سردیوں میں یوکرائن کے دیگر غریب لوگوں کی طرح اپنی بھیڑوں اور خود کو سردی سے بچانے کے لئے ایک کمرے میں سوتے۔
1992ء میں یہودیوں پر حملے بھی شروع ہو گئے تو والدہ اور نانی نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور یہ دونوں امریکا آ گئے۔ کیلیفورنیا میں ان کے پاس مکان تھا نہ کچھ کھانے کو، امریکا میں حکومت، اپنے ملک میں آئے ہوئے۔ مہاجروں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کیلئے فوڈ سٹیمپس دیتی ہے. یہ سٹیمپس خیرات (ڈونیشن) ہوتی ہیں ۔یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔ پاکستان سے بھی غیرقانونی گئی ہوئے مہاجر بھی ، انہی خیراتی فوڈ سٹیمپ پر اپنا گذارہ کرتے ہیں ۔
جین کوم پڑھنے لگا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی مہنگی ہونے لگی. فوڈ سٹیمپس سے گزارہ مشکل ہو گیا.
جین کوم پڑھنے لگا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی مہنگی ہونے لگی. فوڈ سٹیمپس سے گزارہ مشکل ہو گیا.
فوڈ سینٹر کے کونے کی آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور
اس کی ماں ، بے شمار لوگوں کے ساتھ گھنٹوں ’’فوڈ سٹیمپس‘‘ کا انتظار ، دیگر غیر ملکی مہاجروں کی طرح کرتی ۔
یہ دونوں کئی بار
بھوکے پیٹ سنٹر آئے اور شام تک بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے . ویٹنگ روم میں
بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی فوڈ سٹیمپ دینے والی ، امریکی خاتون تھی۔ جو اِن یوکرائینین اور دیگر غیرملکیوں مہاجروں کو امریکی معیشت پر بوجھ سمجھتی کیوں کہ یہ اُس کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کرتے ۔متعصب امریکی خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی، طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی
تھی،
’’تم مہاجر لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے، تم کام کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی، ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے. وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی، ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے. وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا۔
جین کوم، کی ماں اور نانی گھروں میں بطور خاکروب کام کرتی ، جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی تو ایک گروسری اسٹور میں خاکروب کی ملازمت ملی. وہ برسوں یہ کام کرتا رہا.اتنی غربت میں کیلیفورنیا سے یوکرائین والد سے فون پر بات نہیں ہوسکتی ۔وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا. یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی لے گیا۔ اور ساتھ ہی ، Ernst & Young Global Limited میں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سیکورٹی ٹیسٹنگ کام کرنے لگا ۔ 1996 میں وہ ہیکرز گروپ میں شامل ہوا جہاں اُس کی ملاقات ۔ مستقبل کے مؤجد، نیپسٹر ، شان فیننگ اور جارڈن رٹر سے ہوئی ۔ 1997ء میں وہ ’’یاہو‘‘ میں بطور انفرا سٹرکچر انجنیئر کام کرنے لگا۔جہاں وہ اور برائن ایکٹون نو سال کام کرتے رہے ۔ ستمبر 2007 میں اُنہوں نے " یاہو" کی ملازمت سے استغفیٰ دیا ۔
2004ء میں فیس بک آئی اور 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی۔جین کوم اور برائن ایکٹون نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو ان دونوں میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا۔ اور اسےنوکری نہ دی. وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا. اس دوران اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے آئی فون خرید لیا. اس آئی فون نے اس کے مستقبل کی تشکیل کی.
2004ء میں فیس بک آئی اور 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی۔جین کوم اور برائن ایکٹون نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو ان دونوں میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا۔ اور اسےنوکری نہ دی. وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا. اس دوران اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے آئی فون خرید لیا. اس آئی فون نے اس کے مستقبل کی تشکیل کی.
جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے ایک دن سوچا کہ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو، ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے، تصاویر اور ڈاکو منٹس بھی بھجوائی جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے۔ 2004 میں برائن ایکٹون کے ساتھ آئیڈیا "what's up" شیئر کیا۔یہ دونوں اسی آئیڈیا پر کام میں جت گئے. یہاں تک کہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اپنی سالگرہ 24 فروری 2009 کو وٹس ایپ انکارپوریشن کی بنیاد رکھی ۔ یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی ، لیکن شروع میں یہ مشہور نہیں ہوئی ، اِس میں " پنگ" کے اضافے نے اِسے پوری دنیا سے جوڑ دیا۔
" واٹس ایپ" دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں. آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا. یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
9 فروری 2014ء کو فیس بُک کے مالک ، مارک ذکربرگ نے اُسے اپنے ساتھ ڈنر کھانے کی پیشکش کی ۔ اور اُسے فیس بۃک کے ڈائریکٹرز میں شامل کر لیا ۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر کہا ،
" واٹس ایپ" دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں. آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا. یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
9 فروری 2014ء کو فیس بُک کے مالک ، مارک ذکربرگ نے اُسے اپنے ساتھ ڈنر کھانے کی پیشکش کی ۔ اور اُسے فیس بۃک کے ڈائریکٹرز میں شامل کر لیا ۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر کہا ،
’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ ۔
10 دن کے بعد یعنی 19 فروری کو کو وٹس ایپ خریدنے کا اعلان کر دیا ۔ 19 ارب ڈالر میں سودا ہو گیا. یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پاکستان کا کل زر مبادلہ 20 ارب ڈالر کے آس پاس رہتا ہے ۔
10 دن کے بعد یعنی 19 فروری کو کو وٹس ایپ خریدنے کا اعلان کر دیا ۔ 19 ارب ڈالر میں سودا ہو گیا. یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پاکستان کا کل زر مبادلہ 20 ارب ڈالر کے آس پاس رہتا ہے ۔
یہ ایک مفلس غریب الوطن ، یہودی نوجوان کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے جو ثابت کرتی ہے کہ، انسان کی تسخیر سے انسان کےلئے کائینات کی تسخیر میں ،الآخر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔
٭٭٭٭٭