Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 26 جون، 2020

وٹس ایپ یوکرائن کے یہودی کا تحفہ

جین کوم  یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں 24 فروری 1976 کو  پیدا ہوا۔  
سردیوں میں یوکرائن کے دیگر غریب لوگوں کی طرح اپنی بھیڑوں اور خود کو سردی سے بچانے کے لئے  ایک کمرے میں سوتے۔
  1992ء میں یہودیوں پر حملے بھی شروع ہو گئے تو والدہ  اور نانی نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور یہ دونوں امریکا آ گئے۔ کیلیفورنیا  میں ان کے پاس مکان تھا نہ کچھ کھانے کو،   امریکا میں حکومت، اپنے ملک میں آئے ہوئے۔  مہاجروں  کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کیلئے فوڈ سٹیمپس دیتی ہے. یہ سٹیمپس  خیرات (ڈونیشن)  ہوتی ہیں ۔یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ  زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔ پاکستان سے  بھی غیرقانونی گئی ہوئے مہاجر بھی ، انہی خیراتی فوڈ سٹیمپ پر اپنا گذارہ کرتے ہیں ۔
جین کوم  پڑھنے لگا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی مہنگی ہونے لگی. فوڈ سٹیمپس سے گزارہ مشکل ہو گیا.
 فوڈ  سینٹر  کے  کونے کی  آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں ، بے شمار لوگوں کے ساتھ  گھنٹوں ’’فوڈ سٹیمپس‘‘ کا انتظار ، دیگر غیر ملکی مہاجروں کی طرح کرتی ۔
یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ  سنٹر آئے اور شام تک بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے . ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی فوڈ سٹیمپ دینے والی  ،  امریکی خاتون تھی۔ جو اِن یوکرائینین اور دیگر غیرملکیوں مہاجروں کو امریکی معیشت پر  بوجھ سمجھتی کیوں کہ یہ اُس کے ٹیکس کا پیسہ   خرچ کرتے ۔متعصب  امریکی   خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی، طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی،
’’تم  مہاجر لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے، تم کام کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
 یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی، ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے. وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا۔
جین کوم، کی ماں اور نانی  گھروں میں  بطور خاکروب  کام کرتی ، جین کوم  نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی تو ایک گروسری اسٹور میں خاکروب کی ملازمت ملی. وہ برسوں یہ کام کرتا رہا.اتنی غربت میں کیلیفورنیا  سے  یوکرائین   والد سے فون پر بات نہیں ہوسکتی ۔وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا. یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی  لے گیا۔   اور ساتھ ہی ، Ernst & Young Global Limited میں وہ  انفارمیشن ٹیکنالوجی  کا سیکورٹی ٹیسٹنگ کام کرنے لگا ۔ 1996 میں وہ ہیکرز گروپ میں شامل ہوا  جہاں اُس کی ملاقات ۔ مستقبل کے مؤجد، نیپسٹر ، شان فیننگ اور  جارڈن رٹر سے ہوئی ۔ 1997ء میں وہ ’’یاہو‘‘ میں بطور  انفرا سٹرکچر  انجنیئر کام کرنے لگا۔جہاں وہ اور برائن ایکٹون  نو سال کام کرتے رہے ۔ ستمبر 2007 میں اُنہوں نے " یاہو" کی ملازمت سے استغفیٰ دیا ۔
2004ء میں فیس بک آئی اور 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی۔جین کوم  اور برائن ایکٹون نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو ان دونوں میں  کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا۔ اور اسےنوکری نہ دی. وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا. اس دوران اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے  آئی فون خرید لیا. اس  آئی فون نے اس کے مستقبل کی تشکیل کی. 
 جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے ایک دن سوچا کہ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو، ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے، تصاویر اور ڈاکو منٹس بھی بھجوائی جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے۔ 2004 میں  برائن ایکٹون کے ساتھ  آئیڈیا "what's up" شیئر کیا۔یہ دونوں اسی آئیڈیا پر کام میں جت گئے. یہاں تک کہ  دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن   بنانے میں کامیاب ہو گئے  اور اپنی سالگرہ 24 فروری 2009 کو وٹس ایپ  انکارپوریشن کی بنیاد رکھی ۔  یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی  ، لیکن  شروع میں یہ مشہور نہیں ہوئی ، اِس میں " پنگ" کے اضافے نے اِسے  پوری دنیا  سے  جوڑ دیا۔
 " واٹس ایپ"  دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں. آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور  دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت  نہیں پڑے گی اور  آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا. یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
9 فروری 2014ء  کو فیس بُک کے مالک ، مارک ذکربرگ نے اُسے اپنے ساتھ ڈنر کھانے کی پیشکش کی ۔ اور اُسے فیس بۃک کے ڈائریکٹرز میں شامل کر لیا ۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر کہا ،
’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ ۔
10 دن کے بعد یعنی 19 فروری کو  کو وٹس ایپ  خریدنے کا اعلان کر دیا  ۔ 19 ارب ڈالر میں سودا ہو گیا. یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پاکستان کا کل زر مبادلہ 20 ارب ڈالر کے آس پاس رہتا ہے ۔
 یہ ایک مفلس غریب الوطن  ، یہودی نوجوان کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے جو ثابت کرتی ہے کہ، انسان کی تسخیر سے انسان کےلئے کائینات کی تسخیر  میں ،الآخر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔
اپنے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر سے وٹس ایپ پر جانے کے لئے یہ لنک دبائیں۔ شکریہ (مہاجرزادہ)

٭٭٭٭٭

منگل، 23 جون، 2020

أحسن الحديث كتابا متشابها مثاني

روح القدّس نے  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کو اللہ کا ناقابلِ تبدیل حکم ، إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ  ، کا نعرہ لگانے والوں کے لئے  ، آيات الكتاب المبين،   میں  کتاب اللہ  سے مثال دیتے ہوئے  بتایا  ، کہأُولِي الْأَلْبَابِ  پر تلاوت کر دو!:
 أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿39:21﴾

 فہم مہاجرزادہ:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً
 کیا تجھے  ( رسول اللہ ) نظر آتا ہے ،   صرف اللَّـهَ  نے، نازل کیا ، السَّمَاءِمیں سے ، مَاءً-
 فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ
 پس اُس میں    ڈالے        اُس کے،         يَنَابِيعَ (جاری رہنے والے  چشمے )،    اُس   الْأَرْضِ  میں،
  ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ
 پھر وہ اخراج کرتا  رہتا ہے ، اِس   (مَاءً) کے ساتھ، زَرْعًا(  زراعت)،         مُّخْتَلِفًا(مختلف)،  أَلْوَانُهُ (اس زراعت کےخصوصی رنگ )
  ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا
  پھر وہ    يَهِيجُ  ( پک  )جاتی رہتی ہے ،پس تو انہیں دیکھتا ہے  ،   مُصْفَرًّا(زرد  کیا گیا )، 
  ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ 
 پھر وہ اسے   قرار دیتا رہتا ہے  ، حُطَامًا  (چورا چورا )،

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
صرف اِس میں ،  وہ        ، ذکر کے لئے ۔   أُولِي الْأَلْبَابِ کے لئے ہے
  نوٹ: اگر ہم اِس آیت پر تدبّر کریں ۔ تو یہ   کائینا ت ( کتاب اللہ )  سے ایسی  مثال ہے جو ہم سب انسانوں  کی ،  آنکھوں کے سامنے  واقع  ہوتی رہتی ہے !پانی ہر جاندار کی بقاء کے لئے ضروری ہے ۔ اگر  پانی نہ ہو تو زمین پر  کو ئی زراعت نہ ہو ،یہاں تک کہ زیر زمین نمکین  رکھنے والی زمینوں پر بھی کچھ نہ کچھ  نباتات اُگتی ہے ۔ سوائےسیم و  تھور زدہ زمینوں کے -  


 أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿39:22﴾ 

 فہم مہاجرزادہ:
 أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ 
 کیا پس جو  ، جس کا، صَدْرَ   ( دماغ )   اللہ نے اسلام کے لئے   شَرَحَ کر دیا ہو ؟
 فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ
پس وہ اپنے رَبّ  میں سےنُورٍ  پر ہے ! 

فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ
پس افسوس ہے ،اُن کی الْقَاسِيَةِ  (خصوصی سختی )  کے لئے ،    اُن کے قُلُوبُ  (ذہنوں )   میں     ہے ، ذِكْرِ اللَّـهِ   میں سے ۔
  أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
 و ہ سب  ضَلَالٍ مُّبِينٍمیں ہیں ۔
نوٹ: اِس آیت کو    اوپر والی آیت   میں دی گئی مثال کے ساتھ  اپنے  ذہن میں تصریف کر کے دونوں کی مطابقت  سمجھیں ۔  تو آپ کو الْأَرْضِ (زمین )   اور صَدْرَ   ( دماغ )    میں مطابقت ملے گی اور   مَاءً (پانی ) اور نُورٍ مِّن رَّبِّهِ       ( ربّ  کی طرف سے نور)   میں مطابقت ملے گی- 
کتاب اللہ - جو ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہے  ۔ جس میں کُن سے تخلیق ہونے والی اللہ کی ہر آیت موجود  ہے ، اُس کے مطابق ،      قُلُوبُ  (ذہنوں ) ، صَدْرَ   ( دماغ ) میں ہوتے ہیں - کیوں کہ  حواسِ خمسہ ، دماغ میں ،ذہن کو جنم دیتے ہیں  اور دل کا کام صرف  خون کو جسم میں پہنچانا ہے ۔ دل کا تعلق حیات سے  ہے   ۔


اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿39:23﴾

 فہم مہاجرزادہ:
 اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ
 اللہ نےأَحْسَنَ الْحَدِيثِ ( خاص حدیث میں  بہتر)   نازل  کی !
كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ 
ایک کتاب ،مُّتَشَابِهًا (تیرے لئے وہ  شبہ کر دی  گئی )    ، مَّثَانِيَ(   جڑواں  کر دی گئی )-
 تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ 
 تُو    قْشَعِرّ(ٹھنڈی-Chill)کر دیتا ہے اُس میں  سے     جُلُودُ(جلدیں )   ۔اُن  لوگوں  (کی)   يَخْشَوْنَ (خشی رہتے ہیں )    اُن کے رَبَّ  سے-

ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ 
پھر   تُو،   لِينُ  (نرم کرتا ہے )  ، اُن کی  جُلُودُ ( جلدیں ) اور اُن  کے  قُلُوبُ (ذہن)  ، ذِكْرِ اللَّـهِ    کی طرف !
 ذَٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ 
وہ      (أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) هُدَى اللَّـهِ ہے  ، جس کے ساتھ وہ  ھدایت کرتا رہتا ہے  اپنی      شَاءُمیں سے ،
 وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
 اور جو، ضْلِلِ (    گمراہ ) ہوتا رہتا ہے   ، اللہ سے ، پس کوئی      نہیں ، اُس کے لئے  ، هَادٍ    (ھدایت دینے والا)    میں سے ۔

نوٹ : اب آپ  پہلی دونوں آیت کی تصریف  سے تیسری آیا ت کےفہم پر تدبّر کریں ۔ 

پہلی آیت :   میں الارض پر  کتاب اللہ میں ہونے والا عمل وفعل ،  

دوسری آیت: میں ہونے والے انسان کے قلوب   میں کے  ،    مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ کتاب(لکھائی )  ہیں ۔
جو صرف اُس وقت   أَحْسَنَ الْحَدِيثِ بنیں گی -جب اُن کےقلب (ذہن)  پر ذکر اللہ  ، بالارض پر پڑنے والے ، پانی کی طرح اثر کرے گا اور ذہن میں فعلی اور عملی تبدیلی آئے گی ۔

انتباۃ ( وارننگ) :  

 ٭٭٭٭٭

اتوار، 21 جون، 2020

انسانی جسم -خودکار حفاظتی نظام(امیون سسٹم) کی ناکامی

میں خود تھا اپنے جسم  کے پیچھے پڑا ہوا 
میرا شمار بھی میرے دشمنوں میں تھا  

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیاآپ کو معلوم ہے کہ انسانی جسم  کے خودکار حفاظتی نظام(امیون سسٹم) کی ناکامی  کا سبب ہم خود ہیں -

  بوڑھے نے  یہ پکچر پوسٹ لگائی ، تو ایک نیک اور ہمدرد دوست  شجاعت علی خان نے لکھا:
 جسم میں تلی کا کام خون کو فلٹر کرنا اور انسان جو بیماریوں سے دور رکھنا یے یعنی امیون سسٹم کو چلانا مگر چند ماہ پہلے اوپن سرجری کے بعد میری تلی جسم سے الگ کردی گئی یعنی اب میرا امیون سسٹم ختم ہو چکا ہے عام بیماریوں سے بچنے کےلیے ویکسینیشن پر چل
رہا ہوں اور خود کو آئسولیٹ کیا ہوا ہے-
 پڑھ کر افسوس ہوا - جواباً  کمنٹ لکھا :
 گوگل آنٹی کا کہنا ہے کہ : نہایت ٹھنڈی چیزیں، سیچوریٹڈ شوگر اور تیل بھرے کھانے تلّی یعنی spleen کی عمر کم کر دیتے ہیں !  
جس کا انجام  ٹرے میں پڑی انسانی تلی ہوتی ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1974 میں جب ہم اکیڈمی گئے تھے اور ہمارا کام  ہر جگہ دوڑ کر جانا تھا ،  پہلے ہفتے میں پی ٹی کے پیریڈ میں  اکثر    کیڈٹس  اپنے دل کے نیچے  پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہائے اور اُوئی چلاتا  ۔
" سٹاف  بہت درد ہو رہا ہے "وہ درد بھرے چہرے سے فریاد کرتا  ۔ " ریسٹ دے دیں "۔ 

" درد ہو رہا ہے تو ، ڈاکٹر کو دکھاؤ " سٹاف چلاتا   " شامل ہو جاؤ پلٹون میں - آجاتے ہیں کھا کھا کر"
کیڈٹ  ایم آئی روم  جاتا جہاں ڈاکٹر کا سوال ہوتا،" یہاں درد ہوتا ہے ؟" اور ڈاکٹر زور سے دباتا ۔

" ہائے ، جی سر " کیڈٹ تکلیف سے جواب دیتا -
" میں دوائی دے رہا ہوں کھاؤ ، ٹھیک ہو جائے گا "

اور کیڈٹ  ڈاکٹرسے ایم اینڈ ڈی  ( میڈیسن اور ڈیوٹی ) لے کر واپس آتا۔  15 دن بعد  کیڈٹ -  درد سے آزاد ، گھوڑے کی طرح دوڑ رہا ہوتا ۔ کیوں کہ اُس کی تلی قدرتی حالت میں آجاتی ۔
انسانی جسم   میں  خودکار حفاظتی نظام(امیون سسٹم) کے محافظ کون ہیں ؟
آئیں دیکھیں یہ کیسے تباہ ہوتے ہیں:

1- تلی-   جسم میں ایک سے زیادہ معاون کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مدافعتی نظام کے حصے کے طور پر خون کے فلٹر کا کام کرتا ہے۔ پرانے سرخ خون کے خلیوں کو تلی میں ری سائیکل کیا جاتا ہے ، اور پلیٹلیٹ اور سفید خون کے خلیے وہاں محفوظ ہوتے ہیں۔ تلی بعض قسم کے بیکٹیریا سے لڑنے میں بھی مدد کرتا ہے جو نمونیہ اورگردن توڑ بخار  کا سبب بنتا ہے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
کیاآپ کو معلوم ہے کہ انسانی جسم  کے خودکار حفاظتی نظام(امیون سسٹم) کی ناکامی  کا سبب ہم خود ہیں - 
٭٭٭صحت  پر  مضامین پڑھنے کے لئے  ٭واپس٭٭٭٭ 

جمعرات، 18 جون، 2020

18 جون 2020 کی ڈائری ، بوڑھے کی آوارہ گردی -

آج بوڑھا بڑھیا کی دوائی لینے فارمیسی (میڈیکل سٹور) کی طرف نکلا - جو گھر سے شارٹ کٹ میں ہزار میٹر دور تھا ۔ کوئی لسٹ خریداری بڑھیا نے نہ تھمائی - بوڑھا سڑکیں ناپتا ۔ اولمپیاء روڈ پر چم چم کے گریک کمیونٹی سکول سے مزید 500 میٹر لمبا چکر لگا کر فارمیسی پہنچا ۔
آگے ماسک لگائے ، خاتون جو انگلش اتنی ہی جانتی تھی- جتنا بوڑھا امھارک جانتا ہے ، وہ تو بھلا ہوا کہ بوڑھے نے دوائی کا بکس اٹھا کر جیب میں ڈال لیا واپسی پر یو ٹرن لینے کے بجائے ، بوڑھا مزید 300 میں آگے جا کر مڑا ، اور اٹالیئن حکمرانوں کی بنائی ہوئی اینٹوں کی سڑک پر آگیا ۔
جہاں ٹھیلے پر ایک نوجوان ناگ پھنی 30 بر فی کلوبیچ رہا تھا ۔ انسر سے سرخ کے بجائے ، پیلی رنگ کی پکی ہوئی میٹھی تھیں -

بوڑھے کا بڑا دل چاھا کہ وہیں کٹوا کر لطف اندوز ہو ، برا ہو کرونا کا ۔ جس نے لذتِ کام و دہن کا بیڑا غرق کردیا ہے ۔
جیول آف انڈیا کے پاس پہنچا ، تو خیال آیا چلو " شیو کمار یادیو"سے ملتے ہیں جو وہاں کا دروغہ مبطخ ہے ۔ الہ باد یوپی کا رہنے والا ہے ۔ 

بہت خوش گفتار اور اچھی شخصیت کا مالک ہے ۔
یوں سمجھو بوڑھے کے لئے سمندر میں جزیرہ ہے ۔ جہاں اردو/ہندی بول کر بوڑھا اطمینان پاتا ہے ۔
جب ملازمہ کی ضرورت تھی تو بوڑھے یادیو کو کہا ، کہ مسلمان ملازمہ چاھئیے-
یادیو ، مٹھائیاں اور نمکین چٹ پٹی اشیاء بنانے کا ماہر ہے ۔



 الہ باد میں بھی شادی بنائی ہے اور یہاں بھی ۔ 
بوڑھا ، جیول آف انڈیا سے نکلا - راستے میں سب دکانداروں کو " سلام نو" ، گڈ آفٹر نون، نمشکار اور سلام علیکم کہتے ۔
گھر واپس آیا -
پھر بوڑھے نے اپنا ظہیرا نہ ترکی سٹائل میں سجا کر کھایا ۔

پاکستان ایکس پیٹ وٹس ایپ گروپ پر ڈالا ۔ واہ واہ وصول کی ۔
دوستوں کے گروپ پر ڈالا ، اُنہوں نے بھی واہ واہ کی ۔
اور فیس بک پر گھنٹہ پہلے ڈالا آپ لوگوں نے تو دیکھ لیا ۔

٭٭٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭٭

معاشرے کو تیزاب سے غسل کی ضرورت ہے!

ایک شادی پر جانا ہوا،ھال کے ایک کونے پر نظر گئی تو ایک جان پہچان والے شخص پر نظر پڑی،جو اکیلا ھی بیٹھا تھا، اس کے ساتھ جاکر میں بھی بیٹھ گیا-
بڑی گرمجوشی سے ملا -
وہ شخص گاڑیوں کے پرزے اور انجن آئل وغیرہ کا ماہر ہے -
حال احوال پوچھنے کے بعد،وہی عام طور پر کی جانے والی باتیں شروع ہوگئیں- 
یعنی مہنگائی اور کاروباری مندےو کا رنا. 
کہنے لگا-آج کل کام کوئی نہیں چل رہا. ابھی پرسوں کی بات ہے،ایک بندے نے گاڑی کا آئل تبدیل کروایا .-پچیس سو روپے بل بنا، اُس نے پیسے دیئے اور چلا گیا-
بعد میں پتا چلا کہ ایک ہزار کا نوٹ جعلی دے گیا-
اوہ..میرے منہ سے نکلا- تمھارا کو نقصان ہو گیا  ۔  پھر ؟؟؟ 
پھر کیا جی !!بڑی گالیاں نکالی اسے!
پتا نھیں کون دھوکے باز تھا، پہلی بار آیا تھا اور اعتماد ہی توڑ گیا کسٹمر پر ،
وہ تو شکر ھے میں نے آئل بھی" جعلی" ڈالا، 
کیوں کہ شکل سے وہ مشکوک لگ رہا تھا ، ورنہ میں تو مارا جاتا !!! 
اسی دوران “کھانا کھل گیا” کا نعرہ لگا اور پورے ھال میں گویا بھونچال آگیا-
وہ مرغی کے قورمے کا ڈھیر پلیٹ میں لئے فاتحانہ انداز لیے واپس آگیا-
میں سمجھا شاید میرے لئے بھی لے آیا کھانا-کہنے لگا،
بھاجی لے آؤ آپ بھی !بعد میں تو شادی ہال والے خراب کھانا دینا شروع کر دیتے ہیں!
میں اٹھا اور بریانی لے کر واپس آگیا!
 اور اس سے پوچھا، " اس جعلی ہزار کے نوٹ کا کیا کیا تم نے؟؟ "
کرنا کیا ھے جی ۔ دلہے کے والد کو سلامی میں دے دیا !
 اور میز کے نیچے چھپائی، چار بوتلوں سے ایک نکال کر دو گھونٹ میں خالی کر دیاور چھے سیکنڈ دورانیے کا لمبا ڈکار لینے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑے-
عقیدت سے آنکھیں بند کیں اور بولا.... شکر الحمداللہ - آج حلال رزق دیا -
 اور میں نے سوچا،دولہا کے والد نے ، تسبیح گھماتے ہوئے جعلی نوٹ دیکھ کر بولا ہوگا،  

شکر ہے مردہ مرغیاں پکوائی تھیں- زیادہ نقصان نہیں ہوا ۔یہ نوٹ آگے چلا دوں گا --
٭٭٭٭٭٭٭٭

پیر، 15 جون، 2020

اسرول یعنی چھوٹی چندن

٭اسرول یعنی چھوٹی چندن (Rauwolfia Serpentina) جنون کی مخصوص دوا: 
یہ جنون کی مخصوص دوا ہے ایسے مریض جو بھاگتے دوڑتے، شور و غل مچاتے، اور گالی گلوچ کرتے ہیں ایسی حالت میں اس کا سفوف 10 رتی سے 15 رتی تک دن میں دو بار دینے سے نہ صرف مریض گہری نیند سویا رھتا ھے بلکہ اس کا ھائ بلڈپریشر بھی کم ھوجاتا ھے اور اس کا چیخنا چلانا، بھاگنا دوڑنا اس قسم کی دیگر علامات جاتی رہتی ہیں ایک ہفتہ میں ہی مریض کو کافی آرام آجاتا ہے -
ابتداء میں یہ دوا تھوڑی مقدار میں شروع کرکے ہمیشہ آہستہ آہستہ بڑھانا چاہیے یعنی چھ رتی فی خوراک استعمال کرائیں اور بتدريج بڑھاتےہوئے فی خوراک ڈیڑھ دو ماشہ تک کرسکتے ھیں۔ ایک بات میں اور بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ چھوٹی چندن جنون کے ان مریضوں کے علاج میں جو بالکل خاموش رہتے ہیں مفید ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ایسے مریضوں کا بلڈپریشر پہلے ہی بہت کم ھوتا ھے اس لئے ایسے مریضوں میں اس کا استعمال فائدہ کے بجائے نقصاندہ ثابت ھوتا ھے۔ 
چھوٹی چندن نیند لانے کے لئے بےنظیر دوا ھے - انگریزی ادویات کی طرح نہ تو یہ نشیلی ھے اور نہ ھی دل کو زیادہ کمزور کرتی ہے۔ 
بے خوابی :رات کو سونے سے دو گھنٹے قبل دو رتی کی مقدار میں دینے سے مریض کو نیند آجاتی ھے - اگر مریض کو ایک عرصہ سے بےخوابی کی شکایت ھو ساری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ھو تو ایک خوراک صبح نہار منہ اور ایک خوراک شام کو استعمال کریں تو مریض رات بھر مزے کی نیند سوتا رہے گا۔ 
ھائی بلڈپریشر : چندن کے مقابلے کی کوئی دوا نہ تو ایلوپیتھک میں ھے اور نہ دیسی طب میں۔ 6 رتی کے حساب سے دن میں تین بار عرقِ گلاب یا سادہ پانی سے استعمال کرائیں بےچینی، گھبراہٹ وغيرہ کی علامات جلد دور ھوجاتی ھیں۔

مرکبات و مجربات :- 
حب شفاء :- اجزاء :
٭- کالی مرچ - دو تولہ،
٭- چھوٹی چندن - ایک تولہ. 
ترکیب :- باریک سفوف بنا کر 500mg, والے کیپسول بھرلیں. 
خوراک :- روزانہ ایک کیپسول کھانے کے بعد پانی کے ساتھ.
 فوائد :- ہائی بلڈ پریشر- جنون - ہسٹیریا - صرع - بے خوابی- ۔خارش - ذکاوت حس - اعصابی خلل - ذہنی نامردی - میں مجرب ترین ہے.
 (یہ نسخہ جناب حکیم اجمل خان صاحب کا ترتیب دیا گیا ہے)
 سادھو کا راز :- چھوٹی چندن لےکر باریک سفوف بنالیں ایک ماشہ سفوف صبح شام کھانے کے بعد عرق گازبان یا تازہ پانی کے ساتھ دیں فوائد :- جنون . پاگل پن , اختناق رحم یعنی ہسڑیا , مرگی , ہائی بلڈپریشر جیسی موذی امراض کےلیے بہترین ہے. 
تلاش و انتخاب :- Sanaullah Khan Ahsan
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوستوں کے کمنٹس: 
٭- حکیم جلیس احمد صدیقی: " اس کا سفوف 10 رتی سے 15 رتی تک دن میں دو بار دینے سے نہ صرف مریض گہری نیند سویا رھتا ھے بلکہ اس کا ھائ بلڈپریشر بھی کم ھوجاتا ھے ا" یہ مقدار خوراک بہت زیادہ ہے اس مقدار میں کھانے سے مریض سویا کا سویا ہی رہ جائے گا ۔ اس کی مقدارِ خوراک 4 رتی سے 8 رتی(1 ماشہ) تک ہے۔ میرے بہنوئی صاحب نے اس کی اوور ڈوز لے لی تھی بھاگ کر کارڈئیو جانا پڑ گیا۔ بلڈ پریشر اس درجہ کم ہوگیا تھا-


٭- حسن منصوری: بعض جنونی کیفیات جسے کم علم آسیبی جناتی معاملہ قرار دیتے ہیں، وہاں اس کا شاندار رزلٹ دیکھا ہے.. باؤ گولا، ہسٹیریا وغیرہ میں... ہائی بلڈ پریشر پہ بہت اچھا کام کرتی ہے... یعنی چھوٹی چندن سے ہم نے قریب 14، 15 جن نکالے ہیں-

 Abdul Ahad:-  I have personally used it for hypertension. Very effective in hypertension, insomnia, and highy cholesterol I used it for 3 months then I stopped but more than one year my hypertension is normal without medicine, By the Grace of Almighty Allah Swt
٭٭٭٭٭٭واپس   جائیں ٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔