Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 5 جون، 2015

بڑھئی سے وُڈ ورک آرٹ کی طرف - بوڑھے کا سفر


 اپنے گرینڈ فادر پر مضمون لکھو :۔

 میرے دو گرینڈ فادر ہیں ۔ جو بابا کے بابا ہیں وہ بہت بوڑھے ہیں ۔اُنہیں میں دادا کہتی ہوں ،  گھر کا سودا لاتے ہیں اور نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں ۔جو ماما کے پپا ہیں اُنہیں میں آوا (آغا جان) کہتی ہوں، وہ فوج میں تھے ، وہ میرے ساتھ ھائیڈ این سیک کھیلتے ہیں  جب   وہ درخت کے پیچھے چھپتے ہیں ویسے اُنہیں چھپنا نہیں آتا ، میں اُنہیں ڈھونڈھ لیتی ہوں  ، گالف کھیلنے جاتے ہیں اور الماریاں بناتے ہیں  ۔

عالی بنتِ محمود(  چم چم  ) کلاس تھری۔

چم چم کا آوا ، بچپن سے ٹیکنیکل ذہن رکھتا تھا ۔ گھر کی ہر خراب چیز ٹھیک کرنے کا اُسے شوق تھا ۔ سب سے پہلے اُس نے پانچویں کلاس میں گھر کی ٹائم پیس ٹھیک کرنے کی کوشش کی -  چنانچہ  امّی کے دو تھپّڑ اور ابا  کا ڈنڈا کھانے کے بعد  ابّا کے ساتھ حسب معمول ہر پندھرویں  اتوار کو   ڈھائی کلومیٹر دور، مسجد روڈ پر   اُتلا ملک پورہ کی طرف جانے والی سڑک  پر   تقریباً سوگز دور بازار کی آخری دکان  میں ،  ایک گھڑی ساز کے پاس گیا چھوٹا بھائی بھی ساتھ تھا ۔ یہ گھڑی ساز ایبٹ آباد میں حکیم صاحب کی دُکان کے ساتھ دُکان میں بیٹھا کرتا تھا ۔ ابّا نے گھڑی ساز کو گھڑی دی اور کہا ، " اِسے جوڑ دیں "۔   

آپ نے کھولی تھی؟ رستم چاچا نے پوچھا۔
نہیں میرے بیٹے نے کھولی ہے" ۔ ابا نے کہتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا ۔ 

انجنیئر میرے پاس بیٹھو" ۔ رستم چاچا  ہنستے ہوئے بولے اور میری پیٹھ پر تھپکی دی ۔
اور یوں میں نے اپنی پہلی باقائدہ اپرنٹس شب کا آغاز کیا۔ جو اُس وقت تک رہتی جب تک ابا ۔ حکیم صاحب سے گپیں لگاتے ۔ امّی کے لئے بتول، آپا  اور میرے لئے بچوں  نور رسالہ اور اپنے لئے ترجمان القران اور
کوثر نیازی کا رسالہ شہاب لیتے ، یہ کچہری گھنٹے تک جاری رہتی اور پھر گھر کے لئے سبزیاں لے کر واپس ۔ چھوٹا بھائی بھی ساتھ ہوتا ۔رستم چاچا نے مجھے کھولنے اورجوڑنے کےلئے پرانی گھڑیدی ۔ یہ اور بات کہ چھوٹے بھائی نے اُس کی گراری نکال لی اور چھپ کر بھمبیری چلایا کرتا ۔ 

 ۔ (DIY) Do it yourself آپ خود کریں

کا یہ سفر پانچوں کلاس  سے شروع ہو گیا ۔ چھٹی کلاس میں پولی ٹیکنک میں داخلہ لیا ، میٹل ورک سے آسان وڈ ورک اورالیکٹرکل تھا ۔ مجھے  اچھی طرح یاد ہے  کہ جب میرپورخاص میں بجلی آئی تو گھر کی وائرنگ کرنے والے الیکٹریشن شکیل میو کے ساتھ میں نے  بطور ایک چھوٹا کام  کیااور اُس کے کئے جانے والے ایک ایک کام کوغور سے ۔ جب گھر میں ایک کچن کا اضافہ ہوا تو اُس کی کمپلیٹ وائرنگ میں نے اور چھوٹے بھائی نے مل کر کی تھی ۔میرا یہ اصول بن چکا تھا جب یہ شخص کام کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا ؟؟

یوں تو  ہر قت میرے پاس   لڑکپن سے ضروری ٹولز ، میرے ٹول بکس میں  موجود رہتے  تھے ۔ جن میں گھڑیاں کھولنے ، ریڈیو ٹھیک کرنے ۔ الیکٹریشن کے اوزار ، آری ، رندہ   شامل تھے ،۔ فوج میں آنے کے بعد موٹر سائیکل اور پھر کار کے ٹولز کا اضافہ ہوا ۔   ریٹائرمنٹ کے بعد اِن ٹولز میں کوئیٹہ سے گوٹیوں ، پانے اور ہاتھ سے چلنے والی ڈرل مشین کا اضافہ ہوا ، یہاں تک کے پائیپ رینچ بھی گھر کی ٹونٹیاں ٹھیک کرنے کے لئے خریدا ۔پینٹنگ بنانے کے لئے کینوس بورڈ سے لے کر اُس کا فریم بھی خود بناتا ۔میخوں ، روّٹ ( ربٹ ) کا بکس نہ ہو ممکن نہیں ۔ پھر اِس میں ایک دوست کی مہربانی سے ، انڈوں سے چوزے نکالنے والے چینی انکیوبیٹر اور متعلقہ اشیاء کا اضافہ ہوا۔ 

بڑھیا نے کپڑے ٹانکنے والی ایسی الماری بنوانے کا کہا ۔ جس میں کپڑے لٹکے رہیں اور نیچے سے فولڈ ہو کر استری خراب نہ ہو ۔ الماری بنوانے کی قیمت معلوم کی ۔ الماری بنانے والے نے مطلوبہ پیمائش کی  ایک الماری کی قیمت 25 ہزار روپے بتائی ۔ بڑھیا دل مسوس کر رہ گئی ۔ بوڑھے نے اپنی کار لے کر سٹی صدر روڈ گیا وہاں        ایک آرا مشین پر گیا۔ وہاں 6 فٹ اور چار فٹ شیٹ کے پھٹے ۔ ناپ کے مطابق کٹوانے کا پوچھا ۔اُس نے حامی بھری سامنے کی دکان سے۔ چپ بورڈ کی دو شیٹس 15سو روپے کی لیں ۔ اُنہیں اپنے ڈیزائن کے مطابق کٹوایا ۔ یوں آرا مشین کے مالک گجرانوالہ کے عامر چیمہ سے دوستی ہو گئی ۔ 

گھر آکر ایک الماری بنائی ۔ بڑھیا کو پسند آئی- پھر اپنے لئے بھی ایک الماری بنائی ۔ کہاں 25 ہزار روپے اور کہاں 5 ہزار سے کم میں دو الماریاں ، کل لیبر گھنٹے 12 لگے ۔ 

تو اُفق کے پار رہنے والے دوستو ، چم چم نے درست لکھا ، کہ، میرے گرینڈ فادر الماریاں بناتے ہیں ۔

٭٭٭

2 تبصرے:

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔