Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 31 مئی، 2020

31 مئی کی ڈائری ۔ ایتھوپیا - چم چم کی کرونا بغاوت-اور شیرٹن کی سیر

 پروگرام کے مطابق ، چم چم  ، بڑھیا اور بوڑھے کا  15 جون کو اسلام آباد واپسی کا پروگرام ہے ۔
لہذا  ،  چم چم  ، بڑھیا اور بوڑھے کو کرونا سے بچانے کے لئے ، چم چم کی ماما نے فیملی   کے اسلام آباد پہنچ کر ، تمام حفاظتی تدابیر کی  SOPs  بنائیں اور لیکچر دیا ۔ بوڑھے کا خیال تھا کہ وہ  تو   OSHA  کا ماہر ہے ۔ جبکہ یہ تربیت  بوڑھے کے بجائے  بڑھیا اور چم چم کو دی جائیں کیوں کہ ماسک پہننے سے بڑھیا کو سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور چم چم کی ناک پر کھجلیوں کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ۔ 
بڑھیا کی عینک پر بھاپ جم جاتی ہے اور اُسے نظر آنا بند ہو جاتا ہے ۔
ربڑ کے دستانے پہننے سے چم اور بڑھیا دونوں کے ہاتھ پسینے سے بھر جاتے ہیں ، تو کیا کیا جائے ۔
جِس کا تجربہ ۔ ہیپی برتھ ڈے پارٹی ، چاند رات ہلا گلا اور  عید ملن پارٹی میں ہو چکا تھا - جس میں صرف گھر سے  اولمپیا ہاؤس ( عارف صاحب کا گھر)   آنے جانے کا 5 منٹ کا راستہ تھا ۔ 
عدیس ابابا سے اسلام آباد کا سفر وایا دبئی  ۔10 گھنٹوں کا ہے ، سوشل ڈسٹنسنگ نے یہ وقت اور زیادہ لمبا کردیا ہے ۔جس کو کم کرنا ممکن نہیں ۔
لہذا  آج  بروز 31 مئی بروز اتوار۔   کو  ، چم چم ، اُس کی ماما ، بوڑھا اور بڑھیا خود ساختہ لاک ڈاؤن سے آزادی پا کر باہر کچھ کھانے گئے ۔ تاکہ عدیس سے اسلام آباد تک کے سفر پر مکملSOPs پر عمل کیا جائے ۔
لہذا چار کا ٹولہ  ۔ گھر سے مکمل SOPsکے ساتھ باہر نکلے -
سڑکیں تقریباً خالی ، ہوٹل پہنچنے تک ، تمام بتائے گئے اصولوں پر عمل کیا گیا سوائے چم چم کے ۔
 14 مارچ اور اُس سے پہلے بھرا ہوٹل سنسان ۔ لابی سوئمنگ پول ایریا خالی ۔ 
تین ڈائینگ ہال پر تالے ۔ انٹرنس کے بعد موجود بار لاونج میں چند فیملیز ۔ 
ایک میز پر صرف تین افراد کے بیٹھنے کا قانون ۔

یوں لگتا کہ کرونا نہ ہوا ، کوئی آسیب ہے سارے شہر کو ویران کر گیا !
 اور چار کا ٹولہ ، شیرٹن میں  تنہا اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا  -


٭٭٭٭واپس ٭٭٭

شیرٹن ایتھوپیا کا سیلون اور ڈی ایچ اے کا سلون

ایتھوپیا میں چم چم  کی ماما نے کئی بار کہا ۔ پپا آپ سیلون جائیں گے ۔

نہیں ! بوڑھے کا ایک ہی جواب  ہوتا ا

پپا اچھا ہوتا ہے آپ کے جسم کی مالش ہو جائے۔ چم چم کی ماما بولی ۔مجھے برا لگتا ہے کہ میں اور ماما گھر پر مساج کروائیں اور آپ نائی سے بال کٹوائیں ۔

کروا لیں مالش جسم کھل جائے گا ۔ بڑھیا بولی

آوا ، وومن سے کروائیں گے یا مین سے ۔ چم چم نے پوچھا ۔

میں کسی سے نہیں کرواؤں گا ۔ بوڑھا بولا ۔

دراصل ہر 15 دن بعد ، اٹلی کی ایک خاتون گھر آتی اور تینوں ۔ بڑھیا ، چم چم ماما اور چم چم کی مالش کرکے جاتی ۔ 

بیٹی نے سوچا بوڑھے باپ کو بھی مالش کے مزے کروائے جائیں ۔ بوڑھا تو پاؤں میں درد ہو تو بڑھیا سے پاؤں دبوانے سے بھاگتا۔بوڑھا تو باربر  سے بال کٹوانے کے بعد اُس کے ہاتھوں کے سر کے اوپر تالیاں یا سر پر ہلکی  تھپڑول سے گھبراتاہے ۔ تو کیسی مالش ؟  کہاں کی مالش؟ اور کس لئے مالش ؟۔  

دن گذرتے گئے۔ 

تو اُفق کے پار بسنے والودوستو ۔ہوا یوں کہ مئی 2020 کی عید پر بڑھیا نے عدیس ابابا میں بسنے والے پاکستانی فیملیز  اور  یو این او  کے  سٹا ف کو  عید ملن پروگرام پر بلایا ، جس کی ابتدا چاند رات سے ہوئی ۔خوب ہنگامہ ہوا ۔ خواتین اور بچوں نے آپ میں مہندی لگانے کا مقابلہ کیا ۔ 

کرونائی ماحول سے چھٹکارا پانے کا یہ بہترین موقع تھا ۔ 

سب کچھ ٹھیک ہوا لیکن غضب یہ ہوا کہ چم چم کی ماما کی ایک  اٹالیئن سہیلی نے بڑھیا ، چم چم کی ماما اور چم چم کے لئے شیرٹن مساج پارلر کے کوپن دیئے اور بوڑھے کو مساج پالر کے علاوہ سیلون کا بھی کوپن دیا ۔ 

مساج پارلر کا کوپن تو بڑھیا نے ہتھیا لیا اور بوڑھے کو اکسایا کہ شیرٹن میں جاکر بال کٹوئیں ۔

بیٹی نے شیرٹن میں اپنی مساج پارلر کی بکنگ کروائیں اور بوڑھے کی سیلون کی ۔جو ہفتے کی تھیں اور بوڑھے کی اتوار کی ۔ 

ویسے بھی ایتھوپین نائی سے مستفید ہوئے بوڑھے کو مہینہ ہوچکا تھا ۔ لہذا بوڑھے نے ہامی بھر لی ۔  

بوڑھا بلیو کیب میں سب کے ساتھ   31 مئی کو شیرٹن جا پہنچا ۔ سیلون میں 10 افرادکے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ریسیپشن پر بتایا کہ 11:30 پر بوڑھے کی باری ہے ۔ سب لاونج میں بیٹھ گئے ۔

 چم چم کے لئے ناشتہ منگوایا گیا۔ بوڑھے نے انتظار میں کافی پی اور بڑھیا نے چائے ۔ چم چم کی ماما نےپودینے کا رس ۔ جس کو ئی مشکل نام تھا۔ 

خیر 11 ؛25 کو ایک نوجوان بوڑھے کے پاس آیا اور کہا کہ سر آپ مکمل کرونا ایس او پی کے ساتھ سیلون میں داخل ہوں گے ۔

بوڑھے نے واش روم جاکر ہاتھ دھوئے ۔ گرم ہوا سے خشک کئے ، ہاتھوں پر سینیٹائزر لگایا ۔ اور بڑھیا کے پاس آکر این -95 ماسک لیا۔ ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ۔ اور یوں بوڑھا شیرٹن سیلون کے خلائی سفر کے لئے کسی خلاباز کی طرح تیار ہو کر روانہ ہونے لگا ۔ تو 

چم چم بولی ۔ آوا میں بھی چلوں گی ۔ 

مگر اُس کی ماما نے اُسے منع کردیا ۔ وہ منہ بسور کر بیٹھ گئی ۔

سیلون کے قبرستان کی خاموشی کے حد تک کے ماحول میں بوڑھا داخل ہوا ۔                کل تین افراد سیلون میں بیٹھے تھے ۔ جن کے ساتھ ہیئر ڈریسر اُن کے ہیئر کی ڈریسنگ کر رہاتھا ۔ 

بوڑھے کو بھی ایک لیدرائیٹ کی کرسی کی طرف اشارہ کیا ، بوڑھا اُس میں جا کر دھنس گیا ۔

بوڑھے نے طائرانہ نظروں سے جائزہ لیا ۔نیم تاریکی کے ماحول میں ہیئر ڈریسنگ کروانے والوں کے سروں کے اوپر روشن  بلبوں نے افریقی گھنگھریالے بالوں میں چلتی ہوئی بے آوازمشینوں کی مدھم سرر سرر نے طلسماتی ماحول بنایا ہوا تھا۔

ایک ماہر ہیر  ڈریسر نے بھینی خوشبو میں بسا ہوا ایک رومال طشت میں رکھ کر پیش کیا ، بوڑھے نے وہ رومال منہ پر پھیرا۔ اور واپس کر دیا ۔ 

 بوڑھا ہیر سٹائل دیکھنے میں مگن ہو اور تصورات میں  ڈی ایچ اے ون کے ہیر ڈریسر سیلون میں پہنچ گیا  ۔ 

نائی چاچا سے باربر، بابر سے گیسو تراش ۔ گیسو تراش سے ہیئر ڈریسر ، اور پھر دوبارہ فوجی نائی  سے 67  ہر مہینے 800 مرتبہ  ، بال کٹوانے کے بعد ، بوڑھا  جب     ہیئر ڈریسر کے سیلون میں بڑھیا خواہش پر جااترا ۔ بوڑھے کو خیال آیا کہ کسی بھی   سیلون میں جیب کٹوانے سے بہتر ہے کہ نائی سے بال کٹوائے جائیں ۔ 

وجہ  بڑھیا کو بوڑھے کے سولجر کٹ بال پسند ہیں ۔ جب بھی بوڑھے نے اپنے بال پھیلانے کی کوشش کی تو بوڑھے  کو جھڑک ملی :  اگر میجر نعیم سے تعارف کروانا ہے تو بال بھی فوجی کٹوائیں۔

 یوں بوڑھا بچپن سے 66 سال کی عمر بلکہ اب بھی فوجی کٹ کے ساتھ پھرتا رہا ۔
سوائے  اُس ایک سالہ یادگار دور جب بوڑھا میرپورخا ص میں  پڑھائی کی خاطر تنہا رہتا   اور  سر پر مکمل وحید مراد ، محمد علی اور ندیم ے سٹائل کے بال رکھتا تھا ۔

بوڑھے نے ایل سی ڈی پر مختلف بالوں سے مزیّن سر دیکھتے ہوئے ۔ معلوم ہے دوستو  کیا کیا ؟؟

ایک سر پر پیالہ رکھ کر کٹوائے ہوئے سولجر کے سپاہی کی تصویر پر انگلی رکھ دی ۔ ماہر گیسو تراش کا منہ کھل گیا ۔ 

سر دس ون،  اُس کی سرگوشی میں آواز سنائی دی ۔

یس۔ بوڑھے نے سرگوشی میں جواب دیا۔

جب ڈی ایچ اے کے سیلون میں بوڑھے کے سامنے کتاب کے ورق اُلٹے جارہے تھے تو ساری 24 صفحات پر مشتمل تصاویرکے بعد ، ماہر ہیئر ڈرسیر نے پوچھا  ۔ سر کون سا سٹائل ۔

بوڑھے نے کہا          ۔ آپ کی  اِس کتاب میں وہ نہیں ہے۔

سر کونسا ؟ نوجوان نے پوچھا ۔

سولجر کٹ ۔ بوڑھا بولا ۔

جی ، نوجوان تقریباً چلانے کی آوازیں بولا ۔

جی بوڑھے نے جواب دیا ۔

بوڑھا دونوں ہیئر ڈرسیر کے ذہن میں اُٹھنے والےگرمی کے بگولوں سے واقف تھا ۔ وہ دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے  سوچ ررہا ہو گا۔ 

کہ او گھٹیا بڈھے ۔ گاؤں کے نائی سے بال کٹواتا کٹواتا ، اب ہیئر ڈریسر کو ذلیل کرنے کے لئے ہیئرڈریسنگ سیلون کی کشنڈ کرسی پر بیٹھ کر بھی اپنی اوقات نہیں بھولا اور سولجر کٹ کٹوانے پر بضد ہے ۔ اِس تو توبہتر ہے کہ تیری گردن کاٹ دی جائے۔

ایتھوپیئن نائی نے تو اپنی تمام تر غلیظ سوچوں کے باوجود ۔ ایک بار مشین اورتین بار قینچی کی چک چک میں سولجر کٹ بوڑھے کے سر پر بسا دی ۔ 

لیکن  پاکستان میں ڈی ایچ کے ہیر ڈریسر نے اتنی جلدی ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔

سر وہ بھی کوئی کٹ ہے ۔آپ اجازت دیں تو میں آپ کی ایسی خوبصورت ہیئر ڈریسنگ کر دوں گا کہ آپ بھی کیا یاد کریں گے ۔ہیر ڈریسر بولا۔

نوجوان کتنا آسان ہے ، دائیں کنپٹی سے مشین چلا اور بائیں کنپٹی پر لا کر روک دےاور جو بیچ کے بال رہ گئے اُن کی چھنٹائی کر دے ، کام ختم ، بوڑھا بولا۔

سر مجھے کرنے دیں ۔ پلیز ۔ نوجوان بولا  

نوجوان ۔ اجازت دی ۔ جب ناکام ہوجاؤ تو بس ایک کام کرنا ۔ بوڑھا بولا ۔

جی سر وہ کیا؟

استرا پھیر دینا۔ گھر کی کھیتی ہے ۔ دوبارہ اُگ جائے گی بوڑھا بولا ۔

ھک ھک ھک  ھو ھو ۔ سر جی آپ بہت مخولیئے ہیں۔ نوجوان ہنڈا ففٹی کی آواز میں ہچک ہچک کر بولا ۔

 نوجوان یہ دردِ،  ولیانہ  یا گدایانہ نسخہ ہے ۔ جس سے بوڑھا عموماً فیض یاب ہوتا ہے ۔  بہر حال اپنی مہارت کے جوہر دکھاؤ ۔ اگر گڑبڑ ہوئی تو بڑھیا نے  یہاں آکر حساب برابر کرنا ہے ، کہ اُس کے سر کے تاج کو بے تاج کر دیا ۔ 

جی سر جی سر ، نوجوان اپنے مستقبل کے ہولناک انجام کی آگاہی پر پریشان ہوگیا ۔

بوڑھے نے آنکھیں موندھ لیں۔

ایتھوپیئن ہیئر ڈریسر نے بوڑھے کے سر پر خوشبو دار پانی کا سپرے کیا۔ معلوم نہیں کون سی خوشبو تھی لیکن ذائقے میں ناک کو ڈیٹول ہی لگی ۔

سر تھوڑے سپائک بنا دوں ۔ نوجوان کی آواز آئی۔

ھنڈرڈ میٹر دوڑ لگوانی ہے ؟ بوڑھے نے پوچھا۔ اب ہمت نہیں نوجوان ۔ 

بوڑھے نے انکھیوں کے جھروکوں سے دیکھا۔ دور مختلف بوتلیں پڑی نظر آئی۔ جن میں مختلف رنگوں سے سیال نظر آئے ۔ شاید یہ ھربل آئیل ہیں ۔

ینگ مین  ، وہ کیا ہے بوتلوں میں؟ بوڑھے نے اپنی معلوما ت میں اضافہ کرنا چاھا ۔

آپ پینا چاھتے ہیں؟  ایتھوپیئن نوجوان نے پوچھا ۔

    ارے واہ ، بوڑھے نے سوچا۔ جدید نائی کے ٹھیّے پر بھی انگور کی بیٹی براجمان ہے ؟ ۔ نو تھینکس بوڑھے نے جواب دیا ۔ 

ہیر سیلون کے ڈریسر نے بوڑھے کے بالوں  کو ہاتھوں سے گھما پھرا کر جگانے کی کوشش شروع کردی ۔ شائد وہ ساکت برق کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن اُس نوجوان کو نہیں معلوم تھا کہ بوڑھے کی بجلیاں جامد ہو چکی ہیں بلکہ منجمندِ جنوبی بن چُکی ہیں ۔ 

سر آپ کے بال بہت خشک ہیں ۔ میں سکا کئی کا شیمپو کر دوں ۔ نوجوان ایتھوپیئن  انگلش میں بولا۔بوڑھے کو معلوم تھا یہ پیکج کا حصہ ہے ۔

شیمپو کردو مگر کسی یا  کُدال  نہ پھیرنا زخم جلدی ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ بوڑھا بولا  

نونو  ۔ سر  ۔بھل ترنگ آواز میں  نوجوان بولا سر 200   بر  (کرنسی) لگیں گے ۔ 

لگا دو ، بوڑھا بولاجب اوکھلی میں سر دے دیا تو پھر روپوں کی دھمک سے کیا ڈرنا ؟

بوڑھے نے سر پیچھے کیا ۔ نوجوان نے ، بوڑھے کے بالوں کو خشکی سے تری کی طرف لے جانے کے عمل شروع کرنے سے پہلے پوچھا۔ سر پانی کا ٹمپریچر ٹھیک ہے ؟
نہیں تھوڑا گرم کرو ۔ کہ اِس سے پہلے ، سیلون کے ائر کنڈیشن ماحول میں ،بوڑھے کی 
کھانچھینک سے، سر ر سرر اور چکک چکک  کی لے میں  اونگھتے ہوئے ہڑبڑا کر ،آرام دہ کرسیوں سے چھلانگ مار کر باہر کا رُخ کریں کہ شائد کرونا کا ہوائی حملہ ہو چکا ہے۔ پانی کو اتنا گرم کردو کہ بوڑھا خود بھی آرام سے رہے ، اور دوسرے بھی ۔کیوں کہ بوڑھا نزلے کا 1991 سے شکار ہے ۔  

دوستو۔ کھن چھینک آپ کی لغت میں نئے لفظ کا اضافہ ہوگا ۔ یہ خالصتاً  اُفق کے پار سے، بوڑھے کی دریافت ہے ۔  جب چھینکیں مار مار کر بوڑھے کا بچپن میں برا حال ہوجاتا ، تو وہ چھینک ناک کے بجائے منہ سے نکالتا  ۔جو کھانسی اور چھینک کے سنگم پر گلے ملتی ہوئی بالائے بنفشی شعاؤں سے اوپر کی چیز ہوتی۔
 چنانچہ چم چم کی فلک شگاف   ہنسی اور بوڑھے کی کھن چھینک، ایف نائن پارک میکڈونڈ ہو ، ایتھوپیا کا شیرٹن یا بحریہ کا چائے خانہ۔ انجوائے کرنے والوں کو بوکھلا دیتی ہیں ۔

    بوڑھے نے  سامنے لگے ہوئے واش بیسن میں گردن جھکائی ، سر پر پانی کی پھوار پڑی اور بالوں پر شیمپورگڑا جانے لگا ۔

سر آپ کو تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑے گا    جب تک سکا کئی آپ کے بالوں میں رچ نہ جائے ۔ ایتھوپیئن انگلش میں ہدایت ملی ۔

کیا سکا کائی مہندی کی چھوٹی بہن ہے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

کیا سر ؟ نوجوان بولا ۔

کچھ نہیں بوڑھا بولا ۔اِس بے چارے ایتھوپیئن کا کیا معلوم مہندی کیا ہوتی ہے َ جو پورے عدیس ابابا میں صرف ایتھوپیئن  چنبیلی  (پڑھیں ) کی دکان سے ملتی ہے اور بڑھیاکے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کے کام آتی ہے۔

پھر پانی سر پر پڑا اور شہمپو صاف ہونے لگا ، پہلے ایک تولیا ، پھر دوسرا تولیا پانی کو جذب کرنے کے لئے استعمال ہوا، سر پیچھے کروایا گیا اور گرم ہوا سے بال خشک ہونے لگے ۔  

یہی عمل پاکستانی باربر کرتا ،سر سے گرنے والا پانی، لوہے کی سٹینڈ پر پڑے ، سیلف ہیلپ بنیاد پر بنائے گئے ایلو مینیئم کے تسلے میں پانی کی پائپ کے نیچے رکھی ہوئی پلاسٹک کی بالٹی  میں  چلا جاتا ۔ لیکن بال خشک کرنے کے لئے ایک ہی تولیہ ہوتا ۔گرم ہوا تو بربر کی دکان کے باہر ملتی۔ 

دونوں ہیئر ڈریسر سلیون  ملکی یا غیر ملکی  کی آؤٹ پُٹ ایک تھی مگر طریقِ کا و سازو سامان مختلف ۔ یہاں تک کے سازو سامان کے حلقوم سے نکلنے والی آوازوں کا زیر وبم بھی  پوپ اور پاپ  آوازوں کی طرح تھا ۔ کانوں میں آنے والی سرر سرر کی آوازوںاور قینچی کی چک چکا چک چک کی تال کی گھمبیتا اور سریلتا ایک تھی ، جو پنجارے کی تک دھنا دھن دن، تک دھنا دھن دن ،کی لے میں، ای سی جی کی لکیروں کی مند تھرتھراہٹ لئے ہوئی ہوتی ۔ 

 ینگ مین  آپ نے بال تر کئے اور دوبارہ خشک کئے تو کیا پہلے وہ ٹھیک نہ تھے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

سر آپ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیریں ۔ ایتھوپیئن ینگ میں بولا  ۔

بوڑھے نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وقت شاہد آفریدی کا تصور کیا ۔ لیکن بوڑھے کے بال لختے نہیں تھے بمشکل انگلی بھر تھے جو شائدانگوٹھے برابر ہو جائیں ۔ بوڑھے نے انگلیاں پھیریں بوڑھے کو بال ویسے ہی لگے جب نہاتے وقت دوسری بار دو صابون پرانے اور نئے  کو جوڑ کر اُن کی سنگت میں جھاگ بنا کر پانی سے دھویا جاتا۔

دو سو ،بِر (ایتھوپئین کرنسی )   جگاڑ گیا ، نوجوان شیمپو ۔ 

ارے دوستو کیا بتاؤں ۔ ذہن نے ماضی میں بیک سمر سالٹ لگائی اور 1977 میں سکول آف آرٹلری کے آفیسر میں میں چاچا شیمپو کے پاس جا پہنچا ، جو ہر نوجوان آفیسر کو اُس کے بالوں میں خشکی کی اندوھناک خبر بتاتا اور  پھر اپنا خالص ریٹھے ، ڈیٹوال اور نہ معلوم کن کن ھربل دوائیوں سے بنایا گیا گیا شیمپو بیچتا ۔ جن جن نوجوان آفیسروں نے چاچا شیمو کا خالص ھرب شیمو استعمال کیا ۔ بوڑھے کی عمر میں اب اُن کے سروں پر دائیں کان سے اُگنے والے بال بائین کا ن پر لٹکتے ہیں یہ اور بات کہ وہ سوئمنگ سر پر رومال باندھ کرکرتے ہیں ۔

اب ہیر ڈریسنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کو ہے، دونوں نائی اپنے اپنے اوزاروں کے ساتھ بوڑھے کے سر تو تختہءِ مشق بنائیں گے ۔ جن کی حتمی پسندیدگی یا ناپسندیدگی بڑھیا کے سر ہوگی ۔ 

چنانچہ بوڑھا کرسی سے اُٹھا  اور لاونج میں جاپہنچا ۔دونوں  خواتین  اور چم چم ابھی تک نہیں آئیں تھیں ۔ بوڑھا ایک کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا اور وٹس ایپ پر دوستوں کے پیغامات کے جوابات دینے اور اپنے پیغامات دینے میں مصروف ہو گیا۔

 سب سے پہلے ، چم چم کی ماما آئی ۔ وہ کوئی نوٹس لئے بغیراپنی کرسی پر بیٹھ گئی ۔پپا کافی پی لیں ؟

ضرور بوڑھا بولا۔

کافی کی چسکیاں لیتے وقت وہ بولی ۔ پپا   سیلون میں انجوائے کیا     ۔

پانی تک نہیں پیا  کہ اُس میں خمار نہ ہو ۔ بوڑھا بولا ۔ 

بال اچھے کٹے ہیں وہ بولی ۔ 

اتنے میں بڑھیا آئی ۔اور بیٹھتے ہی بولی ۔

سچ نعیم اتنا مزا آیا ۔وہ جومساج کرنے والی گھر پر آتی ہے وہ یہاں بھی کام کرتی ہے میں نے اُسی سے مساج کروایا ۔آپ بھی مردوں کے سیکشن میں کروا لیتے۔ سچ سار ی تھکن دور ہو جاتی ۔

کوئی خاتون مساج کرتی تو میں بھی مساج کا  سوچتا بھی ۔ میں نے شرلی چھوڑی ۔

کیا؟ میں اُس کے ہاتھ نہ توڑ ڈالتی ۔ بڑھیاالفاظ چبا کر بولی ۔

ماما ، ماما ، آپ پپا کو نہیں  جانتیں ؟ چم چم کی ماما بولی ۔ 

یہ چڑاتے کیوں ہیں ؟بڑھیا بولی۔

آوا آپ نے ہیر کٹ کروالی۔ چم چم نے  پوچھا ۔ سیلون کیسا تھا ؟ 

آپ نے بال کٹوا لیئے ۔ بڑھیا نے پوچھا یا کرونا کی وجہ سے اُنہوں نے سیلون پھر بند کردیا بڑھیا بولی ۔

اُنہوں نے بس صفائی کے کپڑے سے جھاڑ پونچھ کر کہا ، بابا جی بس جاؤ زیادہ  ہیرو بننے کی ضرورت  نہیں ہے ۔آپ ولن ہی اچھے لگتے ہو ؟بوڑھے نے کہا ۔

کیوں ؟ بڑھیا نے پوچھا ۔ ولن کیوں ؟

تاکہ یہاں بسنے کا پروگرام تکمیل کو نہ پہنچے ۔ بوڑھا بولا ۔

میں نے پوچھا ،بال کٹ گئے ہیں ، بڑھیا بولی 

نائی نے تو یہی کہا ۔ باقی کیا کہوں ، بوڑھا بولا ۔70 بِر لگے 

بس اتنے سے بال کاٹنے کے 700  بِر  میں ؟؟ بڑھیا چلائی ، آپ کو بس پیسے پھینکا آتا ہے ۔ 

بھئی تم ہی نے تو کہا تھا ۔ کہ اب نائی کے بجائے ھیئر ڈریسر سے بال کٹوایا کریں ۔
 بڑھیا بولی ۔ بُرا لگتا ہے یہ کہنا کہ میجر صاحب ، نائی کے پاس بال کٹوانے گئے ہیں ۔ 

آہ بیگم پھٹے پر  درخت کے نیچے بٹھا کر یا  سیلون کی جہازی کرسی پر بیٹھ کر سر پر اوزاروں کی دھماچوکڑی  کا حتمی نتیجہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔لہذا ٹنکی کے نیچے 100 روپے میں حجامت بنانے والا ہو یا سیکٹر سی میں پلازے میں بیٹھ کر 700 روپے میں بال گرانے والا ہیر ڈریسر      سب کا کلائنٹ حجامت بنواتا ہے ۔بوڑھے نے سوچا۔ 

سستی یا مہنگی  سولجر کٹ ۔

 ٭٭٭٭٭٭

مزید  پڑھیں:۔

٭۔ نائی چاچا سے گیسو تراش کا سفر

٭۔ایتھوپیا کا نائی

٭٭٭٭واپس ٭٭٭  

  

ہفتہ، 30 مئی، 2020

تاڑ اور تاڑی

ایک نشہ آور مشروب!
جھمپیر کے کھجور کی ٹوڈی کراچی کے باروں میں سرو کی جاتی تھی-
کھجور کی تاڑی اور اس سے تیار شدہ گڑ!
بھارتی فلم سوداگر اور ذکر کچھ موتی اور محجوبی بیگم کا!

تاڑ ایک ناریل کے درخت جیسا اونچا درخت ہے جسے عربی میں طار فارسی میں تال بنگالی میں تال گجراتی میں تاڑ سندھی میں ٹاری ۔
یہ درخت عام طور پر جنوبی بھارت بنگلہ دیش ویتنام اور کمبوڈیا وغیرہ میں بکثرت پایا جاتا ہے- بچپن میں میں نے کراچی کے گاندھی گارڈن یعنی چڑیا گھر میں بھی تاڑی کے درخت لگے دیکھے تھے - اس کے علاوہ کراچی کے پرانے علاقوں گارڈن ، اولڈ کلفٹن وغیرہ کے پرانے بنگلوں کے لان میں کہیں کہیں تاڑی کے درخت نظر آجاتے ہیں-
یہ درخت بیس سے چوبیس گز بلند ہوتاہے۔اس کا تنا نہایت مضبوط ہوتا ہے۔تنے کے آخری حصے کھجور کی مانند پتے ہوتے ہیں۔ہر ایک پتا ایک ایک شاخ پرلگا ہوتا ہے۔پتے بڑے بڑے پنجے کی شکل میں ہوتے ہیں۔اور بالعموم پنکھے بنانے کے کام آتے ہیں۔پھل ناریل کے برابر سخت اور سیاہ ہوتا ہے۔اس پھل کامغز کھایا جاتا ہے۔
اس درخت سے جورطوبت تروش پاتی ہے اسکو تاڑی کہتے ہیں۔

تاڑ کے پکے پھل کا کاٹ کر اس کا مغز نکال لیتے ہیں۔جونہایت شاداب و شیریں اور فالودہ کی مانند منجمد ہوتا ہے۔اس کو چاقو سے تراش کر کھاتے ہیں۔نہایت لذیز ہوتا ہے۔لیکن دیرہضم اور نفاخ ہے تقویت وتفریح اورتسکین حرارت کی غرض سے اس مغز کو باریک باریک قاشوں میں تراش کر عرق گلاب میں تر کرکے مصر ی سے شیریں کرکے کھاتے ہیں۔جن سے پیشاب کی سوزش دور ہوجاتی ہے۔پیاس کو تسکین دینے کیلئے خوب ہےعلاوہ ازیں اس کے استعمال سے بدن کو غذائیت پہنچتی ہے اور کچھ عرصہ تک استعمال کرنے سے بدن فربہ ہوتاہے۔
جنوبی بھارت کے گائوں دیہات کے میلوں ٹھیلوں میں آج بھی تاڑی کا مشروب لوگ بطور تفریح پیتے ہیں - ہولی دیوالی پر اس کو بطور نشہ آور مشروب کے استعمال کیا جاتا ہے-
جنوبی ہند میں اس سے دیسی کھانڈ تیار کی جاتی ہے اس کی چھال کے جوشاندے سے غرغرے دانتوں اور مسوڑھوں کو مضبوط کرتے ہیں۔اس کا سرکہ ہاضم معدہ وطحال کو نافع ہے۔

تاڑی یا تاڑ کا جھاڑ گرم مرطوب ساحلی علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے - خط استوا کے گرد جتنے بھی ساحلی علاقے ہیں وہاں تاڑ بکثرت پائے جاتے ہیں -
ملائشیا سے لے کر جنوبی امریکہ اور مغربی افریقہ ان درختوں سے بھرے ہوئے ہیں جہاں اس کے پھل کو پام اور اس پھل کے تیل کو پام آئیل کہتے ہیں
یہ مغربی افریقہ میں پکانے کے لئیے استعمال ہوتا ہے
اسکا مزہ اختیاری ہوتا ہے یعنی جس کو بھا جائے اسکو بھا جایے ورنہ اسکی تلخی کریلوں کی طرح کسی کسی کو برداشت ہوتی ہے
مغربی افریقہ کے ممالک گھانا نایجیریا ایوری کوسٹ لائبیریا وغیرہ میں پام کی شراب بہت پی جاتی ہے - یہ عرف عام میں ، پام وائین کہلاتی ہے مزے کی بات امریکہ میں یہ پام وائین ایک مشروب کی طرح ان دکانوں پر بھی ملتی ہے
جہاں شراب فروشی کا لائسنس نہیں ہوتا
شاید ابھی تک امریکیوں کو۔معلوم نہیں کہ یہ۔مشروب نشہ۔انگیز ہے-

 تاڑی (Toddy)
ایک سفیدی مائل رطوبت ہے جو درخت تاڑسے ٹپکتی ہے اس کی بومکروہ ہوتی ہے۔مزہ شیریں ترشی مائل ہوتی ہے۔
تاڑ کے درخت پر پھلوں کو کاٹ کر اس جگہ مٹی کا برتن باندھ کر دیتے ہیں ۔تاکہ اس میں رطوبت ٹپک ٹپک کر جمع ہوتی رہیے۔اس رس کو جمع کرنے والے کو رسیا کہا جاتا ہے-

مزاج اس کا سردوتر درجہ اول۔
مصفیٰ خون ،ملین مقوی باہ ،مقوی ومسمن بدن ،مسکن حرارت ،مدربول قاتل کرم شکم
استعمال۔
تاڑی زیادہ ترشوقیہ پی جاتی ہے۔اگرچہ یہ اپنے سکر کی وجہ سے ناقابل استعمال ہے لیکن فوائد کی بناپر اس کو بکثرت استعمال کیاجاتاہے۔ضعیف اور ناقداشخاص اس کے استعمال سے طاقت ور اورفربہ ہوجاتے ہیں ۔ضعف باہ کےمریض بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔غمگین اور رنجیدہ اشخاص اس کو پینے کے بعد تازہ دم ہوجاتے ہیں ۔اور ان کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔پیاس کی حالت میں پینے سے پیاس دفع اور قبض کا ازلہ کرتی ہے۔پیشاب کی سوزش کو دور کردیتی ہے۔یہ سوزاک میں نہایت مفید ہے۔کرم شکم اس کے نہارمنہ پینے سے ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ حکیم سعید نے اپنی کتاب دیہاتی معالج میں اس کے فوائد و نقصان کا ذکر کیا ہے- حکیم صاحب کہتے ہیں کہ کبھی کبھار بطور تفریح پینے کے لئے اچھا مشروب ہے لیکن اگر اس کو بطور نشہ عادت بنا لیا جائے تو اس سے جسم کو وہی نقصانات پہنچتے ہیں جو کہ کسی بھی نشہ آور مشروب سے ہوسکتے ہیں-
تاڑی کا سرکہ ۔
اس کا مزاج گرم ایک خشک دو بیان کیاجاتاہے۔یہ ہاضم ہوتاہے۔
نفع خاص۔
بھارت ، بنگلہ دیش اور دیگر کچھ ممالک میں تاڑی بطور نشہ آور مشروب کے استعمال کی جاتی ہے-
تھکن دور کرنے کے لئے بجائے چائے کے استعمال کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں اس کو نحیف اور کمزورلوگ استعمال کرکے فربہ ہوجاتے ہیں ۔

کھجور کی تاڑی( ٹوڈی)
تاڑی ایک ایسا مشروب ہے جو تاڑ کے درخت کے علاوہ کھجور کے درخت سے بھی تیار کیا جاتا ہے- کسی زمانے میں کراچی کے نزدیک جھمپیر کے کھجور کے باغات ، 'تاڑی' کی وجہ سے خاصی مقبولیت رکھتے تھے۔
کھجور کی تاڑی شراب کی ایک قسم ہے، جو تازہ اور جوان کھجور کے درخت میں چھید کرنے کے بعد اس میں ایک چھوٹا پائپ پیوست کر کے نکالی جاتی تھی۔ درخت کے اوپر حصے میں جہاں سے شاخیں نکلتی ہیں وہاں ایک مخصوص طریقے سے چھیل کر کٹ لگا دیا جاتا ہے - اس کٹ کے ساتھ مٹی کے ایک برتن کو باندھ کر دوسرے دن تک چھوڑ دیا جاتا تھا، جس میں سے قطرہ قطرہ رس ٹپک کر جمع ہوتا تھا۔ سورج ڈھلتے ہی رس کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا۔ یعنی اگر اس کو طلوع آفتاب سے قبل پیا جائے تو مفید ہے لیکن طلوع آفتاب کے بعد یہ نشہ آور مشروب بن جاتا ہے-
سورج کی کرنوں کے نہ پڑنے تک اسے 'نیرو' کہا جاتا تھا مگر جیسے ہی اس پر سورج کی کرنیں پڑنے لگتی تھیں، تو اسے 'تاڑی' کہا جاتا تھا۔ 1970 میں ورجینیا کمپنی جھمپیر سے تاڑی لے کر کراچی کے باروں میں فراہم کرتی تھی، جہاں اسے اور بھی ذائقے دار بنایا جاتا تھا، پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ جھمپیر کراچی سے 114 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے ہوا سے بجلی بنانے والے پنکھے نصب کر کے ونڈ انرجی فارم بنایا گیا ہے-
کھجور کی ٹوڈی یا تاڑی سے گڑ نما شکر بھی بنائ جاتی ہے جو ایک خاص سوغات ہے- اس کو بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ رات یا شام کے وقت کھجور کے درختوں میں پتوں کی جڑ کے قریب ایک کٹ لگا کر اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی مٹکیاں باندھ دی جاتی ہیں- درخت پر لگائے شگاف سے قطرہ قطرہ رس ٹپک کر مٹکیوں میں گرتا رہتا ہے- دوسرے دن صبح یہ مٹکیاں اتار کر ان میں موجود رس کو ایک بڑے کڑھائو میں ہلکی آنچ پر گنے کے رس کی طرح پکایا جاتا ہے جو پانی خشک ہونے پر کھجور کا گڑ بن جاتا ہے-انتہائ لذیذ اور مقوی سوغات ہے-
تاڑی یا تاڑ کا جھاڑ گرم مرطوب ساحلی علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے
خط استوا کے گرد جتنے بھی ساحلی علاقے ہیں وہاں تاڑ بکثرت پائے جاتے ہیں
ملائشیا سے لے کر جنوبی امریکہ اور مغربی افریقہ ان درختوں سے بھرے ہوئے ہیں
جہاں اس کے پھل کو پام اور اس پھل کے تیل کو پام آئیل کہتے ہیں یہ مغربی افریقہ میں پکانے کے لئیے استعمال ہوتا ہے اسکا مزہ اختیاری ہوتا ہے یعنی جس کو بھا جائے اسکو بھا جایے ورنہ اسکی تلخی کریلوں کی طرح کسی کسی کو برداشت ہوتی ہے
مغربی افریقہ کے ممالک گھانا نایجیریا ایوری کوسٹ لائبیریا وغیرہ میں پام کی شراب بہت پی جاتی ہے ایہ عرف عام میں ، پام وائین کہلاتی ہے - مزے کی بات امریکہ میں یہ پام وائین ایک مشروب کی طرح ان دکانوں پر بھی ملتی ہے جہاں شراب فروشی کا لائسنس نہیں ہوتا شاید ابھی تک امریکیوں کو۔معلوم نہیں کہ یہ۔مشروب نشہ۔انگیز ہے
اگر آپ نے 1973 میں بننے والی امیتابھ بچن اور نوتن کی فلم سوداگر دیکھی ہو تو اس میں امیتابھ گائوں میں یہی کام کیا کرتے تھے- موتی ( امیتابھ بچن) گائوں میں موجود کھجور کے درختوں سے مٹکیاں باندھ کر رس جمع کرتا اور وہ رس گائوں کی ایک بیوہ خاتون محجوبی ( نوتن) کو دے جایا کرتا جو اپنے گھر کے صحن میں لکڑیوں کے بڑے چولہے پر ایک کڑھائو میں یہ رس سہجی سہجی سی آنچ پر پکا کر اس کا بہترین گڑ تیار کردیتی جسے موتی گائوں کے نزدیکی قصبے کے بازار میں لے جا کر فروخت کردیا کرتا تھا- گڑ کے بیوپاری موتی کے گڑ کے بڑے معترف تھے اور منہ مانگے داموں یہ گڑ خرید لیا کرتے تھے- موتی دراصل گائوں کی ایک لڑکی پھول بانو (پدما کھنہ) سے محبت کرتا تھا لیکن پھول بانو کے والد کی طرف سے بطور مہر بہت زیادہ رقم کا مطالبہ موتی پورا نہ کرسکتا تھا- موتی نے محجوبی بیگم سے نکاح کرلیا کیونکہ وہ کھجور کا گڑ بنانے میں ماہر تھی اور اس جیسا گڑ پورے علاقے میں کوئ نہیں بناتا تھا- موتی محجوبی کو جھوٹی محبت کا جھانسہ دے کر اس سے خوب گڑ بنواتا اور اسے بازار میں فروخت کرکے پیسے جمع کرتا رہا تاکہ پھول بانو کے مہر کی رقم جمع کرسکے- محجوبی کا بنایا گڑ پورے بازار میں سب سے زیادہ مہنگا فروخت ہوتا تھا- مطلوبہ رقم جمع ہونے کے بعد موتی نے محجوبی کو بانجھ پنے کا بہانہ بنا کر طلاق دے دی اور نوجوان پھول بانو کو دلہن بنا کر گھر لے آیا- لیکن جب عشق کا نشہ سر سے اترا تو موتی نے گڑ بنانے کا کام پھول بانو کو سونپ دیا مگر پھول بانو جوانی کے نشے میں مست ایک الہڑ دوشیزہ تھی- اسے کھجور کے رس کے گڑ بنانے کا کوئ تجربہ نہ تھا- گڑ بناتے ہوئے وہ بڑا مشہور گانا گاتی ہے
سجنا ہے مجھے سجنا کے لئے
زرا الجھی لٹیں سنوار دوں
ہر انگ کا رنگ نکھار لوں
کہ سجنا ہے مجھے سجنا کے لئے
پھول بانو کی انہی مستیوں اور غسل کے دوران اس کے انگ نکھرتے گئے اور گڑ کا رنگ جل جل کر سیاہ پڑتا گیا جسے بازار میں گڑ کا بیوپاری چکھ کر تھوک دیتا ہے اور موتی سے کہتا ہے کہ میاں یہ کیا اٹھا لائے ہو؟
کئ مرتبہ ایسا ہونے پر موتی کے مالی حالات انتہائ خراب ہوجاتے ہیں اور پھول بانو سے بھی ان بن ہوجاتی ہے-
اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ موتی رس کی مٹکیاں لے کر جھکے سر اور شرمندہ قدموں کے ساتھ ایک بار پھر محجوبی بیگم کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے-
یہ تو ہوگئ موتی اور محجوبی کی کہانی لیکن پاکستان کے صوبہ سندھ میں سکھر اور خیر پور میں بے شمار کھجور کے باغات موجود ہیں لیکن یہ علم نہیں کہ کوئ وہاں بھی ان درختوں سے ٹوڈی اور اس سے گڑ تیار کرتا ہے کہ نہیں؟ اگر آپ کے علم میں ایسی کوئ اطلاع ہو تو ضرور مطلع کیجئے گا-

(مختلف ویب سائٹس، بلاگز، کتب اور انسائیکلو پیڈیا سے مدد لی گئ ہے)  
 Sanaullah Khan Ahsan

٭٭٭صحت  پر  مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں   ٭واپس٭٭٭٭

اتوار، 24 مئی، 2020

24 مئی کی ڈائری-ویل ڈن پاکستانی ایمبیسی ایتھوپیا



 بول ۔انٹرنیشنل ائرپورٹ عدیس ابابا (ایتھوپیا) سے 65 پاکستانیوں کو لانے والی خصوصی پرواز لاہور کے لیے روانہ کوورنا وائرس کے باعث بیرون ملک پھنسے 65 پاکستانیوں کو خصوصی پرواز کے ذریعے ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا سے وطن واپس (لاہور) لایا جا رہا ہے۔ 
ایتھوپیا میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق، یہ افراد ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، یمن، زیمبیا، صومالیہ، جرمنی اور نائیجیریا میں پھنسے ہوئے تھے۔
جس کے لئے سفیرِ پاکستان جناب اصغر گولو ،  جناب    فاروق     (DHOM)  اور پاکستانی سفارت خانے کے عملے  کی ذاتی کوششوں سے  یہ لوگ عدیس ابابا پہنچے اور پاکستان کے لئے روانہ ہوئے۔
 اِس کے علاوہ   انہیں کی کوششوں سے 23  مئی کی صبح جبوتی سے 104 تبلیغیوں کی جماعت کو ائر جبوتی کی پرواز لے کر  کراچی پہنچے جو  فروری سے کرونا کی وجہ سے جبوتی میں  پھنسے ہوئے تھے ، 
 

 
٭٭٭٭واپس ٭٭٭

سائنس دانوں کا حشر

  ‏مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے۔ ان میں سے چار سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔

 ‏یعقوب الکندی فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین ‏عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
 ابن رشد یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے ‏آخری دن ذلت اورگمنامی کی حالت میں بسر کیے۔
 ابن سینا جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی ‏گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔
 زکریاالرازی عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح ‏باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔ 

٭٭٭٭٭

باؤلی - سیڑھی والے کنویں



 شیر شاہ سوری نے شاہراہ شیر شاہ سوری ( جی ٹی روڈ اور جرنیلی سڑک ) اور دیگر مقامات پر کافی باؤلیاں بنوائیں ان میں ہاتھی اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے بعض باؤلیوں میں زیر زمین کئی کلومیٹر خفیہ راستے بھی ملتے ہیں ۔ جہاں بھی راجپوت اور شیر شاہ سوری کے دور کے قلعے ہیں وہاں یہ باؤلیاں ضرور ملتی ہیں ۔ 
عمومی طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں " باولیاں " ( stepwell ) ضروری ہوتی تھیں۔ 
شروع شروع میں تو یہ تعمیری کاموں میں استعمال ہوتی تھیں بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے بطور مستقل موجود رہتی تھیں۔
 دہلی میں متعدد، لکھنؤ میں ایک، آلہ آباد باندہ روٹ پر کالنجراور چترکوٹ دوجگہ، سہسرام، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ کی تاریخی عمارتوں میں باولیاں موجود ہیں ۔
 ابھی پاکستان میں کچھ باولیاں باقی ہیں مثلاً لوسر باؤلی ( واہ کینٹ ) ، ہٹیاں ( چھچھ ) ضلع اٹک اور قلعہ روہتاس (جہلم) میں-
 یہ ایک بڑا سا کنواں ہوتا ہے جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنج سکتے ہیں. اس میں ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے ہیں. امراء وہاں اپنے دفتر اور آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے-
 شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سی سڑکیں بنوائیں، یہ سڑکیں فوجی نقطہ نگاہ سے بھی بڑی اہم تھیں۔ 
سب سے بڑی سڑک کابل سے شروع ہوکر سنارگاؤں (بنگال) تک چلی گئی ۔ اس شاہراہ کا نام شاہراہ شیر شاہ سوری تھا جیسے برطانوی سامراج کے راج میں اس کا نام گرانٹ روڈ رکھا گیا تھا۔
 اس کے علاوہ بڑی سڑکوں میں آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور وچتوڑ اور لاہور سے ملتان تک سڑکیں قابل ذکر ہیں۔ ان کے دو رویہ سایہ دار درخت لگوائے گئے تھے۔ ہر دو کوس کی مسافت پر ایک سرائے تعمیر کی گئی، سلطنت کی مختلف سڑکوں پر کل 1700 سرائیں تھیں ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ قیام و طعام کا بندوبست تھا۔
 ہر سرائے کے بڑے دروازے پر لب سڑک ٹھنڈے پانی کے مٹکے بھرے رہتے تھے تاکہ مسافر پیاس بجھا سکیں۔ ہر مسافر کو کھانا، چارپائی اور اس کے مویشیوں کو چارہ مفت دیا جاتا، ہر سرائے میں ایک کنواں اور ایک مسجد کی تعمیر ہوئی۔
 مسجد کے لیے امام اور موذن علاوہ ازیں مسافروں کے سامان کی حفاظت کے لیے کئی چوکیدار مقرر تھے۔ 
سرائے کے ناظم اعلیٰ کو ’’شور‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان سرائے کے اخراجات کی کفالت کے لیے ملحقہ میر کی آمدنی الگ کردی گئی تھی ۔ 
٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔