Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 6 اگست، 2015

کی آخٹے او جی ، اے پیلے نے پیلے


بہت پرانی بات ہے ، بوڑھے نے اِس خبر پر ماضی میں جاتے ہو ئے دوستوں کو بتایا -

اتنی پرانی کہ چم چم کی ماں اپنی 21 سالہ ماں کی گود میں بیٹھی تھی اور اُس کا 27 سالہ باپ ، موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور وہ منظر بدلتے ہوئے دیکھ کر خوش ہورہی تھی اور کلکاریاں مار رہی  تھی ۔ 

نوجوان جوڑا اپنی دس ماہ کی "ڈولی" کی خوشیوں بھری آوازوں سے لطف لے رہا تھا۔ دراصل تین افراد پر مشتمل یہ گھرانا ایبٹ آباد سے ، شنکیاری جا رہا تھا ،  جوان نے سوچا، چلو آج مانسہرہ بائی پاس کے بجائے ، مانسہرہ شہرسے گذرتے ہیں ۔
راستے میں ایک گنے کا رس بیچنے والا ، ٹھیلا دیکھ کر  نوجوان بیوی کا دل گنے کا رَس پینے پر مچل گیا ۔
جوان شوہر نے گنے کے جوس کے اگلے ٹھیلے کے پاس موٹر سائیکل روکی ، مشین پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ،
نوجوان بیوی کا دل اوبھ گیا ۔
سرگوشی میں جوان شوہر کو کہا ، "نہیں پینا "۔
 شوہر نے موٹر سائیکل چلائی اور آگے بڑھے ۔ جوان نے سوچا ۔ بیوی نے فرمائش کی ہے کیوں نہ ، کوئی اور جوس پلا دوں ، بیوی کو مٹھے کا جوس بھی پسند تھا ۔ اُس نے تھوڑا دور جانے کے بعد اپنی موٹر سائیکل ایک 50 سالہ جوس والے کے پاس روکی ۔ جو شیشے کے دوسری طرف بیٹھا تھا آدھی کھڑکی اتنی کھلی تھی کہ اندر سے جوس پکڑایا جا سکے ۔

"یہ صاف ستھرا ہے یہاں مٹھے کا رس پیتے ہیں " جوان نے کہا ۔
" ہاں ٹھیک ہے " نوجوان بیوی نے کہا ۔
"مٹھے کا گلاس کتنے کا ہے " جوان نے پوچھا
" آٹھ آنے کا جی " جوس والے نے جواب دیا ۔
اِس سے پہلے کہ جوان کچھ جواب دیتا اُس نظر ایلومینیم کی ایک بڑے پیالے میں چینی پڑی دیکھی ۔ جس میں ایک چمچہ بھی تھا ، جس پر چینی چمٹی ہوئی تھی اور چینی میں بڑے چیونٹوں کے اجسامِ متفرقہ پڑے ہوئے تھے ۔ جو سفید پیلی مائل چینی میں زیادہ نمایاں نظر آرہے ہیں ۔
" یہ چیو نٹے کیوں ہیں چینی میں " جوان نے پوچھا
" اوہ نہ جی نہ ، مخیں اے
چیو نٹے نّگے ، پیلے نے پیلے ! " جوس والا بولا
"بھائی یہ
چیو نٹے ہیں " جوان بولا
"کی آخٹے او جی ، اے پیلے نے  " جوس والے نے چینی کا برتن آگے بڑھاتے ہوئے  بولا۔ تاکہ کم سن اور ناداں جوان ۔ پیلے دیکھ لے ۔

پیلے دیکھنے کے بعد نوجوان نے جوس پینے کا ارادہ ترک کر دیا - اور سیدھا شنکیاری پہنچا ۔ وہاں اُس نے بازاری سے مٹھے لئے ۔ نوجوان بیوی نے لکڑی کی جوس نکالنے والی سادہ مشین سے جوس نکالا اور دونوں نے خالص مٹھے کا جوس، پیلوں کے متفرق اجزاء کے بغیر پیا۔

2 تبصرے:

  1. ہاہاہاہاہا۔۔۔ اچھا ہے ۔۔۔ مزے کی تحریر

    جواب دیںحذف کریں
  2. پورے پاکستان کی یہی حالت ھے
    اتناعرصہ گذرنے کے باوجود اب بھی

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔