٹھک ، قبول ہے قبول ہے کی مہریں لگا رہے تھے ۔

اور پیلپز پارٹی والوں سمیت سب بشمول جماعتِ اسلامی " جی ایچ کیو " سے آنے والے اسلام،  کو سجدہ کر چکے تھے۔

 ٭٭٭٭مزید پڑھیں ٭٭٭٭

رنگروٹ سے آفسر تک 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔