بوڑھا علی الصبح اُٹھا ، کمرے سے باہر کھانستا ہوا نکلا ، بڑھیا کے کمرے کی طرف دیکھا وہاں انرجی سیور کی دودھیا روشنی ، ادھ کھلے دروازے سے باہر سنگِ مرمر ے فرش پر پڑرہی تھی بوڑھا سر ھلاتا اور کھنکارتا، لائیٹ کے بٹن کو نیچے کی طرف دباتاہوا، واش روم میں گھس گیا۔ کوئی دس منٹ کے بعد بوڑھا باہر نکلا۔
بوڑھا اپنے کمرے میں داخل ہوا ، کرسی پر پڑا تولیا اُٹھا منہ پونچھا ، شیشے میں چہرہ دیکھا ، ڈریسنگ ٹیبل پر تین کنگھیاں پڑی تھیں - چھوٹی ، چھوٹے دانتوں والی - درمیانی، بڑے دانتوں والی اور ایک بالوں میں کرنے بڑی پنوں والا برش ،جیسا پہلے زمانے میں گھوڑے کو گدگدانے کے لئے ہوتا تھا۔
بوڑھے نے ، چھوٹے دانتوں والی بڑی کنگھی اٹھائی ، غور سے دیکھا اور پھونک ماری ۔ تاکہ وہ تمام حشرات البال اُڑ جائیں ، جو سر کے لئے نقصان دہ ہیں ، اور بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے سیدھی ھاتھ کی طرف سے مانگ نکالی ۔ کیوں کہ جب بوڑھا تین سالہ بچہ تھا تو اُس کی ماں ، اُس کی ٹھوڑی پکڑ کر الٹے ہاتھ کی طرف مانگ نکالا کرتیں ، تو وہ ایک چھوٹا سا گول آئینہ دیکھنے کے بعد روتا ، کہ اُلٹی طرف مانگ کیوں نکالی ، ماں کہتی
" نمّو ، نمونے سیدھی طرف مانگ نکالی ہے "
تو نمّو چلا کر کہتا ، یہ "تیتہ ، دیتو ، اِس میں اُلتی ماند ہے "
" نہیں ، لالہ سیدھی ہے- " بڑی بہن سمجھاتی
" نہیں ہے تھیدھی ۔ امی تھیدھی ماند نتالو ۔ آں آں آں " نمّو اپنا رونا جاری رکھتا ۔
" اچھا الٹے ، بُندّھو اپنا بھاڑ سا منہ بند کرو، ادھر آؤ " اور ماں سیدھی مانگ نکال دیتی ۔نمّو شیشے میں دیکھتا ، کہ مانگ سیدھی ہے ۔ پھر خوشی میں دوڑتا کچے صحن میں جاتا اور اپنا کوئی کھیل شروع کر دیتا -
پیارے بچو! یہاں سے اُس کہانی کی ابتداء ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں بتاتے ہوئے بوڑھے کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ اور چم چم ، کا بڑھیا سے زیادہ بوڑھے کی نااہلی پر غصہ اور دھمکی ،
" وہ آئیندہ آوا کے گھر کبھی نہیں آئے گی "۔
بوڑھے کا گھر ، بوڑھے کی سٹڈی ہے جو اب بوڑھے کا بیڈ روم بن چکا ہے ۔ نیز چم چم نے گرمیوں کی چھٹیوں کا جو پروگرام بوڑھے کے گھر رہنے کے لئے بنایا تھا -
اُس کے لئے بوڑھے کو اپنے کمرے میں بے بی بیڈ بچھانا پڑا ، جو چم چم کے گھر سے بمع سائڈ ٹیبل، ڈریسنگ ٹیبل لایا گیا ، بوڑھے کا سامان ، بیسمنٹ میں بھجوادیا گیا ۔ صرف بوڑھے پر رحم کھا کر اُس کی سٹڈی ٹیبل اور سائیڈ شیلف اور ایل سی ڈی مانیٹر ٹی وی رہنے دیا ۔
بوڑھا اب چم چم کے کھلونوں کے درمیان زندگی گذار رہا ہے جو معلوم نہیں۔ گھر کے کس کس گوشے سے نکل کر بوڑھے کے کمرے میں قبضہ جما چکے تھے اور ، چم چم چھٹیوں کا پہلا ہفتہ دادو کے ہاں، تین دن کا ویک اینڈ لاہور اور وہاں سے گاؤں اور واپسی ، چم چم سیدھی نانو (بڑھیا) کے گھر ، چم چم کی مرضی کہ وہ ، " فیملی ھاوس " میں بڑھیا کے ھاؤس میں سوئے یا بوڑھے کے ۔
14 اگست کو چم چم کی دبئی خالہ کے ساتھ روانگی، تاکہ چم چم کی ماما ، لڈوکی ماما اور بابا جو پہلے ہی سے وہاں ہوں گے ، کے ساتھ 9 ستمبر کو لڈو کی تیسری ساگرہ منائیں ۔
تو بچو ، چم چم کے پیارے بے بی توتے منّوُ میاں، جسے اُس نے اور اُس کی نانونے دوسری زبان ( سیکنڈ لینگوئج ) بولنا سکھانا تھا،اور اُس کی کلاسیں شروع ہو چکی تھیں ۔
بوڑھے نے ، اپنے ایک پرانے موبائل میں پڑھائے جانے والے اسباق کو ریکارڈ کر دیا تھا ۔
پہلا سبق بڑھیا کی آواز میں :
سلام علیکم ، اللہ میاں اچھے ہیں ۔
دوسرا سبق چم چم کی آواز میں
عالی آپا کہاں ہو آؤ ۔
تیسرا سبق بوڑھے کی آواز میں
بابا بلیک شیپ ، ہیو یو اینی وول ،
یس سر یس سر تھری بیگ فل
ون فار چم چم ، ون فار لڈو، ون فار برفی اینڈ ون فار نانو ۔
تو بچو: منّوُ میاں بے سدھ ، ٹانگیں پھیلائے پڑے تھے ۔ بوڑھا ، بڑھیا کے کمرے کی طرف گیا آہستگی سے دروازہ کھولا ، بڑھیا 16 شعبان المبارک 1436 ھجری یا 4 جون 2015 بوقت 5 بجے صبح دعا میں غرق تھی ۔
بوڑھے نے تھوڑا انتظار کیا شاید بڑھیا، اپنی دعاؤں کا سلسلہ موقوف کرتے ہوئے منہ پر ھاتھ پھیر لے ۔ لیکن دعائیں لمبی ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔ مگر بوڑھے کا بڑھیا کو سچویشن رپورٹ دینا نہایت ضروری تھا ۔
" منّوُ میاں فوت ہو گئے "
بڑھیا نے بوڑھے کی طرف جھٹکے سے گردن گھماتے ہوئے پوچھا ۔
" ہائے اللہ ! کب ؟"
اور پھرتی سے جانماز سے کھڑی ہوگئی ۔
ذرا لڑکھڑائی تو بوڑھے نے سہارا دیا ۔ بوڑھے کا بازو پکڑ کرباہر نکلی ۔ اور آہستہ آہستہ لاونج کی طرف بڑھی ۔دونوں منّوُ میاں کی خوابگاہ کے پاس پہنچے،بڑھیا نے اندر جھانکا ،
بوڑھا اپنے کمرے میں داخل ہوا ، کرسی پر پڑا تولیا اُٹھا منہ پونچھا ، شیشے میں چہرہ دیکھا ، ڈریسنگ ٹیبل پر تین کنگھیاں پڑی تھیں - چھوٹی ، چھوٹے دانتوں والی - درمیانی، بڑے دانتوں والی اور ایک بالوں میں کرنے بڑی پنوں والا برش ،جیسا پہلے زمانے میں گھوڑے کو گدگدانے کے لئے ہوتا تھا۔
بوڑھے نے ، چھوٹے دانتوں والی بڑی کنگھی اٹھائی ، غور سے دیکھا اور پھونک ماری ۔ تاکہ وہ تمام حشرات البال اُڑ جائیں ، جو سر کے لئے نقصان دہ ہیں ، اور بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے سیدھی ھاتھ کی طرف سے مانگ نکالی ۔ کیوں کہ جب بوڑھا تین سالہ بچہ تھا تو اُس کی ماں ، اُس کی ٹھوڑی پکڑ کر الٹے ہاتھ کی طرف مانگ نکالا کرتیں ، تو وہ ایک چھوٹا سا گول آئینہ دیکھنے کے بعد روتا ، کہ اُلٹی طرف مانگ کیوں نکالی ، ماں کہتی
" نمّو ، نمونے سیدھی طرف مانگ نکالی ہے "
تو نمّو چلا کر کہتا ، یہ "تیتہ ، دیتو ، اِس میں اُلتی ماند ہے "
" نہیں ، لالہ سیدھی ہے- " بڑی بہن سمجھاتی
" نہیں ہے تھیدھی ۔ امی تھیدھی ماند نتالو ۔ آں آں آں " نمّو اپنا رونا جاری رکھتا ۔
" اچھا الٹے ، بُندّھو اپنا بھاڑ سا منہ بند کرو، ادھر آؤ " اور ماں سیدھی مانگ نکال دیتی ۔نمّو شیشے میں دیکھتا ، کہ مانگ سیدھی ہے ۔ پھر خوشی میں دوڑتا کچے صحن میں جاتا اور اپنا کوئی کھیل شروع کر دیتا -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بوڑھا کنگھی کر کے اپنے کمرے سے دو فرض پڑھ کر باہر نکلا منّوُ میاں کی خوابگاہ کی طرف گیا اُس کے منہ پر سے ، ململ کا حجاب اُٹھایا جو مچھروں سے بچانے کے لئے شاید بیگم نے ڈالا تھا ۔پیارے بچو! یہاں سے اُس کہانی کی ابتداء ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں بتاتے ہوئے بوڑھے کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ اور چم چم ، کا بڑھیا سے زیادہ بوڑھے کی نااہلی پر غصہ اور دھمکی ،
" وہ آئیندہ آوا کے گھر کبھی نہیں آئے گی "۔
بوڑھے کا گھر ، بوڑھے کی سٹڈی ہے جو اب بوڑھے کا بیڈ روم بن چکا ہے ۔ نیز چم چم نے گرمیوں کی چھٹیوں کا جو پروگرام بوڑھے کے گھر رہنے کے لئے بنایا تھا -
اُس کے لئے بوڑھے کو اپنے کمرے میں بے بی بیڈ بچھانا پڑا ، جو چم چم کے گھر سے بمع سائڈ ٹیبل، ڈریسنگ ٹیبل لایا گیا ، بوڑھے کا سامان ، بیسمنٹ میں بھجوادیا گیا ۔ صرف بوڑھے پر رحم کھا کر اُس کی سٹڈی ٹیبل اور سائیڈ شیلف اور ایل سی ڈی مانیٹر ٹی وی رہنے دیا ۔
بوڑھا اب چم چم کے کھلونوں کے درمیان زندگی گذار رہا ہے جو معلوم نہیں۔ گھر کے کس کس گوشے سے نکل کر بوڑھے کے کمرے میں قبضہ جما چکے تھے اور ، چم چم چھٹیوں کا پہلا ہفتہ دادو کے ہاں، تین دن کا ویک اینڈ لاہور اور وہاں سے گاؤں اور واپسی ، چم چم سیدھی نانو (بڑھیا) کے گھر ، چم چم کی مرضی کہ وہ ، " فیملی ھاوس " میں بڑھیا کے ھاؤس میں سوئے یا بوڑھے کے ۔
14 اگست کو چم چم کی دبئی خالہ کے ساتھ روانگی، تاکہ چم چم کی ماما ، لڈوکی ماما اور بابا جو پہلے ہی سے وہاں ہوں گے ، کے ساتھ 9 ستمبر کو لڈو کی تیسری ساگرہ منائیں ۔
تو بچو ، چم چم کے پیارے بے بی توتے منّوُ میاں، جسے اُس نے اور اُس کی نانونے دوسری زبان ( سیکنڈ لینگوئج ) بولنا سکھانا تھا،اور اُس کی کلاسیں شروع ہو چکی تھیں ۔
بوڑھے نے ، اپنے ایک پرانے موبائل میں پڑھائے جانے والے اسباق کو ریکارڈ کر دیا تھا ۔
پہلا سبق بڑھیا کی آواز میں :
سلام علیکم ، اللہ میاں اچھے ہیں ۔
دوسرا سبق چم چم کی آواز میں
عالی آپا کہاں ہو آؤ ۔
تیسرا سبق بوڑھے کی آواز میں
بابا بلیک شیپ ، ہیو یو اینی وول ،
یس سر یس سر تھری بیگ فل
ون فار چم چم ، ون فار لڈو، ون فار برفی اینڈ ون فار نانو ۔
تو بچو: منّوُ میاں بے سدھ ، ٹانگیں پھیلائے پڑے تھے ۔ بوڑھا ، بڑھیا کے کمرے کی طرف گیا آہستگی سے دروازہ کھولا ، بڑھیا 16 شعبان المبارک 1436 ھجری یا 4 جون 2015 بوقت 5 بجے صبح دعا میں غرق تھی ۔
بوڑھے نے تھوڑا انتظار کیا شاید بڑھیا، اپنی دعاؤں کا سلسلہ موقوف کرتے ہوئے منہ پر ھاتھ پھیر لے ۔ لیکن دعائیں لمبی ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔ مگر بوڑھے کا بڑھیا کو سچویشن رپورٹ دینا نہایت ضروری تھا ۔
" منّوُ میاں فوت ہو گئے "
بڑھیا نے بوڑھے کی طرف جھٹکے سے گردن گھماتے ہوئے پوچھا ۔
" ہائے اللہ ! کب ؟"
اور پھرتی سے جانماز سے کھڑی ہوگئی ۔
ذرا لڑکھڑائی تو بوڑھے نے سہارا دیا ۔ بوڑھے کا بازو پکڑ کرباہر نکلی ۔ اور آہستہ آہستہ لاونج کی طرف بڑھی ۔دونوں منّوُ میاں کی خوابگاہ کے پاس پہنچے،بڑھیا نے اندر جھانکا ،
" ہائے بے چارہ کب مرا ؟
رات دس بجے تو میں نے اسے دال چاول کھلائے تھے -
جو اِس نے بڑے شوق سے کھائے
ایک فیڈر، کولر سے پانی کا بھی پلایا -
آپ رات دیر سے سوئے تھے ۔ آپ نے نہیں دیکھا " بوڑھی غمزدہ آواز میں بولی اب چم چم کو کون جواب دے گا ۔
' نہیں ہم سے غلطی ہو گئی ، رات دو بجے دیکھ لیتے تو شاید ۔۔۔ لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ " بوڑھا بولا
" بس کل شام مغرب کی آذان سے تھوڑا پہلے منّوُ میاں کا نام کٹ گیا اور رجسٹر بند ہو گیا تھا ، اور معلوم نہیں کب اِن کا پتہ جھڑ گیا " بوڑھےنے رقت آمیز لہجے میں بتایا ۔
" تو بہ کریں توبہ ! آپ دین کا مذاق اُڑا رہے ہیں ، فوراً توبہ کریں "
بڑھیا غصے میں بولی اور اُن کی آنکھوں سے منّو میاں یاد میں گرنے والا آنسو ، بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا ۔
بوڑھا افسوس میں سر ھلاتے ہوئے بولا ،
"غالباً آپ کو یہ آیت یاد نہیں ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ۔ ۔ ۔ ۔ [3:185]
بڑھیا یک دم چپ ہو گئی ۔
" لیکن آپ کا انداز یہ والا نہیں تھا !" دوبارہ دوبارہ بوڑھے کو ٹوکا ۔
رات دس بجے تو میں نے اسے دال چاول کھلائے تھے -
جو اِس نے بڑے شوق سے کھائے
ایک فیڈر، کولر سے پانی کا بھی پلایا -
آپ رات دیر سے سوئے تھے ۔ آپ نے نہیں دیکھا " بوڑھی غمزدہ آواز میں بولی اب چم چم کو کون جواب دے گا ۔
' نہیں ہم سے غلطی ہو گئی ، رات دو بجے دیکھ لیتے تو شاید ۔۔۔ لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ " بوڑھا بولا
" بس کل شام مغرب کی آذان سے تھوڑا پہلے منّوُ میاں کا نام کٹ گیا اور رجسٹر بند ہو گیا تھا ، اور معلوم نہیں کب اِن کا پتہ جھڑ گیا " بوڑھےنے رقت آمیز لہجے میں بتایا ۔
" تو بہ کریں توبہ ! آپ دین کا مذاق اُڑا رہے ہیں ، فوراً توبہ کریں "
بڑھیا غصے میں بولی اور اُن کی آنکھوں سے منّو میاں یاد میں گرنے والا آنسو ، بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا ۔
بوڑھا افسوس میں سر ھلاتے ہوئے بولا ،
"غالباً آپ کو یہ آیت یاد نہیں ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ۔ ۔ ۔ ۔ [3:185]
بڑھیا یک دم چپ ہو گئی ۔
" لیکن آپ کا انداز یہ والا نہیں تھا !" دوبارہ دوبارہ بوڑھے کو ٹوکا ۔
بوڑھا جواب دیئے بغیر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیاـ
کیوں کہ بوڑھے کو معلوم تھا کہ صبح ہونے والا جھگڑا، بڑھیا کی شکر بنانے کی فیکٹری کی استعداد میں اضافہ کر دیتا ہے- اور بڑھیا کا سارا دن شکر کا وزن ماپنے میں گذرتا ہے ۔
کوئی ساڑھے سات بجے ، موبائل کی گھنٹی بجی ، آنکھ کھل گئی ، تو بوڑھے کومعلوم ہوا کہ بڑھیا مارننگ واک پر گئی تھی ۔ دروازہ بند تھا ۔
شائد موبائل پر رِنگ کرکے ،چھوٹی بیٹی کو اٹھا رہی تھی ، خیر بوڑھے نے اُٹھ کردوازہ کھولا ، بڑھیا اندر آئی ، چھوٹی بیٹی آفس جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی ۔ اُس نے کمرے سے آواز لگائی ۔
" ماما ، منّوُ میاں کیسے مرا ؟ "
اِس سے پہلے کہ بڑھیا کچھ بولتی ،
" بھئی بس پتہ کل شام کٹ گیا اور منّوُ میاں مر گیا " بوڑھے نے جواب دیا ۔
" ارے اِس بڈھے کو کون سمجھائے -
دین کا مذاق مت اُڑائے " بڑھیا بولی
کیوں کہ بوڑھے کو معلوم تھا کہ صبح ہونے والا جھگڑا، بڑھیا کی شکر بنانے کی فیکٹری کی استعداد میں اضافہ کر دیتا ہے- اور بڑھیا کا سارا دن شکر کا وزن ماپنے میں گذرتا ہے ۔
کوئی ساڑھے سات بجے ، موبائل کی گھنٹی بجی ، آنکھ کھل گئی ، تو بوڑھے کومعلوم ہوا کہ بڑھیا مارننگ واک پر گئی تھی ۔ دروازہ بند تھا ۔
شائد موبائل پر رِنگ کرکے ،چھوٹی بیٹی کو اٹھا رہی تھی ، خیر بوڑھے نے اُٹھ کردوازہ کھولا ، بڑھیا اندر آئی ، چھوٹی بیٹی آفس جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی ۔ اُس نے کمرے سے آواز لگائی ۔
" ماما ، منّوُ میاں کیسے مرا ؟ "
اِس سے پہلے کہ بڑھیا کچھ بولتی ،
" بھئی بس پتہ کل شام کٹ گیا اور منّوُ میاں مر گیا " بوڑھے نے جواب دیا ۔
" ارے اِس بڈھے کو کون سمجھائے -
دین کا مذاق مت اُڑائے " بڑھیا بولی
" ماما آپ شاعر نہیں ہو گئیں ، اچھا بھلا شعر کہہ دیا ۔ میں ابھی اسے وٹس ایپ کرتی ہوں " چھوٹی بیٹی بولی۔
" ماما کیا، چنّوُ میاں کا پتا کل کٹا یا اُس کی پیدائش سے پہلے ہی پچھلی شبِ برات کو کٹ گیا تھا ؟" وہ منّوُ میاں کی تصویر موبائل سے کھینچتی ہوئے بولی ۔
بڑھیا نے کوئی جواب نہیں اوراپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر دنیا کے طول وعرض میں گھوم چکی تھی ۔ کہ
" چم چم کا پیارا، بے بی طوطا منّوُ میاں بھی اللہ میاں کے پاس چلا گیا "
بڑھیا نے کوئی جواب نہیں اوراپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر دنیا کے طول وعرض میں گھوم چکی تھی ۔ کہ
" چم چم کا پیارا، بے بی طوطا منّوُ میاں بھی اللہ میاں کے پاس چلا گیا "
تعزیتی پیغامات آنے لگے ابھی کچھ دن پہلے ہی چنّوُ میاں فیریکس کے ساتھ ، تربوز کا سرخ رنگ کا میٹھا میٹھا جوس فیڈر بھر کے پینے کے بعد ، سیدھا جنت کی طرف پراوز کر گئے تھے ۔ جو چم چم نے نہایت اصرار کر کے اپنی نانو کے ھاتھ پلوایا تھا
مگر منّوُ میاں کی موت میں کس کا ھاتھ ہے ؟
قارئین !ابھی یہ تفتیش ہونا باقی ہے ۔ بس کچھ سوالوں کے جواب چاھئیں ، اِس فائینڈنگ پر پہنچنے کے لئے کہ منّوُ میاں کی موت طبعی تھی یا نہیں ؟
اور الزام کس حد تک کس پہ لگایا جائے ۔
1- منّوُ میاں نے آخری کھانا کس وقت اور کس کے ہاتھ سے کھایا ؟
2- کھانا میں کیا کیا تھا ؟
3- کیا منّوُ میاں کو ، کمیٹی کے نلکے کا پانی پلایا گیا یا منرل واٹر ؟
4- سب سے پہلےمنّوُ میاں کو کس نے اور کس حالت میں دیکھا ؟
مگر منّوُ میاں کی موت میں کس کا ھاتھ ہے ؟
قارئین !ابھی یہ تفتیش ہونا باقی ہے ۔ بس کچھ سوالوں کے جواب چاھئیں ، اِس فائینڈنگ پر پہنچنے کے لئے کہ منّوُ میاں کی موت طبعی تھی یا نہیں ؟
اور الزام کس حد تک کس پہ لگایا جائے ۔
1- منّوُ میاں نے آخری کھانا کس وقت اور کس کے ہاتھ سے کھایا ؟
2- کھانا میں کیا کیا تھا ؟
3- کیا منّوُ میاں کو ، کمیٹی کے نلکے کا پانی پلایا گیا یا منرل واٹر ؟
4- سب سے پہلےمنّوُ میاں کو کس نے اور کس حالت میں دیکھا ؟
5- گھر میں منّوُ میاں کو آخری بار زندہ دیکھنے کے بعد کتنے افراد تھے ؟
6- منّوُ میاں کو کھانا کھلانے کا طریقہ کیا صحیح تھا؟ اُس کو ایسا ہی کھانا کھلایا جاتا تھا جیسا کہ منّوُ میاں کی ماما اگر ہوتی تو کھلاتی ؟
6- منّوُ میاں کو کھانا کھلانے کا طریقہ کیا صحیح تھا؟ اُس کو ایسا ہی کھانا کھلایا جاتا تھا جیسا کہ منّوُ میاں کی ماما اگر ہوتی تو کھلاتی ؟
قارئین ! آپ سے التماس ہے ، کہ براہ کرم پورے واقعہ کو غور سے اور بار بار پڑھیں ، کیوں کہ کل چم چم کو اس سارے سانحے کی رپورٹ ان سوالوں کے جوابات کے ساتھ دینی ہے جو اُس نے اپنی ماما سے کئے ، بوڑھے اور بڑھیا کو آپ کی مدد کی شدید ضرورت ہے ۔
نوٹ: وقوعہ کی تصاویر، جن کی مدد سے سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں آسانی ہو گی ۔ ساتھ لَف ہیں ۔
مزید نوٹِ ضمنی (بمع تصویر ساتھ لَف):
گھر میں مزید دو اور نفوس پائے گئے ، جو بنیادی طور پر ایک خاص مقصد کے لئے لائے گئے (جن کے بارے میں مزید تفصیلات گھر میں پایا جانے والے بوڑھا سنا ئے گا ) ۔
مذکورہ نفوس، دو بچوں کی ملکیت ظاہر کئے جاتے ہیں ،
1- توتو (مذکر) برفی کی ملکیت، غیر مقبوضہ ہے-
2- توتی (مونث ) - لڈو کی ملکیت، غیر مقبوضہ ہے-
3 - رہائش ، مشترکہ ۔
4- رشتہ ، میاں بیوی -
5- نکاح نامہ، ناموجود -
6- کل اثاثہ جات، سٹین لیس سٹیل کے دو پیالے اور ایک جھولا-
تفتیش کے مطابق ، بوڑھے نے بتایا کہ گذشتہ شب اِن کے کمرے کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا -
مزید نوٹ : بوڑھے کے اُٹھنے سے پہلے ، بڑھیا اور اُس کی بیٹی ، چم چم کی دادو کے ھاں اُس سے مل کر اور حلوہ پوری اور چنے کا ناشتہ کر کے آچکے ہیں ۔
کورٹ آف انکوئری تھوڑی دیر بعد شروع ہونے والی ہے !
گھر میں مزید دو اور نفوس پائے گئے ، جو بنیادی طور پر ایک خاص مقصد کے لئے لائے گئے (جن کے بارے میں مزید تفصیلات گھر میں پایا جانے والے بوڑھا سنا ئے گا ) ۔
مذکورہ نفوس، دو بچوں کی ملکیت ظاہر کئے جاتے ہیں ،
1- توتو (مذکر) برفی کی ملکیت، غیر مقبوضہ ہے-
2- توتی (مونث ) - لڈو کی ملکیت، غیر مقبوضہ ہے-
3 - رہائش ، مشترکہ ۔
4- رشتہ ، میاں بیوی -
5- نکاح نامہ، ناموجود -
6- کل اثاثہ جات، سٹین لیس سٹیل کے دو پیالے اور ایک جھولا-
تفتیش کے مطابق ، بوڑھے نے بتایا کہ گذشتہ شب اِن کے کمرے کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا -
مزید نوٹ : بوڑھے کے اُٹھنے سے پہلے ، بڑھیا اور اُس کی بیٹی ، چم چم کی دادو کے ھاں اُس سے مل کر اور حلوہ پوری اور چنے کا ناشتہ کر کے آچکے ہیں ۔
کورٹ آف انکوئری تھوڑی دیر بعد شروع ہونے والی ہے !
واہ واہ کیا خوب .............
جواب دیںحذف کریںبہت اعلی اور کمال کی تحریر
جواب دیںحذف کریںمیری نگاہ میں یہ تحریر اردو بلاگنگ کی دنیا میں بطور اردو بلاگ دکھانے میں سند کا درجہ رکھے گی
گرو جی : آپ کا حسن "ظن" ہے ۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںجمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
'
بلاگنگ کی دنیا ، واقعی ایک سیکھنے اور سکھانے کی جدید دنیا ہے ۔