Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 24 اگست، 2019

شگفتگو کی بارھویں ماہانہ محفلِ مزاح

روداد: زعفرانی بزم مناثرہ کی ماہانہ محفلِ مزاح برائے اگست 2019
محفل کی تاریخ: 24 اگست 2019
نشست: بارہویں نشست۔
مقام: رہایش حبیبہ طلعت، کورنگ ٹاون، اسلام آباد
میزبان: حبیبہ طلعت اور والد گرامی عزیر احمد شیخ
30 ستمبر 2018 کو اپنے سفر کا آغاز کرنے والے اس ہنستے مسکراتے کاروان نے اگست کی محفل کے ساتھ ہی ایک سال مکمل کر کے ایک اہم سنگِ میل عبور کر لیا۔ اور اس دوران کسی مہینے بھی محفل کا ناغہ نہیں ہوا۔ ہے نا ایک طویل سفر کاخوش آیند آغاز۔۔۔۔
یہ ہماری خوش قسمتی رہی کہ جس محفل کو 10 اگست کو ہونا تھا اسے بقرعید کی وجہ سے دو ہفتے موخّر کیا گیا، اور اس بہانے مزاح کی دنیا کے ایک معروف لکھنے والے ڈاکٹر اشفاق احمد ورگ اور ان کے ساتھ ہی کہنہ مشق شاعر اور مزاح کے میدان میں نووارد ڈاکٹر شاہد اشرف اور ان کی معیت میں ڈاکٹر فرخ رضوی صاحب لاہور سے تشریف لا کر محفل میں شریک ہوئے، اس طرح اس ماہ کی محفل کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی۔
روداد نویسی بھی کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ دانتوں میں پسینا آجاتا یے۔ پھر آجکل کا موسم اور گھر کے کام ہی کام اس لیے دیر ہونے کی معذرت۔
محفل کا وقت تو 5 بجے شام کا تھا اور کچھ شرکاء بروقت پہنچ بھی گئے تھے۔ اس دن گرمی بھی آپے سے باہر ہو رہی تھی اور خدشہ تھا کہ کہیں اس سبب سے شرکاء کم نہ آئیں مگر اس محفل کی کشش ہی کچھ ایسی تھی کہ سوائے نسیم سحر صاحب کے جو شرکت کے خواہشمند ہونے باوجود سواری کی مجبوری کے سبب تشریف نہ لا سکے، اور نعیم الدین خالد صاحب کے جواپنی بیگم کی طبیعت کی وجہ سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اسلام آباد سے مستقل جا رہے ہیں، اس وجہ سے بہت مصروف تھے-
تقریباً سارے متوقع شرکاء تشریف لائے اور ہمیں شرف میزبانی بخشا۔ ان کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد سے تشریف لانے والے مہمانوں نے خصوصی عزت افزائی کی، جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ آخر میں تو کمرے میں جگہ کم پڑنے لگی تھی، جس پر ہمیں بہت مسرت ہو رہی تھی۔
ساڑھے پانچ بج گئے تھے اور ڈاکٹر عزیز فیصل کا کوئی پتا نہیں تھا۔

 استاد محترم آصف اکبر نے کہا کہ آج پہلا پتھر میں ماروں گا، اور ساتھ ہی انہوں نے اپنا تازہ لکھا ہوا مزاحیہ مضمون 'استاد بقلم خود" پڑھنا شروع کر دیا۔ ان کی تحریر حسب معمول دلکش تھی اور سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔
ان کے بعد چونکہ فردوس عالم، آصف اکبر کے ساتھ ہی بیٹھے تھے اس لیے ان کو مدعو کیا گیا۔ یوں وہ خوشگوار چکر شروع ہوا جس کے چکر میں سارے شرکاء چکرائے ہوئے تھے۔ فردوس عالم نے ایک شاندار بکرے کا ذکر کیا جس کی وجہ سے سارے محلے اور سارے خاندان میں ان کی امارت کی دھوم مچ گئی، مگر جب سسرال والے بکرا دیکھنے کے لیے آئے تو عین وقت پر بکرے کا مالک اسے لینے کے لیے آ گیا، اور یہ راز کھل گیا کہ بکرا کرائے پر لیا گیا تھا۔ فردوس عالم کا دلچسپ انداز بیان لطف دے گیا۔

ان کے بعد ڈاکٹر فاخرہ نورین کو موقع ملا۔ انہوں نے اپنے شوہر کے بارے میں مزاحیہ پیرائے میں ایک طویل تحریر لکھی ہے، جس کا ایک حصہ انہوں نے پیش کیا، اور جب دیر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر بار دگر ان کو دعوت دی گئی تو انہوں نے ایک اور حصہ پڑھا۔ ان کی پیشکش بھی خاصی کامیاب رہی اور لوگ ہنستے مسکراتے رہے۔
ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں ڈاکٹر سائرہ بتول جو اسلامی یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسر ہیں اور اس محفل میں پہلی بار شریک ہوئی تھیں۔ انہوں نے ایک سنجیدہ موضوع پر ایک شگفتہ تحریر پڑھی جو لوگوں نے بہت پسند کی۔ ان کی تحریر پی ایچ ڈی کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور مقالوں کے غیر کارآمد ہونے کے احوال کے بارے میں تھی۔ ساتھ ہی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلباء کی دشوایوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس موقع پر کسی نے ڈاکٹر فاخرہ اور ڈاکٹر سائرہ کو ایک صوفے پر بیٹھے دیکھ کر بہت دلچسپ بات کہی کہ ایک زمانے میں پی ایچ ڈی خال خال ہوتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ ایک صوفے پر دو دو مل جاتے ہیں۔


ان کے بعد ہماری باری آ گئی۔ ہم نے ناک کے بارے میں ایک طویل مضمون کا آدھا حصّہ پیش کیا جس کا عنوان تھا "ناک کا سوال ہے بابا"۔ اس میں ناک کے مختلف پہلووں اور زبان میں اس کے استعمال پر ہلکی پھلکی بات کی گئی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ مضمون بھی پسند کیا گیا تھا، مگر ابھی تک کسی سمت سے تصدیق نہیں ہوئی اس لیے دعویٰ نہیں کرتے۔
اس کے بعد چوہدری بابر عباس گویا ہوئے۔ محفل کی ہیئت کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے سبب وہ اپنی کوئی تحریر نہیں لائے تھے اس انہوں نے کسی اور کا ایک اقتباس سنایا۔ ان کے بعد قیوم طاہر صاحب کی باری تھی مگر انہوں نے حسب معمول یہی کہا کہ ان کے پاس کوئی تحریر نہیں۔
اس کے بعد عاطف مرزا کو موقع ملا۔ انہوں نے بھی ایک خواب کی روداد سنائی جس میں وہ سنہ 3019 میں پہنچ کر بکرے کی خریداری کر رہے تھے۔ ان کو بھی خوب داد ملی جس کے سبب وہ کچھ پھولے پھولے لگنے لگے۔

اب زحمت دی گئی جناب ارشد محمود کو۔ انہوں نے 'لاہور یاترا' کے عنوان سے اپنے مخصوص رنگ میں ایک دلچسپ تحریر عنایت کی اور خوب داد سمیٹی۔

اس دوران کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، ڈاکٹر عزیز فیصل لاہور سے آئے ہوئے معروف مزاح نگار ڈاکٹر اشفاق احمد ورگ کو ساتھ لے کر پہنچے۔ جبکہ دوسرے دو مہمان راستہ بھٹک کر لوئی بھیر کے ہیر پھیر میں گم ہو گئے اور اس وقت پہنچے جب آخری شریک اپنی تحریر پڑھ رہے تھے۔

 اب عزیز فیصل صاحب کو باری دی گئی۔ انہوں نے بدپرہیزی اور خوش خوراکی کے بڑھتے ہوئے قومی رجحان کے بارے میں ایک خوبصورت مزاحیہ مضمون سنایا اور قہقہے بھری داد سمیٹتے رہے۔
اس کے بعد ایک وقفہ کیا گیا اور شرکاء کی ماکولات اور چائے سے تواضع کی گئی۔ بزم کے قیام کی پہلی سالگرہ کی مناسبت سے اہتمام رہا۔
وقفے کے بعد حسن ابدال سے تشریف فرما پروفیسر ظہیر قندیل صاحب کو اکسایا گیا۔ انہوں نے اپنی زیر تصنیف کتاب سے اردو قواعد و انشاء کے حوالے سے کچھ حصّہ سنایا اور لوگوں کو محظوظ کیا۔ اس دوران ڈاکٹر شاہد اشرف اور ڈاکٹر فرّخ رضوی بھی بھٹکتے بھٹکتے پہنچ ہی گئے۔ 
ان کے بعد ڈاکٹر اشفاق ورگ کو زحمت دی گئی۔ انہوں نے پہلے کچھ کھلکھلاتے جملے عنایت کیے جن میں ایک یہ تھا کہ مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کچن کو اندر سے اور باتھ روم کو باہر سے کنڈی لگانے کی کیا تک ہے۔ پھر انہوں نے ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا ایک انتہائی پرلطف خاکہ سنایا جو شرکاء نے بہت اشتیاق سے سنا اور خوب داد دی۔
ان کے بعد محفل کے آخری گویا ڈاکٹر شاہد اشرف صاحب کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ شاعری تو میں عرصے سے کر رہا ہوں مگر مزاح کے میدان میں یہ میرا پہلا قدم ہے۔ اپنی تحریر بعنوان'بیداری کے بعد' پڑھی جو واقعی پرلطف تھی۔
محفل میں بیگم فردوس عالم، قیوم طاہر ، عزیر احمد اور ڈاکٹر فرّخ بطور سامع شریک رہے۔ محفل شروع ہی آدھے گھنٹے کی تاخیر سے ہوئی اور پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ 

پھر ڈاکٹرعزیز فیصل کے کہنے پر کچھ لوگوں نے اپنی تحریریں دوبارہ دیر سے آنے والوں کو سنائیں۔ اس طرح محفل تقریبا تین گھنٹے جاری رہی۔ طوالت کے باوجود شرکاء کی دلچسپی آخر دم تک قائم رہی۔ شاید یہی مزاح کی جادوگری ہے۔
موسم شدید گرم تھا سو ہمیں بھی وسیع لاونج کو چھوڑ کر ہنگامی بنیادوں پر اے سی والے چھوٹے کمرے میں بیٹھک بنانا پڑی۔ یقیناً شرکاء کو تکلیف ہوئی ہوگی جس کے لیے ہم احباب سے معذرت خواہ ہیں۔ شکریہ
(مبصّر -  حبیبہ طلعت )
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭

شگفتگو- استاد بقلم خود

استاد کا نام تو ہمیں معلوم نہیں، اور شاید کسی کو بھی معلوم نہ ہو گا، مگر مشہور وہ استاد بقلم خود کے نام سے تھے۔ سبب اس کا یہ سنا گیا ہے کہ شاگردوں کی کاپی بکس پر جہاں کہیں کچھ کاٹ چھانٹ کرتے تھے یا غصیلے تبصرے لکھتے تھے وہاں استاد بقلم خود لکھ دیا کرتے تھے۔ تمام کھرے استادوں کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ وہ ہر معاملے میں سند ہیں، اور یہ کلمہ لکھ کر وہ گویا مہر تصدیق ثبت کرتے تھے۔ بس پھر ہر شخص انہیں ان کے سامنے استاد اور پیٹھ پیچھے استاد بقلم خود ہی کہنے لگا۔
خوش قسمتی سے استاد میرے استاد کبھی نہیں رہے۔ وہ میرے کچھ زیادہ ہی چھوٹے بھائی کے پرائمری کے استاد تھے، اس حوالے سے کبھی کبھار ان سے آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ مگر ان کی شاگردی کے زمانے میں بھائی اکثر ان کی شان میں ناقابلِ بیان بیانات دیا کرتا تھا، جس سے ان کی شخصیت کا ایک عجیب سا خاکہ میرے ذہن میں بھی بن گیا تھا۔
وہ دور تو رفت و گزشت ہوا۔ بھائی غیر ملک جا بسا۔ ہم نے وہ محلہ چھوڑ دیا۔ مگر پھر ہوا یوں کہ بھائی اپنی عادت کے مطابق ایک بار پرانے محلے لوگوں سے ملنے گیا تو کہیں استاد بقلم خود بھی راستے میں مل گئے۔ بھائی نے بڑی عقیدت سے ان کو سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ بولے ابے تجھ کو کون بھول سکتا ہے۔ سارے اسکول میں تجھ جیسا نالائق اور کوئی نہیں تھا۔ اگر بھائی کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ یہ بات وہ ہر لڑکے سے کہتے ہیں، تو شاید وہ احتجاج کرتا۔
اسی دوران استاد کی نظر بھائی کے ہاتھ میں موجود اس کی ایک پسندیدہ کتاب پر پڑی جو اسی دن کسی نے اسے تحفے میں دی تھی۔ استاد نے بھائی کے ہاتھ سے کتاب جھپٹ لی الٹ پلٹ کر دیکھا اور پوچھا کس کی کتاب ہے یہ؟
وہ بولا استاد میری ہے۔ کہنے لگے جھوٹ بولتا ہے۔ یہ میری کتاب ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے کتاب لینن کی طرح اپنی بغل میں دبائی اور یہ جا وہ جا۔
اب تین چار ماہ بعد بھائی نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ کا اس علاقے میں جانا ہو تو استاد بقلم خود سے کتاب واپس لینے کی کوشش کیجیے۔ اس فرمائش کے نتیجے میں میں ایک پیچیدہ شام استاد کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
----------------
استاد نے بڑی شفقت سے مجھے اپنے گھر کے اندر بلایا اور بٹھا کر مجھ سے میری آمد کا مقصد پوچھا۔ میں نے تعارف کرانے کے بعد کہا کہ استاد میرے بھائی سے آپ نے ایک کتاب چھینی تھی۔ اب اگر آپ کے کام کی نہ رہی ہو تو اسے بخش دیجیے اور کتاب بخش دیجیے۔ استاد ایک قہقہہ مار کر ہنسے اور پھر سنجیدہ شکل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے، جو رونی زیادہ لگ رہی تھی، بولے دیکھو جوان، تم کو پتا ہے علم بڑی دولت ہے اور کتاب اس علم کا مخزن ہے۔ میں نے کہا جی استاد۔ بولے تم کو یہ بھی پتہ ہو گا کہ دولت ہاتھ کا میل ہوتی ہے یعنی آنی جانی چیز۔ پس میرے پاس کتابوں کی دولت بھی آتی جاتی رہتی ہے۔ میں اپنے جس شاگرد کے پاس کوئی کتاب دیکھتا ہوں چھین لیتا ہوں۔ اور پھر ایسا ہے کہ ایک شاگرد میرا ردی کا کام کرتا ہے۔ بہت سر چڑھا ہے۔ مہینے دو مہینے میں آتا ہے اور جو کتابیں نظر آئیں سب اٹھا لے جاتا ہے۔ اور مجھے دس بیس روپے تھما دیتا ہے۔ تو تمہاری کتاب بھی گئی۔
میں نے واپس جانے کی اجازت چاہی تو بولے ارے بیٹا بیٹھو۔ میں تمہارے لیے جوس لے کر آتا ہوں۔ یہ کہہ کر اندر گئے، اور واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں ایک پیالہ چائے کا تھا اور ایک پلیٹ میں کچھ رس رکھے ہوئے تھے، جنہیں پاپے بھی کہا جاتا ہے۔ میں حیرت سے ان کو دیکھنے لگا تو بولے حیران کیوں ہو؟ یہ پلیٹ میں کیا ہے؟ میں نے کہا رس۔ بولے تو رس کو انگریزی میں جوس ہی تو کہتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر چائے کا پیالہ اٹھا کر منہ سے لگا لیا اور بولے میری بیوی آنے جانے والوں کو چائے نہیں دیتی کہ اس طرح لوگ بلاوجہ چائے پینے آجاتے ہیں۔ لو تم جوس کھاؤ۔
میں نے پھر اجازت چاہی تو بولے عجیب بدتہذیب آدمی ہو۔ کچھ دیر بیٹھو کچھ باتیں کرو۔
اب استاد شروع ہوئے اور بولے میرا اسکول میری جنت ہے۔ میں اپنی اس جنت میں امن اور چین کے ساتھ براجمان ہوں۔ بس ایک اس نوجوان ہیڈ ماسٹر کا خوف رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھے میری جنت سے کسی بشر ممنوعہ کو کھانے کی پاداش میں اسی طرح سے نہ نکلوا دے جیسے اس کے جد امجد نے میرے جد امجد کو شجر ممنوعہ کھانے پر اکسا کر نکلوایا تھا۔
تم لوگوں کو پتا ہی ہوگا کہ میں چالیس سال سے پرائمری کے بچوں کو پڑھنا سکھا رہا ہوں۔ اس کے باوجود وہ دشمن جاں مجھے پڑھانا سکھانا چاہتا ہے۔ اب اگر تم حساب کتاب سے ذرا بھی واقفیت رکھتے ہو تو خود حساب لگا لو کہ ہر سال ایک سیکشن کے پچیس سے پچاس بچے۔ تو سیکشن کبھی دو کبھی چار۔ سو لڑکے تو ہوئے نا سال کے۔ تو چالیس سال کے پچاس ہزار تو ہو گئے۔ سارے شہر میں میرے شاگرد مل جاتے ہیں۔ پچاس ہزار بچے پڑھ ہی گئے، یعنی بیس لاکھ کی آبادی بھی ہو تو آدھا شہر تو میرا شاگرد۔ کسی بھی تھانے میں چلے جاؤ، بستہ الف اور بستہ ب کے سارے معززین میرے شاگرد ملیں گے۔ ان شاگردوں میں سے بہت سے مجھے ظالم کہتے ہیں، وحشی کہتے ہیں، اجڈ گنوار کہتے ہیں، کوئی کوئی جاہل بھی کہہ دیتا ہے، مگر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ استاد بقلم خود کو پڑھانا نہیں آتا۔ بس بہت ہوا تو کسی افلاطون کے مستانے نے یہ کہہ دیا کہ استاد کے پڑھانے کا طریقہ درست نہیں۔ حالانکہ میرا پڑھانے کا طریقہ وہی ہے جو ہزاروں سال سے چلا آ رہا ہے کہ ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں ڈنڈا۔
آہ۔ ڈنڈے پر یاد آیا کہ ایک بار جب میں جب انگشت بڈنڈاں نابکار لونڈوں کی ہنسلی پنسلی ایک کرنے میں مصروف تھا تو ناگہاں میری نظر دروازے پر پڑی جہاں وہ تنگ نظر ہیڈ ماسٹر ساری کارروائی کا بچشم خود عینی مطالعہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد جو سلوک میرے ساتھ ہوا وہ ہرگز ایسا نہ تھا جیسا استاد استادوں کے ساتھ کرتے تھے۔ اس کے بعد تو اس ستمگر کا یہ وطیرہ ہی ہو گیا کہ جب میں بورڈ پر لکھ لکھ کر پڑھا رہا ہوتا تھا تو وہ دبے قدموں آکر کھڑا ہو جاتا۔ لیکن استاد پھر استاد ہوتا ہے۔ میں بھی اب ایسے لکھتا ہوں کہ ہاتھ بورڈ پر لکھ رہے ہوتے ہیں اور نظریں دروازے پر۔ بیشک ایسے میں تحریر کچھ ٹیڑھی میڑی ہو جاتی ہے مگر جان تو بچی رہتی ہے۔
میں نے کہا استاد آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ پڑھاتے ہوئے موضوع سے ہٹ جاتے ہیں اور انٹ شنٹ بولنے لگتے ہیں۔ اگر اکبر اعظم کے بارے میں پڑھانا ہو تو آپ فوراً نپولین اعظم تک پہنچ جاتے ہیں اور بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ اسے بونا پارٹ اس لیے کہتے ہیں کہ اس نے اسکول کے زمانے میں ایک ڈرامے میں بونے کا پارٹ ادا کیا تھا۔
استاد بولے دیکھو ناہنجار، ہمارے بزرگ علماء کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ جس کلام کے بارے میں پتا چل جائے کہ موضوع ہے اسے چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے میں بھی موضوع کو چھوڑ دیتا ہوں۔ تو اس میں کیا قباحت ہے۔
لیکن مجھے ناہنجار کا لفظ بہت برا لگا تھا۔ میں نے کہا استاد میں آپ کا شاگرد کبھی نہیں رہا جو آپ مجھے ایسے مخاطب کر رہے ہیں۔ بولے میرے شاگرد نہیں رہے تو کسی میرے جیسے کے تو رہے ہو گے۔ میں نے کہا استاد میں جس پرائمری اسکول میں تھا وہاں آپ کے جیسے ڈنڈا بردار استاد نہیں ہوتے تھے۔ وہاں عورتیں پڑھاتی تھیں۔
بولے ہاں جبھی تو میں کہوں کہ تمہاری یہ لچکتی کمر، مچلتی آنکھیں اور پھسلتی زلفیں کس بات کا شاخسانہ ہیں۔ اور اپنے ہاتھوں کے ناخن تو دیکھو، لگتا ہے کسی مونا لیزا کے ہیں جن پر لپ اسٹک لگا دی گئی ہے۔
میں نے کہا استاد ناخنوں پر نیل پالش لگائی جاتی ہے لپ اسٹک نہیں۔ بولے تم بچے ہو۔ میاں کسی مرد کے ناخنوں کو اس کی محبوبہ چومے گی تو ناخنوں پر کیا لگے گا؟
پھر بولے دیکھو میاں عورت جب ٹیچر بنتی ہے تو سارا وقت تو آئینہ دیکھنے، بال سنوارنے اور لپ اسٹک لگانے میں گزر جاتا ہے۔ کلاس میں تو صرف حاضری لی جاتی ہے اور باقی ہوم ورک۔ مرد استاد تو پہاڑے پڑھا پڑھا کر رزق حلال کرتے ہیں۔
پھر بولے اچھا چھوڑو یہ بتاؤ کہ تم کیا کرتے ہو۔ میں نے کہا استاد میں پروفیسر ہوں۔ بولے مجھ سے پڑھے ہو نہیں پھر تم کو یہ نوکری کس نے دے دی۔ آتا جاتا تو تم کو خاک نہیں ہو گا۔ اب بھی میرے پاس آکر کچھ سیکھ لیا کرو تو کچھ بن جاؤ گے۔ دیکھو ایک بات سمجھ لو۔ پڑھانے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ قول ہے استاد بقلم خود کا۔ استاد کو اتنا ہی آنا چاہیے جتنا اسے پڑھانا ہو۔ ورنہ اس کا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا ہے۔
پھر بولے دیکھو تقسیم پرانے زمانے میں یوں ہوتی تھی کہ اکثر کچھ بچ جاتا تھا، جسے خارج قسمت (انگریزی میں ریمینڈر) کہتے تھے۔ یہ خارج قسمت غریب غرباء کی قسمت میں آتا تھا۔ مگر ملکوں کی تقسیم کے بعد تقسیم کے اصول بدل گئے اور اعشاریہ کا آئین نافذ کر کے خارج قسمت کو بھی داخل قسمت بنا لیا گیا ہے گویا ریمینڈر کو ریماینڈر کر دیا گیا ہے اس روش کا کہ چت بھی اپنی، پٹ بھی اپنی ڈنڈا میرے باپ کا۔ کیا سمجھے؟
اتفاق سے ان کے سامنے ایک اخبار تھا جس میں کسی خاکوانی کا ایک مضمون چھپا تھا۔ بولے دیکھو دنیا کہاں جا رہی ہے۔ دراصل یہ لفظ خاکدانی تھا جو بگڑ کر خاکوانی ہو گیا ۔ اب میں تو اس لیے جانتا ہوں کہ ہم لوگ اس زمانے کے پڑھے ہوئے ہیں جب 'د' اور 'و' شیر و شکر ہوتے تھےاور ایک دوسرے کی جگہ نہایت آسانی سے لے لیتے تھے۔ اسی لیے آدھی دنیا آج بھی ذمہ داری کو ذمہ واری کہتی ہے اور کجاوہ کو بلا تکلف لوگ کجادہ کہتے ہیں۔ مگر ساری دنیا بگڑ جائے، میں استاد بقلم خود ہوں میں کبھی بگڑا لفظ نہیں کہوں گا۔
میں نے کہا استاد آپ نے ساری عمر ماسٹری میں گزاردی یا اور بھی کوئی کام کیا؟
بولے ایسا بھی نہیں کہ میں نرا ماسٹر کا ماسٹر ہی ہوں۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات پتا نہیں ہو گی کہ میں ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ بے سند معالج بھی ہوں۔ کچھ لوگ مجھ سے علاج کرواتے ہیں اور جو لوگ ازراہِ انکسار میرے پاس آتے ہوئے جھجھکتے ہیں، ان کا علاج کرنے کے لیے میں خود پہنچ جاتا ہوں۔ دیکھو بھلا میں نے کس کس کا علاج نہیں کیا۔
کامران کی ران کا علاج، رخسانہ کے رخسار کا علاج، کفیل آپا کے فیل پا کا علاج، دردانہ کے درد کا علاج، قمر کی کمر کا علاج، مرزبان کی زبان کا علاج، فخر النساء کے عِرق النَساء کا علاج، صنلی کی پنڈلی کا، اللہ وسائی کی کلائی کا علاج، آرزو کے بازو کا علاج، افسر کے سر کا علاج، خاقان کے خفقان کا علاج، منوچہر کے چہرے کا علاج، مسکان کے کان کا علاج۔ اب زندگی اور موت تو مالک کے ہاتھ ہے اور شفا دینا نہ دینا اسی کا کام۔ اتفاق سے میرے مریض شفایاب نہیں ہوئے تو کیا ہوا۔ علاج تو میں نے کیا نا۔
یہ کہہ کر بولے اب تم جاؤ۔ بہت وقت ضائع کیا میرا۔
اور میں بدھو۔


(تحریر - آصف اکبر)
٭٭٭٭٭٭
(یہ مضمون 24 اگست 2019 کو زعفرانی بزم مناثرہ کی بارہویں محفل میں پڑھا گیا۔) 

٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭

شگفتگو - ناک کا سوال ہے بابا

ناک سے کون فرد نا آشنا ہے۔

 ہر وہ شخص جس کی دسترس میں ایک مُکّا ہے اس کی نظر دوسرے کی ناک پر رہتی ہے اور جس کی ملکیّت میں ایک چھوٹا یا بڑا آئینہ ہے اس کی نظر، وہ چاہے یا نہ چاہے، اپنی ناک پر رہتی ہے۔
 اسی لئے ہم سمجھتے ہیں اور جب موقع ملتا ہے تو سمجھاتے ہیں کہ آئینہ کو آئیناک کہنا چاہیے۔ بلکہ چونکہ آئینہ کا لفظ جب بولا سنا جائے تو آئین کی یاد دلاتا ہے، وہی آئین جو پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی پاداش میں پتھرا کر رہ گیا، اس لیے آئینہ کا آ نکال دیا جانا چاہیے اور صرف ایناک کہا جائے تو اور بھی اچھا ہوگا۔ پھر تو کسی کو بھولے سے بھی آئین کا خیال نہیں آئے گا۔
اگر کسی دوست کو آئین کے پتّھرا جانے کے بارے میں کوئی شک ہو تو یہی دیکھ لیجیے کہ پچھلے دنوں (اگست 2019 کے پہلے ہفتے میں) انڈیا نے کشمیر کے بارے میں جو اندوہناک فیصلہ کیا، اس کا ہمارے یہاں کیا رد عمل ہوا؟ 

کوئی جمہوری ملک ہوتا تو سب سے پہلے پارلیمان کا اجلاس بلایا جاتا مگر ہمارے یہاں اجلاس کس کا ہوا؟
 فوج کی اعلیٰ قیادت کا۔ وہی اصل پارلیمان ہوئی نا؟

اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ انسان شروع کہاں سے ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب دینا شاید آسان نہ ہو۔ لیکن تجربہ کہتا ہے کہ کسی چیز کا جواب سمجھ میں نہ آئے تو اس کی مشابہ چیزوں میں تلاش کرنا چاہیے تو ہم کیوں نہ اس کا جواب شیر میں تلاش کریں۔ اب تو ایک بچہ بھی بتا دے گا کہ شیر ناک سے شروع ہوتا ہے اور دم پر ختم ہوتا ہے۔
تو ہمارا خیال ہے کہ ہر وہ شخص جو ایک وسیع و عریض توند کا مالک ہے ۔۔ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں، ایسا کوئی شخض ہماری محفل میں نہیں۔  ماشاء اللہ سب ہی اسمارٹ ہیں ۔ بہرحال ایسا شخص توند سے شروع ہوتا ہے اور کسی دروازے سے داخل ہو تو سب سے پہلے اسکی توند اندر جاتی یے۔ لیکن جو لوگ کسی ایسی توند سے محروم ہیں وہ بلا شبہ ناک سے شروع ہوتے ہیں اس لیے ہم ناک کو کسی بھی اسمارٹ انسان کا پہلا تعارف کہہ سکتے ہیں۔

اسی لیے تو زمانہ قدیم سے لوگ انسانوں کا ناک نقشہ ہی دیکھتے آئے ہیں۔ کبھی کسی کو آنکھ نقشہ، کان نقشہ یا ہونٹ نقشہ دیکھتے نہیں دیکھا۔
ناک وہ اہم ترین شے ہے جو کسی چہرے کی صورتی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، صورتی خوب ہو یا بد۔ رنگ و نسل اور انفرادی کارستانیوں کے سبب ناکیں بھی بھانت بھانت کی پائی جاتی ہیں۔ ان میں خوابناک، حیرتناک، عبرتناک، وحشتناک، دہشتناک، حسرتناک، خطرناک، خوفناک، دردناک، کربناک، اندوہناک، تابناک اور ہولناک وغیرہ سبھی ناکیں شامل ہیں۔ خوابناک تو وہ ناک ہے جو خوابوں میں ہی ملے، سوکھے ہوئے پھولوں جیسی۔
حیرتناک وہ ناک ہوئی جو بہت خوبصورت ہو اور جس کو دیکھ کر انسان بے ساختہ کہہ اٹھے
ایسی فنکاری بھی یارب کیا ترے دفتر میں تھی
عبرتناک وہ ناک ہوتی ہے جو اتنی زیادہ ہو کہ انسان اپنی ناک کا ضمیمہ محسوس ہونے لگے۔

وحشتناک ایسی ناک جس پر عرصے سے نظرِ ثانی نہ کی گئی ہو۔ 
دہشتناک وہ ناک ہوتی ہے جو واقعی عجیب سی ہوتی ہے۔ اچھے بھلے شریف انسان کی ناک دیکھ کر ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہونے لگتی ہے۔ 
حسرتناک ایسی ناک جسے ہونے کی حسرت ہو۔ خطرناک وہ ناک ہے جسے دیکھ کر لگے کہ اس کا حامل، خواتین کے لیے بھی حامل کا لفظ ہی استعمال ہو گا، روزانہ دو چار قتل تو کرتا ہی ہوگا۔ اسی طرح خوفناک وہ ناک ہے جسے دیکھ کر عجیب سا خوف محسوس ہو کہ اب یہ شخص ٹشو پیپر مانگے گا۔جو ہمارے پاس نہ ہوا تو؟
دردناک وہ ناک ہے جس پر کسی بچے نے اپنا سر دے مارا ہو۔

کربناک وہ ناک ہے جس پر بینڈیج لگی ہو۔ سبب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 
اندوہناک کسی بچے کی وہ ناک ہے جس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ ناک بھی مائع بہا رہی ہو۔ 
تابناک وہ ناک ہے جو سات گھنٹے پہلے ہی پاؤنڈز کے سات روزہ وظیفے سے فارغ ہو گر جگمگا رہی ہو۔۔۔۔اور 
 ہولناک آف کورس وہ ناک ہے جس میں کیل یا نکیل پہننے کے لیے ہول یعنی سوراخ ہو۔
کیا اب بھی ضرورت ہے کہ ہم ناک کی اقلیدسی تقسیم یعنی لمبوتری ناک۔۔۔ کھڑی ناک۔۔ موٹی ناک یا بالکل چپٹی ناک۔۔۔پکوڑہ ناک وغیرہ کا جنجال سامنے لائیں ۔۔۔نہیں نا!

بس اتنا جان لیجیے کہ جب کسی گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہونے والا ہو تو ماں کہتی ہے اللہ نہ کرے منے/منی کی ناک اپنے باپ کی طرح ہو۔ 
جبکہ باپ کہتا ہے دیکھ لینا بیٹا ہو یا بیٹی ناک میری طرح ہی ہو گی۔ 
ہاں ایک طوطا ناک ایسی ناک ہے جس پر روشنی ڈالنے کو جی مچل رہا ہے۔ ہماری امّی کی ناک بالکل کھڑی سی تھی جو ان کے باریک فیچرز کے ساتھ ان کے حسن کی شان بڑھاتی تھی۔۔ ویسے تو ایسی ناک کو سَتواں ناک کہتے ہیں۔ مگر پتا نہیں کیوں امّی بتاتی تھیں کہ اس ناک کو طوطے کی چونچ سے مشابہت کے سبب طوطا ناک کہتے ہیں۔
کیا قسمت ہے طوطے کی بھی۔ کبھی کوئی طوطا چشم کہلائے!
کبھی کسی کی ناک کو طوطا ناک کہا جائے، کبھی کسی بچے کو رٹّو طوطا کہا جائے، 
کبھی کسی بڑے کو اپنے منہ میاں مٹھو، اور کچھ نہ ہو تو ایک انتہائی بدشکل آم کو طوطا پری کہہ دیا جائے۔ 
طوطوں کی تو خیر ہے لیکن سوچیئے، پری کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟
اور زیادہ پرانی بات بھی نہیں کہ وزیر خارجہ صاحب زادہ یعقوب خان کی ناک بھی طوطا ناک کہلاتی تھی۔۔۔ شاید اسی کی برکت سے ان کی پروقار شخصیت ماحول پر چھا جاتی تھی ۔۔۔اور شائد اس ناک کے باعث ہی ہم نے اپنے پڑوسی اور ان کے پڑوسیوں کو چھوڑ کر سات سمندر پار طوطا چشم امریکہ سے یاری گانٹھی ہوئی تھی ۔
نسیم حجازی سے کون نہیں واقف۔ سوائے بہت سے لوگوں کے۔ ان کے ایک کامیاب پیروکار اسلم راہی تھے جن کے اسلامی ہیروز کا حلیہ بہت دلچسپ ہوتا تھا اور ہمیں ایسے لگتا تھا کہ مفت میں چڑیا گھر کی سیر بھی ہو گئی ہے۔۔کیسے؟
ملاحظہ کیجیے اسلامی ہیرو کا حلیہ۔۔
اسکی کمر چیتے جیسی، نظریں عقاب کے جیسی اور ناک ہاں ناک ۔۔اس ناک کی خاطر ہی تو بیان جاری ہے جی ہیرو کی ناک طوطا ناک تھی۔

لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے اورطوطا ناک کی جگہ چپٹی ناک کی اہمیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہ کرشمہ ہے چین کے دنیا کی پہلی یا دوسری بڑی اقتصادی طاقت بننے کا۔ اسی کو تو کہتے ہیں، یا شاید اس کو نہیں کہتے، بہرحال
خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے
گو ایک زمانے تک یہ بات بڑے دھڑلے سے کہی جاتی رہی ہے چینی ہوں یا جاپانی ناک نقشہ سب کا ایک سا ہوتا ہے، مگر جب سے گراں خواب چینی سنبھلنے لگے، ہمیں بھی ان کی شکلوں کا تنوع محسوس ہونے لگا۔ بھلا کہاں ژو این لائی کا بیضوی چہرہ اور کھڑی ناک اور کہاں ماؤ زے تنگ کا گول چہرہ اور دبی دبی سی ناک۔
جاپانیوں کے ملک میں جھک جھک کر سلام کرنے کی تہذیب شائد اس لیے رائج ہو سکی ہو کہ ان کی ناک اونچی نہیں ہوتی۔ لیکن ہم میں سے اکثر کی ناک اس قدر لمبی ہوتی ہے کہ ہر بات ہر چیز میں آرام سے کسی سازش کی بُو سونگھ لیتے ہیں ۔۔۔

اور چونکہ ناک بھی لمبی ہی ہے اس لیے پہلی سازش کے بارے میں کچھ کرنے کرانے سے پہلے ہی کسی اور سازش کی بو آجاتی ہے۔ اور پھر جیسے ایک پالتو جانور اپنی دُم پکڑنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے یوں دائرے کا سفر چلتا رہتا ہے۔
-------------------
آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہوگا کہ ماما نے بچوں کو سمجھایا اور پپّو کو خاص تاکید کی کہ شام کو ایک معزز مہمان آئیں گے خبردار کوئی ان کی ناک کی بابت کچھ نہ کہے، ورنہ بُرا حشر ہوگا۔۔۔ سب بچوں کے ساتھ ساتھ پپّو نے بھی سر ہلا دیا ۔
اب جناب شام ہوئی۔ مہمان پھلوں اور مٹھائی کے ساتھ تشریف لائے۔ مہمان کو تزک و احتشام سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ پپّو نے بیتابی کے مارے ڈرائنگ روم میں جھانکا مارا تو چلا اٹھا 

"ماما آپ نے تو کہا تھا مہمان کی ناک پر کوئی بات نہ کرنا مگر اَنکل کی تو ناک ہے ہی نہیں۔"
ناک تو ناک ہی رہے گی اور ناک جیسے الفاظ کا مفہوم بدلتے وقت کے ساتھ نہ بھی بدلے تو بھی قومیں ضرور اپنے شرمناک ماضی پر ناک بھوں چڑھاتے ہوئے تاریخ تک بدل لیتی ہیں۔ پر ہم سا عبرت ناک بھی کون ہوگا؟

 ہم نے تو تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنا جغرافیہ بھی بدل ڈالا ہے۔۔ ہاں احتیاطاً نصابی کتب میں جمہوریت کی شان اور افادیّت کا ذکر ڈال دیا ہےتاکہ پپّو جیسے شرارتی بچے سوال نہ کر بیٹھیں کہ ماما یہاں جمہوریت کہاں ہے؟؟؟
اس سے پہلے کہ ہم ناک کے محاوروں کی طرف آئیں، کیوں نہ بچارے پنوکیو کا حال چال پوچھ لیں۔ پنوکیو ایک کٹھ پتلی تھا جس میں جان پڑ گئی تھی۔ اور وہ گھر سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ جب بھی وہ کوئی جھوٹ بولتا تھا تو اس کی ناک کچھ لمبی ہو جاتی تھی۔ اب کوئی بغیر جھوٹ کے کیسے جی سکتا ہے؟چاہے سقراط ہی کیوں نہ ہو۔ تو ہوتے ہوتے پنوکیو کی ناک اتنی لمبی ہو گئی کہ اس سے ندی کا پل بنایا جا سکتا تھا۔
سنا ہے کہ اب ہماری حکومت نے ثمر مبارک مند کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ انسانوں میں پنوکیو کی ناک کے جینز ڈالنے کی کوشش کریں۔ اگر اس میں بھی کامیابی ہو گئی تو ہماری ناکیں لکڑی کی ہوں گی اور عمارتی لکڑی کی کمی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک کے لوگوں کو جب آزادی ملی تو جشن منایا گیا۔ اس جشن کے شور شرابے میں ایک لڑکے کا ہاتھ ایک باکسر کی ناک سے جا ٹکرایا۔ باکسر نے احتجاج کیا،  تو وہ بولا ہم آزاد ملک کے آزاد باشندے ہیں، جو چاہیں گے کریں گے۔ باکسر نے فی الفور اس کو آٹھ دس مکّوں کی خوراک دی اور پھر کہا، 

"جوان تم اپنے ہاتھ کو ہلانے میں پورے طور پر آزاد ہو، مگر جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں یہ آزادی ختم ہو جاتی ہے۔"
ہماری پیاری حکومت نے بھی وحشتناک انداز میں خلائی مخلوق، دھاندلی اور سلیکٹڈ جیسے الفاظ لکھنے بولنے پر پابندی لگا دی ہے۔ گویا خبرناک دور میں بھی میری آزادی وہیں تک ہے جہاں سے حکومت کی ناک شروع ہوتی ہے۔ اور حکومت کی ناک تو پنوکیو کی ناک کی طرح ہر وقت بڑھتی جا رہی ہے اور ہمارے ہاتھ ہلانے کی گنجائش کم سے کمتر ہو رہی ہے۔۔
ہماری زبان میں بھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح، انسانی اعضاء کے بارے میں بہت سے محاورے رائج ہیں۔ ان میں سے ناک کے بارے میں چند دیکھتے ہیں۔
ناک بھوں چڑھانا ہمارا قومی کھیل ہے۔ یعنی کسی اپنے لیے ناپسندیدہ مگر دوسروں کی روزمرہ زندگی میں داخل چیز کو دیکھ کر چہرے کو ایسے بھینچنا کہ سامنے والے کو شرمندگی ہونے لگے۔ 

ناک کا یہ ایک استعمال دس ہزار الفاظ سے زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ اس سے آپ کی اعلیٰ اور دوسروں کی ادنیٰ حیثیت کا بھی اظہار ہوتا ہے، فخر اور غرور بھی کماحقّہ ظاہر ہوتا ہے۔ جان بھی چھڑانے کے کام آتا ہے اور وقت کی بچت تو بونس میں۔ 
ایسے ہی ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے کا معاملہ ہے۔ کہ کسی ناپسندیدہ بات کو مطلق برداشت نہ کرنا۔ جیسے ہماری افسرشاہی۔
ناک کٹ جانا ایک ایسا ہی محاورہ ہے۔ پرانے زمانے میں عموماً، اور آج بھی کبھی کبھی، لوگ اپنے دشمنوں کی اور مجرموں کی ناک کاٹ دیتے تھے۔ تو ناک کٹا شخص جسے نکٹا یا نکٹی کہا جاتا ہے اپنی سزا کا اشتہار خود ہوتا تھا۔ یہ کٹی ناک پھر خاندان کی ناک میں بدلی اور ذرا ذرا سی بات پر خاندان کی ناک کٹنے لگی۔ پھر اس سے بڑھ کر برادری، قبیلے، بستی اور ملک و قوم کی ناکیں بھی گھیرے میں آ گئیں۔ وہ تو شکر کی خاندان کی کٹی ناک اتنی آسانی سے دکھتی نہیں ورنہ کٹی دموں سے زیادہ کٹی ناکیں نظر آتیں۔
بانکوں پر عبد الحلیم شرر کا ایک بڑا معروف مضمون ہر ایک کی نظر سے ہی گزرا ہو گا۔ اس میں ایک بانکے میاں کی عجب داستان ہے جنہوں نے نواب صاحب کی ناک کٹوا دینے کی دھمکی سن کر خود اپنے خنجر سے اپنی ناک کاٹ کر اپنے والد کو پیش کر دی تھی۔
کہتے ہیں نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں دہلی کے آئے ہوئے مشہور بانکوں میں ایک میرزا جہانگیر بیگ تھے۔ اُن کا نوعمری کا زمانہ تھا۔ باپ نواب صاحب کے درباریوں میں تھے۔ جہانگیر بیگ کی جھگڑا و فساد کی خبر کئی بار سُن کے نواب سعادت علی خاں خاموش ہورہے، مگر آخرکار ایک دن بہت برہم ہوئے اور اُن کے والد سے کہا

 ’’آپ کے صاحبزادے کی شورہ پشتیاں حد سے گزرتی جاتی ہیں اور انھوں نے سارے شہر میں اُدھم مچا رکھا ہے۔ اُن سے کہہ دیجیے گا کہ اپنے اس بانکپن پر نہ بھولیں۔ ناک نہ کٹوالی ہو تو میں سعادت علی خاں نہیں‘‘۔ 
 باپ خود ہی بیٹے کی حرکتوں سے عاجز تھے۔ عرض کیا ’’خداوند! اُس کی شرارتوں سے غلام کا ناک میں دم ہے۔ ہزار سمجھاتا ہوں نہیں مانتا۔ شاید حضور کی یہ دھمکی سُن کے سیدھا ہوجائے‘‘۔
 یہ کہہ کے گھر آئے اور بی بی سے کہا ،
’’تمھارے صاحبزادے کے ہاتھوں زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔ دیکھیے اس نالائق کی حرکتوں سے ہماری کیا گت بنتی ہے؟ جی چاہتا ہے نوکری چھوڑ دوں اور کسی طرف منہ چھپا کے نکل جاؤں‘‘۔
 بی بی نے کہا،
 ’’اے تو کچھ کہو گے بھی؟ آخر ہوا کیا؟‘‘
 کہا ’’ہوا یہ کہ آج نواب صاحب بہت ہی برہم بیٹھے تھے۔ میری صورت دیکھتے ہی کہنے لگے اپنے بیٹے سے کہہ دینا کہ میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ 
اتنے میں مرزا جہانگیر بیگ جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے، گھر میں آگئے۔ ماں نے کہا 
’’بیٹا خدا کے لیے اپنی یہ حرکتیں چھوڑدو، تمھارے ابا بہت ہی پریشان ہیں‘‘۔ 
مرزا صاحب نے کہا،
 ’’میرا کچھ قصور بھی بتائیے گا یا خالی الزام ہی دیجیے گا‘‘۔ باپ نے کہا،
 ’’کوئی ایک قصور ہو تو بتایا جائے؟ تم نے وہ سر اُٹھا رکھا ہے کہ سارے شہر میں آفت مچ گئی۔ آج نواب صاحب کہتے تھے کہ اپنے صاحبزادے سے کہہ دینا میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ 
 باپ کی زبان سے اتنا سنتے ہی مرزا صاحب کو جو طیش آیا تو کمر سے خنجر نکال لی اور خود ہی اپنی ناک کاٹ کے باپ کی طرف پھینک دی اور بولے،
 ’’بس اسی ناک کاٹنے کی نواب صاحب دھمکی دیتے ہیں؟ لیجیے یہ ناک لے جاکے انھیں دے دیجیے‘‘۔
 یہ دیکھتے ہی ماں باپ دونوں سناٹے میں آگئے اور جب باپ نے بیٹے کی ناک نذر کے طریقے سے نواب صاحب کے سامنے پیش کی اور واقعہ بیان کیا تو وہ بھی دم بخود رہ گئے اور معذرت کرنے لگے کہ ،
’’بھئی میرا یہ منشا نہ تھا، میں تو سمجھا تھا کہ اس دھمکی سے انھیں تنبیہ ہوجائے گی‘‘۔
 باپ نے کہا ، ’’خداوند! ایسا نالائق اور اپنی دُھن کا پکّا ہے کہ کسی کا زور ہی نہیں چلتا۔ جسے نہ جان کا خیال ہو نہ عزت آبرو کا، اُس کے منہ کون لگے؟‘‘
ایسے ہی ایک محاورہ، " نکّو بنانا ہے"۔ یعنی کسی کو بیوقوف بنانا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ کئی بچے مل کر کسی ایک بچے کو کہتے ہیں کہ تمہارے چہرے پر ناک لگی ہوئی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ناک کے اندر کی رطوبت لگی ہے۔ بار بار صاف کرنے پر بھی یہی کہا جاتا ہے اب بھی لگی ہوئی ہے۔ اب جب وہ رونے کے قریب ہوجاتا ہے تو اس کی ناک پکڑ کر کہتے ہیں یہ ناک ہے جو لگی ہوئی ہے۔
"ناک سے لکیریں کھنچوانا"، بھی ایسی ہی ایک سزا ہے جس کا مقصد دوسرے کو بےحد ذلیل کرنا اور اس سے اس کی بے بسی اور عاجزی منوانا ہوتا ہے۔
"ناک میں دم کر دینا" بھی ایسی ہی ایک چیز ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی کو اتنا تھکایا جائے کہ اس کی سانس بہت تیز تیز چلنے لگے، لیکن رفتہ رفتہ اس کا مفہوم ستانے اور عاجز کرنے کا ہو گیا۔ جیسے ہمارے دیس میں بھی مسائل کا انبار دیکھ کر نو زائدہ حکومت کی ناک میں دم آگیا ہے۔
پھر "ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے" کی بات آتی ہے۔ یوں تو شاید ہی کوئی ہو جو کسی مکھی کو یہ اجازت دے مگر بڑے لوگ مکھی کا یہ استحقاق بہت شور شرابے کے ساتھ چھینتے ہیں۔ پھر جب کپتان کی حکومت میں کرکٹ کا ورلڈ کپ ہو رہا ہو تو ٹیم کے جانے سے پہلے تک تو ہم ناک پر مکھی تک بیٹھنے نہیں دیتے۔۔ 

پھر انتہائی عبرت ناک آغاز کے بعد ناک پر مکھی، مچھر، پسّو، جونکیں سب بٹھا کر بعید از امکان امیدوں اور دردناک دعاؤں پر گزارا کرتے رہے۔ بالآخر دشمنوں کے ہارنے پر خوشیاں منائیں مگر یہی رمز مسلمانی نہ پا سکے کہ اپنی جیت کی حقیقی خوشیاں ہی اور ہوتی ہیں۔۔
ایک چیز ، "ناک کا بال" بھی ہوتی ہے۔ یوں تو ہمیں یہ چیز بہت مکروہ لگتی ہے مگر بڑے لوگ اپنے ساتھ کم از کم ایک ناک کا بال ضرور رکھتے ہیں۔ یعنی وہ شخص جس کی وہ ہر بات مانتے ہوں۔ یہ ناک کا/کی بال بڑے صاحب/صاحبہ سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے، جب تک صاحب/صاحبہ کو زور کی چھینک نہ آ جائے۔ پھر کوئی اس جگہ آجاتا ہے۔
"ناک کی سیدھ میں دیکھنا" بھی ایک دلچسپ محاورہ ہے لیکن اس پر عمل مشکل۔ یہ کام سیدھے لوگ ہی کر سکتے ہیں جو اب کم کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔
اسی طرح "ناک کان دے کر جانے" کا محاورہ ہے جس کا مطلب وعدہ پورا نہ کر پانے کے سبب عزت گنوا کر جانا ہے۔
"ناک پر انگلی رکھ کر بات کرنا" بھی ایک بہت دلچسپ بات ہے۔ یہ عورتوں کا کام تھا کہ جب کسی کام کا دو ٹوک انکار کرنا ہو، خاص کر جس کے کرنے میں عزت گھٹنے کا اندیشہ ہو تو وہ ناک پر انگلی رکھ کر کہتی تھیں "نوج"۔ اور اکبر الٰہ آبادی شہید۔
ناک کے بارے میں آخری بات یہ کہ ، "اونچی ناک" والے ہمیشہ ایک دوسرے سے خار ہی کھاتے آئے ہیں۔ 

میر تقی میر کے ایک ہم عصر شاعر تھے بقا ۔ وہ بھی میر ہی رہے ہوں گے۔ ایک دفعہ خدائے سخن میر سے خفا ہوگئے کہ میر نے ان کے شعر کے مقابلے پر دوآبے پر شعر کیسے کہا ؟
اور کیوں کہا۔ سو بد دعا پر ہی اتر آئے اور یہ قطعہ کہا
'
میر نے گر ترا مضمون دوآبے کا لیا
اے بقا تو بھی دعا دے جو دعا دینی ہو
یا خدا میر کی آنکھوں کو دوآبہ کر دے
اور بینی کا یہ عالم ہو کہ تربینی ہو
'
واضح رہے کہ ناک کا مترادف فارسی زبان میں بینی ہے اور تربینی یوں تو گنگا جمنا کا سنگم ہے، جہاں گنگا، جمنا اور ایک تیسرا خیالی دریا ملتے ہیں، لیکن یہاں تربینی سے مراد بہتی ہوئی ناک یا گیلی ناک ہے، جسے انگریزی میں رننگ نوز کہتے ہیں۔
انگریزی کی بات آ گئی تو ہم بھی ایک اعتراف کرتے چلیں کہانگریزی تفہیم کی محدود قابلیت ک بل بوتے پر ، ایک مدت تک ہم ناک آؤٹ کا مطلب ناک سے آلائش باہر کر دینا ہی سمجھتے رہے۔


 از قلم : حبیبہ طلعت

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

24 اگست 2019 بزم زعفرانی مناثرہ کی بارہویں نشست میں پڑھا گیا شگفتہ انشائیہ  ۔

٭٭٭٭٭واپس  ٭٭٭٭٭

بدھ، 14 اگست، 2019

پاکستانی قومیت تبدیل کرنے کا حلف !






میں قسمیہ حلف پر یہ اعلان کرتا(کرتی) ہوں  کہ میں بقائم ہوش وحواس میں وفاداری کا اعلان کرتا ہوں اور اپنے پچھلی قومیت سے دستبرداری کا علان کرتا ہوں جس کا میں باشندہ تھا-
(
اس لائن کا حلف اُٹھانے سے میری وفاداری آئیندہ پاکستان کے بجائے امریکہ سے ہو گی)
   
میں اس کا بھی اعلان کرتا ہوں، کہ میں آئین اور قوانین ِ امریکہ کا تمام ملکی اور غیر ملکی دشمنوں سے دفاع کروں گا،
  (اس لائن کا حلف اُٹھانے سے میں نے پاکستان کا آئین اور قانون ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں:
(ا) اگر امریکہ پاکستان کو دشمن قرار دیتا ہے تو میں پاکستان کے خلاف لڑوں گا -
(
۲)۔  اگر امریکہ یہ اعلان کرتا ہے کہ سارے مسلمان ہمارے دشمن ہیں تو میں امریکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑوں گا)
    یہ کہ میں خلوص دل سے اس ایمان کی وفاداری کروں گا۔
(اس لائن کے مطابق میرا،ایمان وہ ہے جو آئین اور قانون امریکہ مجھے بتائے گا)

 اور میں یہ بغیر کسی ذہنی اور جسمانی دباؤ کے بغیر اِس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔
(اس لائن کے مطابق میں ہوش و حواس میں ہوں اور مجھ پر کوئی دباؤ نہیں)
    خدا میری مدد کرے ۔
(اس لائن کے مطابق،میں نے امریکی آئین اور قانون کے مطابق خدا سے مدد مانگی ہے۔ کیوں کہ میرا سابقہ اللہ مجھ سے یہ توقع رکھتا تھا کہ میں ”یہود اور نصاریٰ کو اپنا مدد گار نہ بناؤ اگر میں نے ایسا کیا تو میں بھی اُن جیسا ہو جاؤں گا۔ حالانکہ امریکہ یہودی اور نصرانیوں کا ملک ہے  جو فرزندِ زمین ہیں۔ لہذا میں اپنے سابقہ اللہ کے آئین اور قوانین جو پرانے اور فرسودہ ہیں دستبرداری کا حلف پر اعلان کرتا ہوں)
    ثبوت کے طورپر میں اپنے دستخط کرتا ہوں۔
(اس لائن کے مطابق، میں نے وہ تمام ماضی کے رابطے ختم کرتا ہوں اور امریکی تھرڈ کلاس شہری کے حقوق قبول کرتا ہوں۔ اس کے لئے مجھے، یہودیت، عیسائیت، کی طرح نژرادیت کی قومیت عطا کی گئی ہے)
--------------------------------------------------
یہ دستخط کرتے ہی ، محمد عبداللہ پاکستانی سے امریکن شہری بن جاتا ہے
 --------------------------------------------------


نوٹ: سرخ الفاظ میں تشریح کئے گئے الفاظ میرے نہیں لیکن میں اُن سے متفق ہوں۔ آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔


کیا ا مریکی قوم سے حلف وفاداریاُٹھانے کے بعد اُن کے ملک میں موجیں اُڑانے کے بعد کوئی اُن سے غداری کا تصّور کر سکتا ہے؟


 ڈالروں، عیاش زندگی اور امریکی خدا کے زیر سایہ رہنے والی فری سوسائیٹی میں،”قومی وقار کا سودا“ کرنے کے بعد کیا یہ لوگ:
٭۔    ہماری رہبری کر سکتے ہیں؟
٭۔    ہم سے مخلص ہو سکتے ہیں؟


نوٹ :       مضمون پڑھنے کے بعد اگر پسند آئے تو نیچے خانے میں کمنٹ لازمی دیں
               اور باقی دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں ۔ شکریہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں :
٭- قومی وقار کا سودا  
٭- قومی وقار کا سودا کرنے والے   
 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قومی وقار کا سودا کرنے والے

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ،  22 ہزار سے زیادہ کلیدی عہدوں پر بر اجمان ا فسران نے امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ و آسٹریلیا کی شہریت لے رکھی ہے ۔


جن کا مستقبل پاکستان میں  نہیں ہے  بلکہ اپنے  دوسری شہریت  والے ملک سے ہے ،   وہ دیمک کی طرح پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں!
آگے بڑھنے سے پہلے ، یہ مضمون پڑھیں :
پاکستانی  ،  قومیت تبدیل کرنے کا حلف ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملاحظہ فرمائیے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی فہرست۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان میں دہری شہریت کے حامل مرد و خواتین  سرکاری افسران کی تعداد 22 ہزار 380 ہے جن کی ایک طویل فہرست ہے،
اس میں
 1100 کا تعلق صرف پولیس اور بیوروکریسی سے ہے اور ان میں سے
540 کینیڈین ,
240 برطانوی
190 کے قریب امریکہ کے بھی شہری ہیں ،
درجنوں سرکاری ملازمین نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اورآئرلینڈ جیسے ملکوں کی بھی شہریت لے رکھی ہے
110 سرکاری افسروں میں اہم حکومتی عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔
گریڈ 22 کے 6
 جبکہ
 ایم پی ون سکیل کے 11 ،
 گریڈ 21 کے 40،
گریڈ 20 کے 90،
 گریڈ 19 کے 160،
 گریڈ 18کے 220
اور گریڈ 17کے
کم وبیش 160 افسران ہیں۔

 

 اسی طرح ،
 داخلہ ڈویژن کے 20 ،
 پاور ڈویژن 44،
 ایوی ایشن ڈویژن 92،
 خزانہ ڈویژن 64،
پٹرولیم ڈویژن 96،
کامرس ڈویژن 10،
آمدن ڈویژن 26،
اطلاعات و نشریات 25، 

اسٹیبلشمنٹ 22،
نیشنل فوڈ سکیورٹی 7،
 کیپیٹل ایڈمنسٹریشن11،
مواصلات ڈویژن 16،
ریلوے ڈویژن 8،
کیبنٹ ڈویژن کے 6 افسر دہری شہریت کے حامل ہیں۔


 سب سے زیادہ دہری شہریت کے حامل افراد کا تعلق محکمہ تعلیم سے ہے
 اور ان کی تعداد 140 سے زیادہ ہے ۔
اسی طرح
 قومی ایئر لائن کے 80 سے زیادہ ،
 لوکل گورنمنٹ 55،
سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر 55،
نیشنل بینک 30،
سائنس اور ٹیکنالوجی 60،

 زراعت 40سے زیادہ،
 سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن 20،
 آبپاشی 20،
سوئی سدرن 30،
 سوئی ناردرن 20،
 پی ایم ایس 17،
 پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس 14،
نادرا کے 15ملازمین دہری شہریت کے حامل ہیں۔


دوہری شہریت کی حامل اہم  شخصیات میں،

 پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ 22کے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوانوید کامران بلوچ کینیڈا،
(پی اے ایس)کی پہلی خاتون صدراور گریڈ22 کی وفاقی سیکرٹری انسانی حقوق ڈویژن رابعہ آغا برطانیہ
گریڈ 22کے سیکرٹری بورڈ آف انویسٹمنٹ سردار احمد نواز سکھیرا امریکہ،
 گریڈ21کے موجودہ ڈی جی پاسپورٹ و امیگریشن عشرت علی برطانیہ،
 گریڈ22کی سابق سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ سمیرا نذیر صدیقی نیوزی لینڈ
 گریڈ 20 کے سیکرٹری اوقاف پنجاب ذوالفقار احمد گھمن امریکہ،
 مراکو میں سابق سفیر نادر چودھری برطانیہ،
 قطر میں سابق سفیر شہزاد احمد برطانیہ،


 کسٹم کے گریڈ 21 کے ایڈیشنل وفاقی سیکرٹری خزانہ احمد مجتبیٰ میمن کینیڈا،
 گریڈ 21 کی چیف کلیکٹر کسٹم زیبا حئی اظہرکینیڈا،
پولیس سروس کے گریڈ 22 کے اقبال محمود (ر)،
 گریڈ21کے اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب میاں شجاع الدین ذکا کینیڈا،
 چیئرمین پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین فوزیہ وقار کینیڈا،
 پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر سید ومیق بخاری امریکہ،
موجودہ ایم ڈی معین رضا خان، نیشنل بینک کے سابق صدر سعید احمد برطانیہ،

 ڈائریکٹرجنرل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف طاہر امریکہ،
گریڈ 20کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ /پریس انفارمیشن آفیسرجہانگیر اقبال کینیڈا،
سابق پنجاب حکومت کے ساتھ اہم قانونی معاملات پہ کام کرنے والے نامور قانون دان سلمان صوفی امریکہ ۔

اسی طرح گریڈ 20 کے ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیف آپریٹنگ آفیسر ڈاکٹر محمد اجمل کینیڈا،
گریڈ21کے وزارت داخلہ میں ایڈیشنل سیکرٹری شیر افگن خان امریکہ گریڈ 20 کے جوائنٹ سیکرٹری وزیر اعظم آفس احسن علی منگی برطانیہ، 
گریڈ20 کے راشد منصور کینیڈا، گریڈ 20کے علی سرفراز حسین برطانیہ،
گریڈ 18کے محمد اسلم راؤبرطانیہ،

 گریڈ 20 کی سارہ سعید برطانیہ،
گریڈ18کے عدنان قادر خان برطانیہ،
گریڈ 18کی رابعہ اورنگزیب کینیڈا، 
گریڈ 18 کی صائمہ علی برطانیہ، 
گریڈ 20 کے سپیشل برانچ کے ڈی آئی جی زعیم اقبال شیخ برطانیہ،
 گریڈ 20 کے لاہور پولیس ٹریننگ کالج کے کمانڈنٹ ڈی آئی جی مرزا فاران بیگ برطانیہ،
گریڈ20 کے ڈی آئی جی مواصلات شاہد جاوید کینیڈا،

گریڈ 20 کے ڈاکٹر محمد شفیق (ریٹائرڈ) کینیڈا،
گریڈ 19کے ایس ایس پی گوادر برکت حسین کھوسہ کینیڈا،
گریڈ 19 کے ایس ایس پی ندیم حسن کینیڈا،
گریڈ 18 کے ایس پی عادل میمن امریکہ،

گریڈ 18کے عقیل احمد خان امریکہ،
گریڈ18کے ارشد محمود کینیڈا، 

گریڈ 19کے سہیل شہزاد برطانیہ، 
تنویر جبار کینیڈا، 
گریڈ19کے محمد جاوید نسیم کینیڈا، 
گریڈ19کے محمد محسن رفیق کینیڈا،
 گریڈ19کے راشد احمد خان کینیڈا، 
گریڈ 19کے طفیل خان یوسفزئی آسٹریلیا، 
گریڈ19کے محمد شاہد نذیر کینیڈا، 
گریڈ19کے محسن فاروق کینیڈا،
گریڈ18کے محمد ابراہیم کینیڈا،
 گریڈ17کے محمد افتخار امریکہ،
گریڈ 17کے نواز گوندل کینیڈا، 

گریڈ 19کے اعجازعلی شاہ امریکہ،
 گریڈ19کے امجد علی لغاری کینیڈا،
سٹیٹ بینک کے عبد الرؤف امریکہ، صبا عابد امریکہ ، سید سہیل جاویدکینیڈا ،
راحت سعیدامریکہ ، ٹیپو سلطان امریکہ، عرفان الٰہی مغل امریکہ ، محمد علی چودھری برطانیہ، حسن جیواجی کینیڈا، زہرہ رضوی برطانیہ، امجد مقصود کینیڈا، عنایت حسین آسٹریلیا، شازیہ ارم کینیڈا، تبسم رانا کینیڈا،
 ریاض احمد خواجہ کینیڈا، ناصر جہانگیر خان کینیڈا، مصطفی متین شیخ کینیڈا، فضلی حمید کینیڈا، سینئرایگزیکٹو نائب صدر نیشنل بینک شاہد سعید برطانیہ، رشا اے محی الدین برطانیہ، سید جمال باقر برطانیہ، مدثر ایچ خان امریکہ، ایگزیکٹو نائب صدرفاروق حسن برطانیہ،عاصم اختر کینیڈا،ناصر حسین کینیڈا، سینئر نائب صدرسید خرم حسین امریکہ،
واصف خسرو احمد برطانیہ، سید طارق حسن کینیڈا، غلام حسین اظہر کینیڈا،
نائب صدرمحمود رضا برطانیہ، نادیہ احمر کینیڈا، اسسٹنٹ نائب صدرعامر نواز کینیڈا، محمد آفتاب کینیڈا،
بابر علی کینیڈا،محمد امان پیر کینیڈا، محمد فرذوق بٹ برطانیہ، سید نعمان احمد برطانیہ،سبین طاہر برطانیہ، سید نازش علی برطانیہ،
گریڈ 20 کے سید طارق حسن کینیڈا، گریڈ 20کے عبد القادر برطانیہ، گریڈ20کے سید شبیر احمد کینیڈا،گریڈ18کے سید نعمان احمدبرطانیہ، گریڈ17کے خواجہ فیصل سلیم برطانیہ، گریڈ18کے نوید تاجدار رضوی برطانیہ،
گریڈ18کے عثمان علی شیخ امریکہ، گریڈ21کے امین قاضی جرمنی، محکمہ تعلیم میں گریڈ19کے منصور احمدجرمنی، گریڈ21کے ڈاکٹر سہیل اختر آسٹریلیا، گریڈ21کے خالد محمود کینیڈا،
 گریڈ 17کی فرزانہ اکرم سپین، گریڈ19 کے محمد عمران قریشی کینیڈا، گریڈ21کے ڈاکٹر مشرف احمد کینیڈا، بریگیڈیئر (ر) عامر حفیظ امریکہ، وقار عزیز کینیڈا،رملہ طاہر آسٹریلیا،ڈاکٹر جمشید اقبال جرمنی،
ڈاکٹر کاشف رشید آسٹریلیا،ڈاکٹر اسد اﷲ خان برطانیہ، ڈاکٹر محمد مشتاق خان ہالینڈ،
نعمان احمد کینیڈا،نیئر پرویز بٹ برطانیہ،اعجاز احمد فرانس، صنم علی ڈنمارک، خالدہ نور کینیڈا،پروفیسر ڈاکٹراسلم نور کینیڈا، محمد ارشد رفیق کینیڈا،نرگس خالد امریکہ، محمد افضل ابراہیم امریکہ،ڈاکٹر عقیل احمد قدوائی کینیڈا، ڈاکٹر پاشا غزل برطانیہ،
محمد سعد بن عزیز کینیڈا،گریڈ19کے خالد محمود احمد برطانیہ، گریڈ19کی ثانیہ طارق کینیڈا، گریڈ20کی طاہرہ ضیا برطانیہ، گریڈ17کی روشان امبرامریکہ، گریڈ17کی سمرین آصف کینیڈا، گریڈ18کی قنطا نور کینیڈا، گریڈ19کے ڈاکٹر محمد شیراز ارشدملک کینیڈا، گریڈ21کے فرحت عباس کینیڈا، گریڈ19کی شبنم نور کینیڈا، گریڈ17کی عاصمہ اعظم امریکہ،
گریڈ18کی تہمینہ عتیق کینیڈا، گریڈ19کی روحیلہ ریاض ہالینڈ، گریڈ18کی سیدہ نوشین طلعت کینیڈا، قمر الوہاب سویڈن، گریڈ17کے منصور احمد بٹ کینیڈا، گریڈ18کے سید جمال شاہ کینیڈا، گریڈ19کے محمد کلیم کینیڈا، گریڈ19کے ڈاکٹر قیصر رشید کینیڈا، گریڈ21کے محمد منیر احمد برطانیہ، گریڈ19کے ڈاکٹر عبد الرحمان شاہد برطانیہ، گریڈ18کے شاہ رخ عرفان برطانیہ، گریڈ18کی ساشا احمد کینیڈا، گریڈ17کے سخن الٰہی برطانیہ، گریڈ18کے حسن بخاری برطانیہ، گریڈ17کی رخسانہ احسن امریکہ، گریڈ17کے محمد علی ظہیر امریکہ، گریڈ17کے ابراہیم عبد القادر عارف امریکہ، ڈاکٹر محمد نعمان ملائیشیا، گریڈ17کی عالیہ نذر کینیڈا،
گریڈ19کی ڈاکٹر مریم مصطفی جرمنی،گریڈ18کے نجم طارق برطانیہ، گریڈ19کی کوکب علی کینیڈا، گریڈ19کی فریدہ بیگم بحرین، گریڈ18کی عشرت این بخاری برطانیہ، گریڈ19کی نسیم اختر بحرین،
نوباح علی سعد برطانیہ، کامران ہاشمی امریکہ، طاہر عزیز خان برطانیہ، جنید شریف کینیڈا، ڈاکٹر جلیل اختر کینیڈا، گریڈ20کی ڈاکٹر صبینہ عزیز برطانیہ، گریڈ18کے عتیق امجد کینیڈا، گریڈ17کی لائقہ کے بسرا امریکہ، گریڈ19کی فاخرہ سلطانہ برطانیہ،
گریڈ 19کے ڈاکٹر آصف خان برطانیہ، گریڈ18کی نسرین کوثر کینیڈا، گریڈ17کی کشور فردوس کینیڈا، گریڈ20کے ناصر سعید کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر محمد علی عارف برطانیہ، ڈاکٹر محمد احمد بودلا کینیڈا، گریڈ18کی ناظمہ ملک کینیڈا، گریڈ18کی عائشہ سعید نیوزی لینڈ، گریڈ17کے ساجد مسعود برطانیہ،
 گریڈ17کے شاہد آزاد نیوزی لینڈ، گریڈ18کے نیاز محمد خان کینیڈا، گریڈ18کے شہزاد اسلم باجوہ آسٹریلیا، گریڈ17کی ڈاکٹر عفت بشیر امریکہ،
گریڈ 19کے محمد اسماعیل برطانیہ، گریڈ18کے محمد اظہر آسٹریلیا، گریڈ17کی مدینہ بی بی افغانستان، گریڈ17کی عطرت جمال کینیڈا، گریڈ20کی ڈاکٹر راحیلہ آصف کینیڈا، گریڈ21کے پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین شیخ کینیڈا، گریڈ18کی ماریہ سرمد کینیڈا،
گریڈ21کی پروفیسر ڈاکٹر انیلہ نعیم کینیڈا، گریڈ21کے پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا مہدی امریکہ، عمر میمن آسٹریلیا، گریڈ20کی سارہ کاظمی امریکہ، گریڈ21کے شمس ندیم عالم امریکہ،
گریڈ19کے اقتدار احمد صدیقی امریکہ، گریڈ19کے اسد خان کینیڈا، گریڈ19کے سعید اختر امریکہ، گریڈ18کی شائمہ سلطانہ میمن جنوبی افریقہ، گریڈ18کے ذو الفقار نذیر امریکہ، شگفتہ نظام برطانیہ، گریڈ18کے عدنان سرور سکو والاسویڈن،
گریڈ 19کی نادیہ رفیق کینیڈا، گریڈ20کے مجیب رحمان عباسی آئر لینڈ، تزین ملک برطانیہ، زنیرہ طارق امریکہ، گریڈ20کے فرید الدین صدیقی کینیڈا، گریڈ19کی مریم قریشی برطانیہ، گریڈ19کی راشدہ پروین امریکہ، گریڈ19کے شاداب علی راجپوت کینیڈا، گریڈ17کی لبنیٰ بلوچ کینیڈا،گریڈ18کی یاسمین زمان برطانیہ، گریڈ17کے محمد ارشد علی خان امریکہ، گریڈ19کے ڈاکٹر سلیم احمد پھل کینیڈا، گریڈ17کے توقیر سوئٹزر لینڈ، گریڈ19کی نبیلہ فرید برطانیہ،
 ڈاکٹر نوشین انور امریکہ، ڈاکٹر نادیہ قمر چشتی مجاہد امریکہ، ثمر قاسم امریکہ، ڈاکٹر جبران رشید کینیڈا، گریڈ21کے ڈاکٹر شمیم ہاشمی امریکہ، ڈاکٹر اعجاز احمد میاں کینیڈا، ڈاکٹر محمد نشاط نیوزی لینڈ، ڈاکٹر شیبا سعید برطانیہ، محمداسد الیاس کینیڈا، ڈاکٹر محمد شعیب جمالی امریکہ، لبنیٰ انصر بیگ کینیڈا، گریڈ21کی علیسیا مریم ثمیمہ امریکہ،
گریڈ17کی حمیدہ عباسی کینیڈا، گریڈ19کی رابعہ منیر برطانیہ، ڈاکٹر بینش عارف سلطان برطانیہ، گریڈ17کی بشیراں رندکینیڈا، گریڈ20کے زبیر اے عباسی برطانیہ، گریڈ17کی مہرین افضل امریکہ، پی آئی اے کے ضیا قادر قریشی آسٹریلیا، عنایت اﷲ آئرلینڈ، شیخ عمر اسلام کینیڈا، مبارک احمد کینیڈا، فواز نوید خان کینیڈا، تنویر لودھی امریکہ، سہیل محمود کینیڈا،
 شہزادہ خرم کینیڈا، انعام اﷲ جان امریکہ، طلحہ احمد خان کینیڈا، ندیم احمد خان کینیڈا، توصیف احمد امریکہ، منظور بھٹو کینیڈا، عامر حسین شاہ کینیڈا، شہریار احمدڈوگرکینیڈا، محمد جمیل امریکہ، ڈاکٹر صنم ممتاز کینیڈا، بدر الاسلام امریکہ، سید ہمایوں امریکہ، طارق جمیل خان برطانیہ،
محمد علی کھنڈوالا امریکہ، فرحان وحید برطانیہ، عثمان غنی راؤ کینیڈا، مصباح احسان امریکہ، نجیب امین مغل کینیڈا، طارق محمود خان کینیڈا، وقار الاحسن کینیڈا، عمر رزاق کینیڈا، اشفاق حسین برطانیہ، سید خالد انور امریکہ، محمد ظفر علی کینیڈا، زریاب بشیر برطانیہ، محمد حسام الدین خان برطانیہ، سمیع ہاشمی کینیڈا، عامر سرور کینیڈا، فیضان خالد رضوی امریکہ، عمر سلیم برطانیہ، اسد اویس کینیڈا، زاہد رضا نقوی کینیڈا، نوید اکرام امریکہ، راشد احمد برطانیہ، محمد نجم الخدا کینیڈا، افضل احمد ممتاز برطانیہ، کہکشاں ترنم کینیڈا،
عاصمہ باجوہ برطانیہ، ریاض علی خان کینیڈا، نجیب اے سید کینیڈا، محمد سہیل برطانیہ، زاہد حمید قریشی برطانیہ، ڈاکٹر رخسانہ کینیڈا،نائلہ منصور امریکہ، عریج اے بلگرامی کینیڈا، سعید احمد امریکہ، محمد حنیف میمن کینیڈا، محمد طارق گبول کینیڈا، امش جاوید کینیڈا،طارق بن صمد کینیڈا، سعیدہ حسنین برطانیہ، ساجد اﷲ خان امریکہ،
 طارق این علوی فرانس، علی حسن یزدانی کینیڈا، ارشد علی حسن جان کینیڈا، عدنان عندلیب آسٹریلیا، شمشاد آغا امریکہ، فرح حسین برطانیہ، علی اصغر شاہ برطانیہ، ندیم ظفر خان کینیڈا، راحیل احمد برطانیہ،
سید بائر مسعود کینیڈا، کلیم چغتائی کینیڈا، عبد الحمید سعدی کینیڈا، رفعت اشفاق برطانیہ، محمد انور علوی امریکہ، سید محسن علی کینیڈا، ناصر جمال ملک کینیڈا، محمد ماجد حفیظ صدیقی کینیڈا،
اسد مرتضیٰ کینیڈا، میر محمد علی کینیڈا، سجاد علی نیوزی لینڈ، سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئراینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں گریڈ19کی ڈاکٹر سعیدہ آصف امریکہ، محمد کامران منشا برطانیہ، گریڈ18کے ڈاکٹر منیب اشرف امریکہ،
گریڈ18کی ڈاکٹر مریم اشرف برطانیہ، ڈاکٹر سمیرہ امین کینیڈا،گریڈ17کی ڈاکٹر گل رعناوسیم برطانیہ، ڈاکٹر خواجہ ندیم آئرلینڈ، فراز تجمل امریکہ،
گریڈ20کے پروفیسر آصف بشیرامریکہ، گریڈ18کی ڈاکٹرعائشہ بشیرہاشمی، گریڈ18کے ڈاکٹر سید مظاہر حسین برطانیہ، گریڈ18کی ڈاکٹر رحسانی ملک کینیڈا، گریڈ20 کے پروفیسر ناصر رضا زیدی کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر علی رضا خان روس،
 گریڈ20کے ڈاکٹر مظہر الر حمان برطانیہ، گریڈ18کے محمد توقیر اکبر آئر لینڈ، گریڈ18کے ڈاکٹرمحمد یوسف معراج ملائیشیا،گریڈ17کے ڈاکٹر انیس اورنگزیب برطانیہ، گریڈ17کے ڈاکٹر طیب اکرام برطانیہ، گریڈ17کے ڈاکٹر عدنان ایس ملک امریکہ، گریڈ20کے ڈاکٹر محمد مغیث امین برطانیہ،
گریڈ18کی ڈاکٹرارم چودھری امریکہ، گریڈ 20 کی ڈاکٹر فرخندہ حفیظ کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر سلیمان اے شاہ امریکہ، گریڈ17کی ڈاکٹر اشما خان نیپال، گریڈ17کی ثمن صغیر برطانیہ، گریڈ18کی ڈاکٹر بشریٰ رزاق امریکہ، گریڈ18کی ڈاکٹر لبنیٰ فاروق کینیڈا،
 گریڈ17کی ڈاکٹر شمائلہ رشید برطانیہ، پروفیسر محمد طارق برطانیہ، گریڈ18کے ڈاکٹر گوہر علی خان برطانیہ، گریڈ17کے ڈاکٹر سلمان یوسف شاہ برطانیہ، گریڈ 17کی ڈاکٹر عائشہ عثمان برطانیہ، گریڈ19کے ڈاکٹر خرم ایس خان کینیڈا، گریڈ18کے طارق اے بنگش آئر لینڈ، گریڈ18کے ڈاکٹر عامر لطیف آئر لینڈ، گریڈ18کے ڈاکٹر غلام سرور برطانیہ،
گریڈ 17کے امجد فاروق امریکہ، گریڈ 18کے کاشف عزیز احمد کینیڈا، گریڈ 17کی ڈاکٹر لبنیٰ ناصر برطانیہ، گریڈ17کے ڈاکٹر فرقان یعقوب برطانیہ، گریڈ18کے ڈاکٹر ظہیر خان امریکہ، گریڈ17کی غازیہ خانم کینیڈا، گریڈ20کے پروفیسر اعظم جہانگیر امریکہ،
گریڈ18کے ڈاکٹر شفیق چیمہ امریکہ، گریڈ19کے ڈاکٹر خورشید خان امریکہ، گریڈ18کے ڈاکٹر ارسلان امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر نعمان اکرم فرانس، گریڈ18کی ڈاکٹر حمیرہ رضوان کینیڈا،
گریڈ18کی ڈاکٹر تبسم عزیزبرطانیہ، گریڈ18کی رخسانہ کینیڈا، گریڈ17کے ڈاکٹر عمر فاروق برطانیہ، گریڈ20کی نسرین منظور نیوزی لینڈ، گریڈ 17کے ڈاکٹر حسن فاریس النائف شام،گریڈ20کی ڈاکٹر مہرین سادات کینیڈا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں گریڈ 19کے اختر احمد بھوگیو کینیڈا،
سہیل اصغر آسٹریلیا، چودھری آفاق الرحمان کینیڈا،سلمان اسلم کینیڈا،( نسٹ)گریڈ19کے اکرام رسول قریشی امریکہ، گریڈ19کی نگہت پروین گیلانی کینیڈا، گریڈ21کے ریاض احمد مفتی برطانیہ، گریڈ21کے ارشد حسین کینیڈا، گریڈ19کے کامران حیدر سید کینیڈا، گریڈ19کے عدیل نعیم بیگ آسٹریلیا، گریڈ19کے ندیم احمد آسٹریلیا، گریڈ20کے ارشد زمان خان امریکہ،
 گریڈ19کے منیر احمد تارڑ کینیڈا، ڈاکٹر طاہر مصطفی مدنی برطانیہ، گریڈ19کے ماجد مقبول کینیڈا، گریڈ19کے سعد اعظم خان المروت امریکہ، گریڈ19 کے عاطف محمد خان برطانیہ، گریڈ21کے شہباز خان برطانیہ، گریڈ19کے نوید اکمل دین برطانیہ،
گریڈ19کے عثمان حسن کینیڈا، گریڈ19کے فرحان خالد چودھری برطانیہ، گریڈ19کے اطہر علی کینیڈا، گریڈ19کے اختر علی قریشی کینیڈا، گریڈ19کے حسن رضا کینیڈا، گریڈ 19کی ماہا احمد آسٹریلیا، گریڈ20کے فیصل شفاعت جرمنی، گریڈ21کے ذاکر حسین جرمنی،
 گریڈ21کے محمد فہیم کھوکھر جرمنی، محکمہ صحت میں گریڈ18کے ڈاکٹرفیاض احمد امریکہ،گریڈ 17کے ڈاکٹر صوبیہ ظفر کینیڈا، گریڈ17کے ڈاکٹر فیصل اعجاز امریکہ، گریڈ18کے ڈاکٹرمحمد عمران خان آئر لینڈ، گریڈ18کے ڈاکٹر خالد عثمان آئر لینڈ،
گریڈ19کے ڈاکٹر آفتاب عالم برطانیہ، گریڈ18کی ڈاکٹر انیلہ ریاض برطانیہ، گریڈ20کے ڈاکٹر عمر حیات آئر لینڈ، گریڈ18کے مجیب الر حمان کینیڈا، گریڈ18کے ہارون ظفر برطانیہ، گریڈ18کی شازیہ طارق برطانیہ، گریڈ18کی مینا خان ناظم برطانیہ، اظہر سردار کینیڈا، گریڈ20کے آصف ملک برطانیہ،
گریڈ18کے ڈاکٹر سجاد اے خان روس، گریڈ17کی ثمینہ ناز کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر مہدی خان برطانیہ، گریڈ17کی ڈاکٹر نسرین اختر امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر محمد آصف سلیم برطانیہ، گریڈ17کی ڈاکٹر طاہرہ حمید برطانیہ، گریڈ17کے ڈاکٹر محمد شیراز بحرین، گریڈ17کے ڈاکٹر ناصر علی نواز برطانیہ،
 گریڈ18کے ڈاکٹر محمد وسیم کینیڈا، گریڈ18کی ڈاکٹر عائشہ ابراہیم برطانیہ، گریڈ18کے ڈاکٹر محمد اقبال شکور برطانیہ، گریڈ17کی ڈاکٹر مشال وحید امریکہ، گریڈ18کے ڈاکٹر ساج علی ڈوگا برطانیہ، گریڈ18کے ڈاکٹر آصف محمود اے قاضی کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر اسد الرحمان برطانیہ،گریڈ17کی ناہید انور برطانیہ، ڈاکٹر محمد بلال یاسین آسٹریلیا،
 گریڈ18کے ڈاکٹر آفتاب احمد علوی امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر نیئر جمال کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر فیاض علی برطانیہ، گریڈ17کی ڈاکٹر ذکیہ صمد امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر راشد خان امریکہ، گریڈ18کے ڈاکٹر عبد الرؤف آئر لینڈ، گریڈ17کی رفعت آرا خالد کینیڈا، گریڈ17کے ڈاکٹر وقار احمد برطانیہ، گریڈ17کی ڈاکٹر شیریں جان بحرین، گریڈ17کی گل مہینا برطانیہ،
گریڈ17کی شمیم نورآسٹریلیا، گریڈ19کے ڈاکٹر محمد فاروق ترین برطانیہ، گریڈ17کی حاجرہ علی آفریدی امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر محمد فیصل بحرین، گریڈ17کی فریدہ بلوچ کینیڈا،
گریڈ19کی صائمہ شیخ برطانیہ، گریڈ19کی ڈاکٹرلبنیٰ سرور برطانیہ، گریڈ20کے زاہد حسن انصاری کینیڈا، گریڈ19کی حمیرا معین کینیڈا، گریڈ20کے پروفیسر ڈاکٹر ہاشم رضا برطانیہ،گریڈ19کی ڈاکٹر سائرہ افغان برطانیہ، گریڈ17کی ڈاکٹر عنبر نواز امریکہ، گریڈ17کی ڈاکٹر مشل طارق آسٹریلیا، گریڈ18کی ڈاکٹر فریدہ امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر محمد ہاشم کینیڈا،
 گریڈ19کے محمد حنیف برطانیہ، گریڈ19کی شہلا باقی امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر شہاب جو نیجو امریکہ، شوہاب حیدر شیخ برطانیہ، سید اکمل سلطان برطانیہ، ڈاکٹر نوشیروان گل حیدر سومرو برطانیہ، گریڈ17کی عذراپروین برطانیہ، گریڈ18کے عدنان قاسم برطانیہ،
 گریڈ18کی ڈاکٹر آسیہ رحمان امریکہ، ڈاکٹر عامر حلیم آئرلینڈ، گریڈ17کے ڈاکٹر محمدعامر ہارون کینیڈا، گریڈ19کے محمد شاہد اقبال کینیڈا، منصوبہ بندی وترقی میں گریڈ 20 کے محمد اجمل کینیڈا، ڈاکٹر اسد زمان امریکہ، عامر منصف خان امریکہ،
 ڈاکٹر شہزادرحمان کینیڈا، مراد جاوید خان کینیڈا، علی رضا خیری برطانیہ، محمد احمد چودھری آسٹریلیا، انتساب احمد کینیڈا، حرا اقبال شیخ امریکہ، صداقت حسین کینیڈا، ملک احمد خان کینیڈا،

مائرہ جعفری برطانیہ، فرحان ظہیر آسٹریلیا، حسن ایم خالد کینیڈا، نوشین فیاض کینیڈا، گریڈ19کے ناصر اقبال برطانیہ، گریڈ18کے عرفان احمد انصاری کینیڈا، ہما محمود برطانیہ، اعجاز غنی کینیڈا، گریڈ 20کے سابق ممبر پلاننگ سی ڈی اے (ر)اسد محمود کیانی امریکہ، گریڈ19کے ایاز احمد خان کینیڈا،گریڈ 19کے حافظ محمد احسان الحق کینیڈا،گریڈ 19کی ڈاکٹر شازیہ یوسف کینیڈا، گریڈ18کی ڈاکٹر عظمیٰ علی کینیڈا،
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی میں گریڈ  19کے معین شریف کینیڈا، گریڈ 20 کے محمد ارشاد اﷲ کینیڈا، گریڈ 18 کے خالد محمود کینیڈا، گریڈ 19کے سلما ن مجید بٹ کینیڈا، گریڈ 18کے احمد فراز سلیم کینیڈا، گریڈ 19کے اعجازاحمد کینیڈا، گریڈ 20کے محمد علی ڈوگرکینیڈا، گریڈ 17کے محسن وقار امریکہ، گریڈ19کے خالد خان کینیڈا، ہائر ایجوکیشن کمیشن میں گریڈ 21کے ڈاکٹر ریاض احمد نیوزی لینڈ، ڈاکٹر محمد لطیف آسٹریلیا،گریڈ18کے فواد مرتضیٰ کینیڈا،
 گریڈ19کی سیدہ ہما ترمزی برطانیہ، گریڈ19کی نادیہ اقدس کینیڈا، گریڈ19کی نبیلہ نثار کینیڈا، گریڈ18کی ریحانہ افضل آسٹریلیا، گریڈ18کی عذرامنور کاظمی آسٹریلیا، گریڈ18کی سمرہ عبد الجلیل امریکہ، گریڈ18کی حمیدہ بیگم کینیڈا، گریڈ17کی رفیعہ مرتضیٰ کینیڈا، گریڈ17کی امین فاطمہ امریکہ، گریڈ17کی غزالہ سہراب کینیڈا، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے سلیم اﷲ محمود برطانیہ ،
حسیب احمد کینیڈا، شجاعت احمد کینیڈا، عبد الوحید برطانیہ، سہیل رانا کینیڈا، فضل حسین برطانیہ، فاروق اعظم شاہ کینیڈا، خالد محمود رحمان کینیڈا، ثاقب احمد برطانیہ، کوثر احمد محمد کینیڈا، صدیق محمد چودھری برطانیہ، گریڈ 13کے صہیب قادرکینیڈا، شرجیل حسن خان برطانیہ، ایف بی آر میں گریڈ 19کی مصباح کھٹانا برطانیہ، گریڈ 19کے سید آفتاب حیدر برطانیہ،
گریڈ 21کے احمد مجتبیٰ میمن کینیڈا، گریڈ 18کے عبد الوہاب امریکہ، گریڈ19کے اورنگزیب عالمگیر کینیڈا، طارق حسین نیازی کینیڈا، گریڈ18کے بشارت علی ملک امریکہ، گریڈ 20کے قاسم رضا کینیڈا، گریڈ 21 کے ڈاکٹر اشفاق احمد تنیو کینیڈا، پاکستان ٹیلی ویژن میں گریڈ 8کے ندیم احمد امریکہ،گریڈ6 کے محمد امجد رامے کینیڈا، گریڈ6 کے میر عجب خان کینیڈا،گریڈ7 کے منصور ناصر کینیڈا، گریڈ6کی صبا شاہد امریکہ، گریڈ6 کی نصرت مسعود امریکہ، گریڈ7کے امتیاز احمد کینیڈا، گریڈ6کے اعجاز احمد بٹ برطانیہ،گریڈ 9 کے محمد شاہ خان کینیڈا، اسدحسین کینیڈا، گریڈ 8کی شاہینہ شاہد، ان لینڈ ریونیو کے گریڈ 19کے نعیم بابر آسٹریلیا، گریڈ 20کے سجاد تسلیم اعظم برطانیہ،
 گریڈ 19کے شاہد صدیق بھٹی کینیڈا،گریڈ 20 کے عاصم افتخار کینیڈا، گریڈ18کے سید صلاح الدین جیلانی کینیڈا، گریڈ20کی شازیہ میمن برطانیہ، گریڈ18کے اسفندیار جنجوعہ کینیڈا، گریڈ20کے نوید اختر کینیڈا، گریڈ 21 کے حافظ محمد علی امریکہ، گریڈ20 کے وسیم اے عباسی کینیڈا، گریڈ 19کی سیدہ نورین زہرہ کینیڈا، گریڈ 20 کے عاصم افتخار کینیڈا،نادرا کے سمیر خان برطانیہ، جواد حسین عباسی برطانیہ، منظور احمد خواجہ برطانیہ، احمرین حسین برطانیہ، عارف علی بٹ آسٹریلیا، گریڈ18کے شاہد علی خان برطانیہ،
عثمان چیمہ آسٹریلیا، وریام شفقت آسٹریلیا، مبشر امان نیوزی لینڈ، فضا شاہد آسٹریلیا، احمد کمال گیلانی کینیڈا، مکرم علی برطانیہ، گریڈ 19کے طاہر محمود پرتگال، سہیل ارشاد انجم امریکہ، سہیل جہانگیر امریکہ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں گریڈ19کے رانا ٹکا خان کینیڈا،گریڈ 18کے عامر سید کینیڈا، گریڈ 18کے محمد زمان کینیڈا،گریڈ 18کے سجاد علی شاہ کینیڈا،
گریڈ18کے محمد الطاف نیوزی لینڈ، گریڈ17کے ندیم قاسم خان کینیڈا، گریڈ18کے سید اشرف علی شاہ کینیڈا، گریڈ 19کی نسیم کینیڈا، خالد اقبال ملک امریکہ، ڈاکٹر مریم پنہوارکینیڈا، مسعود نبی امریکہ، فیصل عارف کینیڈا، محمد ریاض آسٹریلیا، افتخار مصطفی رضوی برطانیہ، اظہر اسحاق کینیڈا،
افتخار عباسی برطانیہ،سلیم باز خان امریکہ، گریڈ18کے کاشف علی شیخ کینیڈا، گریڈ17کے طاہر علی اکبر کینیڈا، گریڈ17کی صباحت احمد چودھری کینیڈا، گریڈ18کے آغا عنایت اﷲ کینیڈا، گریڈ17کے محمد جمیل کینیڈا، مواصلات اور ورکس ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ19کے سلیم الرحمان کینیڈا، گریڈ 18کی سمیراجمیل کینیڈا، گریڈ18کے محمد نسیم کینیڈا، گریڈ18کے زاہد امان وڑائچ کینیڈا،گریڈ19 کے امجد رضا خان کینیڈا، گریڈ19کے ساجد رشید بٹ کینیڈا،
گریڈ19 کے انصار محمود کینیڈا، گریڈ20کے محمد جمال اظہر سلطان کینیڈا، گریڈ18کے علی نواز خان برطانیہ، گریڈ18کے مہرعظمت حیات کینیڈا، گریڈ18کے ارشد خان کینیڈا، گریڈ18کے محمد ایوب کینیڈا، گریڈ20کے علی احمد بلوچ کینیڈا، گریڈ21کے ملک عبد الرشید کینیڈا، گریڈ19کے شفقت حسین کینیڈا،خزانہ ڈویژن کے جیند احمد فاروقی برطانیہ، ایس ایم ای بینک کے اسسٹنٹ نائب صدراطہر اشفاق احمدبرطانیہ،
سینئر نائب صدر حافظ محمد اشفاق برطانیہ، گریڈ19کے تجمل الٰہی برطانیہ، ڈاکٹر خاقان حسن نجیب آسٹریلیا، گریڈ 18کے باسط حسین برطانیہ، گریڈ 18کے وقاص خان امریکہ، گریڈ18کے قیصر وقار برطانیہ، اشعر حمید آسٹریلیا، گریڈ19کے عمران شبیر برطانیہ، نہال اے صدیقی کینیڈا، امتیاز احمد میمن برطانیہ، اطہر انعام ملک امریکہ، گریڈ17کے سید علی معظم کینیڈا،
 گریڈ 21کے نیشنل بینک کے سابق سینئر نائب صدر خواجہ احسن الٰہی امریکہ، گریڈ 19کے آفتاب عظیم امریکہ، گریڈ19کے محمد نادر اکرام کینیڈا، گریڈ17کے سید نازش علی برطانیہ، گریڈ17کے معیز ماجد ملک کینیڈا، ہاؤسنگ اربن ڈویلپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں گریڈ17کے شاہد اقبال گل برطانیہ،گریڈ18کے احسان الحق قمرکینیڈا، گریڈ18کے چودھری فاروق احمدکینیڈا، گریڈ17 کے تنویرقیصر کینیڈا، گریڈ 18کے راجہ شہزاد اصغرکینیڈا، طاہر مجید آسٹریلیا، گریڈ17کے فہد انیس امریکہ،گریڈ19کے قیصر زمان کینیڈا، گریڈ18کے عرفان راشد کینیڈا، گریڈ19کے بابراﷲ خان کینیڈا، گریڈ18کے قیصر فاروق کینیڈا، گریڈ18کے ریحان گل کینیڈا، گریڈ 18کے منوہر لال کینیڈا، گریڈ17کے شاہد اقبال گل برطانیہ،گریڈ18کے احسان الحق قمرکینیڈا، گریڈ18کے چودھری فاروق احمدکینیڈا، گریڈ17 کے تنویرقیصر کینیڈا، گریڈ 18کے راجہ شہزاد اصغرکینیڈا، گریڈ17کے فہد انیس امریکہ، لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ کی گریڈ17کی نصرت ایمان کینیڈا، گریڈ19کے نجم الثاقب برطانیہ، گریڈ17کے عاصم رشید خان امریکہ، گریڈ18کے انور جاوید کینیڈا، گریڈ 18کے عامر بٹ کینیڈا، گریڈ 18کے عباس قمر کینیڈا، گریڈ17کے اسد خان بابر کینیڈا، گریڈ 17کے رائے شاہنواز حسن کینیڈا، گریڈ 18کے رفاقت حیات کینیڈا، گریڈ 17کی رفعت اکرام کینیڈا،
گریڈ18کے بشیر احمد بلوچ کینیڈا، گریڈ18کے محمد جلیس صدیقی کینیڈا، گریڈ18کے وسیم اﷲ صدیق کینیڈا، گریڈ18کے سرفراز حسین کینیڈا، گریڈ19کے محمد منور علی صدیقی کینیڈا، گریڈ18کے ندیم سرور کینیڈا، گریڈ18کے مسعود احمد امریکہ، گریڈ17کے اسد اﷲ کینیڈا، گریڈ17کی لبنیٰ نائم کینیڈا، گریڈ18کے عبد الحق چھنا کینیڈا، گریڈ18کی ڈاکٹر روحی کینیڈا، گریڈ20کے نجیب احمد کینیڈا،
گریڈ 20 کے محمد مسعود عالم کینیڈا، گریڈ17کے نوید احمد خان برطانیہ، گریڈ18کے سید فخر عالم رضوی امریکہ، گریڈ21کے سید محمود حیدر برطانیہ، گریڈ20کی سینا عزیز امریکہ، گریڈ18کے سید عقیل تنظیم نقوی کینیڈا، گریڈ18کے محمد آصف حفیظ صدیقی کینیڈا، گریڈ18کے جنید احمد خان کینیڈ،
 گریڈ17کے اکرام الحق باری کینیڈا، گریڈ18کے جمال یوسف صدیقی کینیڈا، گریڈ19کے شبیر احمد کینیڈا، گریڈ18کے ندیم اقبال کینیڈا، گریڈ17کے راشد ایوب فلپائن، گریڈ18کے ڈاکٹر علی گل لغاری امریکہ، گریڈ18کے سید جاوید حسن برطانیہ، گریڈ16کی سعدیہ خاتون امریکہ، گریڈ17کے ادیب عالم کینیڈا، گریڈ18کے عمیر مقبول برطانیہ، گریڈ17کے سیف الاسلام خان امریکہ، گریڈ17کے محمد نعیم الرحمان برطانیہ، گریڈ19کے نجیب احمدکینیڈا،
گریڈ 18کے عظمت فہیم خان کینیڈا، گریڈ17کے اظہار احمد انصاری کینیڈا، گریڈ18کے جنید عالم انصاری برطانیہ، گریڈ17کی روبینہ ندیم آئرلینڈ،گریڈ18کے اسد اﷲ خان کینیڈا، گریڈ18کے حمایت اﷲ جان کینیڈا، گریڈ17کے مکرم شاہ کینیڈا، گریڈ19کے نسیم اﷲ امریکہ، گریڈ18کے ریاض علی کینیڈا،
محکمہ صنعت میں گریڈ17کی شکیلہ انجم برطانیہ، گریڈ18کے ناصر الدین کینیڈا، گریڈ17کی عافیہ ضمیر ضیا امریکہ، گریڈ20کے عتیق راجہ برطانیہ، گریڈ21کے علی معظم سید کینیڈا، گریڈ22کے سعید احمد خان کینیڈا، گریڈ18کے شاہد محمود ارباب برطانیہ، گریڈ18کی مریم اقبال برطانیہ، گریڈ20کے امتیاز احمد کینیڈا، آفرین حسین برطانیہ، خالد سلیم علوی آسٹریلیا، محکمہ زراعت کے گریڈ17کے جاوید اختر چیمہ کینیڈا، گریڈ20کے ڈاکٹر عالمگیر خان اختر کینیڈا، گریڈ18کے محمد مقصود احمد کینیڈا، گریڈ18کے عارف منظورکینیڈا، گریڈ18کے نیر جلال کینیڈا، گریڈ17کے زاہد مشتاق میر کینیڈا، گریڈ18کے شوکت منظور کینیڈا،
 گریڈ18کے خالد حسین کینیڈا، گریڈ19کی سحرش شکیل ہالینڈ، گریڈ20کے ڈاکٹر قربان احمد آسٹریلیا، گریڈ18کے محمد عبد القدیر کینیڈا، گریڈ18کے تجمل حسین کینیڈا، گریڈ17کے سجاد حسین کینیڈا، گریڈ18کے طارق مقبول کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر محمد عارف خان کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر محمد آصف کینیڈا، گریڈ18کی ڈاکٹر روشان علی کینیڈا،
گریڈ17کے اختر حسین کینیڈا، گریڈ18کے ظفر علی کینیڈا، حسن عبد اﷲ خان امریکہ، گریڈ18کے محمد اسلم کینیڈا، گریڈ18کے محمد عاشق کینیڈا، گریڈ18کے محمد عبد الرؤف کینیڈا، گریڈ 18کے پرنسپل ضیا اﷲ کینیڈا، ڈاکٹر محمد قاسم امریکہ،
گریڈ18کے خالد محمود بھٹی کینیڈا،گریڈ21کے ڈاکٹر محمد اسحاق کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر ہارون رشید کینیڈا، گریڈ19کے شفیق انور آسٹریلیا، گریڈ19کی نائلہ انور آئر لینڈ، گریڈ19کے ڈاکٹر وسیم احمد کینیڈا، گریڈ18کے محمد آفتاب آسٹریلیا،
 گریڈ18کے محمد شفیق عالم کینیڈا، گریڈ18کے تنزیل الر حمان امریکہ، گریڈ19کے کاشف محمد آسٹریلیا، گریڈ19کے محمد شفقت اقبال کینیڈا، گریڈ18کے ڈاکٹر ظہیر اﷲ خان نیوزی لینڈ، گریڈ17کے ڈاکٹر عالمگیراختر خان کینیڈا، گریڈ17کے عابد جاوید کینیڈا،
شرجیل مرتضیٰ آسٹریلیا، گریڈ18کے سید نوید بخاری برطانیہ،گریڈ19کے ڈاکٹر ظہیر احمد کینیڈا، گریڈ19کے ڈاکٹر رضوان شوکت فرانس، گریڈ21کے ڈاکٹر ممتاز چیمہ کینیڈا، پرائمری اور سکینڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ17 کے سرجن ڈاکٹر محمد عاصم چوہان کینیڈا، گریڈ 17کے ڈاکٹر ابو خنیفہ سعید برطانیہ،
گریڈ17کے ڈاکٹر منصور اشرف امریکہ، گریڈ17کے ڈاکٹر سید طارق حسین امریکہ، گریڈ17کے میاں محمد طاہر کینیڈا، گریڈ17کی ڈاکٹر نبیہا اسلم برطانیہ، گریڈ17کے ڈاکٹرعدنان ضیا اﷲ فرانس،
گریڈ18کے ڈاکٹر یاسر عمران بخاری آئر لینڈ، گریڈ17کی ڈاکٹر ام البنین آسٹریلیا، محکمہ توانائی میں گریڈ 20کے نصرت اﷲ کینیڈا، عبد الفرید کینیڈا، ذیشان علی خان برطانیہ، کامران مقبول کینیڈا،
 نعمان اقبال کینیڈا، شعیب علی صدیقی برطانیہ، گریڈ17کے وقاص احمد برطانیہ، سید عابد رضوی امریکہ، محمد وشاق امریکہ، گریڈ19کے مقصود انور خان کینیڈا، سوئی ناردرن گیس سپلائی کمپنی کے فصیح اظہر کینیڈا، گریڈ19کے عمران الطاف کینیڈا، گریڈ19کے اظہر رشید شیخ کینیڈا،
گریڈ21کے عبد الاحد شیخ کینیڈا، گریڈ21کے اعجاز احمد چودھری کینیڈا، گریڈ21کے عامر طفیل کینیڈا، گریڈ21کے وسیم احمد کینیڈا،گریڈ 19کے افتخار احمد کینیڈا، گریڈ19کی عدیلہ مرزوق برطانیہ،
گریڈ19کے مرزا یاسر یعقوب امریکہ، رضا جعفر امریکہ، گریڈ18کے شیراز علی خان آسٹریلیا، گریڈ18کے فیروزخان جدون آسٹریلیا، گریڈ17کے سید وجاہت حسین آسٹریلیا، گریڈ17کی حبیبہ سرور آسٹریلیا، گریڈ17کے کاشف نذیر آسٹریلیا، گریڈ17کے احتشام الر حمان کینیڈا، گریڈ17کے اقبال اکبر کینیڈا، گریڈ18کے کاشف سلیم بٹ کینیڈا،

 سوئی سدرن گیس سپلائی کمپنی کے شیخ عرفان ظفر آسٹریلیا، عبد العلیم کینیڈا، عدنان صغیر کینیڈا، سید عاصم علی ترمذی امریکہ، منیر اے مغل کینیڈا، ماریہ مغل کینیڈا، ایس ظل حسنین رضوی کینیڈا، شائستہ ساجد شیخ کینیڈا، عدنان رحمان کینیڈا، محمد شمائل حیدر کینیڈا، نورین شہزادی برطانیہ، اطہر حسین کینیڈا، سہیل احمد میمن کینیڈا،
محمد طلحہ صدیقی امریکہ، اسلم ناصر برطانیہ، سید محمد سعید رضوی کینیڈا، محمد اطہر قاسمی امریکہ، عبد الحفیظ میمن کینیڈا، محمد ریاض کینیڈا، بینش قاسم برطانیہ، عتیق الز مان برطانیہ، ملک عثمان حسن امریکہ، سرفراز احمد امریکہ، مولا بخش کینیڈا، راشد اقبال کینیڈا، تراب اکبر بلوچ امریکہ، محمد زید اے سید کینیڈا، شبیر شیخ کینیڈا، اکرم علی شیخ امریکہ،
صلاح الدین افغانستان، محکمہ آبپاشی میں گریڈ18کے خضر حیات کینیڈا، گریڈ 18 کے ولایت خان کینیڈا،گریڈ19کے سعید احمد کینیڈا،گریڈ 20 کے محمد عامر خان آسٹریلیا، گریڈ 19کے میاں خالد محمودکینیڈا، قائد اعظم سولر پاور لمیٹڈ کے محمد امجد کینیڈا، گریڈ 19کے نصراﷲ ڈوگر کینیڈا، گریڈ 18کے فاروق احمد کینیڈا، گریڈ20 کے عبد الرحیم گاریوال کینیڈا، گریڈ18کی یاسمین ناز کینیڈا، شبیر احمد ثاقب کینیڈا، گریڈ 19کے رضا الرحمان عباسی کینیڈا، گریڈ 19کے شیخ فضل کریم کینیڈا، گریڈ18کے جاوید شامل ہیں۔
 سابق چیف جسٹس نے اس پہ نوٹس بھی لیا تھا کہ جنھوں نے دوران ملازمت کسی دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری نبھانے کی شرط پر شہریت لے رکھی ہے یا وہ فوری طور پر اپنی غیر ملکی شہریت چھوڑیں یا ملازمت، کیوں کہ ایسے لوگوں کی اہم حکومتی عہدوں پر تعیناتی سے ملک کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

غیر ملکی شہریت رکھنے والے پاکستانی  نوجوانوں کو ، پاکستان ڈیفنس فورسز میں  ، سلیکشن  کے وقت یہ حلف نامہ دینا پڑتا ہے کہ سلیکشن کے بعد اُنہیں غیر ملکی شہریت  چھوڑنا پڑے گی !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں :
٭- قومی وقار کا سودا  
٭- پاکستانی  ،  قومیت تبدیل کرنے کا حلف ۔

وارننگ ۔ آپ کا قیمتی انگوٹھا ۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی انگلیاں کے نشانات کتنے اہم ہیں ؟
1- یہ آپ کی شناخت ہیں !
 اب تمام دنیا میں ۔ انگلیوں کے نشانات اور آنکھ کی پُتلی سے آپ یک دم شناخت کئے جاسکتے ہیں ۔  2-آ پ کا شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، بنک اکاونٹ   ، انگلیوں کے نشانات سے لنک کئے جاچکے ہیں ۔

یہ تو سب کو معلوم ہے ، کہ ہر انسان کے انگلیوں کے نشانات اور آنکھ کی پتلیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔
آپ کا بنک اکاونٹ ، اُسے صرف ، اپنے دستخطوں سے آپ ہی آپریٹ کر سکتے تھے ۔ 
جب دستخطوں کی ہوبہو نقل کرکے بنکوں سے کسی دوسرے کے اکاونٹ سے نکالے جانے لگے ۔ تو مزید حفاظت کے لئے  ڈیجیٹل کریڈٹ کارڈز بنائے گئے ۔


لیکن کیا ہوا ؟
بنک والوں کی تمام تر احتیاط  کے باوجود ، آپ کی مرضی سے  ، ڈیجیٹل کریڈٹ کارڈز  کی مدد سے آپ کی مرضی سے آپ ہی کے بنک اکاونٹ میں ڈیجیٹل ڈکیتی ہونے لگی  !
بنک والوں نے مزید حفاظتی تدابیر اختیار کیں  اور انگلیوں کے نشانات کی مدد اے اے ٹی ایم مشین سے   کارڈ کے ذریعے رقم نکلانے کا طریقہ متعارف کروایا ۔
لیکن ڈیجیٹل چوروں نے اُس کو بھی  قابو کر لیا ۔لیکن کیسے ؟
یہ تو آپ کو معلوم ہے ، کہ انٹر نیٹ  کے ذریعے آپ ڈیجیٹل چوروں کو  اپنے موبائل ، کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ   میں گھسنے کا موقع خود دیتے ہیں  ۔ 

لالچ ہرا نسان کے ساتھ پیوست ہے ۔ اور لالچ کے کئی روپ ہیں ۔ 
پیغام  انسان کو لالچ پر اُکساتا ہے ۔ جیسے پہلے کروڑپتی افریقی بیوہ کی طرف سے پیغام آیا کرتے تھے ۔ رقم ، محبت ، خوبصورت تصویر ، خزانے کا کھوج یا اِس طرح کے کئی لالچ سے  انسانی تاریخ بھری پڑی ہے ۔اور میں نے بھی مضمون لکھیں ہیں جو سب سے نیچے درج ہیں ۔
آپ کو یاد ہوگا ، کہ چند مہینوں پہلے ، ذہین نوجوان نے وٹس ایپ اپلیکیشن پر انسانی بھلائی کے لئے کام کیا ، جو دیکھتے ہیں دیکھتے دنیا بھر کے نوجوانوں میں مقبول ہوگئی ۔
پھر چھوٹی چھوٹی مزاح کی ایپلیکیشن آنے لگیں ۔ جس کو آپ کلک کرتے تو کوئی پھول ، ڈبہ یا کارڈ کھلتا اور آپ حیرانی سے دیکھتے رہتے ۔ اورخوش ہوتے دوسروں کو شئیر کرواتے ۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا ۔
پھر وہ نوجوان  ،جن کے بنک اکاونٹ تھے اُنہوں نے اپنے موبائل اور سمارٹ فون ، رقم کی منتقلی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ تو ڈیجیٹل چوروں کی چاندی ہونے لگی ،
اور بنکوں کو گالیاں پڑنے لگیں ، کہ میرے اکاونٹ سے رقم کِس نے نکلوائی؟
بنک کا سادہ جواب  ہوتا۔ " آپ نے "
جب  بائیومیٹرک شناخت کادور شروع ہوا  تو موبائل سے اکاونٹ آپریٹ کرنے والوں نے سکون کا سانس  لیا ۔ 

لیکن پھر  بنکوں کو گالیاں پڑنے لگیں ، کہ  میری بائیو میٹک آئیڈنٹی ٹی  ، کس نے استعمال کرکے میرے اکاونٹ سے رقم  نکلوائی ؟
بنک کا سادہ جواب  ہوتا۔ " آپ نے "
" میں نے " آپ دھاڑتے " ناممکن ہے ، آپ کا کوئی کارندہ ہوگا "
" جناب ، ناممکن ہے ہمارا کوئی نمائندہ آپ سے وٹس ایپ پر بات نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کے انگوٹھےکا نشان مانگتا ہے ۔  آپ نے ضرور کسی کو اپنے انگوٹھے کا نشان دیا ہوگا "
اب آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں ، کہ میں نے کب کسی کو اپنے انگوٹھے کا نشان دیا تھا ؟
آج 14 اگست ہے ، آپ نے مہاجر زادہ کی طرف سے فارورڈ کی ہوئی  ایک پوسٹ کھولی ۔ جس کو کھولتے ہیں  آپ کی سکرین پر قوس و قزاح بکھر گئے ۔ اور آزادی مبارک سے سکرین روشن ہوگئی ۔ جب یہ چھوٹی سی ایپلیکشن   ختم ہوئی تو پیغام ابھرا ،
" آپ بھی   یہ خوبصور ت  ایپلیکیشن اپنے دوستوں کو پوسٹ کرنا چاہیں تو سکرین پر اوکے دبائیں ۔
آپ نے اوکے دبایا ، تو پیغام آئے گا ۔



 آپ کو فوراً یاد آجائے گا ، کہ ایسا ہی پیغام چھوٹی عید پر بھی آیا تھا ؟؟؟؟
 تو کیا میرے اکاونٹ سے رقم اُڑانے کے لئے ،  انگوٹھے کا نشان اِس طرح کاپی کیا گیا !
اوہ میرے خدا !
آپ فوراً   ، اپنے بنک کو فون کریں گے ، کہ انگوٹھے کے نشان سے میری رقم نکلوانے کی سہولت ختم کردیں ۔ 

تو کیوں نہ یہ موقع آنے سے پہلے ہوشیار ہوجائیں !


 ٭٭٭٭  ٭فراڈیوں کی خلاف مہاجر زادہ کا جہاد ۔ ٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔