ولی عہدی.
ابن قتیبہ ( الامامہ و السیاسہ )
اس زمانے میں امیر یزید کی ولایت کا عہد کا مسئلہ پیش ہوا ، حضرت مغیرہ بن شعبہ جیسے مدبر صحابی نے یہ تحریک پیش کی کہ امیر المومنین اپنی زندگی میں ولیہدی کا انتظام کر جائیں اس کے لئے انہوں نے امیر المومنین کے لائق فرزند یزید کا نام پیش کیا .جہاں تک یزید کی اہلیت اور قابلیت کا سوال ہے ان کے عہد میں ہر شخص کو اس بات کا اعتراف تھا مسئلے میں پیچیدگی اس بات سے پیدا ہو رہی تھی کہ کہیں خلافت کو باپ سے بیٹے میں منتقل کرنے کا رواج نہ پیدا ہو جاۓ اور جو کام ملت کی بہتری کے لئے کیا جا رہا ہے وہ اصول نہ بن جاۓ اس لئے حضرت معاویہ جیسے مخلص آدمی یہ کیسے گوارہ کر سکتے تھے کہ اس بارے میں پوری امت سے راۓ معلوم نہ کریں چنانچہ اس تحریک پر غور کرنے کے لئے آپ نے یہ شرط رکھی کہ تمام علاقوں اور تمام ولایتوں کے نمائندے جمح ہوں اور بحث کر کے اپنا متفقہ فیصلہ دیں .
( تلوار کے سامنے تمام اصول و قواعد موم بن جاتے ہیں ۔ مُفتی )
پھر یہ اجتماع ہوا جس میں ہر خیال کے لوگوں کی نمائندگی تھی ، عراقیوں کو بھی بلایا گیا بلکہ عراقی ہی تھے کہ جنہوں نے ولایت عہد کے لئے یزید کا نام پیش کیا ان میں سے بعض نے مخالفانہ تقریریں بھی کیں ،کتب تاریخ میں اس اہم فیصلہ کی بعض تفصیلات درج ہیں ، امام ابن قتیبہ کی طرف جو کتاب غلط منسوب کی گئی ہے " الامامہ والسیاسه " اس میں بھی یہ تفصیلات ملتی ہیں ایک بہت بھاری اکثریت کا فیصلہ تھا کہ امیر یزید ہی کو ولیہد المسلمین بنایا جاۓ اور اس کتاب میں ایسی بات نہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ امیر یزید کی صلاحیت و قابلیت پر کسی طرف سے کوئی نقطۂ چینی کی گئی ہو.
(دُرہ ءِ عمر بن الخطاب نے بھی تمام اجتہادِ سکوتی کروائے ۔ مُفتی )
اس فیصلہ کن اجتماع کے باوجود کے باوجود امیر المومنین معاویہ پوری طرح مطمئن نہ ہوے کیونکہ آپ کو یہ اطلاح ملی تھی کہ قریش کے چند لوگ متفق نہیں ہیں ، اگرچہ حضرت علی نے جب سے مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو دار الخلافه بنایا تھا
( خلافتِ سُسر شروع ہوتے ہی، داماد صاحب کوفہ روانہ ہوگئے تھے ، کیوں کہ سخت گیر سُسر سے خطرہ تھا ۔ جن پر داماد کو باہر نکالنے کے لئے گھر جلانے کا الزام تھا ۔ اور جان سب کو پیاری ہوتی ہے ۔ مُفتی)
اور اس کے بعد دمشق کو یہ مرتبہ حاصل ہو جانے کے بعد حرمین شریفین کے باشندوں کا اہل ھل و وعقد ہونے کا وہ امتیازی حق جاتا رہا تھا جو ابو بکر ، عمر ، اور عثمان کے عہد میں تھا،
لیکن حضرت معاویہ نے فرمایا کہ جب تک وہاں کے باشندے بھی متفق نہ ہوں یہ فیصلہ نافذ نہ ہو گا ، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت معاویہ نے یہ سفر ہی اس لئے اختیار کیا تھا کہ حج و زیارت کے موقعہ پر اس مسئلہ میں بھی یک سوئی حاصل کر لیں ، سب لوگوں نے اس فیصلہ کا احترام کیا اور امت کے اجماع کے تحت اس کی منظوری دے دی.اور امیر یزید کو یہ شرف حاصل ہے کہ جیسا استصواب ان کے لئے ہوا اس سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوا تھا اور ان کو یہ سعادت حاصل ہے کہ جمہور امت نے نہایت خوشدلی سے ان کی ولایت کی منظوری دی اور استقبال کیا.
لوگ چونکہ اس اجماع کا انکار نہیں کر سکتے اس لئے اسے بے وقعت بنانا چاہتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ امت نے یہ راۓ جبر کے تحت دی اور کبھی کہتے ہیں لالچ کے سبب ، گویا امت محمدیہ جو آج بھی خوف اور لالچ سے بالا ہے وہ خیر القرون میں ان دونوں پستیوں میں مبتلا تھی-
(تو پھر ، حسن و حسین پر دراہم کی بارش بھی پست سوچ کا نتیجہ ہے ! مُفتی)
اور وہ بزرگ جنہوں نے دین قائم کرنے کے لئے جانی مالی ، ظاہری اور باطنی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا وہ سب ڈرپوک اور لالچی ہو گے تھے عقبہ و شجرہ کی بیعت اور بدر اور احد کے غزوات نے انھیں کندن نہیں بنایا تھا ، اور وہ بلکل ٹھس ہو کر رہ گے تھے،اس ذیل میں روایات کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا اور ایسی ایسی متضاد اور بے سروپا باتیں کہی گئیں کہ کسی درجہ میں بھی واقعات سے ان کی تصدیق نہیں ہوتی -
مثال کے طور پر طبری ( شیعہ ) کی روایت ہے کہ جن پانچ قریشی حضرات نے اختلاف کیا تھا حضرت معاویہ نے ان سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی جب وہ متفق نہ ہوے تو فرمایا کہ مجمح عام میں اگر تم میں سے کسی نے کوئی مخالفت کی تو تمھاری خیر نہیں ، سر اڑا دیا جاۓ گا جب مجمح میں یہ لوگ آ کر بیٹھے تو ایک ایک فوجی تلوار لئے ان کے پاس کھڑا کر دیا گیا اور حضرت معاویہ نے منبر پر بیٹھ کر تقریر کی اور کہا یہ حسین بن علی ہیں ، یہ عبدللہ بن زبیر ہیں ، یہ عبد الرحمان بن ابی بکر اور یہ عبدللہ بن عمر اور یہ عبدللہ بن عباس ہیں اور یہ سب لوگ یزید کی ولی عہدی پر متفق ہیں صرف یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے ان قریشی حضرات کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی سب دم بخود بیٹھے رہے قتل ہو جانے کے خوف سے. (الامامہ و السیاسہ جلد 1 صفہ 200 )
(معاویہ بن ابی سفیان(سالا) ، کِن اصولوں پر بہنوئی کے تخت کا وارث بنا؟
کیا عشر مبشرہ میں کوئی بھی اِس قابل نہ تھا ؟
لیکن خلافت و ملوکیت کی اِس جنگ جو "الائمۃ من القریش" سے شروع ہوئی اُس سے اپنی عاقبت خراب کرنے کے بجائے دور رہنا مناسب سمجھا - فرموداتِ مُفتی)
شیطان:
ان جھوٹی روایات میں جہاں حضرت معاویہ جیسے بزرگ صحابی پر تہمت لگائی گئی ہے وہاں حضرت حسین ابن زبیر اور دوسرے بزرگوں کی بزدلی اور مداہنت کا بھی اظہار ہوتا ہے-
( سب روایات جھوٹی ہیں ۔ نسیم حجازی کے ناولوں کی طرح - فرموداتِ مُفتی )
ابن جریر طبری نے بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ ہجری 56 کا ہے جبکہ ان پانچ قریشی حضرات میں سے عبد الرحمن بن ابی بکر تو اس وقت زندہ بھی نہ تھے اس سے تین سال قبل ہجری 53 میں وفات پا چکے تھے ، اس غلط بیانی کے علاوہ اس روایت کی اسناد حد درجہ جھوٹی ہیں اور پہلے راوی کا تو نام ہی مجہول ہے ، رجل نبخله یعنی مقام نخلہ سے ایک شخص نے یہ روایت بیان کی اس نا معلوم الاسم نے جس شخص سے یہ روایت بیان کی اس شخص کا نام طبری نے ابو اون لکھا ہے جس نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اس نے یعقوب بن ابراہیم سے من گھڑت روایت بیان کی .
علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں میں اسے من گھڑت بتایا ہے،(جلد 2 صفہ 274)
( گویا طبری جھوٹا ہے جس نے اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے جھوٹ لکھا ۔ فرموداتِ مُفتی )
شیطان:
شیعہ ازم کی اس بات سے اہل دانش حیران ہیں کہ ان کے مذھب میں ایک چیز بہت متاثر کر دینے والی ہے کہ جھوٹ بولو ، صبح بولو ، دوپہر شام اور رات کو بولو ہر وقت ہر جگہ جھوٹ بولو اور اتنا بولو کہ سب کے کان اس جھوٹ کے عادی ہو جائیں اور اگر کبھی بھولے سے سچ اس کے کان میں پڑھ جاۓ تو وہ ان کو بہت عجیب اور غیر مانوس لگے ،ان جھوٹوں سے یہ لوگ جو باتیں ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یوں بھی بے قیمت قرار پاتی ہیں ، کیونکہ
* فیصلے سے پہلے حمایت یا مخالفت میں جو بھی گفتگو ہو وہ فیصلے کے بعد خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو اکثریت کا فیصلہ ہو .چاہے مخالف چاہے موافق .
* کسی شخص کی طرف ایسی کسی بات کی نسبت جھوٹی ہے جو اس کے متواتر عمل کے خلاف ہو.
* ہزاروں لاکھوں لوگوں کے فیصلے کے مقابلے میں چند لوگوں کا اختلاف کوئی حیثیت نہیں رکھتا .اگرچہ وہ کتنے ہی محترم کیوں نہ ہوں .
رسول الله سے محترم اور بڑا کوئی نہیں ہو سکتا اور امام کی حیثیت سے آپ نے کئی بار اپنی رائے کے خلاف اکثریت کی رائے اختیار کی ، غزوہ احد میں آپ کی رائے تھی مدینہ ہی میں رہ کے مورچہ بنا کے کفار کا مقابلہ کیا جاۓ یہی رائے ابو بکر صدیق کی تھی مگر جو نوجوان شوق جہاد اور شوق شہادت سے سر شار تھے اور بعض دوسرے حضرات باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہتے تھے . اور الله کے نبی اور صاحب وحی اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے تھے پھر بھی اکثریت کی رائے کی پیروی کی. اس کے بعد بھی کسی شخص کو یہ حیثیت دی جا سکتی ہے کہ امت کی اکثریت کے فیصلے اور عمل کے خلاف کسی دوسرے فرد کی رائے قبول کی جاۓ چاہے وہ کتنا ہی محترم کیوں نہ ہو. اس روایت کے وضح کرنے والے احمق نے اتنا نہ سوچا کہ اگر ان میں سے کوئی بزرگ جان پر کھیل جاتے اور قتل کر دِیے جاتے تو اس سے رائے عامہ استوار ہوتی یا کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اور وہ ہنگامہ ہوتا کہ سنبھالے نہ سنبھلتا اب صرف دو ہی باتیں رہ جاتی ہیں کہ یا تو حضرت معاویہ کو ان لوگوں کی بزدلی کا یقین تھا یا پھر اتنے ہی عقل سے بیگانہ تھے ایک چھوٹے سے چھوٹا سیاست دان جو خطرہ مول نہیں لے سکتا وہ انہوں نے مول لیا افسوس کہ گمراہ لوگ الله کے خاص بندوں کے متعلق کیسے لغو جذبات رکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ نہ ایسا کوئی واقعہ ہوا اور نہ اس کا امکان تھا.
لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ آخر یزید کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے .
میرے دوستو بہت جلد آگے واقعہ کربلا آنے والا ہے اور جب تک ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں آپ مکمل تعارف حاصل نہ کریں گے تو سچ اور جھوٹ میں فرق کیسے جان سکیں گے.پھر تو وہی بات ہو جاۓ گی کہ کان جھوٹ کے اتنے عادی ہیں کے سچ بہت عجیب لگتا ہے اور ہضم نہیں ہو پاتا .
ولایت احد کے سلسلے میں ان جھوٹے لوگوں نے یہ فضاء پیدا کی ہے کہ گویا اس وقت صحابہ اکرام میں سے یہ پانچ بزرگ ہی ذی حیثیت تھے یعنی عبد الرحمان بن ابی بکر، متوفی 53 ہجری ، عبدللہ بن عمر ، عبدللہ بن عباس ، عبدللہ بن زبیر ، اور حسین بن علی اس کے علاوہ باقی سب امت عوام الناس پر مشتمل تھی حالانکہ اس زمانہ میں بہت بلند اور ممتاز ہستیاں ، اصحاب بیعت عقبہ و عشرہ مبشرہ ، اصحاب بدر ، اصحاب بیعت رضوان اور دیگر معمر اصحابہ موجود تھے مستند تواریخ میں ایسے 252 اصحابہ اکرام کا تذکرہ موجود ہے جو امیر یزید کی ولایت عہد اور زمانہ خلافت بلکہ بعض تو اس کے بعد تک زندہ رہے.اور ان میں سے کسی نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا-
ان جلیل القدر صحابہ اکرام کی موجودگی میں حضرت حسین اور ابن زبیر کے اختلاف کا کیا مقام ہو سکتا تھا اور کتاب الله اور سنت رسول کی روشنی میں کیا مقام متعین کیا جا سکتا ہے عبد الرحمن بن ابی بکر تو بیعت خلافت سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے،حضرت عبدللہ بن عباس اور عبدللہ بن عمرنے بیعت کی اور اس پر قائم رہے، باقی رہے حضرت حسین اور ابن زبیر تو کیا ان حضرات کا اجتہاد ایسا واقعی ہو سکتا ہے کہ تمام صحابہ اکرام کے موقف پر غالب آ جاۓ.
اہل علم جانتے ہیں کہ حضرت حسین کی عمر رسول الله کی وفات کے وقت 5 برس کی تھی اور ابن زبیر 9 برس کے تھے اس لئے طبقہ کے لحاظ سے بعض نے ان کو صحابہ میں شمار کر لیا ہے مگر ان جلیل القدر صحابہ اکرام کے مقابلے میں ان حضرات کو نہیں رکھا جا سکتا جنہوں نے رسول الله کے ساتھ برسہا برس گزارے اور دین قائم کرنے میں آپ کے زیر تربیت ہر قسم کی ظاہری اور باطنی قربانیاں دیں اور بار گاہ خدا وندی سے انھیں بشارت مل گئی کہ وہ خیر الامم ہیں.ابن خلدون:
ابن خلدون نے مشہور آفاق "مقدمہ " میں ولایت الاعہد کے بارے میں بحث کرتے ہوے لکھا ہے کہ.
کہ تمام صحابہ اکرام ولی عہدی کے جواز پر متفق تھے اور اجماع جیسا کہ معلوم ہے کہ حجت شرعی ہے
پس امام اس بارے میں متحمل نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ یہ کاروائی اپنے باپ یا بیٹے کہ حق میں کیوں نہ کرے اس لئے کہ جب اس کی خیر اندیشی پر اس کی زندگی میں اعتماد ہے تو موت کے بعد تو اس پر کوئی الزام آنا ہی نہیں چاہئے بعض لوگوں کی رائے ہے باپ اور بیٹے کو ولی عہد بنانے میں امام کی نیت پر شک کیا جا سکتا ہے اور بعض صرف بیٹے کے حق میں رائے رکھتے ہیں مگر ہمیں ان دونوں سے اختلاف ہے ہماری رائے میں کسی صورت میں بھی امام سے بد گمانی کی کوئی وجہ نہیں ہے خاص کر ایسے موقعہ پر جہاں ضرورت اس کی ہو مثال کے طور پر کسی مصلحت کا تحفظ یا کسی فساد کا ازالہ کرنا ہو تو کسی طرح کی بد گمانی کا کوئی جواز نہیں ، جیسے کہ حضرت معاویہ کا اپنے فرزند کو ولی عہد بنانے کا واقعہ ہے حضرت معاویہ کا لوگوں کے عمومی اتفاق کے ساتھ ایسا کرنا اس باب میں بجائے خود ایک حجت ھے اور پھر انھیں متحمل یوں بھی نہیں کیا جا سکتا کھ ان کے پیش نظر یزید کو ترجیح دینے کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ امت میں اتحاد اور اتفاق قائم رہے اور اس کے لئے ضروری تھا کیونکہ اہل ھل و عقد صرف یزید کو ہی ولی عہد بنانے پر متفق ہو سکتے تھے کیونکہ ان میں اکثریت بنی امیہ کے لوگوں کی تھی اور وہ اس کے سوا کسی کی خلافت پر راضی نہیں ہو سکتے تھے اس وقت قریش کا سب سے بڑا اور طاقت ور گروہ انھیں لوگوں کا تھا اور قریش کی عصبیت پورے عرب میں سب سے زیادہ تھی، ان نزاکتوں کے پیش نظر حضرت معاویہ نے یزید کو ان لوگوں پر ترجیح دی جو اس کے زیادہ مستحق سمجھے جا سکتے تھے افضل کو چھوڑ کر مفضول کو اختیار کیا تا کہ مسلمانوں میں اتفاق اور جمیعت بنی رہے جس کی شرح میں بہت اہمیت ہے
قطح نظر اس کے حضرت معاویہ کی شان میں کوئی بد گمانی نہیں کی جا سکتی کیونکہ آپ کی صحابیت اور کردار ہر قسم کی بد گمانی سے مانع ہے اور آپ کے اس فعل کے وقت سینکڑوں صحابہ اکرام کا موجود ہونا اور اس پر ان کا سکونت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس امر میں حضرت معاویہ کی نیک نیتی مشکوک نہیں تھی کیونکہ ان صحابہ اکرام کے ہوتے ہوے حق کے معامله میں وہ کسی نرمی یا چشم پوشی کے روادار نہیں ہو سکتے تھے اور معاویہ ایسے شخص تھے کہ قبول حق کے آگے کوئی بات ان کے اڑے نہیں آ سکتی تھی یہ سب اس سے بہت بلند ہیں اور ان کی عدالت میں ایسی کمزوری کا ہونا ممکن نہیں .
مقدمہ ابن خلدون صفحہ 175 ، 176 . متبح مصر .
علامہ ابن کثیر نے اپنی تاریخ اور علامہ زہبی نے تاریخ الاسلام و طبقات المشاہیروالا علام صفہ 92
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
اور دیگر مورخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت معاویہ نے امیر یزید کی بیعت ولایت عہد کی تکمیل پر یہ دعا مانگی .کہ اے خدا وند کریم آپ جانتے ہیں اگر میں نے یزید کو اس لئے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کی ولی عہدی کو پورا کیجیو اور اگر میں نے اس کی محبت کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو اس کی ولی عہدی کو پورا نہ ہونے دیجیو . ( صفحہ 80 جلد 8 البدایه و النہایه )
نوٹ:
ابن خلدون: پیدائش؛ 1332ء وفات؛ 1406ء ابن خلدون مورخ، فقیہ ، فلسفی اور سیاستدان۔ مکمل نام ابوزید عبدالرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی ہے تیونس میں پیدا ہوا۔ اور تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کا وزیر مقرر ہوا۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلا گیا۔ یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگیا۔ اور الازھر میں درس و تدریس پر مامور ہوا۔ مصر میں اس کو مالکی فقہ کا منصب قضا میں تفویض کیا گیا۔اسی عہدے پر وفات پائی۔ ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے العبر کے نام سے ہسپانوی عربوں کی تاریخ لکھی تھی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ لیکن اس کا سب سے بڑا کارنامہ۔ مقدمتہ فی التاریخ ہے جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاست ، عمرانیات ، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے۔
علامہ زہبی
( ربیع الثانی 673ھ ۔ 3 ذوالقعدۃ 748ھ / اکتوبر 1274ء ۔ 1348ء )
حافظ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ذهبی دمشقی ترکمانی شافعی ایک مشہور عرب محدث اور مؤرخ تھے۔
ابن قتیبہ ( الامامہ و السیاسہ )
اس زمانے میں امیر یزید کی ولایت کا عہد کا مسئلہ پیش ہوا ، حضرت مغیرہ بن شعبہ جیسے مدبر صحابی نے یہ تحریک پیش کی کہ امیر المومنین اپنی زندگی میں ولیہدی کا انتظام کر جائیں اس کے لئے انہوں نے امیر المومنین کے لائق فرزند یزید کا نام پیش کیا .جہاں تک یزید کی اہلیت اور قابلیت کا سوال ہے ان کے عہد میں ہر شخص کو اس بات کا اعتراف تھا مسئلے میں پیچیدگی اس بات سے پیدا ہو رہی تھی کہ کہیں خلافت کو باپ سے بیٹے میں منتقل کرنے کا رواج نہ پیدا ہو جاۓ اور جو کام ملت کی بہتری کے لئے کیا جا رہا ہے وہ اصول نہ بن جاۓ اس لئے حضرت معاویہ جیسے مخلص آدمی یہ کیسے گوارہ کر سکتے تھے کہ اس بارے میں پوری امت سے راۓ معلوم نہ کریں چنانچہ اس تحریک پر غور کرنے کے لئے آپ نے یہ شرط رکھی کہ تمام علاقوں اور تمام ولایتوں کے نمائندے جمح ہوں اور بحث کر کے اپنا متفقہ فیصلہ دیں .
( تلوار کے سامنے تمام اصول و قواعد موم بن جاتے ہیں ۔ مُفتی )
پھر یہ اجتماع ہوا جس میں ہر خیال کے لوگوں کی نمائندگی تھی ، عراقیوں کو بھی بلایا گیا بلکہ عراقی ہی تھے کہ جنہوں نے ولایت عہد کے لئے یزید کا نام پیش کیا ان میں سے بعض نے مخالفانہ تقریریں بھی کیں ،کتب تاریخ میں اس اہم فیصلہ کی بعض تفصیلات درج ہیں ، امام ابن قتیبہ کی طرف جو کتاب غلط منسوب کی گئی ہے " الامامہ والسیاسه " اس میں بھی یہ تفصیلات ملتی ہیں ایک بہت بھاری اکثریت کا فیصلہ تھا کہ امیر یزید ہی کو ولیہد المسلمین بنایا جاۓ اور اس کتاب میں ایسی بات نہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ امیر یزید کی صلاحیت و قابلیت پر کسی طرف سے کوئی نقطۂ چینی کی گئی ہو.
(دُرہ ءِ عمر بن الخطاب نے بھی تمام اجتہادِ سکوتی کروائے ۔ مُفتی )
اس فیصلہ کن اجتماع کے باوجود کے باوجود امیر المومنین معاویہ پوری طرح مطمئن نہ ہوے کیونکہ آپ کو یہ اطلاح ملی تھی کہ قریش کے چند لوگ متفق نہیں ہیں ، اگرچہ حضرت علی نے جب سے مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو دار الخلافه بنایا تھا
( خلافتِ سُسر شروع ہوتے ہی، داماد صاحب کوفہ روانہ ہوگئے تھے ، کیوں کہ سخت گیر سُسر سے خطرہ تھا ۔ جن پر داماد کو باہر نکالنے کے لئے گھر جلانے کا الزام تھا ۔ اور جان سب کو پیاری ہوتی ہے ۔ مُفتی)
اور اس کے بعد دمشق کو یہ مرتبہ حاصل ہو جانے کے بعد حرمین شریفین کے باشندوں کا اہل ھل و وعقد ہونے کا وہ امتیازی حق جاتا رہا تھا جو ابو بکر ، عمر ، اور عثمان کے عہد میں تھا،
لیکن حضرت معاویہ نے فرمایا کہ جب تک وہاں کے باشندے بھی متفق نہ ہوں یہ فیصلہ نافذ نہ ہو گا ، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت معاویہ نے یہ سفر ہی اس لئے اختیار کیا تھا کہ حج و زیارت کے موقعہ پر اس مسئلہ میں بھی یک سوئی حاصل کر لیں ، سب لوگوں نے اس فیصلہ کا احترام کیا اور امت کے اجماع کے تحت اس کی منظوری دے دی.اور امیر یزید کو یہ شرف حاصل ہے کہ جیسا استصواب ان کے لئے ہوا اس سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوا تھا اور ان کو یہ سعادت حاصل ہے کہ جمہور امت نے نہایت خوشدلی سے ان کی ولایت کی منظوری دی اور استقبال کیا.
لوگ چونکہ اس اجماع کا انکار نہیں کر سکتے اس لئے اسے بے وقعت بنانا چاہتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ امت نے یہ راۓ جبر کے تحت دی اور کبھی کہتے ہیں لالچ کے سبب ، گویا امت محمدیہ جو آج بھی خوف اور لالچ سے بالا ہے وہ خیر القرون میں ان دونوں پستیوں میں مبتلا تھی-
(تو پھر ، حسن و حسین پر دراہم کی بارش بھی پست سوچ کا نتیجہ ہے ! مُفتی)
اور وہ بزرگ جنہوں نے دین قائم کرنے کے لئے جانی مالی ، ظاہری اور باطنی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا وہ سب ڈرپوک اور لالچی ہو گے تھے عقبہ و شجرہ کی بیعت اور بدر اور احد کے غزوات نے انھیں کندن نہیں بنایا تھا ، اور وہ بلکل ٹھس ہو کر رہ گے تھے،اس ذیل میں روایات کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا اور ایسی ایسی متضاد اور بے سروپا باتیں کہی گئیں کہ کسی درجہ میں بھی واقعات سے ان کی تصدیق نہیں ہوتی -
مثال کے طور پر طبری ( شیعہ ) کی روایت ہے کہ جن پانچ قریشی حضرات نے اختلاف کیا تھا حضرت معاویہ نے ان سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی جب وہ متفق نہ ہوے تو فرمایا کہ مجمح عام میں اگر تم میں سے کسی نے کوئی مخالفت کی تو تمھاری خیر نہیں ، سر اڑا دیا جاۓ گا جب مجمح میں یہ لوگ آ کر بیٹھے تو ایک ایک فوجی تلوار لئے ان کے پاس کھڑا کر دیا گیا اور حضرت معاویہ نے منبر پر بیٹھ کر تقریر کی اور کہا یہ حسین بن علی ہیں ، یہ عبدللہ بن زبیر ہیں ، یہ عبد الرحمان بن ابی بکر اور یہ عبدللہ بن عمر اور یہ عبدللہ بن عباس ہیں اور یہ سب لوگ یزید کی ولی عہدی پر متفق ہیں صرف یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے ان قریشی حضرات کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی سب دم بخود بیٹھے رہے قتل ہو جانے کے خوف سے. (الامامہ و السیاسہ جلد 1 صفہ 200 )
(معاویہ بن ابی سفیان(سالا) ، کِن اصولوں پر بہنوئی کے تخت کا وارث بنا؟
کیا عشر مبشرہ میں کوئی بھی اِس قابل نہ تھا ؟
لیکن خلافت و ملوکیت کی اِس جنگ جو "الائمۃ من القریش" سے شروع ہوئی اُس سے اپنی عاقبت خراب کرنے کے بجائے دور رہنا مناسب سمجھا - فرموداتِ مُفتی)
شیطان:
ان جھوٹی روایات میں جہاں حضرت معاویہ جیسے بزرگ صحابی پر تہمت لگائی گئی ہے وہاں حضرت حسین ابن زبیر اور دوسرے بزرگوں کی بزدلی اور مداہنت کا بھی اظہار ہوتا ہے-
( سب روایات جھوٹی ہیں ۔ نسیم حجازی کے ناولوں کی طرح - فرموداتِ مُفتی )
ابن جریر طبری نے بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ ہجری 56 کا ہے جبکہ ان پانچ قریشی حضرات میں سے عبد الرحمن بن ابی بکر تو اس وقت زندہ بھی نہ تھے اس سے تین سال قبل ہجری 53 میں وفات پا چکے تھے ، اس غلط بیانی کے علاوہ اس روایت کی اسناد حد درجہ جھوٹی ہیں اور پہلے راوی کا تو نام ہی مجہول ہے ، رجل نبخله یعنی مقام نخلہ سے ایک شخص نے یہ روایت بیان کی اس نا معلوم الاسم نے جس شخص سے یہ روایت بیان کی اس شخص کا نام طبری نے ابو اون لکھا ہے جس نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اس نے یعقوب بن ابراہیم سے من گھڑت روایت بیان کی .
علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں میں اسے من گھڑت بتایا ہے،(جلد 2 صفہ 274)
( گویا طبری جھوٹا ہے جس نے اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے جھوٹ لکھا ۔ فرموداتِ مُفتی )
شیطان:
شیعہ ازم کی اس بات سے اہل دانش حیران ہیں کہ ان کے مذھب میں ایک چیز بہت متاثر کر دینے والی ہے کہ جھوٹ بولو ، صبح بولو ، دوپہر شام اور رات کو بولو ہر وقت ہر جگہ جھوٹ بولو اور اتنا بولو کہ سب کے کان اس جھوٹ کے عادی ہو جائیں اور اگر کبھی بھولے سے سچ اس کے کان میں پڑھ جاۓ تو وہ ان کو بہت عجیب اور غیر مانوس لگے ،ان جھوٹوں سے یہ لوگ جو باتیں ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یوں بھی بے قیمت قرار پاتی ہیں ، کیونکہ
* فیصلے سے پہلے حمایت یا مخالفت میں جو بھی گفتگو ہو وہ فیصلے کے بعد خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو اکثریت کا فیصلہ ہو .چاہے مخالف چاہے موافق .
* کسی شخص کی طرف ایسی کسی بات کی نسبت جھوٹی ہے جو اس کے متواتر عمل کے خلاف ہو.
* ہزاروں لاکھوں لوگوں کے فیصلے کے مقابلے میں چند لوگوں کا اختلاف کوئی حیثیت نہیں رکھتا .اگرچہ وہ کتنے ہی محترم کیوں نہ ہوں .
رسول الله سے محترم اور بڑا کوئی نہیں ہو سکتا اور امام کی حیثیت سے آپ نے کئی بار اپنی رائے کے خلاف اکثریت کی رائے اختیار کی ، غزوہ احد میں آپ کی رائے تھی مدینہ ہی میں رہ کے مورچہ بنا کے کفار کا مقابلہ کیا جاۓ یہی رائے ابو بکر صدیق کی تھی مگر جو نوجوان شوق جہاد اور شوق شہادت سے سر شار تھے اور بعض دوسرے حضرات باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہتے تھے . اور الله کے نبی اور صاحب وحی اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے تھے پھر بھی اکثریت کی رائے کی پیروی کی. اس کے بعد بھی کسی شخص کو یہ حیثیت دی جا سکتی ہے کہ امت کی اکثریت کے فیصلے اور عمل کے خلاف کسی دوسرے فرد کی رائے قبول کی جاۓ چاہے وہ کتنا ہی محترم کیوں نہ ہو. اس روایت کے وضح کرنے والے احمق نے اتنا نہ سوچا کہ اگر ان میں سے کوئی بزرگ جان پر کھیل جاتے اور قتل کر دِیے جاتے تو اس سے رائے عامہ استوار ہوتی یا کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اور وہ ہنگامہ ہوتا کہ سنبھالے نہ سنبھلتا اب صرف دو ہی باتیں رہ جاتی ہیں کہ یا تو حضرت معاویہ کو ان لوگوں کی بزدلی کا یقین تھا یا پھر اتنے ہی عقل سے بیگانہ تھے ایک چھوٹے سے چھوٹا سیاست دان جو خطرہ مول نہیں لے سکتا وہ انہوں نے مول لیا افسوس کہ گمراہ لوگ الله کے خاص بندوں کے متعلق کیسے لغو جذبات رکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ نہ ایسا کوئی واقعہ ہوا اور نہ اس کا امکان تھا.
لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ آخر یزید کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے .
میرے دوستو بہت جلد آگے واقعہ کربلا آنے والا ہے اور جب تک ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں آپ مکمل تعارف حاصل نہ کریں گے تو سچ اور جھوٹ میں فرق کیسے جان سکیں گے.پھر تو وہی بات ہو جاۓ گی کہ کان جھوٹ کے اتنے عادی ہیں کے سچ بہت عجیب لگتا ہے اور ہضم نہیں ہو پاتا .
ولایت احد کے سلسلے میں ان جھوٹے لوگوں نے یہ فضاء پیدا کی ہے کہ گویا اس وقت صحابہ اکرام میں سے یہ پانچ بزرگ ہی ذی حیثیت تھے یعنی عبد الرحمان بن ابی بکر، متوفی 53 ہجری ، عبدللہ بن عمر ، عبدللہ بن عباس ، عبدللہ بن زبیر ، اور حسین بن علی اس کے علاوہ باقی سب امت عوام الناس پر مشتمل تھی حالانکہ اس زمانہ میں بہت بلند اور ممتاز ہستیاں ، اصحاب بیعت عقبہ و عشرہ مبشرہ ، اصحاب بدر ، اصحاب بیعت رضوان اور دیگر معمر اصحابہ موجود تھے مستند تواریخ میں ایسے 252 اصحابہ اکرام کا تذکرہ موجود ہے جو امیر یزید کی ولایت عہد اور زمانہ خلافت بلکہ بعض تو اس کے بعد تک زندہ رہے.اور ان میں سے کسی نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا-
ان جلیل القدر صحابہ اکرام کی موجودگی میں حضرت حسین اور ابن زبیر کے اختلاف کا کیا مقام ہو سکتا تھا اور کتاب الله اور سنت رسول کی روشنی میں کیا مقام متعین کیا جا سکتا ہے عبد الرحمن بن ابی بکر تو بیعت خلافت سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے،حضرت عبدللہ بن عباس اور عبدللہ بن عمرنے بیعت کی اور اس پر قائم رہے، باقی رہے حضرت حسین اور ابن زبیر تو کیا ان حضرات کا اجتہاد ایسا واقعی ہو سکتا ہے کہ تمام صحابہ اکرام کے موقف پر غالب آ جاۓ.
اہل علم جانتے ہیں کہ حضرت حسین کی عمر رسول الله کی وفات کے وقت 5 برس کی تھی اور ابن زبیر 9 برس کے تھے اس لئے طبقہ کے لحاظ سے بعض نے ان کو صحابہ میں شمار کر لیا ہے مگر ان جلیل القدر صحابہ اکرام کے مقابلے میں ان حضرات کو نہیں رکھا جا سکتا جنہوں نے رسول الله کے ساتھ برسہا برس گزارے اور دین قائم کرنے میں آپ کے زیر تربیت ہر قسم کی ظاہری اور باطنی قربانیاں دیں اور بار گاہ خدا وندی سے انھیں بشارت مل گئی کہ وہ خیر الامم ہیں.ابن خلدون:
ابن خلدون نے مشہور آفاق "مقدمہ " میں ولایت الاعہد کے بارے میں بحث کرتے ہوے لکھا ہے کہ.
کہ تمام صحابہ اکرام ولی عہدی کے جواز پر متفق تھے اور اجماع جیسا کہ معلوم ہے کہ حجت شرعی ہے
پس امام اس بارے میں متحمل نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ یہ کاروائی اپنے باپ یا بیٹے کہ حق میں کیوں نہ کرے اس لئے کہ جب اس کی خیر اندیشی پر اس کی زندگی میں اعتماد ہے تو موت کے بعد تو اس پر کوئی الزام آنا ہی نہیں چاہئے بعض لوگوں کی رائے ہے باپ اور بیٹے کو ولی عہد بنانے میں امام کی نیت پر شک کیا جا سکتا ہے اور بعض صرف بیٹے کے حق میں رائے رکھتے ہیں مگر ہمیں ان دونوں سے اختلاف ہے ہماری رائے میں کسی صورت میں بھی امام سے بد گمانی کی کوئی وجہ نہیں ہے خاص کر ایسے موقعہ پر جہاں ضرورت اس کی ہو مثال کے طور پر کسی مصلحت کا تحفظ یا کسی فساد کا ازالہ کرنا ہو تو کسی طرح کی بد گمانی کا کوئی جواز نہیں ، جیسے کہ حضرت معاویہ کا اپنے فرزند کو ولی عہد بنانے کا واقعہ ہے حضرت معاویہ کا لوگوں کے عمومی اتفاق کے ساتھ ایسا کرنا اس باب میں بجائے خود ایک حجت ھے اور پھر انھیں متحمل یوں بھی نہیں کیا جا سکتا کھ ان کے پیش نظر یزید کو ترجیح دینے کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ امت میں اتحاد اور اتفاق قائم رہے اور اس کے لئے ضروری تھا کیونکہ اہل ھل و عقد صرف یزید کو ہی ولی عہد بنانے پر متفق ہو سکتے تھے کیونکہ ان میں اکثریت بنی امیہ کے لوگوں کی تھی اور وہ اس کے سوا کسی کی خلافت پر راضی نہیں ہو سکتے تھے اس وقت قریش کا سب سے بڑا اور طاقت ور گروہ انھیں لوگوں کا تھا اور قریش کی عصبیت پورے عرب میں سب سے زیادہ تھی، ان نزاکتوں کے پیش نظر حضرت معاویہ نے یزید کو ان لوگوں پر ترجیح دی جو اس کے زیادہ مستحق سمجھے جا سکتے تھے افضل کو چھوڑ کر مفضول کو اختیار کیا تا کہ مسلمانوں میں اتفاق اور جمیعت بنی رہے جس کی شرح میں بہت اہمیت ہے
قطح نظر اس کے حضرت معاویہ کی شان میں کوئی بد گمانی نہیں کی جا سکتی کیونکہ آپ کی صحابیت اور کردار ہر قسم کی بد گمانی سے مانع ہے اور آپ کے اس فعل کے وقت سینکڑوں صحابہ اکرام کا موجود ہونا اور اس پر ان کا سکونت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس امر میں حضرت معاویہ کی نیک نیتی مشکوک نہیں تھی کیونکہ ان صحابہ اکرام کے ہوتے ہوے حق کے معامله میں وہ کسی نرمی یا چشم پوشی کے روادار نہیں ہو سکتے تھے اور معاویہ ایسے شخص تھے کہ قبول حق کے آگے کوئی بات ان کے اڑے نہیں آ سکتی تھی یہ سب اس سے بہت بلند ہیں اور ان کی عدالت میں ایسی کمزوری کا ہونا ممکن نہیں .
مقدمہ ابن خلدون صفحہ 175 ، 176 . متبح مصر .
علامہ ابن کثیر نے اپنی تاریخ اور علامہ زہبی نے تاریخ الاسلام و طبقات المشاہیروالا علام صفہ 92
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
اور دیگر مورخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت معاویہ نے امیر یزید کی بیعت ولایت عہد کی تکمیل پر یہ دعا مانگی .کہ اے خدا وند کریم آپ جانتے ہیں اگر میں نے یزید کو اس لئے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کی ولی عہدی کو پورا کیجیو اور اگر میں نے اس کی محبت کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو اس کی ولی عہدی کو پورا نہ ہونے دیجیو . ( صفحہ 80 جلد 8 البدایه و النہایه )
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
نوٹ:
ابن خلدون: پیدائش؛ 1332ء وفات؛ 1406ء ابن خلدون مورخ، فقیہ ، فلسفی اور سیاستدان۔ مکمل نام ابوزید عبدالرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی ہے تیونس میں پیدا ہوا۔ اور تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کا وزیر مقرر ہوا۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلا گیا۔ یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگیا۔ اور الازھر میں درس و تدریس پر مامور ہوا۔ مصر میں اس کو مالکی فقہ کا منصب قضا میں تفویض کیا گیا۔اسی عہدے پر وفات پائی۔ ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے العبر کے نام سے ہسپانوی عربوں کی تاریخ لکھی تھی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ لیکن اس کا سب سے بڑا کارنامہ۔ مقدمتہ فی التاریخ ہے جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاست ، عمرانیات ، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے۔
علامہ زہبی
( ربیع الثانی 673ھ ۔ 3 ذوالقعدۃ 748ھ / اکتوبر 1274ء ۔ 1348ء )
حافظ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ذهبی دمشقی ترکمانی شافعی ایک مشہور عرب محدث اور مؤرخ تھے۔