28 ستمبر شام 7 بجے ، فیس بُک میسنجر پر پیغام وصول ہوا :
" اتوار 30 ستمبر 3 بجے میرے گھر پر شگُفتہ نثر کی ایک محفل آراستہ ہو گی انشاء اللہ!
تشریف لائیے مسلح ہو کر۔ آصف اکبر ، جے "
" جناب نیکی اور پُوچھ پُوچھ ، چشمِ ماروشن دلِ ماشاد ۔خادم حاضر ہو جائے گا " ۔ جواب دیا
آشفتہ
سری اور شگفتہ نثری اپنے ہی گملوں کی قلمی فصلیں ہیں ۔ اِن کے
جلو میں حاضر نہ ہونا کفرانِ نعمت میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔
یوں مہاجرزادہ ، محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور میں تاکہ
آصف
اکبر صاحب ، قہقہے سننے کو ملیں -اب محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور میں پڑھے گئے مضامین - جن میں قہقے کم اور آپ بیتیاں اور جگ بیتیاں زیادہ ہیں-
٭٭سال 2018 ٭٭
٭٭سال 2019 ٭٭
٭٭سال 2020 ٭٭
پاکستان تو کیا دنیا میں پائی جانے والی اِس بیماری "یوتھیاپا " کی دریافت زمانہ قدیم میں برصغیر (پاک و ہند ) میں ہوئی ، جس کا سہرا چانکیہ کوٹلہ کے سر پر سجتا ہے ۔ جس کی لکھی گئی یا لکھوائی گئی کتاب ، ’ارتھ شاستر‘نے برصغیر کے تمدّن اور اسلوُبِ سیاست پر گزشتہ دو ہزار سال کے دوران مسلسل بولے جانے والے جھوٹ ، جو اثرات مرتب کیے ہیں وہ اتنے گہرے ہوچکے ہیں کہ جن کے نقوش آئندہ کئی صدیوں تک برصغیر (پاک و ہند ) میں ، مسّوں کی بیماری ، ہوائی جڑوں کی صورت میں نوجوانوں میں پھوٹتے رہیں گے ۔
یوتھیاپے ۔ کا پروان جھوٹ ، حسد ، بغض اور مکاری کے خمیر پر پنپتا ہے ۔ جِس کی بنیاد ، بے ضمیری کے نوکیلے اور خون آشام پودے سے شروع ہوتی ہے ۔
یوتھیاپے ، کی بنیاد میں مذہب کی پوتّرتا استعمال کی جاتی ہے اور اِس شدت سے استعمال کی جاتی ہے ، کہ آفاقی سچ اُس میں دب جاتا ہے ۔
جس کے لئے یوٹوپیائی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں ، ایسے محیر العقول واقعات بتائے جاتے ہیں ، کہ انسان یقینی اور بے یقینی کے گرداب میں پھنس جاتا ہے ۔
اور یہ انسانی نہیں بلکہ آفاقی سچ ہے ۔ جس کی لہریں روز اوّل سے کائینات میں گردش کر رہی ہیں ، جن کو سب سے پہلے ابلیس نے گرفت میں لیا اور اُس کی صفت انسانوں کے درمیان شیطان کہلائی ، جو کسی انسان کا دوست نہیں ہوسکتا !۔
"مجھ میں اتنی قوت ہے کہ میں تمھیں ایسے طاقت دوں ، کہ جس کو کبھی زوال نہیں ہوگا ، لہذا میرے دوست بن جاؤ، تمھاری زندگیاں خوشیوں سے بھر جائیں گی۔"
حقیقت کو جھوٹ اور مکاری سے ، وقتی سراب میں تبدیل کرنے والی بیماری یوتھیاپا کو سوشل میڈیا کی موجودہ دنیا نے اور زیادہ پھیلا دیا ہے ۔
جس کی ابتداء اُن سب نے کی جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد ، ایک ایسے سیاست دان کے حواری بنے ، جس نے یوتھیوپیوں کو اپنی بغل میں بٹھایا ۔
آئیں باتصویر دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیسے یوتھیاپا ، میں تبدیل کی جاتی ہے ۔
1- یوتھیاپا اور فضل الرحمٰن
2- یوتھیاپا اور ملالہ یوسف زئی
3- یوتھیاپا اور ملائیت
4- یوتھیاپا اور شریف فیملی (یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی 69 واں اجلاس)
یوتھیوں کا یوتھیاپا ! جس میں اُنہوں نے بیگم نواز اور مہرالنساء کی تصویر (یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی 69 واں اجلاس جو 26 ستمبر 2014 کو ہوا ) کی خالی کرسیوں پر فوٹو شاپ کروا کر مکاری اور جھوٹ کے بینر چھپوائے ۔
5- ملیحہ لودھی کی یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی میں اصل جگہ
6- یوتھیاپا اور یوتھیا اعظم
یہ یاد رہے کہ یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی ، میں پہلی معرکہ خیز تقریر پاکستان کے تیسرے سلیکٹڈ صد ر جنرل محمد ضیاالحق نے کی تھی ۔
اور اب پاکستان کے پہلے ، نہیں بلکہ جونیجو کے بعد دوسرے سلیکٹڈ وزیر اعظم نے یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں شرکت کی ۔
جس کے بعد سنا ہے ، کہ عقیل کریم ڈھیڈی نے کراچی سٹاک ایکسچینج کے انڈیکس کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے اونچی سطح پر اپنے یوتھیاپا (جھوٹ اور مکّاری) سے چڑھا دیا ۔
یوتھیاپا ، کا آکٹوپس ۔ آپ کو پتا ہے 95 اور 92 کے درمیانی 7 سالوں میں شریف خاندان نے - 6 ہزار ارب روپیہ قرض کیا -
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ یوتھیاپا ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کا تعلق ایک ایسی یوٹوپیائی سلطنت سے ہے ۔ جِس کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جاتی ہے ۔ اور وہ تمام جو ایسی سلطنت کی بنیاد رکھتے ہیں اُن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے ۔
یہ میرا نہیں اُس شخص کے تخلیق کرنے والے کا قول ہے جو آفاقی سچ ہے :
یأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ [61:2]
مکّاری اُن کی گھٹی میں رچی بسی ہوتی ہے ، جس کی ابتداء ماں سے ہوتی ہے اور باپ کی تربیت اُسے پروان چڑھاتی ہے ۔
ایسا شخص بلا تکان جھوٹ ، سچ کی آڑ میں قسم کھا کر بولتا ہے ۔ اِس منافقانہ جھوٹ پر وہ نوجوان جو جھوٹ سننے کے عادی ہیں ۔ وہ اِسے سچ سمجھ کر پھیلاتے ہیں ۔اور اور ہڈ حرام مُفت کی کمائی کھانے والے ، اِسے سن کر مارے حیرت کے گُنگ ہوجاتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے ؟
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّـهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ﴿2:204﴾
چلیں میری نہیں ، لوگوں کی سنیئے !
کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے ،لیکن وہ ہوا کے دوش پر بدبو کی طرح پھیلتی رہتی ہے ۔
لیکن جھوٹ بولنے ولا اتنا مکّار ہوتا ہے ، کہ وہ جھوٹ بولتے وقت ، چند معذرت کے الفاظ بھی بولتا ہے ۔
وہ جن کو جھوٹ سننے کی بیماری ہوتی ہے جسے وہ مکّاری سے معذرت نکال کر آگے اتنی شد و مد سے پھیلاتے ہیں کہ سچ، یوتھیاپے کے غبار میں چھپ جاتا ہے ۔ اور جھوٹ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے ۔اور جھوٹ پسند کرنے والے ، یوتھیاپے کے مریض اُسے اپنا میعار بنا لیتے ہیں ۔
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ
﴿21:18﴾
لیکن حقیقت جاننے والے ، اللہ کی مدد سے حق پر چڑھے ، باطل کے ملبوسات کی پرتیں اتارتے رہتے ہیں ۔
باطل کے ملبوسات پہننے والے میں ، یوتھیاپا جنم لیتا ہے ۔
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یوتھیاپے کی ابتداء پاکستان میں ہوئی ۔
نہیں!
جناب ، یہ مرض بہت پرانا ہے ۔
٭-یوتھیاپا ۔ کا بانی کون ؟
بنگلہ دیش کے اِس نوجوان جس کا نام ابو بجندر ہے ، کو دونوں ہاتھوں پر عجیب بیماری ہے ۔
جس کی وجہ سے اُس کی انگلیوں سے جڑ نما سخت قسم کے مسّوں نما خلیے بن رہے ہیں اور وہ بڑھ کر کسی درخت کی جڑوں سے مشابہ ہوتے ہیں ۔
یہ نہ صرف ہاتھوں پر ہے بلکہ پیروں پر بھی یہیں خلیے نکل رہیں ہیں ۔
24 سرجری کے بعد بھی اِن خلیوں کر دوبارہ نمودار ہونا ختم نہیں ہوا ۔
ڈھاکا ہسپتال کے سرجن سمنتا لعل سین کے مطابق یہ ایک ایسا کیس ہے ، جو بہت پیچیدہ ہے ، جس کا ٹھیک ہونا ناممکن ہے ۔
جنوری 2016 میں ابو بجندر جو پہلے رکشہ کھینچتا تھا اُسے 25 سال کی عمر میں یہ بیماری شروع ہوئی تو وہ ہسپتال آیا ۔ ڈاکٹروں کے لئے مسّوں بھرے ہاتھوں کا یہ انکھا کیس تھا جس میں ، مسّے بڑھتے جا رہے تھے اور رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ، سرجن سمنتا لعل سین نے ذاتی دلچسپی لے کر اِس نوجوان کےآپریشن کئے ۔ جن کی تعداد 24 ہے جو ایک سال میں کسی بھی انسان پر کئے جانے والے آپریشنز میں سب سے زیادہ ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مہاجرزادہ نے ، اِس بیماری کو گوگل سے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ اِس بیماری کو
(Epidermodysplasia verruciformis ( EV ، جسے ٹری مین سنڈروم بھی کہا جاتا ہے ، ایک انتہائی نایاب آٹومومل ریسیسییو جلد کے کینسر کے اعلی خطرہ سے وابستہ جلد کی موروثی بیماری ہے ۔ اس کی خصوصیات جلد کے انسانی پیپیلوما وائرس (HPVs) کی غیر معمولی حساسیت کی ہوتی ہے۔
نتیجے میں بے قابو HPV انفیکشن کے نتیجے میں اسکیلی میکولس اور پیپلوں کی نشوونما ہوتی ہے ، خاص طور پر ہاتھوں اور پیروں پر۔
یہ عام طور پر HPV اقسام 5 اور 8 کے ساتھ منسلک ہوتا ہے ، جو عام آبادی کے تقریبا 80٪ میں غیر تسلی بخش انفیکشن کے طور پر پائے جاتے ہیں ، اگرچہ دوسری اقسام بھی اس میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔
یہ حالت عام طور پر ایک سے 20 سال کی عمر کے درمیان ہوتی ہے ۔ مگر درمیانی عمر میں بھی موجود ہوسکتا ہے۔
اس حالت کو لیونڈوسکی - لٹز ڈسپلیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، جس کا نام ڈاکٹروں فیلکس لیوینڈوسکی اور ولہیلم لٹز۔ کے نام پر رکھا گیا تھا ، جنھوں نے پہلے اسے دریافت کیا ،
٭- جو 1973 میں لاس اینجلس کے ایک نوجوان میں نمودار ہوئیں ۔
٭- مارچ 2007 میں ، ایون ٹوڈر نامی رومانیہ کے ایک شخص کو یہ مرض ہوا تھا۔
٭ - نومبر 2007 میں ، اسی طرح کی بیماری میں مبتلا 34 سالہ انڈونیشی شخص کی ڈیڈ کوسوارہ نامی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر سامنے آئی۔
26 اگست 2008 کو ، کوسوارا اپنے جسم سے 6 کلو (13 پونڈ) وارٹ کے 96 مسّے نکالنے کے لئے سرجری کے بعد گھر واپس آیا ۔
سرجری میں تین اقدامات شامل ہیں:
1- اس کے ہاتھوں پر مسوں اور بڑے پیمانے پر سینگوں کے گھنے قالین کا خاتمہ۔
2- اس کے سر ، ٹورسو اور پیروں پر چھوٹے چھوٹے مسّوں کو ہٹانا۔
3- ہاتھوں کو چھپی ہوئی جلد سے ڈھکنا۔
٭- کوسوارا کے لئے ، ڈسکوری چینل نے خون کے تجزیے کے لئے مالی اعانت فراہم کی اور پتہ چلا کہ اس میں خمیر کے انفیکشن سے لڑنے کے لئے مدافعتی نظام کے اینٹیجن کی کمی ہے۔ اس کی پیش کش کی گئی تھی کہ وہ قابل علاج ہے یا نہیں اس بات کا تعین کرنے کے لئے مزید ٹیسٹ چلائے جائیں ، اور ڈاکٹر کافی حد تک پر امید تھے ، لیکن انہوں نے علاج سے انکار کردیا۔
٭- کوسوارا نے 2011 کے موسم بہار میں دوبارہ گنتی وارٹس کو ختم کرنے کے لئے جراحی کے نئے طریقہ کار کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ تاہم ، سرجری کوسوواڑ کے لئے ایک عارضی حل ثابت ہوا تھا ۔اور 42 سال کی عمر می کوسوارا کا اِس بیماری کی وجہ سے انتقال ہوا ۔
٭ـ جنوری 2017 میں یہ اطلاع ملی تھی کہ بنگلہ دیش میں ایک 10 سالہ بچی ، سہانا خاتون ، کو یہ بیماری لاحق ہو گئی ۔
٭- اگست 2017 میں یہ اطلاع ملی تھی کہ غزہ سے تعلق رکھنے والا ایک 42 سالہ شخص ، محمد تولی ، کا یروشلم میں واقع حدساہ میڈیکل سنٹر میں کامیابی کے ساتھ آپریشن کیا گیا تھا۔
٭- اکتوبر 2018 میں ، ہونڈوراس میں پانچ سالہ بچی ، کرسٹل سویاپا مارٹنیز ، کی حالت تشخیص ہوئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یوتھیاپا ۔ ایک ایسی بیماری جِس کا توڑ ممکن نہیں ۔
٭ ٭٭٭ اگلی قسط عنقریب پیش خدمت !٭٭٭٭
آج روٹین کی گشت پر تقریباً 2:00 بجے رات یہ بابا جی جن کی عمر 80 برس تھی ہمارے پاس آئے ۔ اور بولے ،
" بیٹا میں لیہ سے شاہکوٹ آیا ہوں ۔میرا گاؤں تین چار کلومیٹر نظام پورہ دیواسنگھ ہے۔ میرے بیٹے سے ایک کال ملا دو وہ مجھے لے جائے کیونکہ اس وقت رات کا آخری پہر ہے اور میرے گاوْں کوئی سواری نہیں جائیگی میں سفر کا تھکا ہوا ہوں "
بابا جی کے کہنے پر میرے ساتھی عامر علی عامر نے اپنے فون سے بابا جی بیٹے کو فون ملایا جس کا نمبر 03428801911 ہے ۔
بیٹے نے فون پر جو بات کی اس کے بعد بابا جی کی آنکھوں میں پانی سا چمکنے لگا اور رنگ واضح طور پر فق ہو گیا اور ہمیں پتا چلا کہ اس نے بابا جی کو لینے آنے سے انکار یہ کہہ کر کر دیا کہ ،
" ایتھے بہہ جا کسے تھاں تے، سویرے کسی چیز تے بہہ ھ کہ آ جاویں "
میری بات بابا جی کہ بیٹےسے ہوئی تو اس نے اپنا نمبر ہی بند کر دیا۔
جس پر ہم نے بابا کو تسلی دی کہ ہم چھوڑ آتے ہیں تو بابا جی نے کہا،
"میں ایسے بیٹے کے گھر نہیں جاوْں گا میں واپس لیہ ہی جا رہا ہوں"
جس کے بعد عامر نے بابا جی کی بیٹیوں کے بارے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک بیٹی دس بارہ کلو میٹر اسلام نگر رہتی ہے جس کا نمبر لیکر اس سے بات کی تو بلا توقف اس نے کہا،
" میرے ابا جی کو کہیں اور نہ جانے دینا میں ابھی کچھ کرتی ہوں "
ہم نے بابا جی ساتھ بٹھایا اور گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے ، تو ایک نمبر سے 03423529226 کال ہمیں چک نمبر 82 کے قریب آئی، فون اٹھایا ، تو ایک آواز آئی ،
جی میں بابا جی کا داماد ہوں اور میں ان کو لینے آرہا ہوں "
نظام پورہ، چیلیانوالہ سٹاپ جو کہ ہماری باؤنڈری تھی وہاں پر ہم رک گئے اور انتظار کرنے لگے تو بابا جی کا داماد آگیا۔
بیٹی نے پتا نہیں کتنی منتوں کے ساتھ اپنے شوہر کو لینے بھیجا ہو گا اور وہ نیک انسان بھی آدھی رات کو ویران راہوں پر لینے آپہنچا ۔
جب بابا جی کو اس کے حوالے کیا تو بابا جی نے مجھے کہا ،
" بیٹا دکھ اِج ایہہ رہے گا کہ توھانوں کجھ کھلا پلا نیئں سکیا"
ہائے بابا تیری خودداری ،
انسان جن بیٹوں کے لیے کام کر کر کہ اپنی کمر توڑ لیتا ہے اور ان کے لیے جاگیریں بناتا ہے ان کی بے نیازی اور بے پرواہی اور بابا جی کی بے بسی کو دیکھ کر اور بیٹیاں جن کو وراثت میں سے یہ کہہ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے ، کہ سار پیسہ داما کھا جائے گا ۔
اُن کی تڑپ دیکھ کر ہمارا تو دل بھر آیا کہ اگر ایسے بیٹے ہوتے ہیں تو ان سے ہزار گنا بیٹیاں بہتر ہیں۔
یہ بیٹیاں جو عمر کے کسی حصہ میں بھی ماں باپ کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتیں!
بیٹیوں کو سلام اور ،
بہوؤں کو بھی سلام، کیوں کہ بھائی اُن کے بھی ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭
سوشل میڈیا نے پاکستان میں ہر طرف تھر تھلی مچائی ہوئی ہے ۔
اِس تھرتھلی کا سہرا، 2014 کے دھرنوں سے شروع ہوتا ہے ۔ جب اتنی کثرت سے جھوٹ بولا گیا کہ اب سچ خال خال سنائی دیتا ہے ۔
دو یا تین دن پہلے ایک تصویر نے پاکستان میں ریکارڈ توڑا اور بہت اونچی ریٹنگ لے گئی ۔ اُس کے ساتھ جو خبر تھی اُس نے ہوٹلنگ کے شوقین کو یقیناً پریشان کیا ہوگا ۔
اور ہمیں بھی لاہوریوں کا پُھدکنا سمجھ آیا ۔
ویسے ایک بات یاد آئی ، کہ ،
کھانے والے مینڈک صرف بنّوں میں 1978 میں پائے جاتے تھے ۔ جب بارش ہوتی تو بلاشبہ باڈی بلڈر ٹائپ مینڈک سڑکوں پر اچھلتے پھرتے اور بالآخر کسی کار کے نیچے آکر کچلے جاتے ۔
شائد اب بھی ہوتے ہوں ؟
٭٭٭٭٭٭٭
بھنگ پاکستان میں راولپنڈی ، اسلام آباد اور کے پی ، میں پایا جانے والا ایک ایسا پودا ہے جو عموماً نشے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ۔ حکیم اِسے جسم کے درد کے مریضوں کو سکون آور ادویہ کے طور پر استعمال کرواتے تھے ۔
بھنگ کے تازہ پتوں کو خشخاش ، بادام اور تَلوں کو کُچل کر اُس کا پانی نکال کر بطورِ شربت پیا جاتا ہے ۔
بھنگ کے تازہ پتوں کو پکوڑوں میں ملا کر بھی کھایا جاتا ہے ۔
بھنگ
کے خشک پتوں کا سفوف سگریٹ اور حقے میں ڈال کر بھی پیا جاتا ہے ۔
بنیادی طور پر بھنگ نشہ آور پودا ہے ۔لیکن یہ نشے کے ساتھ ساتھ ایک معجزاتی پودا بھی ہے۔
اگر مناسب طریقے سے اور اعتدال میں استعمال کیا جائے تو یہ انسان کی عمر‘ جوانی اور خوبصورتی میں
بھی اضافہ کرتا ہے، بھنگ پینے والوں میں یہ برداشت اور کام کی صلاحیت بھی بڑھا دیتا
ہے۔ یہ اسے روز مرہ کی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ، بھنگ میں کینسر تک کا
علاج موجود ہے۔
امریکا میں ماہرین
نباتات نے ، بھنگ پر ریسرچ شروع کی تو پتہ چلا بھنگ میں
دو قسم کے اجزاء ہوتے ہیں۔
پہلا جزو سی بی ڈی ہے‘ یہ پینے والوں کو پرسکون بھی بناتا ہے اور بیماریوں
کے خلاف ان کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
دوسرا جزو ٹی ایچ سی
ہے اور یہ انسان کو نشے میں لے جاتا ہے‘ یہ اسے مدہوش کر دیتا ہے۔
ماہرین
نے ان اجزاء کی دریافت کے بعد بھنگ پر تجربات شروع کئے اور ایک ایسا پودا بنانا شروع کر دیا جس
میں ٹی ایچ سی کا لیول کم اور سی بی ڈی زیادہ ہو۔ تاکہ بھنگ کا نیا
پودا پینے والوں کی قوت مدافعت اور سکون بھی بڑھا دے اور بطور دوا پینے والے نشے کا عادی بھی نہ بنیں ۔
ماہرین ریسرچ کرتے کرتے ٹی ایچ سی کی سطح کو تین فی صد اور سی بی ڈی کو 97
فی صد تک لے آئے اور یہ بہت بڑا کمال تھا‘ اس کمال کے بعد امریکا کی فوڈ
اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے نئی فصل کا معائنہ کیا‘ لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کیا
اور اسے انسانی صحت کیلئے مفید قرار دے دیا۔
یہ رپورٹ امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ تک پہنچی اور ٹرمپ نے دسمبر2018ء میں جدید بھنگ(میری جوانا) امریکا
میں لیگل قرار دے دی.
بھنگ کا پودا ہیمپ بھی کہلاتا ہے۔
حکومت کی اجازت کے بعد امریکا میں ہیمپ ایک نئی انڈسٹری بن کر ابھر رہی ہے۔ چنانچہ اب امریکہ میں :
ہیمپ کا منرل واٹر بھی بن رہا ہے، گولیاں بھی، چیونگم بھی، مرہم بھی، ان
ہیلر بھی،شیمپو بھی، تیل بھی اور کریمیں بھی، مارکیٹ میں اب ہیمپ کے سگریٹ
بھی دستیاب ہیں اور لوگ یہ تمام اشیاء کھلے عام بھی استعمال کر رہے ہیں۔
ماہرین نے لوگوں پر ہیمپ کے دلچسپ اثرات دیکھے ہیں، یہ بلڈ پریشر‘
کولیسٹرول اور شوگر میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے اور یہ ڈپریشن کی ادویات
کی جگہ بھی لے رہی ہے۔
یہ بڑی تیزی سے فارما سوٹیکل انڈسٹری کی ہیئت تبدیل کر رہی ہے۔
ماہرین کا
خیال ہے ہیمپ چند برسوں میں کھانے اور پینے کی ہر چیز میں شامل ہو جائے گی، اس کی گیس بھی فضا میں چھوڑی جائے گی اور یہ تمام سگریٹوں میں بھی استعمال
ہو گی۔
ہم آج سے دس سال پہلے اس کا تصور کر سکتے تھے؟
امریکا، افغانستان کے ”بھنگ
ریجن“ میں ہیمپ کی کاشت کی پلاننگ کر رہا ہے، یہ پاکستان کو بھی مشورہ دے
رہا ہے آپ کی زمین بھنگ کیلئے آئیڈیل ہے، افغانستان اور پاکستان کی چرس
پوری دنیا کے نشئیوں میں مقبول ہے،کیوں؟
کیوں کہ یہ زیادہ نشیلی ہوتی ہے ۔
دنیا بھر کی خواتین خود کو سمارٹ رکھنے
کیلئے افغانی چرس پیتی ہیں، افغانی چرس (بھنگ) میں ایسے اجزاء موجود ہیں۔جو
انسان کی فالتو چربی پگھلا دیتے ہیں۔
اگر آپ کے گھر کے اردگرد خود رو بھنگ کے پودے پائے جاتے ہیں تو اُن کے بیج محفوظ کر لیں ۔ بھنگ کے بیجوں سے بننے والا تیل ، نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
٭- خلیات کو تباہ کرنے والے سیل کی ترقی کو مسدود کرتا ہے۔
٭- سرطانی ٹیومر کو خون کی سپلائی کم کرتا ہے ۔
٭- بڑی آنت کے کینسر میں انتہائی مفید ہے ۔
٭- جگر کے کینسر میں استعمال کیا تو بہترین نتائج ملے ۔
٭- پھیپھڑوں اور بریسٹ کینسر میں بھی انتہائی کار آمد ہے۔
یہ عام خلیات کو نقصان پہنچاۓ بغیر کینسر کے سیلز کی موت ثابت ہوا، یقیناً منفی اثرات تو نارمل سیل پر بھی آتے ہیں لیکن کینسر کے مقابلے میں ، بہت معمولی منفی اثرات سامنے آۓ ہیں ۔
کیموتھیراپی کے ساتھ یہ بہت موثر کردار ادا کرتا ہے ۔
ایک اور بوٹی ہے ، دھماسہ ، یہ بھی کینسر ، تھیلا سیمیا اور ہیپا ٹائیٹس کے علاج میں معاون ثابت ہوتی ہے
دھماسہ (فیگونیا اریبیکا، فیگونیا کریٹیکا) خاص طور بریسٹ کینسر کے لئے، پورے پودے کا رس نکال کر دیں ۔
٭٭٭مزید مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں ٭واپس٭٭٭٭