Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 3 جون، 2017

ہندوستانی ادب و تہذیب

 کہا جاتا تھا کہ ادب و آداب کی تمیز کے لئے ، امیر خاندان اپنے  بیٹوں کو طوائفوں کے ہاں بھجواتے ، ادب و آداب سے آراستہ ، یہ نوجوان  طوائف  کے کوٹھوں  کے ہوجاتے ۔

   بچوں کی  صحیح تربیت   بزرگوں کے زیر سایہ  گھروں ہی میں ہوتی ۔ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے کوئی غلط حرکت یا معیوب بات دیکھتے تو روکتے ٹوکتے۔ہندوستان کا کوئی بھی شہر یا قصبے میں ہر فرقے اور طبقے کے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتے رہتے ہیں، لیکن متوسط طبقے میں اس کا زیادہ احساس تھا، خاص طور پر طبقہ اشرافیہ زیادہ ہی چوکنا رہتا کہ دوسرے لوگ نام دھریں، تمیز و تہذیب پر حرف آئے کہ بچوں کو کیسا اٹھایا ہے؟ اس لیے وہ ہر پل نظر رکھتے۔
 متوسط طبقے کے پاس سو، دو سو گز قطعۂ اراضی پر بنے ایک منزلہ دو منزلہ ذاتی مکان  ہوتے  پورا خاندان ایک جگہ رہتا  ، بڑے بڑے کمرے، دالان، سہ دری، کوٹھریاں، بیٹھکیں،کشادہ صحن، صحن میں کیاریاں، حوض، الگ الگ  باورچی خانے، غسل خانے اور بیت الخلا۔
مشترکہ خاندان میں سبھی مل جل کر رہتے، اپنے بچوں کے ساتھ بھائی بہنوں کے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر پوری پوری توجہ دیتے تھے۔ کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ ہمارے بچے کو کیوں ٹوکا، کیسے ڈانٹا؟
اگر کوئی بڑا تنبیہ کرتا یا سمجھاتا تو گھر کا دوسرا شخص خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہتا۔ درمیان میں کسی بات میں دخل نہ دیتا اوربعد میں سمجھاتے کہ تم غلط حرکت کرتے نہ وہ تمھیں ٹوکتے، آئندہ خیا  ل رکھنا، ایسا نہ ہو کہ پھر کسی بات پر سخت سست کہیں ، ہمیں شرمندگی ہو اور چھوٹے بھی سنی اَن سنی نہ کرتے۔
 خواتین گھروں میں بچوں، بالخصوص لڑکیوں پر نظر رکھتیں، مرد گلی کوچے میں آنے جانے والے لڑکوں پر۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ بری صحبت میں پڑ کر پیٹ سے پاؤں نکالے۔
  متوسط طبقے کے مرد و خواتین دسترخوان پر اپنے بچوں  کی تربیت پر خصوسی توجہ دیتے ، صبح سے رات تک ایک ہی وقت ایسا ہوتا، جب گھر کے سب بڑے چھوٹے، مغرب کی نماز    کے بعد ، عشائیہ  میں دسترخوان پر یکجا ہوتے۔ظہرانہ میں مل بیٹھنے کو موقع صرف  جمعہ کو یا  کسی چھٹی کے دن ملتا ، لیکن سارا خاندان عشائیے پر ہی یکجا ہوتا ۔
دسترخوان  چننے سے ’’بڑھانے‘‘ تک گھر کے بڑے، چھوٹوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے۔ جن گھروں میں ملازمہ یا خادمہ نہیں ہوتی، وہاں گھر کی بڑی لڑکی دسترخوان بچھاتی، دوسری لڑکیاں کھانے کے مطابق طشتریاں، غوریاں، پیالے، پیالیاں، طباق، چھوٹے بڑے  چمچے لاکر سلیقہ سے دسترخوان سجانے اور کھانا چُننے میں مدد کرتیں۔ کھانے کی قابیں آنے سے پیشتر سفل دان اور مغزکش بھی چمچوں کے ساتھ رکھ دیے جاتے۔ آج  کوئی بھی دسترخوان کی اِن دو اہم   چیزوں ،
سفل دان اور مغزکش  سے واقف ہی نہیں۔ سفل دان ڈھکنے والا گول پیالے، کٹورے نما ایک برتن جس کے سرپوش پر برجی بنی ہوئی ہوتی، اس کا پیندہ سپاٹ ہوتا، عام طور پر  پیتل ، تام چینی یا المونیم کے  بنے ہوئے ہوتے۔ نوالے میں کوئی ہڈی کا ٹکڑا، گوشت کا ریشہ دانتوں میں پھنس جائے یا کالی مرچ وغیرہ جو چبائی نہ جائے تو اس کے رکھنے کے لیے استعمال میں آتا۔مغزکش سے  نلی کا گودا نکالا جاتا تھا۔ یہ نالی دار چمچہ تھا، ایک ٹوتھ برش کی مانند سیدھا، آدھا حصہ پتلا اور آدھا چوڑا۔ اسے گودے کی نلی میں داخل کرکے آہستہ سے باہر کھینچتے تو نالی دار حصہ میں گودا یا مغز آجاتا۔ نلی کو جھاڑنے توڑنے یا ٹھونکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ چاندی کے بنائے جاتے تھے۔ اب نہ سفل دان ہیں اور نہ مغزکش، دسترخوان پر ٹھک ٹھک سے معلوم ہوجاتا ہے کہ  گودا نکالا جارہا ہے ، یا شوں شوں کی آواز سے گودا چوسنے جانے  کا علم ہوتا ہے ۔
چوسی ہوئی  یا چبائی ہوئی ہڈیاں ،ایک پلیٹ میں دسترخوان پر پڑی ہوتی ہیں ، جو نفیس طبع  شخص کے لئے کراہیت کا باعث بنتی ہیں ۔
دسترخوان کے لوازمات کے ساتھ ایک بڑی سینی میں پانی کا جگ، کٹورے، گلاس دسترخوان کے بائیں جانب آخری سرے پر رکھ دیے جاتے۔
دسترخوان پر آنے سے پہلے  بزرگوں کے ہاتھ آفتابوں میں چلمچیوں سے دھلائے جاتے ، ایک بچہ آفتابہ سامنے رکھتا ، دوسرا چلمچی سے ہاتھ پر پانی ڈالتا  ۔ تیسرا بچہ کلّی کا پانی منہ سے  پھیکنے کے لئے اُگالدان آگے کر دیتا ۔ ہاتھ پونچھنے کا رواج نہ تھا ۔
جن گھروں میں بڑے بڑے دالان ہوتے، وہاں چوکیوں پر دسترخوان بچھا کر کھانے کا رواج تھا۔ پہلے گھر کا کوئی بزرگ (مرد) دسترخوان کے سامنے درمیان میں آکر بیٹھتا، ان کی دائیں جانب خواتین مراتب کے اعتبار سے بیٹھتیں اور اسی طرح مرد بائیں جانب۔ دسترخوان کے دوسری طرف گھر کے لڑکے لڑکیاں مؤدب انداز میں بیٹھتے۔ خواتین کے سامنے لڑکیاں، مردوں کے سامنے چھوٹے بڑے لڑکے ہوتے۔ گھر میں اگر مہمان آتے تو وہ بزرگ کے ساتھ بیٹھتے۔ مہمان زیادہ ہوں تو پہلے مہمانوں کی تواضع کی جاتی اور گھر کی خواتین بعد میں کھانا کھاتیں۔ گھر کی بڑی بہو یا لڑکی کشتی نما تانبے کی قلعی دار قابوں میں کھانے کی اشیا لاتیں۔ مردوں اور عورتوں کے سامنے علاحدہ علاحدہ قابیں پیش کی جاتیں۔ بعض گھروں میں تانبے کے برتنوں کے ساتھ چینی یا بلوری برتن بھی ہوتے اور کھانوں کی مناسبت سے اچار، چٹنی اور رائتے کی پیالیاں بھی۔ کھانا شروع کرنے سے
پہلے زانو پوش گھٹنوں پر ڈالتے۔ بچوں سے کہا جاتا کہ وہ بائیں جانب اپنا اپنا رومال رکھیں۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جاتا۔ خواتین چنگیری سے روٹیاں نکال کر دیتیں۔ چنگیری، روٹی رکھنے کی ٹوکری تانبے کی قلعی دار، کھجوریا بید کی بنی ہوئی ہوتی اور اس میں بڑے رومال میں لپیٹ کر روٹیاں رکھتے۔ بڑے چھوٹوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا ’’بیٹا چھوٹا نوالہ بناؤ، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھاؤ، آخر کب تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا‘‘۔ 
اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ’’لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو‘‘۔
بریانی، پلاؤ یا چاول عام طور پر چمچے کے بجائے ہاتھ سے کھاتے، انگلیاں چکنی ہو جاتیں۔ پانی پینے کی ضرورت پیش آتی تو بائیں ہاتھ سے گلاس یا کٹورا اٹھانے کی ہدایت دی جاتی اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا سہارا دے کر پانی
پینے کے لیے کہتے، تاکہ دائیں ہاتھ میں لگی ہوئی چکنائی سے گلاس، کٹورہ خراب نہ ہو۔
 جو بچہ نوالے سے زائد روٹی توڑتا اور پھر اس کے ٹکڑے کرتا، اسے بدتمیزی سمجھاجاتا۔ 
کھاتے کھاتے منھ میں ہڈی کا ٹکڑا، بوٹی کا ریشہ یا گرم مصالحے میں سے لونگ یا سیاہ مرچ آ جاتی تو بچوں سے کہتے، پہلے دایاں ہاتھ منھ کے سامنے لاؤ، پھر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور ساتھ کی انگلی سے اس شے کو نکالو، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی سے سفل دان کے سرپوش کی برجی پکڑ کر ڈھکنا اٹھاؤ اور آہستہ سے وہ شے ڈال کر سرپوش ڈھانک دو۔
دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سےکباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔
بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ 
کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش  کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاؤ۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔
خبردار اچار کی فرمائش مت کرنا  ، اِس سے میزبان کو دکھ پہنچے گا کہ کھانا ذائقہ دار نہ ہے ،لہذا میزبان کے ہاں اچار کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا جاتا  ،کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ 
غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ 
اگر تمہاری رکابی میں نلی آجائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سےچوسنا۔ ایک طرف  رکھ دینا  اور ہاں نہ ہی ہڈیوں کو چبانے کی کوشش کرنا ، اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں۔  
خواتین لڑکیوں کو ٹوکتیں کہ سلیقہ سے کھاؤ، دوسرے گھر  جانا ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ ماں باپ نے کچھ سکھایا نہیں۔
 مائیں بیٹیوں کی پکائی ہوئی روٹیوں کو خاص طور پر دیکھتیں، کہیں روٹی کی ساخت یا ہیئت مختلف دیکھی تو جھٹ کہا، ارے یہ کیا ایک ہاتھ کی روٹی ایک چھوٹی ایک موٹی، سسرال والے نام دھریں گے۔ 
جہاں لڑکی دس گیارہ برس کی ہوئی نہیں کہ اسے کھانا پکانے، سینے پرونے، کاڑھنے اور بُننے پر لگا دیا۔
 تربیت کے ساتھ ساتھ تلقین بھی ہوتی، بیٹا! جتنا خوش ذائقہ کھانا پکاؤگی، اتنی سرخ رو ہوگی۔ 
لذیذ کھانا کھا کر لوگ دوسرے کے دسترخوان پر تذکرہ کرتے کہ فلاں جگہ جو قورمہ کھایا تھا، ویسا آج تک نہیں کھایا۔ 
شیخ صاحب  کی بہو  اتنی لذیذ بریانی  بناتی ہے کہ ان کے سامنے نامی گرامی باورچی پانی بھریں۔
مرزا صاحب کی بیوی کے ہاتھوں کے پائے اگر کھاؤ ، تو سالوں منہ میں لذت رہے ۔
فاطمہ آپا کی بیٹی  کا زردہ ، تمام حلوائیوں کو مات دیتا ہے ۔
 ’’بیٹی معدے کے راستے  سسرال  کے دل میں گھر کرتے ہیں"۔
" شوہر کے دل کا راستہ اُس کے معدے  سے گذرتا ہے "۔
" یاد رکھو! منھ کھائے آنکھ لجائے"۔
" بٹیا ، کھانا گھی نون مرچ کا نام لیں۔ کھانا پکتا ہے شوق سے اور پورے ہوش سے، جبھی دوسرے کے منھ کو لگے گا "
" اورہاں  گھی پکائے ہنڈیا بڑی بہو کا نام"  بلا وجہ نہیں کہتے۔
ہندوستان میں قریبی عزیزوں میں بیٹیاں بیاہتے وقت چھان بین نہیں کرتے تھے، کیوں کہ سب دیکھے بھالے ہوتے تھے، لیکن کسی دوسرے خاندان یا برادری سے کوئی رشتہ آتا تو آسانی سے ’’ہاں‘‘ نہیں کرتے۔ لڑکے کے متعلق تفتیش و تحقیق کراتے۔ کوشش کرتے، کسی طرح اسے دسترخوان پر دیکھ لیں۔ کس طرح کھاتا ہے، کیسے پیتا ہے۔دسترخوان کی تہذیب میں کبھی دو کھانے ملا کر نہیں کھائے  جاتے، دہی  صرف کھانے میں  نمک مرچ کو حسبِ ذائقہ متوازن کرنے کے لئے ڈالا جاتا ۔
کھانا کھانے کے انداز سے پتہ چل جاتا کہ لڑکا حریص ہے یا بدنیت، خوش اطوار اور خوش مزاج ہے یا غصیل، زود رنج ہے یا مغلوب الغضب!!
کہا جاتا ہے ، ایک گھریلو دعوت میں   ، خالہ کے ہونے والے داماد  کے ساتھ اُس کا دوست  بھی تھا ، مردان خانے میں  دسترخوان لگایا گیا ۔ سب حسبِ مراتب دسترخوان پر بیٹھے ،  ہونے والے  داماد کو بزرگ کے دائیں جانب اور دوست کو بیٹوں کے ساتھ سامنے بٹھایا  ، کھانا چُن دیا گیا  ، ملازم بریانی کی قاب لائے ، ہونے والے داماد کو پیش کی ، پھر دوست کو اور  بزرگ نے بریانی اُتاری  اور پھر ، سبھی نے اپنی اپنی پلیٹ میں بریانی لی اور کھانا شروع کیا۔ چند منٹ بعد قورمہ آیا۔بزرگ کے سامنے بیٹھے، داماد کے  دوست  نے جھپٹ کر قورمہ کی قاب اُٹھا بریانی میں قورمہ ڈالا۔کہ بزرگ کی  آواز آئی،" استغفر اللہ"!
  نوجوان نے چونک کر دیکھا۔ بزرگ نے شائستہ لہجے میں کہا، "میاں آپ نے بریانی کی توہین کی۔ قورمہ رائتہ نہیں ہوتا۔ قورمہ کو روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں، بریانی کے ساتھ نہیں"۔
نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور تیز لہجے میں بولا، "ہمارے یہاں سب اسی طرح کھاتے ہیں۔ ہمارے بڑے بھی اسی طرح کھاتے تھے"۔
بزرگ مسکرائے  اور گویا ہوئے،" بیٹے ہم نے آپ کے بڑوں کو تو نہیں دیکھا، لیکن آپ کو دیکھ کر اندازہ ہوگیا"۔ 
کھانے سے فارغ ہو کر جب تقریب گاہ سے باہر آئے تو   بزرگ گویا ہوئے ، " تعلیم نے دسترخوان کے اطوار بگاڑ دیئے ، عذرِ گناہ  بد تر از گناہ  ، میں نام بدنا م باپ دادا کا، کہ ہمارے بڑے بھی ایسے ہی کھاتے تھے
۔ قورمہ ڈال کر اچھی خاصی بریانی کا ناس کیا۔ خدا کا شکر ادا کرو تافتان سے بریانی نہیں کھائی  ، آپ اُتر میں بیٹا دکھن میں، میں تو کہتا ہوں، یہ ٹی وی نہیں ہماری تہذیب کے لیے ٹی بی ہے ٹی بی۔"
(نامعلوم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔